پاک دامن دوشیزہ ۔۔۔ سمیرا عذام


پاک دامن دوشیزہ
تحریر: سَمیرا عَذّام (فلسطین)
مترجم: شیخ حمزہ (اسلام آباد، پاکستان)

“کیا تم جانتی ہو؟ میں محسوس کرتا تھا کہ تم میرے قریب ہو، جب میں تمھارے لیے اپنے تفصیلی خطوط کو ترتیب دے رہا ہوتا تھا۔ مجھے اس بات نے بہت ناراض کیا کہ تمھارے جوابات جو کہ مختصر اور پراسرار تھے جیسے کسی تار (ٹیلی گرام) کی مانند یا جیسے کہ تم جان چھٹا رہی تھیں۔”
“کیا میں اسے ڈانٹ سمجھوں؟”
“تم کہہ سکتی ہو۔ تم کیسے اپنے رویے کی وضاحت کروگی؟”
“مجھے علم نہیں۔ شاید یہ کاہلی ہے۔ یا شاید میں خط کی پیچیدگی سے بیزار ہوں، جو مجھے یہ احساس دلاتے ہیں کہ میں خط لکھنے میں اچھی نہیں ہوں۔”
“کیا تم پہلے کبھی خطوط لکھنے میں اچھی تھی؟”
“ہاں۔۔ دراصل میری ایک سہیلی اکثر مجھے اپنے خطوط کو تحریر کرنے کے لیے کہتی تھی۔”
“کیا وہ خود سے نہیں لکھ سکتی تھی؟”
“نہیں وہ لکھنے کی عادی نہیں تھی۔ لکھنے کے لیے قوت ادراک چاہیے ہوتی ہے۔ میری دوست صرف پڑھ سکتی تھی۔”
“میں ابھی تک تمھاری دماغی الجھن کو نہیں سمجھ پایا۔”
اچھا چونکہ تم نے اصرار کیا کے میں تمھیں بتاؤں۔ میں اس کی منافقت کو محسوس کرسکتی تھی، جب وہ اپنے احساسات کو میرے لفظوں کا روپ دے رہی ہوتی تھی تو یہ فقرہ ‘میری پہلی محبت’ جس سے وہ مجھے ہر خط کی ابتدا کرنے پر مجبور کرتی تھی مجھے فرسودہ لگا۔”
“کیا وہ واقعی اس کی پہلی محبت تھی؟”
“مجھے علم نہیں ۔ ہر بار مختلف اشخاص کو خطوط لکھے جاتے تھے۔”
“یہ تو فریب کاری ہے!”
“میں نامناسب تنقید نہیں کرنا چاہتا۔ چلو اسے ہم قسمت کا متلاشی کہتے ہیں۔”
“کیا تمھاری سہیلی نے شادی کی؟”
اُس کے والد اُن سے نہیں تھے جن کی کوئی خاص قابلیت تھی ۔
“عجیب بات ہے۔ میں حیران ہوں کہ اگر میں ۔۔۔۔۔”
“میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ میں صرف اپنی سہیلی کی بات کررہی تھی۔ “
“کیا ایک عورت کے لیے یہ جائز بات ہے کہ وہ ایک سے زیادہ مردوں سے محبت کرے؟”
“شاید ایک عورت کے لیے اس کی زندگی میں ایک سے زیادہ محبوب نہ ہوں لیکن ممکن ہے کہ میری سہیلی کی زندگی میں ایک سے زیادہ شخص آئے ہوں۔”
“تمھارا کیا مطلب ہے؟”
“کچھ نہیں۔”
“جیسے تمھاری مرضی۔ چلو کچھ وقت کے لیے ان پہیلیوں کو بھلا دو۔ مجھے اُمید تھی کہ تم اپنے خطوط میں مخصوص چیزوں کو ذکر کروگی کیونکہ لوگ عموماً کاغذ پر بے خوف ہوتے ہیں۔ مثلاً تم نے میرے ماضی سے متعلق کچھ دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی۔”
“لیکن میں ایسا کیوں کروں؟”
“کیا تمہیں میرے ماضی میں کوئی دلچسپی نہیں؟”
