کھیپ ۔۔۔ شاہین کاظمی
کھیپ
شاہین کاظمی
رات ڈھلے جب اس کے سیمیں بدن کی چاندنی چٹکی تو ، بکھری ہوئی اشیاء ، کھانے کے خالی ڈبوں ،گندے کپڑوں اور جوتوں کے باوجود دو کمروں کا وہ چھوٹا سا اپارٹمنٹ مجھے فردوسِ بریں لگنے لگا، میں نے جلدی سے صوفے پر پڑی چیزیں سمیٹ کر اُس کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی ، الماری سے گلاس اورقدیم شراب کی پرانی بوتل نکال کر میز پر رکھی اور بتی گُل کر دی، چاند سامنے والے گھنے درخت کی پھننگ ہر اٹکا ہوا تھا، دھڑکنیں اتھل پتھل ہونے لگیں ، میں اِس حاصلِ زندگی لمحے کی عطا سمیٹے زیر لب وقت کے تھمنے کی مناجات میں مشغول تھا کہ اچانک تیز روشنی کا جھماکا سا ہوا۔
” رکیں !شاید مجھے پوری بات سمجھانے کے لیے وقت کی چند پرتیں کھولنا ہوں گی”
کچھ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں میں سچ کہہ رہاہوں،کچھ فیصلے واقعی کہیں اور ہوتے ہیں،لیکن محبت کا فیصلہ میرا اپنا تھا اوراِس پتھریلی شاہراہ پر اِس تیز گام سفر میں تنہا ئی کا بھی،میں نے یہ جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی کہ وہ کہاں تک میری ہمرکاب ہے ، میں تو بس سر پٹ بھاگے جارہا تھا۔۔۔ ہوش و حواس سے بیگانہ۔۔۔۔۔۔
شایدمیرا شمار عارفین میں ہونے لگا تھا میں سلوک کی اس منزل پر تھا جہاں سارے حجاب اٹھا دئیے جاتے ہیں، تیرگی چھٹنے لگتی ہے ، عشق جادے کا ہرذرہ مشعل بردار نظر آتا ہے،میں اس کی محبت میں کہیں بہت دور نکل آیا تھا ،اتنا کہ خود اپنے آپ کو پیچھے چھوڑ دیا، اپنی ذات کہیں رکھ کر بھول گیا، میں نے اسے اوڑھ لیا اس کی سانسیں پہن لیں، دھڑکنیں، دھڑکنوں میں پِرو لیں، اس کی ہلکی نیلی آںکھوں سے چھلکتی حیرت مجھے سرشار کر دیتی ،
“محبت میں “من تو شدم”کا مقام خاص عطا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
°°” عطا؟
” ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وصل کی رُت ہو اور کستوری مہکے نہیں ، چاند جوبن پر ہو اور سمندر کا سینہ بیتاب نہ ہو ، یہ کیسے ممکن ہے،محبت کو اگر محبوب کی روح تک رسائی نہ ہو تو یوں سمجھو دمکتے سورج کو سیاہ بادلوں نے ڈھانپ لیا ہے”
°°” اتنا مشکل کیوں بولتے ہو؟”
” عشق کا اصل جو ہر حسن ہے جو روح پر وار کرکے گھائل کردیتا ہے اور لہو لہان روح محبت کی دہلیز پر آن گرتی ہے”
°°” مگر حسن فانی ہے”
” ہاں ہے تو ، مگر میں نے فنا کی بات کب کی؟”
°°” تو پھر حسن کا پیمانہ کیا ہے؟”
” روح۔۔۔۔۔ محبت فنا کی اسیر نہیں ہوتی”
°°” لیکن فطرت سے بغاوت ممکن ہے نہ فرار”
” کیا تکمیلیت فقط فطرت کو سرنگوں کرنے میں ہے؟”
°°” بھوک آداب بھلا دیتی ہے”
“میں راہب نہیں ہوں یہ تم بھی جانتی ہو”
میرا عشق زمانے سے ماوراء تھا، لگے بندھےمروجہ اصولوں سے ہٹ کر ،اوّلین محبت ہوتی ہی ایسی بلا خیز ہے، رگوں میں لہو کے ساتھ بہتی ہوئی، آتی جاتی سانسوں میں رچی ہوئی، طلب سے بے نیاز
