تنہائی کے دوپل ۔۔۔ سمیرا ناز
تنہائی کے دو پل
سمیرا ناز
خاموش سڑک پر دبے پاؤں چلنا کتنا اچھا احساس ہے یہ کوئی اس سے پوچھتا، جب دن بھر کے خوار کر دینے والے معمول کے بعد وہ گھر کے معاملات سے جان چھڑا کر دو پل کا سکون کا سانس لینے کے لئے گھر سے نکلتا ۔۔۔۔۔۔ یہ چہل قدمی اس کی زندگی کا حاصل تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کانوں سے ٹکراتی باریک لیکن جھنجھلائی ہوئی آواز۔۔۔۔۔” آپ کے پاس وقت نہیں ہوتا یا آپ دینا نہیں چاہتے۔؟۔۔۔۔ اتنا مصروف معمول ہے۔۔ بچوں کے لئے بھی وقت نکالا کریں “۔۔۔آہ۔ اب اسے۔ کون بتاتا۔۔ بھلی لوک۔۔۔ دو نوکریاں کرنے والا انسان اپنی گھریلو زندگی کو پرسکون بنانے کی کوشش میں وقت کی گردش میں لپٹتا چلا جا رہا تھا مگر شکوہ در شکوہ۔
لمحہ موجود۔۔۔۔ واہ۔۔۔۔ کتنا پرسکون ماحول ہے۔۔۔۔ ایک خوش کن احساس خون کے ساتھ اس کی رگوں میں سرایت کرنے لگا۔ کھردری سڑک اور اس پر کسی کسی جگہ پر گری بجری جس سے وہ دانستہ بچتا کہ کہیں وہ اس کے پیر کے نیچے آکر اس کے معمول میں خلل کا باعث نہ بنے کیونکہ یہ دو پل اس کو بہت عزیز تھے۔۔۔۔۔۔۔ گھریلو الجھنوں اور ازدواجی مسائل میں گھرا رہنے کے بعد یہ اس کے لئے راحت کا سامان تھا۔۔ کسی حد تک زندگی کا حاصل۔۔۔
اسلام آباد کا جی سیکڑ جو اپنی اصل کے اعتبار سے متوسط طبقے کا مسکن تھا۔ یہ علیحدہ بات کہ وہ متوسط طبقہ خود کو کبھی متوسط نہ مانتا اور شہر اقتدار میں قیام کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو نام نہاد ماڈرن زندگی کے خانے میں فٹ رکھنے کی کوشش میں بے حال رہتا۔ سیاہ، سفید، بھورے اور کسی جگہ پر عجیب سا تاثر دیتے لال گیٹ سیاہی کے پردے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ بوگن ویلیا کی یونیورسل بیل تقریبا ہر دیوار کے گلے کا ہار بنی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ ایسا لگتا تھا کہ اس نے اگر گلے سے بانہیں نہیں اتاریں تو دیوار بھاگ جائے گی۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ وہ خود میں ہنسا۔ ایک پل کو تو اسے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کے ذہن میں دیوار کے۔بھاگنے کا خیال کیسے آیا ؟۔ بھلا دیوار بھی کبھی بھاگی۔۔۔ جیسے کہ وہ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بھی تو حالات کے ساتھ چل رہا تھا ناں ۔۔۔۔ بس اپنے دو پل کا قیدی۔۔۔۔ یا شاید۔۔۔۔۔ یہ دو پل اس کی زندگی کا حاصل تھے۔ اچانک کوئی موٹر سائیکل پاس سے گزری۔۔۔۔ وہ اچھل کر سائیڈ پر ہوا۔جیسے وہ موٹر سائیکل اس سے ٹکرا ہی جائے گی۔ اور بڑی ناگوار نظروں سے دور جاتی موٹرسائیکل اور کالے ہیلمٹ والے سوار کو دیکھا۔ جیسے اس خاموشی کا سینہ چیر کر اس نے کوئی گناہ کیا ہو۔ اور کچھ ایسی ہی نظروں سے اس نے سٹریٹ لائٹ کے گرد ناچتے پتنگوں کو دیکھا۔۔ جو کہ مستی میں جھوم جھوم کے جان دینے کو بے قرار تھے۔۔۔۔۔ کتنے بے پرواہ ہیں یہ۔۔۔۔۔ اس نے دل میں خود کو مخاطب کیا اور فٹ پاتھ جس کی پیلی لائن اور اس پر لگے کنکریٹ کے پتھر جو بڑی ترتیب سے چنے ہوئے تھے ۔ اس کا دل چاہا کہ وہ ان پتھروں کی طرح بے جان ہو کر بیٹھ جائے اور اس کی سانسوں کے علاوہ کائنات کی ہر چیزساکت ہو جائے۔۔۔۔۔ سمیت اس کی زندگی کے معمولات کے۔۔۔۔ وہ اپنی سوچ پر ہنسا اور پھر سے دبے قدموں چلنے لگا۔۔۔۔۔ حیرت کی بات ہے وہ اپنے اس چہل قدمی والے شغل سے کبھی نہ اکتاتا۔۔ روز ایک جیسی چیزوں کو دیکھتا پھر ان کو اسی انداز میں محسوس کرتا۔ سڑک ختم ہونے پر آنے والے راونڈاباوٹ پر کچھ پل کھڑا رہا۔۔ شاید وہ ماحول کو اپنے اندر اتار رہا تھا پھر آہستہ آہستہ چلتا ہوا راونڈاباوٹ کی منڈیر کے پاس پہنچا اور اس کے پتھروں کو ہاتھ لگانے لگا جیسے ان کی خاموشی کو محسوس کرنا چاہتا ہواور ایک سکون کا احساس اس کے رگ و پے میں سرایت کرنے لگا۔۔ وہ منڈیر کے کنارے پاؤں لٹکا کر بیٹھ گیا۔ اس کے بائیں طرف والی سڑک۔ حسینہ نا میں سڑک سے جا ملتی اور دائیں طرف والی سڑک، ابن سینا ہائی وے کو جاتی تھی۔ دونوں طرف پیڈ لائٹ اور اشاروں کے جلنے بجھنے کے علاوہ زندگی کی کوئی علامت محسوس نہ کی جاسکتی تھی۔ اگر کوئی سواری گزرتی بھی تو وہ اس کوبڑی اکتائی ہوئی نظروں سے دیکھتا اور ماحول کے سحر میں گم ہوجاتا۔۔اس نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی تو احساس ہوا کہ وقت کافی ہوگیا ہے اب اسے اپنے ڈربے۔۔۔۔۔۔۔ اوہو میں کیا کر رہا ہوں۔۔۔۔ گھر کا رخ کرنا چاہیے۔ اس نے خود کو ڈانتے ہوئے تصحیح کی اور تھکے ہوئے قدموں سے واپسی کے لئے دوبارہ سے اسی سڑک پر چل پڑا۔ لیکن اب قدموں میں وہ روانی نہ تھی بلکہ چال میں کچھ بوجھل پن محسوس کیا جا سکتا تھا۔ا دو تین فرلانگ کا فاصلہ طے کیا اور بائیں طرف گلی میں مڑا۔۔۔۔۔ اب قدموں میں تیزی آ گئی اور وہ ایک سفید گیٹ کے سامنے جا کر رک گیا۔ جیب سے چابی نکال کر گیٹ وا کیا اور اندر داخل ہوگیا ایک کرخت، شکوہ کرتی آواز نے اس کا استقبال کیا
۔۔۔۔۔۔۔ آ گئے ۔۔۔ آپ کے پاس گھر کے لیے وقت ہی نہیں۔۔۔۔ پتہ ہے کہ احسن کو تیز بخار ہے۔۔۔۔ لائبہ کو صبح کالج جانا تھا۔۔۔ اس کے یونیفارم کی قمیض لانی تھی۔۔ میرا بی پی ہائی ہے۔۔۔ لیکن آپ کو کیا۔۔۔۔ دو نوکریوں کے بعد گھر آئے۔۔۔ باقی جایئں بھاڑ میں۔۔۔۔ میری تو زندگی عذاب میں آ گئی ہے۔
اور وہ سوچنے لگا کہ شام تک تو یہ معاملات نہیں تھے یہ اچانک کہاں سے اتنی دیر میں طوفان آیا دور جاتی آواز کی گونج کو رات کا اندھیرا کھانے لگا۔۔۔ اور وہ تھکے ہوئے قدموں سے اپنے دو پل کی قید میں خواب کی کیفیت میں کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا کیونکہ ابھی بیگم کا موڈ بھی درست کرنا تھا۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔ اس کے دو پل سفید گیٹ سے کچھ دور کھڑے اگلے ملن کا انتظار کرنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کا فاصلہ چوبیس گھنٹوں پر محیط تھا۔