ادھر مت دیکھو ۔۔۔ شہناز پروین سحر
اُدھر مت دیکھو
شہناز پروین سحر
۔۔کچھ لوگ چاہے عمر بھر پنجوں کے بل کھڑے رہیں یا اچھل اچھل کر اپنے ہونے کا اعلان ِ شدید کرتے رہ جائیں وہ اپنی اہمیت کا احساس کبھی نہیں دلوا پاتے ۔ ان کے اندر کا شور ایک چھوٹی سی آواز تک نہیں بنتا ۔۔۔ وہ آواز ، جس کی رسائی کسی کے کان تک ممکن ہو سکے ۔
وہ انہی میں سے ایک تھی ۔ پکے رنگ کی گدرے بدن والی نوجوان عیسائی لڑکی ، ہمارے گھر کچرا اٹھانے آیا کرتی تھی لیکن ہمیشہ صاف ستھرے کپڑوں میں چمکتی ہوئی دھلی دھلائی سی نظر آتی ۔ زندگی ہمہ وقت اس کے وجود میں ایک اُدھم مچائے رکھتی تھی اس کے اندر باہر اس کی ذات محض شور ہی شور تھی ۔
بری عادت اُس میں یہ تھی کہ بلاوجہ کمروں میں جھاڑو دینے لگتی پوچا مارتی اسے منع کرتے رہ جاوٗ لیکن ایک نہ سنتی
چھوٹا اسد چلاتا رہ جاتا
” اسے روکو ہمارا گھر ناپاک کر رہی ہے”
” کوئی نئیں جی صفائی کرنے سے گھر ناپاک نہیں ہوتا صاف ہو جاتا ہے”
صفائی کی بھی ہوتی تو جھاڑو لے کر مچل جاتی باجی توں چنگی صفائی نئیں کیتی ویخ کنا کوڑا نکلدا پیا اے
وہ وزنی سامان ہٹا ہٹا کر دروازوں کے پیچھے کونوں کھدروں میں سےکچرا نکال کر دکھا دیتی
چلو صفائی تک تو ٹھیک تھا وہ کچن میں جا کر برتن بھی دھونے لگتی
” انج دھویا کر لشکا کے” ، دیگچیوں کے تلوں پر مٹی کا پوچا پھیر کر ایک ایک برتن جگر مگر چمک رہا ہوتا میں سکول سے آ کر یہ منظر دیکھتی تو جھلا جاتی اور سارے برتنوں پر سے پانی سے گذار کر کلمہ پڑھتی اور سارے برتن پھر سے دھو کر پاک کرتی ،
” اسے امی نے سر پہ چڑھایا ہوا ہے اسی لیئے ہماری جان کا عذاب بنی ہوئی ہے” چھوٹا بھائی اسد تو رو ہی پڑتا
” چارپائی پر کیوں بیٹھ جاتی ہے ۔ چار پائی ناپاک کر دی ہے”
یہ سن کر اس پر ہنسی کا دورہ پڑ جاتا
” دیکھ نا اسد بھائی تیرا صوفہ بھی ناپاک ہو گیا اب تو کیا کرے گا”
وہ صوفے پر صاف صفائی شروع کر دیتی ” میں بھی صوفہ خریدوں گی ایک دن”
” تو کیوں صوفہ خریدے گی اس کے اوپر کچرے کی ٹوکری رکھنی ہے کیا ؟” اسد بھی اس کو جی بھر کے چڑاتا ۔
رمضان کے دن تھے ایک دن روزہ رکھ کے آگئی
” لئو جی ہن جو کرنا جے میں اج تہاڈے لوکاں دا روزہ وی رکھ لیا اے ” اسد کا رو رو کر حشر ہو گیا
” اس کو منع کرو ، یہ ہمارے روزے ناپاک کر دے گی “
” تو اپنا روزہ پانی وا کر پاک کر لئیں اسد بھائی جینویں تیری باجی پانی وا کے بھانڈے پاک کر لیندی اے ” وہ ہم دونوں کا مشترکہ توا لگاتی
اس کے گھر میں آتے ہی ایک ہنگامہ بپا ہو جایا کرتا تھا
البتہ اس کی آواز میں سُر ناچتے تھے وہ اکثر ڈبہ بجا کر ہمیں گانے سناتی
” تینوں سامنے بٹھا کے شرماواں تے ایہو میرا جی کر دا”
” جدوں ہولی جئی لیندا میرا ناں میں تھاں مر جانی آں”
” وگدی ندی دا پانی انج جا کے مڑ نئیں آوٗندا جا کے جنویں جوانی”
” پُٹھے سدھے بودے وا کے شہری بابو لنگھدا”
کیا کراری آواز تھی اس کی ریشماں کے جیسی ، کھنکتی ہوئی ۔۔۔ سُفنے کیہہ آن ساہنوں نیندراں نئیں آوٗندیاں ۔۔۔
ایک دن کہنے لگی ” تہاڈے مسلماناں دے گھراں وچ زنانیاں ساڈے کولوں پرہیز کردیاں نیں پر تہاڈے بندے بڑے چنگے ہندے نیں”
” وہ کیسے” میں نے پوچھا
” اوہ اچے جئے پیلے مکان والیاں دا منڈا اے ناں ، مینوں بڑا پیار کردا اے”
” چل چل ، بکواس بات ہے یہ با لکل “
” قسماں کھاندا اے سچی”
” جھوٹ بولتا ہے کسی کے چکر میں نہ آ جانا تم “
” نئیں باجی اوہ سچا اے میں اوہنوں ازما لیا اے”
” تم نے اسے کیسے آزما لیا “
بولی ” میں اوہنوں آکھیا بھرے بازار وچ میں اپنی کوڑے والی ٹوکری زمین تے رکھاں گی تے توں اوہ ٹوکری میرے سر تے رکھائیں گا تے قسمے باجی اوہنے سب دے سامنے مینوں ٹوکری چکائی”
” باجی اوہ تے میری جوٹھی چاء وی پی گیا”
