پھانس ۔۔۔ شین۔زاد
پھانس
( شین زاد )
.
ﭼﻮدھرﯼ ﻋﻈﻤﺖ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﻮ آٹھ ﺳﺎﻝ ﺑﯿﺖ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺍﯾﮑﮍ ﺯﻣﯿﻦ کئی ﺷﻮﮔﺮ ملز، آئل ملز ﺍﻭﺭ ﻓﻠﻮﺭ ملز
ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﭼﻮدھرﯼ ﻋﻈﻤﺖ تھوڑا کرخت مزاج ایک زمانے کو اپنے جوتے کے نیچے داب کر
رکھنے والا ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺑﮯ ﺍﻭﻻﺩ ﺗﮭﺎ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺭﺙ ﭘﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺟﺘﻦ ﮐﺮ ﭼﮑﺎ
ﺗﮭﺎ جو صرف ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ تھے حقیقت میں ﻣﺴﺌﻠﮧ
ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ اور
وہ بہت پہلے سے اس بات سے با خبر تھا لیکن مونچھ اونچی رکھنے اور شِملہ کھڑا رکھنے
کے لیے کسی بھی حد سے گزر جانا ہی چودھراہٹ ہے یہی اس نے اپنے باپ سے سیکھا تھا
اور یہی اس کے خمیر میں شامل تھا-اس نے گاؤں بھر کو قابو میں رکھنے
کے سارے گر اپنے باپ سے سیکھے تھے اور وہ یہ بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ برتن کا
زنگ چھپانے کے لیے اس پر ملمع کاری کرنی ہی پڑتی ہے-
اس کے خادم ﺭﺷﯿﺪ ﻋﺮﻑ ﺭﺷﯿﺪﻭ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺩﻭ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ اس نے ہی کروائی تھی ﺟﺐ
ﻣﭩﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﮈﺑﮧ ﻻ ﮐﺮ ﭼﻮدھرﯼ ﻋﻈﻤﺖ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺧﻮﺷﺨﺒﺮﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﺎﭖ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ
ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﻋﻈﻤﺖ ﯾﺎﺱ ﻭ ﺣﺴﺮﺕ ﮐﮯ ﺩﺭﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺏ ﮔﯿﺎ. اس ﺭﺍﺕ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﮩﯿﮟ
ﺳﻮﯾﺎ . ﺳﺎﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﺳﮕﺎﺭ ﺳُﻠﮕﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺟﻼﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺟﺎﺋﯿﺪﺍﺩ ﮐﺎ ﻭﺍﺭﺙ ﭘﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ
ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﺗﮭﺎ وہ جانتا تھا اس کے سامنے صبح شام دم ہلانے والا گاؤں
اسے نا مرد سمجھتا ہے وہ اس عفریت سے چھٹکارا پانا چاہتا تھا لیکن کیسے؟ یہ سوال
اس کے دماغ کا ٹیومر بن گیا تھا وہ ہر ہر پل اس کے جواب کی تلاش میں سرگرداں رہتا-
ایک دن ایئر پورٹ سے
واپسی پر چچا زاد کی ایک بات نے اس کے دل و دماغ میں ہلچل مچا دی۔
اس کا چچا زاد جو پیشے
سے ڈاکٹر تھا ، برطانیہ سے خاص تعلیم حاصل کر کے لوٹا پاکستان میں آئی وی ایف سینڑ
بنانے کا ارادے رکھتا تھا۔
آئی وی ایف سینٹر؟
چودھری نے اس سے پوچھا
تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا آسان لفظوں میں کہوں تو ٹیسٹ ٹیوب بے بی سینٹر بنانے
کا ارادہ ہے ۔
ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا
