مٹی کی چڑیاں ۔۔۔ شہر یار قاضی

.
مٹی کی چڑیاں

شہر یار قاضی

دن ڈھلے جب رانو باہر سے بکریاں لے کر آئی، اس وقت وہ جانے کے لیے چارپائی سے اْٹھ رہے تھے۔ دونوں نے یکے بعد دیگرے اس کے سر پریوں ہاتھ رکھا جیسے پوسٹ ہونے والے لفافوں پر ڈاک مہر رکھ کر اْٹھا لی جاتی ہے،اور پھر کھٹارا سی موٹرسائیکل پر سوار ہو کر چلے گئے۔
بانس کے ستونوں پر کپڑے کی چھتوں والی جھگیوں کی اس بستی میں دائیں طرف سے چار چھوڑ کراگلی دو جھگیاں رانو کی ہیں۔جن کے سامنے چند قدموں کی جگہ کو اطراف میں لگی اینٹوں نے کچے صحن کی شکل دے رکھی ہے، جہاں ابھی کچھ دیر پہلے ایک چارپائی پر رانو کے اماں ابا،اور دوسری پر ایک پکی عمرکا شخص اور عورت جو شاید اس کی بیوی تھی، بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔
ُ”اماں یہ کون لوگ تھے؟“رانو نے اماں سے پوچھا تھا۔
ساجے نے ایک نظر شاداں کو دیکھا اور چپ چاپ جھگی کے اندر چلا گیا۔
”مہمان تھے رانو اور تُو اتنی دیر لگا آئی، رنگ کب کرے گی؟“
”اماں بس ابھی کر دیتی ہوں“۔اس نے اپنی پوریں چڑیوں پر پھیرتے ہوئے جواب دیا تھا،جواب خشک ہو چکی تھیں۔
اب وہ ایک چڑیا اٹھا کر اس کے چہرے اور پشت پر رنگ لگا رہی تھی پھر دوسری۔۔۔تیسری۔۔جب ساری چڑیوں پر رنگ ہو گیا تو ان کے منہ پر بنے سوراخ میں ربڑ کے دھاگے باندھنے لگی جو بازو بھر کے تھے، جن کا سِرا پکڑ کر بچے چڑیا کو زمین کی طرف گراتے تووہ اُوپر نیچے جھولنے لگتی۔
بہت پہلے رانو بس دائیں ہاتھ کو گال اور بایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر رکھے بڑے اِنہماک سے شاداں کو دیکھا کرتی تھی،جب وہ چڑیاں بنا رہی ہوتی تھی۔رانو کا اِنہماک تب بھی نہ ٹوٹتا جب اس کی دو لٹیں بائیں گال پرآگرتیں،جنہیں وہ بائیں ہاتھ سے کان کے پیچھے اڑس دیتی۔اُسے ہمیشہ لگتاتھا کہ یہ بال اُسے پریشان کرنے کے لئے سر پر اُگائے گئے ہیں۔
مگر پچھلے برس سے رانو نے سب سیکھ لیا ہے،کون سی مٹی لانی ہے اور کس طرح گوندھ کر چڑیاں بنانی ہیں۔
اُس نے جب سے ہوش سنبھالا،یہی دیکھا ہے کہ جاڑا ہو یا گرمی اماں ناغہ نہیں کرتی ہے۔روز سویرے سویرے سر پر چڑیوں کی ٹوکری اور بغل میں پیلی بالٹی دبائے نکل جاتی ہے اور دن ڈھلے آتی ہے۔ ساجا ساری سردیاں میلی سی رضائی میں لیٹے اور گرمیاں پیپل کے نیچے تاش کھیلتے گزار دیتا ہے، اور یہ بھی کہ کتنے ہی دن،اُن میں بات ہوئے بغیر گزر جاتے ہیں۔