” باجی ہن اوہ مینوں فلم وکھائے گا”
” توں میری بھین اوہدے ناں دا میرے ولوں اک خط تے لخ دے”
” بالکل نئیں میری ماں مجھے جان سے مار دے گی”
پھر وہ اس لڑکے کے ساتھ برقع پہن کر سینما بھی دیکھ آئی
اچانک ایک روز میری امی نے کہا کہ آجکل اس مختیاراں کے رنگ ڈھنگ مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے اور اس کا گھر میں آنا بند کر دیا
کئی سارے دن گذر گئے ۔ ایک دن ہم نے دیکھا کہ اسی اونچے پیلے مکان والوں کے گھر لائٹنگ ہو رہی تھی پورا گھر اندر باہر سے دلہن کی طرح سجا ہوا تھا
مختیاراں کے ساتھ محبت کا کھیل کھیلنے والے کی شادی ہو رہی تھی
کہا جا رہا تھا کہ دلہن کنیرڈ کالج سے پڑھی ہوئی ہے انگریزی ایسی بولتی ہے جیسے بی بی سی لنڈن سے خبریں پڑھی جا رہی ہوں ۔
وہ دودھ اور میدے سے گندھی ہوئی ایک بڑے خاندان کی لڑکی تھی جس کی شادی کالی کلوٹی بدصورت مختیاراں کے عاشق سے ہو رہی تھی
اگلے دن ولیمہ تھا دلہا دلہن کے ساتھ سٹیج پر بیٹھا ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا ، دلہا اور دلہن پر صدقہ کر کے پیسےمختیاراں کو دئیے جا رہے تھے مختیاراں کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں شاید بہت زیادہ روتی رہی تھی ۔۔
” توں کنواری ایں کہ ویائی ہوئی”
مہمان عورتوں میں سے کسی نے مختیاراں سے پوچھا
” کنواری آں”
” مجھے تو لگتا ہے پیٹ سے ہے ، کنواری تو نہیں لگتی ؟ “
” ہئے ہئے حرام ؟ “
” ان چوہڑوں بھنگیوں میں حرام حلال پاک ، ناپاک سب برابر ہوتا ہے”
دوسری عورت نے بھی اپنی نفرت انڈیل دی
” بھئی اس کو تو نکالو ادھر سے”
اس شادی میں موجود عورتیں یہی کچھ کر رہی تھیں میں عورتوں کی بیہودہ کھسر پھسر سے نالاں سوچ رہی تھی کہ کیا اس دلہا کے سر سے پانی
گذار کر کلمہ پڑھا جا سکتا ہے اِس سے پہلے کہ وہ شفاف اُجلی دلہن اُس کے ساتھ اپنی زندگی شروع کرے کوئی اس کے دلہا کو ہی پاک کر دے ۔
قدرت کی کچھ مخلوق ایسی بھی ہے جو پاؤں تلے آکے کچلی بھی جائے تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا گاڑی کےنیچے بلی کا بچہ آ جائے یا کوئی کتا ، کون دیکھتا ہے ، بس نفرت کا رومال ناک پر رکھے لوگ گذرتے چلے جاتے ہیں
بیشک مختیاراں کا شمار قدرت کی اُس مخلوق میں سے نہیں تھا ۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ اسی مخلوق والا سلوک کیا گیا ۔۔۔ وہ بھی کچل دی گئی کچھ ایسے ، کہ اُس کی کچلی ہوئی زندگی پر کسی کی نظر تک نہ پڑی ، اب تو اس کے پاس پنجوں کے بل کھڑے ہو کر یا اچھل کر نمایاں ہو سکنے کی کوئی سہولت بھی نہیں رہی تھی ۔
حرام و حلال کے پاک ناپاک معاملات صدقے خیرات کے نوٹوں کی صورت میں مختیاراں کی جھولی میں ڈال دئیے گئے ۔
کچھ دن بعد سننے میں آیا کہ مختیاراں کے گھر والوں نے مختیاراں کو مارپیٹ کر کے خاندان کے اُسی شخص کے ساتھ بیاہ دیا جس کے بارے وہ کہا کرتی تھی کہ بڑا ظالم اور اس کا نہایت کریہہ نقشہ بیان کرتی تھی اور ہمیشہ کہتی کہ ” میرے لئی تے میرے ماپیاں نوں اوہ اکو ای جوٹھ لبھی ہوئی اے ۔ اوہدے نال ویاہ کران نالوں تے چنگا اے میں ای مرجاواں ۔”
پھر ایک دن اچانک وہ سڑک پر نظر آ گئی ، اپنی عادت کے بر عکس گندے غلیظ کپڑے ، الجھ الجھ کر جٹائیں بنے ہوئے بال ۔ اس کی صورت کسی بر ی خبر کی سرخی لگ رہی تھی ، اس بری خبر کی تردید کو ایک ٹوٹی پھوٹی میلی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آئی ، پتہ نہیں وہ مسکراہٹ تھی بھی کہ میرا وہم تھا
“کچھ بُرا ہوا ہے کیا ؟ “ میں نے ڈر کر پوچھا
“ آہو ۔۔۔ میرا وی ویاہ ہو گیا اے باجی“
چلتی سڑک پر تیز رفتار ٹریفک میں پھر کوئی بلی کا بچہ کچلا گیا
“ ارے کیا ہوا ؟ “
“ کچھ نہیں ۔۔۔ ادھر مت دیکھو ۔۔۔ بس گذر جاوٗ “