“چاہے مختصر ہو یا طویل تم خود ہی اپنا ماضی مجھے بتا دو گے میرے پوچھے بغیر۔ اور اگر تمھارا کوئی ماضی نہیں تو خیالی کہانیاں تمھاری مدد کریں گی۔”
“تمھارا مطلب ہے کہ میں کہانیاں بنانے میں ماہر ہوں؟”
“یہ سوال کہانیوں کا نہیں ہے، لیکن نو عمری کے خوابوں کی ترجمہ کاری کا ہے۔ تمھاری آنکھیں کسی مشرقی وسطٰی کے آدمی کی طرح چمکتی ہیں، جب تم مجھے سیاہ فام یا سنہرے بالوں والی یا قد آور یا فربہ یا کسی امیر عورت کے بارے میں بتاتے ہو جس کی دولت کو تم نے صرف اس لیے ٹھکرایا کیونکہ تمھیں ایک عورت کا مالِ مروقہ بننے سے نفرت تھی۔اور ایک طلاق یافتہ عورت جسے تم نے انکار کیا کیونکہ تم استعمال شدہ سامان کے خواہش مند نہیں اور نہ ہی کسی کسبی، جس نے تم سے اخلاقی برتری سیکھی۔ اُن میں سے ایک پڑوسیوں کی لڑکی ہے اور مے خانے میں کام کرنے والی لڑکی اور تمھاری کالج کی ہم جماعت اور ان جیسی درجنوں۔ میری جان خفا نہ ہو، کیا میں نے تمھاری مردانگی کو ٹھیس پہنچائی؟”
“ہاں تم ۔۔۔۔”
“کیا ؟ دوبارہ کہو!”
“میں کہنا نہیں چاہتا۔”
“پھر مجھے صاف گو تو کہو۔”
“میں تم سے اب بھی پیار کرتی ہوں۔”
“مجھے یقین کرنا ہی ہوگا، ورنہ تم نے مجھ سے منگنی نہ کی ہوتی۔”
“میں ایک سے زیادہ وجوہات کی بنا پر تم سے محبت کرتا ہوں۔”
“میں اس بات پر بالکل شک نہیں کرتی۔”
“ہم پھر سے پہیلیوں میں الجھ رہے ہیں۔”
“اگر تم برا نہ مانو تو یہ بتاؤ گے تمھیں مجھ سے محبت کیوں ہوئی؟”
“سب سے پہلے، مجھے اقرار کرنا ہوگا کہ تم دلکش ہو۔”
“میں تمھاری کسی خواتین کزن سے زیادہ حسین نہیں ہوں۔”
“اور تم تعلیم یافتہ ہو۔”
“شاید میں اس وقت تک تعلیم یافتہ ہوں جب تک سہیلیوں کے بجائے اپنے تمام خطوط خود لکھوں۔”
“اور تم پاک دامن ہو۔”
“اچھا چلو! یہاں کچھ وقت کے لیے رکو۔”
“کیوں؟ تم ہر اس صفت کی مالک ہو جسے ہم ضابطۂ اخلاق میں پاک دامن کہتے ہیں۔”
“ہم کسی حد تک پاک دامن ہیں جب تک دوسرے ہم سے واقف نہیں۔ کیا ہمیں پہلے پاک دامن کی وضاحت نہیں کرنی چاہیے؟”
“مجھے نہیں لگتا کہ لفظ پاک دامن کے ایک سے زیادہ معنی ہوں۔”
“تم میری ماں کی طرح بات کرتے ہو۔”
“تمھاری ماں کیا کہتی ہے؟”
“کس چیز کے بارے میں؟”
“مثلاً ایک پاک دامن عورت کے بارے میں۔”
“ٹھیک وہی جو تم کہتے ہو۔”
“یعنی ایک پاک دامن عورت شائستہ، سنجیدہ، باشعور اور ماضی کے بغیر ہوتی ہے۔”
“وہ ماضی جو گزر گیا۔”
“تمھارا کیا مطلب ہے؟”
“میرا مطلب ہے کہ عورتیں مردوں کے مقابلے میں اپنے ماضی کو جلد بھلا دیتی ہیں۔”
“سب عورتیں؟”
“ہاں، کیونکہ ان کے لیے پاک دامن کو فریب دینا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ لفظ ایک تو گہرے معنوں کا حامل ہے، جیسا کہ تم تصور کرسکتے ہو۔”
