چاند، چرخہ اور بڑھیا ۔۔۔ شاہد جمیل احمد
چاند، چرخہ اور بُڑھیا
۔ شاہد جمیل احمد، ۔
دینی مدرسے کی فارغ التحصیل ہونے کی وجہ سے محمودہ نے اپنے بیٹے کا نام تدبیر الاسلام رکھا۔ تدبیر کی پُھوپُھو چونکہ کبھی القا ب و آداب کے چکر میں نہیں پڑی اس لئے وہ تو اسے بتاشا ہی کہتی ہے۔ اُسے تو جو اچھا لگتا ہے وہی کہتی ہے۔ اپنی اِسی عادت کی وجہ سے اُس نے کبھی اپنے بھتیجے کے نام کی تدبیر بھی ادا نہیں کی۔ شروع شروع میں بتاشے کی ماں نے ناک منہ چڑھایا کہ اُس کے بیٹے کا نام بگاڑ دیا مگر اِن باتوں کی پروا ہی کسے تھی۔ اگر بتاشے کی ماں محمودہ یہ سمجھتی تھی کہ زارا قنوطیت پسند اور پرانے خیالات کی حامل ہے تب بھی اسے کوئی فکر نہیں تھی۔ عرصہ ہوا زارا تو اِن عام باتوں سے بے نیاز ہو گئی تھی۔ اُسے پروا تھی تو صرف پوَئی جھیل کے کنارے بوسیدہ سی، کائی اور سیلن زدہ عمارت کی دوسری منزل پر پڑے چرخے کی اور ادھ کھلی کھڑکی کی اور بس! بتاشا اب نو برس کا ہو گیا تھا اور چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ یہ خط بتاشے نے خود لکھا تھا اور گرمی کی چھٹیوں میں اپنی پُھوپُھوکے پاس آنے کی خبر دی تھی۔ پُھو پُھو بھی گرمی کی چھٹیوں میں بتاشے کے آنے کا بڑی بے چینی سے انتظار کرتی۔ وہ آتا تو دو اڑھائی ماہ کے لئے اُس کا دل لگ جاتا ورنہ سارے مہینے سناٹے کی نذر ہو جاتے۔ سال میں زارا کی زندگی کے دو اڑھائی ماہ بتاشے کے لئے وقف ہو گئے تھے اور باقی سناٹے کی بھینٹ چڑھ رہے تھے۔ گورا چِٹا بتاشا نین نقش میں اپنی ماں پر گیا تھا! باپ پہ بھی چلا جاتا تو وہ خوبصورت ہی ہوتا کہ زارا کا بھائی بھی بہت خوبصورت تھا۔ زارا اب بھی پابندی سے چرخہ کاتتی تھی! کسی ضرورت کے تحت نہیں بلکہ دل بہلاوے کی خاطر۔ جب وہ جوان تھی تو اُن کے گھر کا چوبارہ ترنجن کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ محلے کی ساری لڑکیاں انہیں کے گھر چرخہ کاتتی تھیں۔ پھر ایک ایک کر کے ساری سکھی چڑیاں پرائے دیس اُڑ گئیں۔ جوانی کی دوپہر ڈھلی تو عمر کے سائے لمبے ہونے لگے۔ تنہا لڑکی مورے من بسیا کا گیت گاتے گاتے بوڑھی ہو گئی۔ اب ترنجن کی اکیلی بُڑھیا نے چاند کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ سب لوگ اِس بات سے آگاہ تھے کہ چاند میں چرخے والی بُڑھیا رہتی ہے لیکن یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ بُڑھیا کون ہے ؟ کہاں سے آئی ہے ؟ اور اِس بُڑھیا نے چاند ہی کو اپنا گھر کیوں بنایا ہے۔ سناٹے کے سال کے دن ایک ایک کر کے بیتتے رہے۔ بتاشا اپنی پُھوپُھو کے پاس آگیا۔ زارا کا بھائی تو شام سے پہلے واپس چلا گیا کیونکہ محمودہ گھر میں اکیلی تھی۔ بتاشے کی ولادت کے بعد اس کی ماں کو بیماری کے سیلاب نے گھیر لیا! نہ یہ سیلاب تھما اور نہ کوئی دوسرا پھول اُس کے آنگن میں کھلا۔ اگلی رات بتاشا کھانا کھانے کے بعد چوبارے کے سامنے والے ٹیرس پر بیکلی سے پُھوپُھو کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ اماں ابا کو کھانا کھلانے کے بعد برتن دھو کر جب پُھوپُھو چھت پر آئی تو وہ کہانی سننے کے لئے اصرار کرنے لگا۔ پُھوپُھو نے ایک نظر بتاشے کو دیکھا اور پھر ایک نظر چاند کو دیکھ کر چارپائی پر اُکڑوں بیٹھ گئی اور بتاشے کو اپنے سامنے بٹھا کر کہانی سنانے لگی۔ بہت پہلے کی بات ہے جب ہر سُو امن کا راج تھا۔ بستی میں رہنے والے سارے مذاہب اور سارے قبیل کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے پیش آتے تھے۔ صبح دم اذان کی آواز یا مندر کی گھنٹیوں کی آواز کانوں کو بڑی بھلی معلوم ہوتی۔ صبح صبح نہائے دھوئے سفید پوشاک پہنے عبادت گاہوں کی طرف آتے جاتے لوگ بہت اچھے لگتے۔ صبح کے وقت مسجد جانے والوں میں شہزادہ معظم بھی شامل تھے! سفید شلوار کُرتے، کڑھائی والے جُوتے، سیاہ شیروانی اور سفید تُرکی ٹوپی میں ملبوس شہزادہ معظم بہت ہی جاذب دکھائی دیتے۔ مدرسے سے چھٹی کا وقت ہوتا تو شہزادی چوبارے کی کھڑکی میں کھڑی ہو جاتی اور دور سے آتے اور دور تک جاتے شہزادے کو تکتی رہتی۔ معظم مسجد کے مدرسے میں پڑھاتے تھے! انتہائی نفیس، خوش شکل اور خوش اطوار شہزادہ کسی گہری سوچ میں گُم نیند میں چلنے والوں کی طرح اُس کی گلی سے بے خبر گزر جاتا۔ ایک دن کیا ہوا ! سفید گلاب کا پھول انجانے میں شہزادی کے ہاتھ سے چھوٹ کر شہزادے کے قدموں میں جا گرا۔ شہزادے نے پہلے پھول اٹھایا اور پھر کھڑکی میں کھڑی شہزادی کی طرف اپنی مخمورنظریں اٹھائیں تو شہزادی لاج کے مارے پانی پانی ہو گئی۔ شرم کے مارے تین چار دن تو اُس نے کھڑکی ہی نہیں کھولی۔ ایک دن دھڑکتے دل اور کانپتے ہاتھوں سے اُس نے کھڑکی کھولی تو چھٹی کے وقت بھی شہزادہ نظر نہیں آیا۔ اُس نے اپنے جی میں سوچا کہ اُس سے بڑی بھول ہو گئی ! نہ پھول اُس کے ہاتھ سے گرتا اور نہ شہزادے کو معلوم پڑتا۔ ایسا نہ ہو معظم اُس سے ناراض ہو گئے ہوں اور کسی دوسری گلی سے گزرنے لگے ہوں! اِسی فکر مندی میں شام ہو گئی، ساتھ والوں کا گُڈُو جمعرات کی کھیر دینے آیا تو اُس نے بہانوں بہانوں سے معظم کا پوچھا !گُڈُو اُن کے پاس ترجمہ پڑھ رہا تھا۔ اُسے معلوم ہوا کہ معظم آج کل بیمار ہیں! انہیں لُو لگ گئی ہے۔ ایک طرف سے کچھ تسلی ہوئی تو دوسری طرف سے اُس کی جان نکل گئی۔ شہزادی کو شہزادے سے اُنس تھا نا اِس لئے خود بھی بیمار پڑ گئی۔ شہزادہ تو کچھ دنوں بعد ٹھیک ہو گیا لیکن شہزادی کی بیماری لمبی ہو گئی۔ شہزادی کی بیماری میں اُس کی بے یقینی کا بھی بہت عمل دخل تھا۔ اِسی امید و نا امیدی کے بیچ ایک دن اس نے کھڑکی کھولی تو شہزادے کو گلی میں اپنی طرف دیکھتے پایا۔ ایک لمحے کو تو جیسے اُس کی پیروں تک جان نکل گئی ! وہ کھڑکی بند کرنے ہی والی تھی کہ شہزادے کی مسکراہٹ نے اُس کے ہاتھ روک لئے اور وہ دور تک جاتے ہوئے شہزادے کو دیکھتی رہی۔ کچھ لمحوں کے لئے پُھو پُھو نے توقف کیا اور چارپائی کی پائنتی طرف رکھے گھڑے سے آدھا گلاس پانی پیا۔ بتاشا کہنے لگا! پُھو پُھو پھر! پھر کیا تھا ! دن آہستہ آہستہ گزرتے رہے۔ شہزادی کو گریجوایشن میں اعلی اردو، فارسی اور عربی پڑھنے کے لئے استاد کی ضرورت تھی ! دو تین اساتذہ کا پتہ کیا تو وہ گھر آکر پڑھانے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ شہزادی نے ابا کو معظم سے بات کرنے کا کہا ! معظم ٹیوشن وغیرہ تو نہ پڑھاتے تھے البتہ شہزادی کے ابا کے کہنے پر وہ تین چار ماہ کے لئے شہزادی کو پڑھانے پر رضا مند ہو گئے۔ شہزادے کو اپنے اتنا قریب پا کر شہزادی کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ پہلے پہلے تو شہزادی بہت شرماتی تھی مگر آہستہ آہستہ وہ اُن سے کلام کرنے لگی ! اب تو ولی، میر اور مصحفی کی غزلوں پر اُن کی خوب بحث ہوتی۔ معظم بظاہر بڑے سخت آدمی تھے! کبھی کبھی تو وہ شہزادی کو ہنسنے پر جھڑک دیتے۔ شہزادی کو تو جیسے یہ جھڑکیاں گھی کی نال کی طرح لگتی تھیں! کچھ ہی دنوں میں شہزادی مزید خوبصورت اور صحت مند ہو گئی! بالکل اِس شعر کے مدعا کے موافق! کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اِس آگ میں جلتے رہنے سے کبھی دل پر آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا۔ ایک دن شہزادی نے شہزادہ معظم سے پوچھا کہ اگر وہ ناراض نہ ہوں تو وہ شب برات کو اپنے ہاتھ پاوٗں میں مہندی لگا لے! معظم نے چونک کر شہزادی کی طرف دیکھا اور کہنے لگے آپ مجھ سے مہندی لگانے کی اجازت کیوں طلب کر رہی ہیں؟ یہ بات سننا تھی کہ شہزادی جھینپ گئی۔ اگلے دن معظم نے کن اکھیوں سے شہزادی کے گورے گورے ہاتھوں اور انگوٹھے والے سلیپر میں پاوٗں کی طرف دیکھا تو انہیں یوں لگا جیسے سفید اور سرخ گلاب کی پتیوں کو کسی نے انتہائی قرینے سے جوڑ کر دلربا نمونہ تشکیل دیا ہو۔ تھوڑا سا پڑھ کر شہزادی نے شہزادے کی طرف دیکھا اور کہنے لگی، آپ ہاتھ کی ریکھائیں دیکھ لیتے ہیں؟ ہاں! تھوڑی بہت دیکھ لیتا ہوں۔ شہزادے کے جواب پر شہزادی بہت حیران ہوئی کہ مذہبی لوگ تو ان باتوں پر سخت ناراض ہوتے ہیں۔ پھر دل ہی دل میں یہ سوچ کر مطمئن ہو گئی کہ معظم ذرا مختلف قسم کے آدمی ہیں! نہ عورتوں کو سنگھار کرنے پر ڈانٹتے ہیں اور نہ مہندی، غازے اور کاجل کی مخالفت کرتے ہیں۔ اُس نے جھٹ اپنی ہری چوڑیوں والی کلائی اُن کے ہاتھ میں تھما کر اپنا دایاں ہاتھ اُن کی نظروں کے سامنے پھیلا دیا۔ معظم نے مہندی لگے ہاتھ کی لکیروں کو تھوڑی دیر غور سے دیکھا تو اُن کی پیشانی پر پریشانی کے تاثرات نمودار ہونے لگے۔ شہزادی نے ضد کی کہ بتائیں اس کے ہاتھ میں کیا ہے؟ شہزادے نے پریشانی اور غصے کے ملے جلے جذبات سے مغلوب ہو کر صرف اتنا کہا، چھوڑو تمہارے ہاتھ میں کچھ نہیں اور کل آنے کا کہہ کر چلے گئے۔ یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب برِ صغیر میں علاحدگی کی تحریک زوروں پر تھی۔ کافی عرصہ تو بہت سے لوگ اسے ایک نعرہ یا سیاسی دباوٗ کا طریقہ کار ہی سمجھتے رہے مگراب پچھلے ایک دو مہینوں سے تو اس تحریک کی کامیابی کے واضح آثار دکھائی دینے لگے تھے! مگر ہر کوئی یہ سوچ کر چپ تھا کہ اسے عملی جامہ پہنانا نا ممکن دکھائی دیتا تھا۔ اب تو انگلستان کی پارلیمنٹ نے علاحدگی کے منصوبے کی باقاعدہ منظوری بھی دے دی تھی۔ لوگ سامان باندھنے لگے! اس بھگدڑ میں شہزادی اور شہزادے کی ملاقات بھی موقوف ہو گئی۔ اب تو باقاعدہ لوگوں کی نقل مکانی کی خبریں آنے لگی تھیں، بستی کے سارے مسلمان بستی کو چھوڑنے پر کمر بستہ ہو گئے تھے۔ سب لوگ فکر مند تھے کہ کہاں جائیں لیکن یہ بات طے تھی کہ جائیں گے ضرور۔ جو لوگ نہیں جانا چاہتے تھے اُن پر جانے والوں سے بھی زیادہ دباوٗ تھا۔ ہجرت سے ایک روز قبل شہزادہ معظم شہزادی کے اماں ابا سے الوداعی ملاقات کرنے آئے۔ شہزادے نے شہزادی کے اماں ابا سے ہجرت کا کہا تو انہوں نے اپنے اور اپنی بیگم کے بڑھاپے کی وجہ سے ملک چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ شہزادے نے جاتے ہوئے کئی مرتبہ مڑ مڑ کر بہانے سے شہزادی کی طرف دیکھا جو آنکھوں میں آنسو بھر کر انہیں جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ شہزادی نے باتوں باتوں میں اماں ابا کو منانے کی بہتیری کوشش کی مگر وہ گھر چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوئے ! ویسے بھی ابا نظریاتی شخص تھے اور انہیں ان کے ارادے سے کوئی نہیں ہٹا سکتا تھا۔ دن مہینوں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہو گئے۔ زندگی کی ندی پھر اپنی رو میں بہنے لگی مگر شہزادی کی زندگی کی ندی تو جیسے معظم کے جانے کے بعد سوکھ ہی گئی تھی ! اگر بہتی بھی تھی تو آنکھ کے رستے۔ کئی سال بیت گئے، نہ شہزادے کا کچھ پتہ چلا اور نہ ان کے خاندان والوں کا، سب کچھ آنا فانا ہونے کے بعد اب جیسے ہر چیز جامد ہو گئی تھی ! چوبارے کی ایک کھڑکی تھی جو سدا کی کھلی تھی اور دو ویران آنکھیں تھیں جو کبھی نہ آنے والے مسافر کی راہ دیکھ رہی تھیں۔ پُھوپُھو نے بتاشے سے نظریں چرا کر اپنے آنسو صاف کئے اور کچھ لمحوں کے لئے خاموش ہو گئی۔ اس دوران بتاشا کہانی کے سحر سے جاگا اور پُھو پُھو کا بازو پکڑ کر کہنے لگا! پُھو پُھو پھر کیا ہوا؟ شہزادے کا کچھ پتہ چلا کہ نہیں؟ پُھو پُھو کہنے لگی اِس کے بعد شہزادے کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ کافی سال تو شہزادی کو یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ شہزادہ فسادات میں زندہ بھی بچا کہ نہیں۔ ہجرت کے بیس اکیس سال بعد عالمی اردو کانفرنس کے موقع پر معظم کی انڈیا آمد کی خبریں اخبار میں چھپیں۔ شہزادی کو بہت امید تھی کہ زندگی میں آخری بار شاید شہزادہ اس سے ملنے ضرور آئے مگر ایسا نہ ہوا۔ شہزادی نے جب خود جا کر معلوم کیا تو کانفرنس کے شرکاء اپنے ملکوں کو واپس جا چکے تھے۔ بس وہ دن اور آج کا دن! شہزادی نے اللہ میاں سے دعا کی کہ اس کا گھر کسی ایسی جگہ بنا دے جہاں سے وہ ایک بار شہزادے کو دیکھ سکے۔ اللہ نے شہزادی کی دعا قبول کی اور اسے اس کے چرخے سمیت چاند پر بٹھا دیا۔ اب شہزادی چاند پر رہتی ہے اور ہر روز اپنے شہزادے کا طواف کرتی ہے ۔ بتاشا کہنے لگا ! مگر چاند پر تو بُڑھیا رہتی ہے۔ پُھو پُھونے بتایا کہ جب شہزادی چاند پر گئی تو وہ بوڑھی ہو چکی تھی ! شہزادی بھی تو بڑی ہوکر بوڑھی ہو جاتی ہے ناں! پُھو پُھو نے بتاشے کو اپنے بازو پر لٹایا اور سلانے کے لئے تھپکی دینے لگی۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور وہ اپنی بھرائی ہوئی مدھم آواز میں غزل کے یہ بول گنگنا رہی تھی ! مرا رنگ رُوپ بگڑ گیا مرا یارمجھ سے بچھڑ گیا جو چمن خزاں میں اجڑ گیا۔۔۔۔۔۔