جب پہلی بار میں نے اُسے دیکھاتو کائنات جیسے ساکت ہونے لگی ، میں شاید سانس لینا بھول گیا، وہ تھی ہی ایسی، کسی جادوئی سمفنی کے نرم سُروں کی طرح سجل ، کومل، کسی گھائل آھو کی آنکھ میں پھیلتی درد کی لہر کی طرح روح میں چھید کرتی ہوئی ،نارسائی کی آگ میں جلتے کسی شاعر کی مکمل رباعی جیسی، ،دھندلی سرد رُتوں میں لمحے بھر کی سنہری دھوپ کی مانند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سائیکل کے پیڈلز کے ساتھ تیزی سے حرکت کرتے اُس کے دودھیا پاؤں ، سرد پانیوں کی خنکی لئے اطراف میں بہتی ہوا بہت نرمی سے اُس کی زلفوں کے بل کھول رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔میرا دل ہمکنے لگا
“کاش وقت اپنی طنابیں کھینچ لے”
آج کا دن بھی ہمیشہ کی طرح ایک عام سا دن تھا، پیڑوں کے جھنڈ میں چھپی دھند راستوں پر بچھنے لگی تو خنکی کا احساس بڑھ گیا، میں نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا ، ایک حسرتِ خام میں پگھلتا وجود لئے میں نہ جانے کب سے وہیں راستے کی دھول پھانک رہا تھا، بے سدھ اور ارد گرد سے بیگانہ، قدرے خفت بھرے انداز میں سر جھٹکا کر میں اپنے اپارٹمنٹ کی طرف چل دیا۔
میں یہاں نیا آیا تھا،میری فارماسیوٹیکل کمپنی اس قصبے کے مضافات میں بنجر زمین پر ایک پر نیا تحقیقی مرکز تعمیر کرنے کی خواہش مند تھی ، کم عمر اور نا تجربہ کار ہونے کے باوجود میرا انتخاب کیا جانا ایک طرح سے میری اُن خفیہ صلاحیتوں کا اعتراف تھا جن سے میں خود بھی نا واقف تھا، یہ ایک طویل المدتی منصوبہ تھا، اورمیں اپنے کام سے پوری طرح آگاہ،اسی لئے بہت آسانی سے قصبے کے ماحول میں ڈھل گیا، یہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، خاموش اور اُونگتا ہوا، اس کے در و دیوار سے ٹپکتی کہنگی ،مشینی انداز میں اپنے اپنے کاموں میں جُتے لوگ، عجیب سے ٹھس اور بے حس، کبھی کبھی مجھے ان پر روبوٹس کا گمان ہونے لگتا،اکثر ان سب کی شکلیں بھی ایک ہی جیسی لگتیں، مجھے یہاں آئے کئی ہفتے گزر چکے تھے لیکن اِن لوگوں سے میری واقفیت بس صبح و شام کے سلام تک محدود تھی
دن بھر کی ریسرچ کے بعد میں اپنا پیپر ورک مکمل کر رہاتھا کہ اچانک وہی معطر جھونکا میرے نتھنوں سے ٹکرایا، وہ کہیں آس پاس تھی، باہر سے آتی بھیگی ہوا اس کی مہک چرا لائی تھی میں نے کھڑکی پوری طرح کھول کر ایک گہری سانس لی، سامنے والی بلند عمارت کی اوٹ سے طلوع ہوتا چاند، قریبی نہر کے سرد پانیوں کو چھو کر آتی خنک ہوا ، ہلکی سے “ٹن “کی آواز مجھے چونکا گئی میرے قدم مجھے جانے کب راستے پر گھسیٹ لائے تھے، اپنی تمام تردلربائی کے ساتھ وہ میرے سامنے تھی، میری نگاہیں اُٹھیں اور پلٹنا بھول گئیں۔
میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں عشق کے مراتب سے کب آگاہ تھا، حضورِ یار میں حاضری کے آداب سے کب واقفیت تھی مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کائناتی بربط سے پھوٹتی اس عشق راگنی پر میرے قدم تو محض دھول اڑا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس راہ سے پلٹنے کا یارا بھی کب تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ٹن۔۔ٹن ” گھنٹی پھر سے بجی تو میں نے بوکھلا کر راستہ چھوڑ دیا وہ دھیمے سے مسکراتی ہوئی آگے بڑھ گئی ،