ہاں،اماں کی اُن آنکھوں کو وہ آج تک نہیں پڑھ پائی تھی جو اکثر واپسی پر ٹوکری رکھتے ہوئے ساجے کے چہرے کی طرف دیکھتیں اور پھر جانے کتنے ہی روز شکایت کی مجسم تصویر بنی رہتیں۔
رات کوجب وہ جھگی میں اماں کے ساتھ لیٹی ہوئی تھی تو شاداں اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے کہنے لگی:”رانو پہلے میں بھی اپنے اماں ابا کے پاس رہتی تھی جیسے تُو رہتی ہے اور پھر۔۔۔۔“
”پھر کیا اماں؟“
”پھرمیں سفیدے کی طرح دنوں میں گِٹھ گِٹھ بڑھتی گئی اور ایک دن اماں ابانے میرا ویاہ تیرے اَبے کے ساتھ کر دیا۔“
رانو،شاداں کے بائیں کندھے پراپنی گال ٹِکائے اُس کے ہونٹوں کو دیکھ رہی تھی جو ہلکا سا کُھلتے اور پھرشاید زبان پر لفظوں کی ترتیب درست نہ ہونے کی وجہ سے پھر بند ہو جاتے۔اندر کی طرح باہر بھی خاموشی تھی،جیسے کائنات کی ہر شے جھگی سے کان لگائے،ہونٹوں پراُنگلی رکھے ایک دوسرے کو خاموش رہنے کا اشارہ کر رہی ہو۔
”رانو تُو اب کچھ دِنوں کی مہمان ہے ہمارے پاس، وہ لوگ جو آج آئے تھے نا،وہ تیرے ابا کے کوئی دور پار کے رشتہ دار تھے۔اُن کے ہاں تیرا رشتہ کر دیا ہے،وہ اَٹھاراں تریخ کو پھر آئیں گے اور تجھے اپنے ساتھ شہر لے جائیں گے“شاداں نے جھگی کی چھت کو گھورتے ہوئے کہا تھا۔
”مگر اماں مجھے تیرے ساتھ رہنا ہے اور پھر تجھے چڑیاں۔۔۔۔۔“ وہ بھرائی آواز سے فقط اتنا کہہ سکی تھی۔
”دیکھ رانوہمارا گزارہ بھی ہو جائے گا اور پھر چڑیوں کے بغیر بھی تو آٹا مل جاتا ہے“ شاداں نے اُس کے بال سنوارتے ہوئے کہا۔
”اماں تُو مجھ سے وہاں ملنے تو آیا کرے گی نا؟“ یہ کہتے ہی وہ اماں کے ساتھ لپٹ گئی تھی۔
”ہاں تو اور کیا نہیں آوں گی۔“ شاداں نے اٰس کا سر چوما اور آنکھیں بند کر لیں۔
صبح جب رانو اپنی سوجی ہوئی آنکھوں کو ملتے ہوئے جھگی سے باہر نکلی، شاداں ٹوکری اُٹھائے باہر جانے لگی تھی۔
”اماں۔۔“
”ہاں رانو۔۔“شاداں نے پلٹ کر جواب دیا۔
”اماں اٹھاراں تریخ کب ہے؟“
”بارہ دن بعد“ شاداں نے اپنی کالی اُنگلیوں پر حساب کر کے بتایا تھا، جہاں بے حساب ایسی لکیریں اُبھری ہوئی تھیں جن کا آنے والے وقت سے تو کوئی تعلق نہیں تھا مگر وہ گزرے وقت کی چھاپ ضرور چھوڑ گئی تھیں۔
رانو ہر دوسرے،تیسرے دن یہی پوچھتی۔ ایک روز جب دن ڈھلے شاداں واپس آئی تو رانو صحن کے آگے راہ گزر پر چڑیاں بنا رہی تھی۔ سارا صحن، چولہے کے ساتھ بنی فٹ دو فٹ کی دیواریں اور جھگیوں کے اندر پڑی چارپائیوں کے نیچے جہاں تک نظر جاتی، مٹی کی چڑیاں پڑی تھیں جن میں سے کچھ خشک ہو چکی تھیں اور کچھ میں نمی باقی تھی۔