سنتے ہی چودھری کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
تمام راستے ٹیسٹ ٹیوب بے
بی والی بات گھنٹی بن کر چوہدھری کے دماغ کے مندر میں بجتی رہی چودھری اس بارے
معلومات اکٹھی کرنے کے لیے بے چین تھا لیکن وہ اپنے چچا زاد کے سامنے خود کو کسی
بھی طرح نیچا نہیں دکھانا چاہتا تھا۔ اس کے جانے کا انتظار کرتا رہا چچا زاد ہفتہ
بھر اس کے پاس رکا اور آخر رخصت ہو گیا اس کے جاتے ہی چدھری بھی لاہور روانہ ہو
گیا جہاں اس کے ایک مینیجر نے اس کے کہنے پرایک آئی وی ایف سینٹر کے بارے تمام
بنیادی معلومات اکٹھی کر رکھی تھی لاہور پہنچ کر چودھری نے مینیجر سے مطلوبہ
معلومات لیں اور ائی وی ایف سینٹر پہنچ گیا اور ڈاکٹر سے آئی وی ایف طریقہ ء علاج
کے بارے معلومات لینے لگا ڈاکٹر نے اسے کسی حد تک امید دلائی اس کے اور چوہدرائین
کے کچھ ٹیسٹ لکھ کر دیے اوراگلی بار چوھدرائین کو ساتھ لانے کا کہہ کر رخصت کر دیا-
ایک ہفتے کے بعد چودھری
تمام ٹیسٹ کی مطلوبہ رپورٹس اور چودھرائن کو لے کر آئی وی ایف سینٹر پہنچا تو وہ
کافی خوش اور پر امید تھا لیکن اس وقت اس کی مایوسی کی انتہا نہ رہی جب تمام ٹیسٹ
کی رپورٹ دیکھنے کے بعد ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ چودھرائین کی تمام رپورٹس درست ہیں
لیکن چودھری باپ بننے کے قابل نہیں۔
چودھری جو بیوی کو
انتظار گاہ میں بٹھا کر آیا تھا اور بہت امیدیں اور خواب دکھا کر یہاں تک لایا تھا
اپنے بارے پہلے سے اگاہ تھا۔ ڈاکٹر کے یہ کہنے پر کہ آئی وی ایف دوسرے پارٹنر کے
بنا ممکن نہیں خود کو مایوسی کے اندھیرے میں ڈوبتا محسوس کرنے لگا لیکن یہ تاثر
زیادہ دیر قائم نہیں رہا اور اگلے ہی لمحے چودھری کا دماغ مزید تیزی سے کام کرنے
لگا ویسے بھی چودھری آسانی سے ہار ماننے والا نہیں تھا ۔
ڈاکٹر میں تین کی جگہ
دس لاکھ روپے خرچ کر سکتا ہوں اگر کوئی طریقہ ہے تو مجھے بتاؤ ڈاکٹر جو اب تک
ناممکن ناممکن کی رٹ لگائے ہوئے تھا دس لاکھ کا ذکر سنتے ہی سوچ میں پڑ گیا
ایک طریقہ ہے
لیکن۔۔۔۔۔۔!
ڈاکٹر نے ڈرتے ڈرتے کہا
تو چودھری فوراً بولا ہاں ہاں ڈاکٹر بتاؤ میں کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہوں۔
اوکے اگر تم چاہو تو
کسی اور کے سپرمز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ڈاکٹر آدھی بات کہہ کر
خاموش ہو گیا اور چودھری کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا ایک بجلی چودھری کے چہرے پر
کوندی لیکن اگلے لمحے چودھری ڈاکڑ سے مخاطب تھا ٹھیک ہے میں تیار ہوں ۔۔۔۔ بتاؤ
ہمیں کیا کرنا ہو گا؟
بس تمہیں ایک ڈونر کا
بندوبست کرنا ہو گا جو سپرمز ڈونیٹ کر سکے۔
چودھری نےاطمنان سے کہا
اس کا بندوبست ہو جائے گا۔ لیکن مجھے بیٹا ہی چاہیے۔
تو پھر بے بی بھی ہو
جائے گا اور مطمئن رہو بیٹا ہی ہو گا یہ ہمارے اختیار میں ہے ڈاکٹر نے مسکراتے
ہوئے کہا چودھری نے ڈاکٹر سے ساری بات طے کی اور ایک ہفتے بعد کا وقت لے کر حویلی
واپس لوٹ آیا۔
وارث ملنے کے تصور نے ﭼﻮدھﺭﯼ ﻋﻈﻤﺖ ﮐﮯ ﻻﻏﺮ ﻣﺮﺟﮭﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻧﺌﯽ ﺭﻭﺡ
