خواب گر کی موت ۔۔۔ شاھین کاظمی

خواب گر کی موت

شاہین کاظمی

گھڑی کی سوئی پھر بارہ پر آ چکی تھی، ایک اور دائرہ مکمل ہوا

’’یہ دائرے مکمل ہوتے بھی نامکمل کیوں ہوتے ہیں ؟’‘

ایک عجیب سا سوال ذہن میں کلبلایا

’’کہیں کوئی لکیر ادھوری رہ جاتی ہے، کچھ نہ کچھ ہمیشہ ان کہا رہ جاتا ہے’‘

’’لیکن نہیں۔۔ ..۔ ..۔ ..آج سب کچھ مکمل ہونا چاہئیے، شاید مکمل ہی ہے، گھڑی کی بھاری بھر کم ٹک ٹک، بارش کی آواز، رات کا فسوں وہ اور میں’‘

کلاک ٹاور سے نظر آ نے والا شہر کا منظر دھند نگل چکی ہے، اسے سامنے پا کر میں کچھ گھبرا رہا ہوں سمجھ میں نہیں آ رہا کیا کروں بام پر دھرا انتظار کا دیپ ہو آنکھوں میں جھلملاتے آنسو ہوں یا اس کے بھیگے لبوں پر تھرکتی مسکراہٹ جانے مجھے کیوں کہانیاں سنانے لگتے ہیں ایسی کہانیاں جو اگر لکھی جائیں تو ادب کی دنیا میں تہلکہ مچ جائے۔۔ جی ہاں آپ ٹھیک سمجھے میں ایک کہانی کار ہوں صدیوں کی بھوبھل کو انگلیوں کی پوروں سے کریدتے ہوئے اکثر چھالے اُبھر آتے ہیں۔۔ ملگجے پانی سے بھرے بد ہئیت چھالے آنکھ سے ٹپکے آنسو کی طرح ’’جب آنکھ سے خواب گر جائیں تو آنکھیں مرنے کیوں لگتی ہیں ؟’‘

یہ بات مجھے پتہ ہونا چاہیے تھی کہ میں ایک کہانی کار ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں۔۔ ..۔ ..شاید۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ .

’’لیکن کیا کہانی بُننے کے لئے ہر بات کا پتہ ہونا ضروری ہے ؟’‘

چٹکی کی آواز آئی اور فضا میں خواب کا سنہری زر اُڑنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دن کہانی سنتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا ماں کی آواز کتنی نرم ہے

’’ماں خواب گر نہ ہو تو؟’‘

مجھے سوال کرنا اچھا لگتا تھا

’’تم بھی ناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہانی کے بیچ میں نہیں بولا کرتے خواب گر نہ ہو تو خواب کہاں سے آئیں گے’‘ ماں کے لہجے میں بناوٹی غصہ تھا

’’ لیکن کیوں ؟ کہانی کے بیچ میں کیوں نہیں بولتے ؟”

میں چپ نہ رہ سکا

’’ اگر کہانی سمجھ نہ آئے تو؟’‘

’’ تو بھی چپ چاپ سنتے ہیں’‘

ماں نے گھورا تو میرا ذہن بھٹکا اور آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں نظریں تصور میں اس کا سراپا ٹٹول رہی تھیں۔۔ وہ خواب گر کیسا ہو گا؟ خواب نہ ہوں تو کیا ہو گا، ؟ ماں ڈراتی کیوں ہے ؟

’’تماشا کیا تو خواب زر ریت بن کر آنکھوں میں گھل جائے اور آنکھیں چہرے پر ٹکنے سے انکار کر دیں گی’‘

’’کون سا تماشا ماں’‘

میرے سوال ختم نہ ہوتے اور ماں زچ ہو جاتی

آج بھی اندر بیٹھا بچہ سہم جا تا ہے

’’کون تماشا نہیں کرتا؟ کیا سب کی آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟’‘

