زیتون کا درخت ۔۔۔ شبانہ نوید

،زیتون کا درخت،،

شبانہ نوید

بنگلہ دیش

میں نے مرنے کے بارے میں کبھی سنجیدگی سے نہیں سوچا تھا۔۔۔۔۔۔بلکہ بہت سنجیدگی سے زندہ رہنے کے بارے میں سوچ بچار کیا تھا وہ بھی اوسط سے کم رہا۔۔۔۔۔

ہر روز  بہت لوگ مرتے ہیں۔۔

 طبعی،حادثاتی،بیماری سے۔۔ اخبار کھولو تو ہر طرف موت کی خبریں نظر آتی ہیں،رحلت کی خبریں۔۔۔پہلے صفحے سے آخری صفحے تک۔۔۔۔کچھ تفصیل کے ساتھ کچھ اطلاعات کے طور پر۔۔۔

جب دنیا میں آئے جانا مقدر ٹہرا،کب ،کہاں،کیسے یہ بتانا مشکل ہے۔۔۔

میں کوئ  خاص مذہبی بھی نہیں۔۔ بس کبھی جمعہ پڑھ لیا ،عید،اور عید قربان کی نمازیں۔۔۔۔

بیماری نے بہت پریشان کر رکھا ہے۔۔۔۔عمر ہی ایسی ہے۔۔۔۔اب موت کے خیال کے ساتھ ایک خواہش بھی سر ابھارتی ہے کہ مرنے کے بعد اپنی قبر پر ایک زیتون کا درخت کہوں گا بچوں سے لگا دے۔۔

مجھے نہ زیتون کھانا پسند ہے،نہ ہی میں نے زیتون کا درخت کبھی دیکھا ہے۔۔۔۔یہ پاگل خواہش نے کیسے میرے دل میں جنم لیا بتاتا ہوں۔۔۔مجھے مولسری  ستارہ سحری ہار سنگھار کے پھول پسند ہیں۔۔۔۔۔۔ہر صبح جو میری قبر پر خود کو نچھاور کردیں،میری قبر پر آکر کسی کو پھول بکھیرنے یا چڑھانے کی ضرورت نہیں پڑے۔۔۔۔یہ سارے پھول سرشام سے طلوع  سحر تک شبنم کی صورت گرتے رہیں گے میری قبر کو حسین اور معطر کرتے رہیں گے۔۔۔

ہاں بات تو بہت پرانی ہے،لیکن کیسے ذہن میں بیٹھ گئ کہ زیتون کا درخت لگواوں گا۔۔۔۔۔دادی نے بچپن میں ایک کہانی سنائی تھی ، کہانی تو یونہی سی تھی لیکن انہوں نے کہا تھا۔۔۔۔اس شجر کو شجر مبارکہ بھی کہتے ہیں۔۔۔اس کے بے شمار فوائد ہیں اور رب تعالٰی نے زیتون کی قسم بھی کھائ ہے۔۔۔۔۔۔۔

لیٹے لیٹے بچپن کی وادیوں کی سیر کرتے جب یہ بات یاد آئ تب سے میرا ذہن اس خیال سے متفق ہو گیا مجھے زیتون کا درخت  اپنی قبر پر لگوانا ہے۔۔۔۔۔

ایک صبح موقع مناسب جان کر میں نے اپنے بیٹے کو بتا دیا۔۔۔۔اسے میری وصیت سمجھو۔۔۔۔۔۔

بیماری آزاری نے میرے جسم کو مستقل مسکن بنالیا۔۔۔۔۔۔ایک رات سویا ،صبح اٹھ نہ سکا،میری موت ہو گئ۔۔۔

روتے،بلکتے بچوں نے مجھے میری منزل تک پہنچا دیا۔۔۔۔۔کئ دن گزر گئے بچے آتے ،فاتحہ پڑھتے  قبر پر ہاتھ پھیرتے ،سسکیاں بھرتے اور چلے جاتے۔۔۔

میری قبر اب تک زیتون کے درخت سے محروم تھی۔۔۔شائد میری وصیت یاد نہیں رہی۔۔۔

کئ دنوں بعد میرے پہلو کی جگہ پر قبر کھودی جانے لگی۔۔۔میں منتظر تھا،نیا پڑوسی کون ہے۔۔۔۔۔۔نیا پڑوسی بھی آگیا ، لوگوں کی بات چیت سے پتہ چلا یہ پڑوسی،،خاتون،، ہیں۔۔۔

حسب معمول میرے بچے بھی آتے اور پڑوسن کے بچے بھی  آتے۔۔دعا درود ، جاتے وقت دبی دبی آہیں،سسکیاں۔۔۔۔

مجھے یقین ہو گیا میری وصیت پورے طور پر بھول چکے ہیں۔۔ ۔

کچھ دن گزر گئے،شائد دس پندرہ دن ۔۔۔سویرے کا وقت رہا ہوگا۔۔۔ ۔۔قبر میں کب وقت اور دن کا پتہ چلتا ہے۔۔۔ اندازہ لگایا۔۔۔۔

خوب شور برپا ہو رہا تھا،کافی لوگ تھے،جن کے قدموں کی چاپ  اور آواز قریب آتی گئ۔۔۔۔واضع طور پر باتیں سنائ دینے لگیں،وہ لوگ اپنی والدہ کی قبر پر پودے لگانے آئے تھے۔۔۔

اٹھانے پٹخنے کی آوازیں آتی رہیں۔۔۔طے کیا جا رہا تھا پودے کو کیسے لگایا جائے۔۔ صلاح ،مشورے کے بعد سب بالکل قریب آئے شائد جانچ پڑتال کر رہے ہوں جگہ مناسب ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔۔کسی کی آواز آئ ۔۔۔۔ہاں یہ صحیح  مشورہ ہے،درخت کو امی اور پاس والے کے سرہانے لگا دیا جائے ،دیوار اور سرہانے کے بیچ کافی  جگہ ہے   درخت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا۔۔۔۔۔میری امی سخی تھیں،یہ سخاوت جاری رہنی چائیے۔۔۔ درخت لگانے کی تیاری شروع ہو گئ دوبارہ شور برپا۔۔۔۔درخت لگ گیا،دعائیں ہوئیں۔۔۔۔۔مکمل خاموشی ،شائد وہ لوگ اپنے لگائے درخت کو دیکھ رہے ہوں گے اور الوداعی نظریں قبر پر ہوں گی۔۔ اچانک سناٹے کو چیڑتی ایک آواز ابھری۔۔ ۔بیج لگانے سے بہت وقت لگتا پھول پھل آنے میں، کٹائ سے کم وقت لگے گا شائد تین سے پانچ سال کے اندر زیتون کا درخت ہرا بھرا ہو جائے گا ۔۔۔ہلکی سسکیوں آہوں کے ساتھ دور ہوتے قدموں کی آواز۔۔۔

دادی نے جنت سے آواز دی۔۔ میں مسکرایا۔  

صبح جب مجاور درخت میں پانی دینے آیا تو پاس کی قبر دیکھ کر سوچ رہا تھا۔۔۔آج ان صاحب کی قبر اتنی شبنمی شبنمی کیوں ہے ،کل تو اوس بھی نہیں گری۔۔۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031