دہشت ۔۔۔ سدرہ افضل
دہشت
( سدرہ افضل )
‘عجیب معاملات ہیں، اپنا شہر اپنا نہیں رہا، وہ گلی کوچے جہاں ہم گھنٹوں کھیلا کرتے تھے، سنسان ہو گئے ہیں۔ چاروں طرف موت و دہشت کی آواز یں سنائی دیتی ہیں۔ ہر لمحہ ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو ویسا نہ ہو، چوری چکاری تو عام سی بات ہے، جان کا ہی دھڑکا سا لگا رہتا ہے یہ جینا بھی کوئی جینا ہے، ڈر خوف اور دہشت کے سائے میں۔ کبھی کبھی دل کرتا ہے، اس طوق کو گلے سے اتار پھینکیں مگر کریں تو کریں کیا۔ نظام حکومت چلانے والے بھی تو چور ہی بیٹھے ہیں۔‘
اس نے یہ سب سوچتے سوچتے پٹرول ڈلوایا، موٹر سائیکل دوبارہ اسٹارٹ کی اور روانہ ہو گیا کہ اچانک اسے احساس ہوا کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ ‘نہیں یہ میرا وہم ہے۔’ اس نے اپنے آپ کو تسلی دی مگر خوف و دہشت کے سائے اس کے سر پر منڈلاتے چلے گئے۔ ہاں ابھی کچھ عرصہ قبل کی ہی بات ہے جب وہ گھر سے کسی دوست کی طرف جانے کے لیے نکلا تھا تو کنپٹی پر بندوق رکھتے ہوئے ایک شخص نے اس سے سب کچھ چھین لیا تھا۔ بٹوے میں بل جمع کروانے کے پیسے بھی تھے۔ اور گھڑی بھی جو سسرال سے ملی تھی۔ بیگم کو جس کے لُٹنے دکھ، میری جان کے بچنے کی خوشی سے زیادہ تھا۔
خیر شہر کا یہ معمول کئی عرصے سے تھا۔ اور آج پھر کوئی اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ اس نے اپنے وہم کو یقین میں بدلنے کے لئے مو ٹر سائیکل کچھ تیز کی، تو اب میں پیچھا کرنے والے نے بھی موٹر سائیکل تیز کردی۔ دہشت کے سائے گہرے ہونے لگے تھے۔ ‘جیب میں گڑیا کی فیس کے پیسے اور گھر کے سامان کے کچھ پیسے ہیں۔ وہ ا ن غنڈوں نے ہتھیا لیے تو سارا مہینہ ادھار پر گزرے گا۔ اور ادھار تو محبت کی قینچی ہے۔ پچھلی بار جب ایسا ہوا تھا تو چچا کی ہمدردی چچی کو خاص بری لگی تھی۔ نجانے رشتوں کو کیا ہو گیا ہے، محبت کی مٹھاس کہیں کھو گئی ہے۔ محبت مٹھاس۔۔۔۔ ‘ اس نے اپنے خیال سے سوال کیا۔ کہ اچانک اسے شور اور تیز ہارن کی آواز آئی۔ ‘ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔۔۔۔ میرا پیسہ میری جان۔۔۔۔ ‘ جان کا خیال آتے ہی گڑیا کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ ‘وہ تو ابھی بہت چھوٹی ہے۔۔۔۔۔ اور بچپنے میں یتیمی کا دکھ میں جانتا ہوں کیا ہوتا ہے نہیں یا خدا ! رحم فرما اب تیرے سوا سہارا کیاہے۔ میں کسی سڑک کے کنارے ان دہشت گردوں کی گولی کھا کر مرنا نہیں چاہتا، اے میرے رب کوئی ترکیب نکال۔۔۔۔ ‘ اس نے سوچتے ہوئے اپنی تمام تر ہمت کو جمع کیا اور موٹر سائیکل کو تیز بھگاتے ہوئے اشارہ تک توڑ دیا۔
قانون شکنی تو کبھی اس کے مزاج کا حصہ نہیں تھی مگر آج بات مزاج کی نہیں، جان کی تھی اور ان پیسوں کی بھی، جو بنک سے اس نے ابھی نکلوائے تھے۔ پیسے خود کے ہوں تو اور بات ہے چچا کے بھیجے ہوئے پیسے۔۔۔۔۔۔ ‘۔ پچھلی بار جب ایسے ہی کسی نے اسے لوٹ لیا تھا تو چچی کو لگا تھا کہ میں پیسے کھا گیا ہوں۔ سو طرح کے وہم کیے تھے جنہوں نے گھر کو میدان جنگ بنا رہاتھا۔ چور ہونا کس قدر غلیظ مزاجی ہے۔ ایسا طعنہ سننے سے تو بہتر ہے کہ انسان گولی کھا کر مر جائے۔ کم ازکم شہید تو کہلائے گا۔ اس نے یہ سوچ کر موٹر سائیکل کو فل سپیڈ دی اور ٹریفک سگنلز توڑتا ہوا گھر کی جانب بڑھنے لگا۔ اس اثناء میں وہ پیچھا کرنے والے بھی موٹر سائیکل کو بھگانے لگے۔ یہ ریس ابھی چل ہی رہی تھی کی اچانک اس کی موٹر سائیکل کے سامنے ایک کتا آ گیا۔ اس نے لامحالہ بریک پر پاﺅں رکھتے ہوئے جیسے ہی موڑ کاٹا۔ وہ پیچھا کرنے والے تیزی سے آگے بڑھے اور اس کا راستہ کاٹ کر سامنے آن کھڑے ھوئے۔ اس کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔ سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیت جاتی رہی اسے اپنا آپ کسی خلاء میں محسوس ہونے لگا۔ چچا، چچی کی باتیں گڑیا کی مسکراہٹ اور ناراضگی ادھار پر مہینہ بھر گزر کرنے کا خوف اس کے اعصاب پر سوار ہونے لگا۔ اس نے موٹر سائیکل کو گرایا اور ڈورنے ہی والا تھا۔ کہ ان دو لڑکوں میں سے ایک نے آگے بڑھ کر اسے دبوچ لیا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے اس نے مزاحمت کی کوشش میں جیسے ہی اپنا بازو کھینچا، ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
”بھا جی تُسی اپنی بُڈھی پٹرول پمپ تے چھڈ آئے او”