“تم نے مجھے تجسس میں ڈال دیا ہے۔”
“یہ میرے لیے خوشی کا باعث ہے۔”
“کیا تمھیں غصہ آئے گا اگر میں تم سے ایک سوال پوچھوں؟”
“یہ میرے لیے خوشی کا باعث ہے۔”
“کیا تمھیں غصہ آئے گا اگر میں تم سے ایک سوال پوچھوں؟”
“بالکل نہیں۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ تم میرے جواب سے برہم ہوجاؤ گے؟”
“تم ایک تعلیم یافتہ شخص سے بات کررہی ہو۔”
“تمھارے یاد کروانے کا شکریہ۔”
“کیا تم ۔۔۔۔ کیا تم نے کبھی جوا کھیلا ہے؟”
“اِدھر اُدھر کی نہ مارو صاف بات کرو جیسے میں کرتی ہوں۔”
“وہ سہیلیوں کے خطوط تم نے لکھے تھے؟”
“یقیناً “
“چلو فرض کرتے ہیں کہ اگر تمھٰن اپنے خطوط میں جو میرے لیے تھے اپنی سہیلی کا ابتدائی جملہ استعمال کرنا ہوتا تو وہ کیا ہوتا؟”
“میری دوسری محبت!”
“واقعی ؟ پھر ۔۔۔۔”
“ہاں ۔۔ ایک بار۔”
“چلو آگے کہو۔”
“جذباتی نہ ہو۔ اور مجھے یاد کرانا پڑے گا کہ میں ایک تعلیم یافتہ شخص سے بات کررہی ہوں۔”
“کیا تم اس سے محبت کرتی تھی؟”
“یہ تعلق محض دوستی کی حد تک نہیں تھا۔ میں نے اس حد تک ہی اس سے محبت کی کہ اگر میں اپنا اصل بتائے بغیر تمھارے ساتھ زندگی کی شروعات کرتی تو مجھے کم تر محسوس ہوتا۔”
“یہ محبت کب ہوئی؟”
“سات سال پہلے۔”
“اور تم اب بھی اسی جذبے کے ساتھ اُس کا ذکر کررہی ہو۔”
“جب کوئی شخص اپنے وقت سے پہلے مرجائے وہ ہمیشہ اپنے پیاروں کی پاؤں میں زندہ رہتا ہے۔”
“کیا تم اُسے مجھ پر ترجیح دیتیں؟”
“اگر فیصلہ میرے ہات میں ہوتا تو۔”
“اگر وہ تم نہیں تو پھر کس کا فیصلہ تھا۔”
“میری والدہ، میرے والد اور میرے بھائیوں کا۔ میں بے اختیار تھی۔ اور مجھے لوگوں کے سوالات کے دباؤ محسوس ہوا کہ میں نے اب تک شادی کیوں نہیں کی اور میرے رشتہ داروں کی ضد تھی کہ میں شادی کرلوں۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھ سے تنگ تھے۔”
“اور تمھاری ‘پہلی محبت’ کیوں تمھاری مرضی کے مطابق اختتام نہیں ہوئی؟”
“میری والدہ کے نزدیک وہ کم سن اور غریب تھا اور شوہر بننے کے قابل نہیں تھا۔”
“کیا تمھاری والدہ کی اجازت تمھارے لیے ضروری تھی؟”
“میں اپنی والدہ کی محبت کو کھونے سے ڈرتی تھی۔ میں جانتی تھی کہ وہ کیسے مجھے مجبور اور میرے خوابوں کو چکنا چور کرسکتی ہیں۔ میری ماں کہتی کہ تم اپنے باپ کی عزت خاک میں ملا دو گی۔ اور میں تو اس غم سے مر ہی جاؤں گی۔ اور میری اپنی زندگی بھی ایک بھکاری کے ہاتھوں تباہ ہو جائے گی۔”
“وہ بہتر جانتی تھیں کہ تمھارے لیے کیا اچھا ہے۔ کیا تم اپنی والدہ کو دھوکے میں مبتلا کرنا چاہتی تھی؟”
“یہ ایک دھوکہ نہیں تھا۔ یہ ایک سچا پیار تھا اور اُس کی یاد اب بھی میرے دل میں موجود ہے۔”
“تم نڈر ہو!”