ایک دن اچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ اس قصبے میں بہت کم لوگ رہتے ہیں، بڑے شہروں میں بھی آبادی عمومی طور پر کم ہی تھی لیکن یہ قصبہ تو مجھے کسی آسیبی جگہ کی طرح لگنے لگا تھا، گنتی کے چند گنے چُنے گھر اور ان کے آدم بیزار مکین، ان کی سنجیدگی اور آدم بیزاری میری سمجھ سے باہر تھی، ” آدم بیزاری” کا لفظ میں نے اپنے ایک استاد کی زبانی سنا تھا، مطلب نہ سمجھنے کے باوجود مجھے یہ لفظ بہت دلچسپ لگا وہ عمرانیات کے پروفیسر تھے قدیم زبانوں اور اساطیر پر اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔
دل آنگن میں جڑ پکڑنے والی اِس بیل نے میرے وجود کو مکمل طور پر ڈھانپ لیا تھا، میں تو اس جذبے سے نا آشنا تھا ۔۔۔۔ اب ایکا ایکی اس نے مجھے چاروں شانے چِت کر ڈالا۔۔۔۔۔۔۔ تمنائیں بھبھوت ملے مجھے ڈرانے لگیں۔۔۔۔۔۔ مگر وصل کا کاسہ بھیک کو ترستا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہردن کا اُگتا سورج آشاؤں کے سنہری پیڑ پر چند نئی کونپلیں پھوٹتی دیکھتا اور سمے کے اندھے ساگر میں جا گرتا۔۔۔۔۔۔۔ روح پریم مرلیا پر کسی جوگن کی طرح یوں تھرکتی کہ کائنات بھی وجد میں آتی محسوس ہوتی۔۔۔۔۔۔۔ پیروں سے اٹھتی دھول آسمان چھونے لگتی ، وسوسے سوالوں کا روپ دھارے کسی بھکاری کی طرح در پر آن کھڑے ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا راستہ کبھی ہموار ہوگا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال جواب تلاشتے رہتے۔۔۔۔۔۔ اور میں اُسے۔
جس دنیاسے میں تعلق رکھتا تھا وہاں ایسی سطحی سوچوں کی کوئی گنجائش نہ تھی، ہم لوگ تو بس دو اور دو چار کرنے کے قائل تھے، یہ عشق نہ جانے کیسے میرا بَیری ہو گیا تھا، ورنہ ایسی محبت تو اب صرف اساطیرمیں ہی زندہ تھی، اگر کسی کو اِس معاملے کی بھنک بھی پڑ جاتی تو یقینا” مجھے مصلوب کر دیا جاتا۔۔۔۔۔ مگر عشق سولی سےکب ڈرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تن پامال ہو بھی جائے تو بھی نوکِ سناں پر معشوق کی ثنا ترک نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا تحقیقی کام ساتھ ساتھ جاری تھا ، اصل میں مجھے نئی فیکٹری کے ساتھ ساتھ نہر کے اُس پار بنجر زمینوں کو آباد کرنے اور وہاں ایک خاص قسم کی فصل کی کاشت کے بارے میں بھی تحقیق کرنی تھی، اُس دن میں نے اُس پار جانے کا سوچا، نہر کے یخ بستہ پانی کو چھو کر آتی ہوا میں نئے موسموں کی باس تھی، نئی رتوں کا سندیس تھا، سیب کے پیڑوں پر اُگے نئے شگوفوں کی مہک تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا وصل رُت آنے کو ہے؟
میں نے مختلف جگہوں سے لئے گئے مٹی کے نمونے چھوٹی چھوٹی شیشیوں میں بند کرکے بیگ میں رکھے اور جانے کے لیئے مڑا ہی تھا کہ وہی معطر جھونکا میرے مشامِ جاں کو مہکا گیا،وہ اِسی طرف چلی آ رہی تھی، میری سانسوں میں ہیجان بپا ہونے لگا، ہمیشہ کی طرح ہوا کی نادیدہ انگلیاں اُس کے بالوں میں اٹکی ہوئی تھیں۔ اچانک میرے ہاتھ پر اُس کی سرد انگلیوں کا لمس جاگ اُٹھا،صدیوں سے پیاسی زمین پر گرنے والی پہلی بوند کی طر ح روح پہلا لمس پا کر بے خود ہونے لگی۔۔۔۔۔۔۔ عشق جادے کا ہر ذرہ دھمال میں تھا، اندر اُترتا سیرابی کا احساس، نشہ دو آتشہ ہونے لگا، ۔۔۔۔۔۔۔۔ آگ بھڑک اُٹھی، طور جل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔میں بے اختیار ماتھے کے بل زمین پر گر گیا، میں نہیں جانتا تھا میں کیا کر رہا ہوں ، کیوں کر رہا ہوں۔۔۔۔ لیکن ایسا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے رخساروں پر نمی کا احساس ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری روح پگھل رہی تھی، اُس کی نظریں مجھ پر گڑی ہوئی تھیں، سرخ بھیگے لبوں پر عجیب سی مسکراہٹ لئے وہ بہت اشتیاق سے مجھے دیکھ رہی تھی اندر جلتی آگ یکدم بھڑک کر شعلہ بن گئی ۔