لیکن کہانی چیخنے لگی

میں یہ بتانا بھول گیا کہ میری کہانیاں مجھ پر چیختی ہیں چِلّاتی ہیں۔۔ باقاعدہ بحث پر اتر آتی ہیں۔۔ سوال کرتی ہیں۔۔ اپنے ہونے کا جواز مانگتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میں ا نہیں نہیں یہ مجھے لکھتی ہیں انھیں سب پتہ ہوتا ہے میں ان سے بحث میں ہمیشہ ہار جاتا ہوں۔۔

’’خواب زر کبھی ریت نہیں بنتا یہ کسی نے جھوٹ کہا ہے’‘

کہانی چِلّا رہی تھی

’’تم خود جھوٹی ہو، میری ماں بھلا ایسا کیوں کہے گی’‘

’’ساری مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں اولاد کو من گھڑت خوف کا اسیر بنانے والی’‘

“تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں کوئی ماں ایسا نہیں کرتی’‘

میری آواز اونچی ضرور ہوتی لیکن لہجہ خوف سے مرجھایا ہوا ہوتا مجھے کیوں لگتا تھا کہانی سچ کہہ رہی ہے ؟

’’کہا تمہاری ماں نے تمہیں کبھی نہیں ڈرایا؟’‘

کہانی کے چہرے پر سوال اُگنے لگتے، میں چپ ہو گیا

میں جب بھی شرارت کرتا ماں کہتی

’’ ایسا مت کرو خواب کا سنہری زر ریت بن کر آنکھیں نوچ لے گا’‘

’’ماں کیا تم بچپن میں بہت شرارتی تھیں ؟”

میری بھوری آنکھیں ماں پر جمی ہوئی تھیں وہ ماں کا ہاتھ ہاتھوں میں لئے بیٹھا تھا میں اُس کی سرگوشی سن کر چونک اٹھا وہ ماں سے کہہ رہا

’’میں تمہارے خواب مرنے نہیں دوں گا’‘

ماں نے میری بات کا جواب نہیں دیا لیکن اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ سکے نکالے اور میری ہتھیلی پر رکھ دئیے

’’جاؤ باہر سے کچھ کھالو’‘

اس کی آواز بہت بھاری تھی میں نے سکے مٹھی میں بند کر لئے اور کمرے سے باہر نکل آیا۔

بابا کو دنیا سے گئے کچھ دن ہوئے تھے تب میں نے اسے پہلی بار اپنے گھر میں دیکھا تھا اونچا لمبا گھنی مونچھوں والا، اس کے کندھے پر عجیب سا تھیلا لٹک رہا تھا۔ میں ڈر کر ماں کے پیچھے ہو گیا اور آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے مجھے اس کی چٹکی کا انتظار تھا

کیا وہ خواب گر ہے ؟ میں اندر سے بہت سہما ہوا تھا

ماں نے میری پیشانی چومی اور بتی بجھا کر کروٹ بدل لی وہ ایسا ہی کرتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اندھیرے میں ہاتھ بڑھا کر اسے چھونا چاہا لیکن بستر خالی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جانے کب چٹکی بجی تھی میری آنکھیں میرے چہرے سے گر گئیں میں چیخ رہا تھا، مچل رہا تھا لیکن ماں کبھی واپس نہ آئی۔

ہاں تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ میری کہانیاں مجھ پر چیختی ہیں چلّاتی ہیں۔۔۔۔۔۔ اپنے ہونے کا جواز مانگتی ہیں۔۔۔۔ اپنی آرائش کے لئے دیدہ زیب پیراہن کی طلب گار نظر آتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں پوری کوشش کرتا ہوں ہر کہانی کو ایک نئی چھب دوں۔۔۔۔ ایک نیا رنگ، نیا نکھار، نیا جوبن انھیں عطا کروں۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اکثر کہانیاں ضدی اور ہٹیلی ہوتی ہیں۔۔۔۔ اپنے رنگ بکھیر کر اپنی ساخت تباہ کر لیتی ہیں۔۔۔۔ کوئی کہانی کار اپنی کہانی کو الجھانا نہیں چاہتا لیکن کچھ کچھ ایسا ہوتا ہی ہے ہر چیز مٹی میں مل جاتی ہے۔۔۔۔ پھر کہانیاں بدن نوچنے لگتی ہیں ہنستی ہیں، قہقہے لگاتی ہیں، ایک دوسرے کو کاٹنے لگتی ہیں۔۔ اس وقت میرا دل چاہتا ہے میں انھیں اکٹھا کر کے آگ لگا دوں