شاداں کی آنکھوں میں پانی تیرنے لگا جسے ”رانو۔۔۔یہ۔۔اتنی۔۔“ کہتے ہی بہاؤ کا رستہ مل گیا تھا۔
”وہ اماں میرے بعد تمہیں کون بنا کر دے گا اِس لیے میں۔۔۔“ شاداں نے آگے بڑھ کر اُسے گلے لگا لیا۔ اُس رات وہ دونوں کئی بار روئی تھیں۔
رانو بیاہ کر شہر آئی تھی،جہاں اسٹیشن سے ایک کوس دور پٹڑی کے پار چار جھگیاں تھیں۔وہ جب سے آئی تھی سارا دن اپنی جھگی میں بیٹھی رہتی یا باہر نکل کر اُمیدسے بھری نگاہیں اسٹیشن کی طرف اٹھاتی جو پلٹنے پر ہمیشہ خالی ہوتیں۔دن میں دو ایک بار اپنی ساس کی جھگی میں جاتی مگر وہاں بھی اُس کا دل نہ لگتا تھا۔شرفو صبح اُٹھتے ہی کبوتروں کو کھڈے سے نکالتا،دانہ ڈالتا اور اُنھیں آسمان کی طرف اُڑا دیتااور پھر دن بھر آسمان کو تکتا رہتا یا کبھی ایک کبوتر ہاتھ میں لیے پٹڑی سے پار چلا جاتا اور کئی گھنٹوں بعد آتا۔
ہفتہ یوں ہی گزر گیا تھا۔ایک دن وہ جھگی میں داخل ہوا تو اُس کے ہاتھ میں شاپر تھا جو اُس نے رانو کے رکھ دیا۔
”یہ کیا ہے؟“ رانو نے شاپر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
”رنگ اور ربڑ کے دھاگے“
”رنگ۔۔۔۔“ رانو نے اتنا ہی دہرایا تھا۔
”ہاں تمہاری اماں نے، ابا کو بتایا تھا کہ تم مٹی کی چڑیاں بناتی ہو،جنہیں رنگ کر کے اور خوبصورت کر دیتی ہو۔“
”ہاں۔۔“
”تو پھر اُٹھو، بناؤ اور کل جا کر بیچ بھی آنا۔“
”پر میں۔۔میں تو کبھی بیچنے نہیں گئی،وہ تو بس اماں جاتی تھی۔“
”نہیں گئی تو اب چلی جانا، چڑیاں ہی بیچنی ہیں نا کونسا ڈنگروں کا وپار کرنے بھیج ریا تجھے، اب اُٹھ جا۔۔جا کے مٹی کا ا ینتجام کر“۔شرفو تحکمانہ انداز میں کہتے ہوئے جھگی سے باہر نکل گیا۔
پہلی بار ایسا ہوا کہ رانو چڑیاں بناتے ہوئے خوش نہیں تھی،ورنہ اماں کے لیے کتنی دلجمعی سے بناتی،اُن سے باتیں کرتی جیسے وہ مٹی کی نہیں سچ مچ کی ہوں۔
ٹوکری اُٹھائے وہ بازار اور اُس سے ملحقہ گلیوں میں چلتے ہوئے بار بار پلٹ کر دیکھ رہی تھی مبادا رستہ بھول جائے۔آج اُس کی چند ایک چڑیاں بکی تھیں۔وہ جلدی سے پٹڑی پار کر رہی تھی کہ شاید آج اُس کی اماں آئی ہو مگراُس کو اماں نظر نہیں آئی،وہ جھگی کے اندر بھی نہیں تھی۔
”اِتنے کم پیسے“ شرفو نے قدرے غصے سے پوچھا۔
رانو نے چڑیوں سے بھری ٹوکری اُس کے آگے رکھ دی:”میں گلیوں میں آوازیں لگاتی رہی اور بازار بھی گئی مگر وہاں کسی نے لی ہی نہیں،یہ بھی گلی میں کچھ بچے کھیل رہے تھے وہاں پانچ چھ بِک گئیں۔