°°” تم یہاں نئے آئے ہو؟’
اُس کی آواز میں سنگی فرش پر بکھرتے موتیوں کا سا ترنم تھا
” نہیں۔۔ ہاں۔۔۔۔ بس کچھ ہفتے ہی ہوئے ہیں مجھے یہاں آئے ہوئے”
میں اپنی اِس لمحہ بہ لمحہ بدلتی کیفیت پر حیران تھا،
°°” تمہارا نام کیا ہے؟َ”
پھر سے موتی بکھرنےکی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی
” سالار۔۔۔۔ میرا نام سالار ہے۔ اور تم؟ ”
°°” میں احیاء ہوں”
” تم یہیں رہتی ہو؟”
°°”نہیں میں یہاں مہمان ہوں”
اُس کا ہاتھ ابھی تک میرے ہاتھ میں تھا ،اور میں دم بخود۔۔۔۔۔ کسی معمول کی طرح ۔۔۔۔۔ یہ سب سمجھنے کی کوشش میں لگا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟” میں کچھ خوفزدہ سا ہوگیا،
“شاید میں بغاوت پر اتر آیا تھا، لیکن بغاوت کیسی؟”
اچانک مجھے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہردوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔
“کیا میں ارتقاء کے کسی نئے دور میں داخل ہو رہا تھا؟”
“کیازندگی دائرہِ اوّل کی طرف گامزن تھی؟”
میں اپنے پروفیسر سے اِس بارے میں بات کرنا چاہتا تھا لیکن میں یہ بھی جانتا تھا کہ میرا اِس وقت اُن سے رابطہ میرے مسائل بڑھا سکتا ہے۔
میں نے قدیم کتابوں میں بہت کچھ پڑھا تھا ایک حساس ادارے میں کام کرنے کی وجہ سے میری رسائی اُن کتابوں تک ممکن ہو سکی تھی، یہ سب کتابیں قدیم لائبریری کے ایک مخصوص شعبے کا حصہ اور عام شہریوں کی دسترس سے دور تھیں ، اُمید و بیم کی کیفیت سے گزرتے ہوئے میں خود کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا،سورج ڈھلنے کو تھا، خنکی بڑھنے لگی ۔
رات ڈھلے جب اس کے سیمیں بدن کی چاندنی چٹکی تو ، بکھری ہوئی اشیاء ، کھانے کے خالی ڈبوں ،گندے کپڑوں اور جوتوں کے باوجود دو کمروں کا وہ چھوٹا سا اپارٹمنٹ مجھے فردوسِ بریں لگنے لگا، میں نے جلدی سے صوفے پر پڑی چیزیں سمیٹ کر اس کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی ، الماری سے گلاس اورقدیم شراب کی پرانی بوتل نکال کر میز پر رکھی اور بتی گُل کر دی، چاند سامنے والے گھنے درخت کی پھننگ ہر اٹکا ہوا تھا،میری دھڑکنیں اتھل پتھل ہونے لگیں ، میں اُس حاصلِ زندگی لمحے کی عطا سمیٹے زیر لب وقت کے تھمنے کی مناجات میں مشغول تھا کہ اچانک تیز روشنی کا جھماکا سا ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” کسی نامعلوم وائرس کی وجہ نئی کلون کھیپ میں معدوم شدہ قدیم انسانی خصوصیات پائی گئی ہیں، اگلی کھپپ تیار کرنے سے پہلے ڈی این اے پر مزید تحقیق ضروری ہے ، آؤٹر کور۔۔۔۔۔۔ آٹینشن ۔۔۔۔۔ در اندازی کے آثار بھی ملے ہیں ،آپریشن کلین اَپ شروع کیاجا چکا ہے”
ریجنل ڈائریکٹر ہیڈ کوارٹر پیغام بھیجنے کے بعد تیزی سے پلٹا اور کمرےسے باہر نکل گیا، تپائی پر پڑے گلاسوں سے چھن کر آتی سنہری دھوپ زمین پر عجیب زاوئیے بنا رہی تھی۔