اب اگر رنگ پھیل کر بگڑ جاتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور؟ میں مصور تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مصور بن ہی نہیں سکتا مجھ پر تو لفظوں کا عذاب اترا ہے اُن تمام ان کہے لفظوں کا جو مرتے ہوئے خواب مجھے دان کر گئے تھے۔۔۔۔۔۔ میں نے بہت سوچا۔۔۔ بہت بار سوچا۔۔۔۔۔ کہ میں صرف سوچ ہی تو سکتا تھا یہاں اگر آزادی تھی تو سوچنے کی جتنا مرضی سوچو لیکن سوچ کو آواز نہیں دینی

’’ لیکن کیوں ؟’‘

جب سے زرِ خواب ریت ہوا تھا میں بے باک ہو گیا تھا

اور پھر اس کیوں کی پاداش میں مجھے تین راتیں اس اور فن ہاؤس کے گودام میں تنہا گزارنی پڑیں تو کیوں کا جواب مل گیا۔ میری سوچ سے دوستی ہونے لگی اس سوچ کے بھی عجیب رنگ ہوتے ہیں شوخ، چنچل، اداس کر دینے والے، لبھانے والے، الجھا دینے والے۔۔۔۔۔۔ یہی رنگ کہانی کے پیراہن میں بھی نظر آتے ہیں اچھا کہانی کار وہی ہے جو پکے رنگ چنے۔۔۔۔۔۔۔۔ کھلتے ہوئے رنگ۔۔۔۔۔ زندگی سے لبریز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر کہانی کا جدا متن ایک الگ رنگ مانگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مخصوص رنگ کا طلب گار ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی کوئی کہانی بے رنگ بھی رہ جاتی ہے جیسے میری کہانی رہ گئی اس کے لیے شاید کوئی رنگ بنا ہی نہیں تھا۔

اس صبح ایوا کے ہاتھ میں کاغذوں کا پلندہ اور کچھ قلم دبے ہوئے دیکھے تو میں ذہن میں ابھرنے والی ’’ کیوں’‘ کو بمشکل دبا سکا

’’جب اندر شور بڑھنے لگے تو لفظ مدد گار ہوتے ہیں’‘

اس کی آواز میں خلافِ معمول نرمی تھی وہ یہاں کی وارڈن تھی اور فن ہاؤس سے اس ہوسٹل میں آنے کے بعد وہ مجھ سے پہلی بار مخاطب ہوئی تھی

’’ لکھو گے ؟’‘

اس نے کاغذ اور قلم مجھے تھما دئیے میرے اندر ایک اور کیوں دم توڑنے لگی

’’اندر کا شور کون سنتا ہے ؟’‘ میں ہنس دیا

میرے اندر شاید شور نہیں تھا لیکن کچھ تھا ضرور جو میں خود بھی سمجھ نہیں پاتا تھا۔۔۔ ڈر اور حوصلے کے امتزاج کی طرح، ساون کی دھوپ اور بارش کی طرح جلتی بجھتی۔۔۔۔۔۔۔ ایک جھلک دکھا کر کہیں گم ہو تی ہوئی کیفیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں بہت دیر تک کاغذ قلم تھامے بیٹھا رہا کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ تب وہ اچانک کہیں سے نمودار ہوئی رات کا گہرا اندھیرا جیسے چھٹنے لگا تھا۔ اس رات وہ مجھ پر پہلی بار کھلی میں اس کا بدن دیکھ کر حیران رہ گیا۔ شاید زر خواب کا کوئی ذرہ ریت ہونے سے بچ گیا تھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے کسی اور دنیا میں لے گئی۔ عجیب خمار آلود سی دنیا تھی اس کے بدن کا ہر زاویہ میرے اندر آگ دہکا رہا تھا مجھے جانے کب نیند آ گئی۔