”اوہ بے وقوف، ایسے بکتی ہیں بھلا، گھروں کے اندر جاکر آوازیں لگا کر زبردستی بیچتے ہیں کل سے تم نے گھر گھر جانا ہے اور چڑیاں بچوں کو پکڑا کر آٹا یا پیسے لیے بغیر نہیں آنا۔“اگلی صبح اُس نے ویسے ہی کِیا جیسے اُسے بتایا گیا تھا۔وہ گھر کے اندر جاتی یا دروازہ کھول کر کھڑی ہو جاتی، جلد ہی اُس کی ٹوکری میں موجود چڑیوں کی جگہ آٹا لینے لگا تھا۔
ایک گھر کا دروازہ تھوڑا سا کُھلاتھا جسے رانو نے اور کھول دیا اور بولنے لگی؛”اے باجی چڑیاں لے لو چڑیاں،بچوں کے لیے رنگ برنگی چڑیاں۔“
کوئی جواب نہ آیا تووہ گھر کے اندر چلی گئی۔اِتنی دیر میں بنیان پہنے آدمی کمرے سے باہر نکلا؛”ہاں کیاہے؟“ اُس نے رانو کے بہت قریب آکر کہا۔
”وہ چڑیاں۔۔۔۔“پسینہ اُس کی کنپٹی سے بہتا ہوا سانولی گردن پر بہنے لگا۔وہ جلدی سے دوپٹہ سنبھالتی دروازے کی طرف پلٹی تو آدمی نے اُس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا جس سے ٹوکری نیچے جا گری اور کئی ساری چڑیوں پر آٹا کفن کی مانند پھیل گیا۔
بکھری پڑی چڑیوں جیسی ایک اُس آدمی کے ہاتھوں میں پھڑ پھڑا رہی تھی اور جب اُس کے رنگ اُترنے لگے تو اُس نے آنکھیں موند لیں۔ وہ کسی ٹرانس میں چلتی کب پٹڑی تک آن پہنچی تھی،اُسے کوئی خبر نہ تھی۔
ٹرین کے الوداعی ہارن نے اُسے ٹرانس سے نکالا تو وہ پٹڑی کے پار آگئی تھی۔شرفو کبوتر کو زبردستی اڑانے کی کوشش کر رہا تھا جو اُس کے چھتری ہلانے پر تھوڑا سا اڑتا اور پھر واپس بیٹھ جاتا۔اُس سے کچھ پرے مٹی پڑی تھی جس سے وہ چڑیاں بناکر لے گئی تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے مٹی سے چڑیاں بن گئی تھیں،خوبصورت رنگوں والی چڑیاں۔۔۔کچھ دیر پہلے فرش پر بکھری چڑیوں کی طرح وہ اب تڑپ رہی تھیں۔وہ شاید اِس بات پر نوحہ کناں تھیں کہ کیا اُنھیں اِس لیے بنایا جاتا ہے؟
اور پھر اُس کا پھڑپھڑانا۔۔۔اُس کے اُڑتے رنگ۔۔”نہیں نہیں۔۔میں چڑیاں نہیں بناؤں گی“۔ اُس کی بغل سے ٹوکری وہیں پاؤں میں آگری۔ہارن کی آواز تیز ہو رہی تھی۔وہ آہستہ آہستہ اُلٹے قدم اُٹھا رہی تھی۔شرفو کی نگاہ اُس پر پڑتے ہی اُس کے ہاتھ چھتری پر ساکت ہو چکے تھے۔اپنی بند ہوتی آنکھوں سے شرفو کو دیکھتے ہوئے،رانو نے نے آخری بار جو سوچا تھا وہ شاداں کی آنکھیں تھیں، جِن کا مطلب وہ آج جان چکی تھی

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930