“نڈر، صاف گو، گستاخ، جو دل میں آئے کہو۔ لیکن میں نے ایک سچ بتایا جس کا بتانا ضروری تھا۔”
“جیسے اس واقعہ کا تم سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔”
“اس کے برعکس اس کا تعلق ہم دونوں سے ہے تم اور میں ۔ میں چاہتی ہوں کہ تم مجھے مکمل طور پر تسلیم کرو جو کبھی حصّوں میں تقسیم نہ ہوسکے اور نہ ہی اُس مخلوق کی مانند جس کی زندگی کا آغاز ٹھیک اس دن ہوا جب تم اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ یہ میرا حق ہے۔ میں نے متھارے پیار کو پرکھنے کے لیے کہانی نہیں بنائی۔”
“کیا تم مجھے کھونے سے نہیں ڈرتی تھی؟”
“تمھیں کھونے سے؟ تم مضحکہ خیز ہو۔ مجھے وجوہات بتا ئیں جس نے ہمیں ایک دوسرے کی جانب دھکیلا۔ پھر فریب کاری کیوں؟ تمھیں نہیں لگتا کہ ہمارے اس صورتِ حال میں اور کم از کم میری صورت حال میں زندگی کی بنیاد مخلصی پر مبنی ہے، جواب ماسوائے ایک فریب کے کچھ نہیں۔ “
“تم بے رحم ہو۔”
“میں تمہیں اس بات کا الزام نہیں دیتی۔ درحقیقت میں نے تمھیں معاف کردیا۔”
“معاف کردیا؟”
“ہاں ۔۔ بالکل۔۔ اسی طرح جیسے میں نے زمیندار کو معاف کیا جو اپنی خریدی ہوئی عمارت کے چارو اطراف میں اپنے نام کی تختیاں لگاتا تھا کیونکہ جب کرایہ داروں کو پرانے مالک کے نام سے خطوط ملتے تو اُسے ناگوار لگتا۔”
“تمھیں لگتا ہے کہ میں تم سے جلتا ہوں؟”
“شاید اس سے کہیں زیادہ۔”
“جلد بازی نہ کرو۔ میں تمھاری کسی بات پر یقین نہیں کرتا۔”
“تم بھی ایک زمیندار ہو۔”
“مجھے اشتعال نہ دلاؤ۔ کہہ دو کہ تم نے کہانی گھڑی ہے۔”
“میں نے کچھ بھی نہیں گھڑا۔”
“پھر تم نے اسے ابھی اشکار کیوں کیا؟”
“مجھے نہیں پتہ۔ مجھے کبھی کبھار سخت ناگوار لگتا ہے جب تم اپنے ماضی کے مشاہدات کا ذکر اتنی تکبر سے کرتے ہو، جیسے مجھے زندگی کے تجربات سے گزرنے کا کوئی حق نہ ہو نہ ہی کامیابیاں حاصل کرنے کا یا شکست کھانے کا، جیسے میری شخصیت پیدا ہی نہ ہوئی تھی جب تک تم مجھے نہ ملتے۔”
“یہ تو سراسر انتقام ہوا۔”
“تم کہہ سکتے ہو جب تک کہ تم مسلے کو اس کے اخلاقی پہلوؤں سے جدا کرنے پر اصرار کرتے رہو۔ میں اس کو صاف دلی یا فراغ دلی کہتی ہوں۔”
“تمھاری صاف گوئی اور بے تکلّفی ناقابلِ برداشت ہے! کیا تمھیں نہیں پتہ کہ میں اس قسم کے مذاق کو پسند نہیں کرتا؟”
“ہاں، اتنا ہی جتنا کہ تم ایک پاک دامن دوشیزہ کی تلاش کے احساس کو کھونے سے ڈرتے ہو۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031