’’ہمم’‘

ایوا کا ہنکارا کافی طویل تھامیں اپنی پہلی کہانی مکمل کر چکا تھا اس نے سارے کاغذ سمیٹے اور اندر چل دی

ایک دن مجھے وہ پھر نظر آئی۔ مجھے یقین ہونے لگا معجزے ہوتے ہیں۔۔ وہ کسی ملکہ کی طرح ایوا کی دائیں طرف والی کرسی پر براجمان تھی۔ نرم و نازک۔۔۔۔۔ اس کے سنہری بال اس کے گالوں کو چھو رہے تھے جنہیں وہ بار بار اپنی مخروطی انگلیوں سے سمیٹتی۔۔۔۔۔ میرا دل ہمکنے لگا جی چاہا اسے بانہوں میں بھر کر پھر اسی خواب وادی میں اتر جاؤں۔۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کیا تھا؟ میں نہیں سمجھ پایا لیکن اس رات سارے لفظ روٹھ گئے میں مناتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہانی روٹھنے لگی تھی۔

وہ مجھے روز نظر آتی اور میں کسی مجذوب کی طرح آنکھیں بند کئے اندر مچتے شور کا گلہ گھونٹنے لگتا۔ اس پر سے آنکھیں ہٹا لینا مجھے بہت مشکل لگتا تھا نظروں کی تپش سے گھبرا کر وہ کئی بار پہلو بدلتی لیکن میری محویت میں کوئی فرق نہیں آتا تھا۔

’’تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘ کہانی ایک بار پھر چیخنے لگی

’’ شش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اونچا مت بولو’‘

میں نے منہ پرا نگلی رکھ کر اسے چپ کرانے کی کوشش کی

’’تم پاگل ہو گئے ہو ایوا کے کمرے کی داہنی دیوار پر ایسا کیا ہے جسے تم گھورتے رہتے ہو؟’‘

میں نے حیرت سے اسے دیکھا اور تاسف سے سر جھٹکنے لگا۔ کہانیاں بھی کتنی سر پھری ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کی سمجھ میں نہ آنے والی۔۔۔۔۔ استعاروں اور علامتوں کے گہرے سرمئی رنگوں میں لپٹی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی ایک ایسی ہی کہانی تھی جو اپنے خالق پر برس پڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔ سنا ہے جب برا وقت آئے تو تخلیق باغی ہو کر اپنے خالق کی نفی کرنے لگتی ہے اسے کوستی ہے۔۔۔۔ اس پر طرح طرح کے بہتان لگا تی ہے۔۔۔۔ لیکن کیا یہ سب کرنے سے خالق فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے یا خلق کرنا بند کر دیتا ہے ؟

’’تمہیں دکھائی نہیں دے دیتی؟’‘ مجھے اس پر غصہ تھا

’’کون دکھائی نہیں دیتی؟’‘

’’وہی! ایوا کے ساتھ داہنی طرف والی کرسی پر بیٹھی ہوئی لڑکی’‘

’’لڑکی؟’‘

’’ہاں لڑکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘

میں جھلا گیا کہانی نے حیرت سے مجھے دیکھا اور سر جھکا لیا۔

میری کہانی مکمل ہو چکی تھی ایوا نہایت خاموشی سے آتی میرے سیاہ کئے ہوئے ورق اٹھا کر لے جاتی جانے وہ ان کا کیا کرتی تھی ؟میں نے اس سے کبھی نہیں پوچھا نہ اس نے کبھی خود بتایا وہ ادھیڑ عمر کی ایک بھاری بھرکم خا تون تھی۔۔۔۔۔ سخت گیر اور اصول پرست کچھ عرصے سے مجھ پر بہت مہربان تھی۔۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی ناموزوں موسموں میں ایک مہربان لمحہ زندگی کے معنی بدل دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ ہے نا؟