ﭘﮭﻮﻧﮏ ﺩﯼ۔
حویلی آ کر وہ مسلسل
ڈونر کے بارے سوچنے لگا اور اگلی صبح رشیدو پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھیں چمک
اٹھیں۔
اس نے سوچا رشیدو جس کی
تین نسلوں نے اپنا خون پسینہ حویلی کو دیا ہے وہ سپرمز ڈونیٹ کرنے سے انکاری کیسے
ہو سکتا ہے۔اسے تو وہ ساری عمر کے لیے بیل کی جگہ ہل کے آگے جوت سکتا ہے ۔یہ سپرمز
کون سی بڑی بات ہیں۔
چودھری اس شیطانی سوچ
پر مسکرا اٹھا۔
اس نے اس سارے معاملے
کو بیوی سے پوشیدہ رکھا۔ مہینے بھر میں حمل ٹھہرنے تک کے تمام مراحل خاموشی سے طے
ہو گئے۔ اور جب ڈاکٹر نے خبر دی کہ حمل کامیابی سے ٹھہر گیا ہے اور چودھرائین جلد
چودھری کی خواہش کے مطابق بیٹے کی ماں بن جائے گی تو چودھری کی خوشی دیدنی تھی
حویلی آ کر اس نے پورے گاؤں کو کھانے کی دعوت دے ڈالی-
مہینے گزرتے رہے اور چودھری
کی بے چینی بڑھتی رہی آخر وہ دن آن پہنچا جب ایمبولینس سائرن بجاتی سڑک کو روندتی
آئی وی ایف سینٹر کی طرف بڑھ رہی تھی۔
وہ لیبر روم کے باہر
رشیدو کے ساتھ موجود تھا جب نومولود کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ وہ بے چینی
سے اس پل کا انتظار کرنے لگا جب بچہ اس کے سامنے آئے گا اور وہ اسے گود میں لے گا۔
کافی انتظار کے بعد نرس نومولود کو گود میں لے کر لیبر روم سے باہر آئی اس سے قبل
کہ وہ نرس کی طرف بڑھتا اس کی نظر رشیدو پر پڑی جو بچے کوعجیب نگاہوں سے دیکھ رہا
تھا۔اس کی نگاہوں میں کچھ الگ تھا۔کچھ باپ جیسا۔ان نگاہوں نے چوہدری کے غرور کے بت
کو ایک ہی ٹھوکر سے زمین بوس کر دیاتھا۔
اس ایک نظر نے چودھری
عظمت کو چودھراھٹ کے آسمان سے ایک کمی کے قدموں میں لا گرایا تھا اسے ایسا لگا تھا
کہ جیسے وہ بھرے مجمعے کے سامنے بے لباس برہنہ کھڑا ہے اس احساس نے چودھری کے اندر
ایک طوفان اٹھا دیا جو اسے خس و خاشاک کی طرح اڑا لے گیا…….. ..
ﭼﻮدھﺭﯼ ﺟﯽ ﻣﺎﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ ﺑﯿﭩﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ
نرس ﻧﮯ ﺑﭽﮧ ﭼﻮدھﺭﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍھﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ کہا ﺗﻮ ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮏ ﮔﯿﺎ۔
ﺍﺱ نے ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ نرس ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﭘﮭﺮ ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﺭﺷﯿﺪﻭ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ
ﻟﻠﭽﺎﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ پھر اس نے ایک حقارت بھری نظر بچے پر ڈالی اورپلٹ کر تیز
قدم اٹھاتا ہوا آئی وی ایف سینٹر سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔
اس کے اندر اٹھنے والا
طوفان اس کے گرد و پیش کے پورے منظر میں بھر گیا تھا ایک کپکپی تھی جو اس کے وجود
پر طاری تھی زندگی میں یہ پہلا لمحہ تھا جب چودھری میں خود سے آنکھ ملانے کی ہمت
نہیں رہی تھی ایک پھانس تھی جو اس کے دل میں اتر گئی تھی جس کی چبھن اب شاید مر کر
ہی جائے گی۔