پھر میں نے اسے اندر آتے دیکھا میرے پورے بدن میں سرسراہٹ پھیل گئی وہ وہی تھابالکل وہی خواب گر جومیری ماں کو لے بھاگا تھا آج اتنے عرصے بعد بھی وہ ویسے کا ویسا تھا اونچا لمبا، خوبرو۔۔۔۔۔ مجھے اس سے سخت نفرت محسوس ہوئی۔۔۔۔۔ آنکھوں میں جلن بڑھنے لگی تھی وہ اس کے ساتھ باہر جانے کو اٹھی تو میرے اندر مدتوں پہلے سویا ہوا خوف انگڑائی لے کر بیدار ہو گیا۔

لیکن شاید میں نے یہاں بیدار کا لفظ غلط استعمال کیا ہے میرا خوف تو کبھی گیا ہی نہیں تھا کھو دینے کا ڈر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اکیلے رہ جانے کا ڈر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’یہ مائیں اپنے بچوں کو بلاوجہ کیوں ڈراتی ہیں ؟’‘

میرا ہاتھ بے اختیار بائیں طرف پھیل گیا ماں کا بستر آج بھی خالی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسے لے کر اوپر جا رہا تھا

’’کیا میرے ساتھ والا بستر ہمیشہ خالی رہے گا؟’‘

میرے قدموں میں تیزی آنے لگی اس سے پہلے کہ وہ اوپر جاتی میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔۔۔۔۔ وہ رک گئی اس کی آنکھوں میں استعجاب تھا۔

’’تم نہیں جانتی میں نے تمہارا کتنا انتظار کیا’‘

میری آواز میں ہلکی سی لرزش تھی

’’لیکن میں تو ہمیشہ سے تمہارے ساتھ ہوں’‘

اس نے اپنا نرم ہاتھ میرے شانے پر رکھا میں نے اس کی آواز پہلی بار سنی تھی فرش پر بکھرتے موتیوں کی مدھرتا تھی اس کی آواز میں

’’ اور وہ کون ہے ؟’‘

میں نے خواب گر کی طرف اشارہ کیا جو اس کے اوپر آنے کا منتظر تھا

’’وہ کون؟’‘ مگر اوپر کوئی نہیں تھا

اس نے میرا ہاتھ تھام لیا اور سیڑھیاں چڑھنے لگی اس کی انگلیوں کی پوریں سرد تھیں ٹھنڈک میرے بدن میں سرائیت کرنے لگی۔۔۔ ہم کلاک ٹاور کی سب سے اوپر والی منزل پر پہنچ چکے تھے سارا شہر دھند میں ڈوبا ہوا تھا وہ میرے ساتھ بیٹھ گئی اس کے سُرخ لب یاقوت کی طرح

لگ رہے تھے میں انھیں چھونا چاہا تو وہ کسمسا کر پیچھے ہٹ گئی اس کا لمبا لبادہ دھیرے دھیرے اڑ رہا تھا وہ ایک دم ستون کا سہارا لے کر اٹھ کھڑی ہوئی

’’آؤ میرے ساتھ’‘

اس نے میرا ہاتھ تھام لیا اس کے پاؤں رقص کے انداز میں اٹھ رہے تھے اچانک ہی اس نے ٹاور کی چھوٹی سی کھڑکی کی پتلی سی گگر پر پاؤں جما کر کلاک کی بڑی سوئی کو پکڑ لیا کلاک رک گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے پاؤں گگر سے پھسلنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سمجھ نہیں پایا تھا میں یہاں کیسے آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دھند بڑھنے لگی

آخری کہانی سوگوار تھی اس کے سرمئی چہرے پر اداسی کی گہری لکیریں صاف نظر آ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔ وہ کہانی کار کو سمجھانے میں ناکام رہی تھی کہ خواب بنا جا سکتا ہے تعبیر نہیں

’’خواب گر کی موت’‘ داہنی طرف والی کرسی پر بیٹھی ایوا نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کتاب میز پر رکھ دی اس کی نظر یں ٹاور کے کلاک پر جمی ہوئی تھیں ٹوٹی ہوئی بڑی سوئی گیارہ پر ٹھہر گئی تھی دائرہ مکمل نہیں ہو پایا تھا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930