بازار کا بُت ۔۔۔ طاہرہ اقبال
بازار کا بُت
: طاہرہ اقبال
وہ نکلتا تو روز ہی تھا لیکن ہر روز اُس کے نکلنے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے بازار کو یوں اپنی لپیٹ میں لے لیتی تھی جیسے یہ آگ پہلی اور آخر بار لگی ہو۔ پورا بازار ہیجان بھرے دھک دھک کرتے ایک بڑے سے دل میں تبدیل ہو جاتا جس میں بے شمار دھڑکنیں بجتیں جیسے بازار کے وسط میں نصب سینما سکرین پر کوئی آئٹم سانگ چل رہا ہو اور سبھی نگاہیں گزروں گزروں اُس میں دھنسی ہوں۔
نوعمر سیلز مینوں کے دل جیسے سینوں سے نکال کر چہروں پر گاڑ دیئے گئے ہوں۔ گردشِ خون کی رفتار اتنی تیز ہو گئی ہو کہ ان دلوں کو منوں منہ لہو پمپ کرنے کی اضافی مشقت کرنا پڑ رہی ہو، اسی لیے گل دم کی پشت جیسے سُرخ انگارہ چہروں پر تپتی ہوئی ہونٹوں کی دو گرم سلاخیں گڑی ہوں۔ سیاہ جین کے اُوپر ٹماٹر رنگ کی کھلے گلے والی ٹاپ جس میں سے شفاف عنابی گلابی قمقمے سی جلد جھلملاتی۔ پتہ نہیں وہ تھریڈنگ کرواتا تھا کہ ویکسنگ کہ اُس بت کی گھڑت ہی قدرت نے ایسی ملائم ایسی شفاف بنا دی تھی کہ اُنگلیاں چھو لینے کی اضطراری حالت میں مڑنے اور اینٹھنے لگتیں۔ گردن سے اُٹھا کر بنایا ہوا پونی ٹیل کندھوں کی چکنی ڈھلانی سطح جیسے کسی مرمریں دیوی کے شانوں سے پھسلتی موتیوں بھری آبشاریں۔
ترشی ہوئی کمان بھنویں، لمبی سایہ دار پلکوں میں جگتے روشن سیاہ جگنو صراحی دار شفاف گردن سے لپٹی سفید پرلز کی لڑی جیسے پورے وجود پر سہ طرفی آئینے جڑے ہوں آر پار سب دِکھتا ہو۔ یہ شیش محل جدھر سے جھلک دِکھلا جاتا آنکھوں کے دِیئے دماغ کی جمالیاتی حسیات کو کچھ یوں بھڑکا دیتے کہ پھر سے دیکھنے کی تمنّا اُس کے پیچھے پیچھے دید کی سوالی بن کر چل نکلتی۔ مجمع جلوس کی شکل اختیار کر لیتااور جو نکل نہ پاتے وہ تخمینے لگاتے رہ جاتے۔
آج شام کو وہ سکنی جین پر ستاروں جڑا سیاہ کوٹ پہنے نکلے گا۔ آج وہ ترک لمبی پونی ٹیل کو ست رنگ موتیوں سے سجائے گا جن میں بازار والوں کی ہزار ہزار زاویے سے رال ٹپکاتی شبیہیں جھلکیں گی۔ آج وہ پنک کیپری پر نیلے جارجیٹ کی شرٹ پہنے گا جس میں بدن کی آتش بھڑک اُٹھے گی جیسے گلاب کی پیالی میں شبنم جو پیاسے لبوں پر تھور کا نمک اُگا دے گی۔ آج وہ اُونچی ہیل والا سُرخ سینڈل پہنے نکلے گا جس کی پینسل ہیل بازار میں بچھے دھک دھک دلوں کو ٹک ٹک چھیدتی گزر جائے گی۔ کترنیں اور سوراخ دار پسلیاں بچی رہ جائیں گی۔ وہ جو رنگ پہنتا پورا بازار اُس رنگ میں رنگ جاتا جیسے رنگ ساز مختلف رنگوں کے کراہے دہکائے بیٹھے ہوں اور ہر ہر شئے کو اُسی رنگ میں بھگو دیتے ہوں جو اُس روز اُس بت کے پیراہن کا رنگ ہوتا۔ صبح گلابی تو شام فیروزی، دوپہر عنابی تو رات قرمزی رنگ میں ڈوب کر طلوع ہوتی پورا بازار اسی کے رنگوں میں نجانے کیسے ملبوس ہو جاتا تھا۔ سارے رنگ جیسے اسی میں سما جانے کو بے قرار ہوتے تھے کہ وہ جس رنگ کو اوڑھ لیتا وہی اپنی تابناکیاں دو چند کر لیتا اور پورا بازار اُسی رنگ میں ڈوب جاتا۔ وہ رنگوں کو اس تناسب سے استعمال کرتا کہ عام رنگ بھی خاص ہو جاتے۔ ہراگچ، لال انگارہ، پیلا زرد، چٹا سفید، کالا سیاہ، عنابی بھڑکیلا آتش ہی آتش ہر ُسو۔
یہ جنسِ نایاب سڑکوں، دُکانوں، ریستورانوں تھروں کو اپنے رنگ میں رنگنے لگا۔ بڑے بڑے اسٹوروں سے لے کر چھوٹے چھوٹے کھوکھوں تک میں اُس کی مورتی سجنے لگی۔ پجاری تھالیاں سجائے آرتیاں اُتارنے کو بھیڑ لگانے لگے جو سبھی اُسی رنگ میں ملبوس ہوتے جو اُس روز اُس بت کی پوشاک کا رنگ ہوتا۔ جس دُکان، ریستوران یا کھوکھے پر وہ روزانہ جلوہ گر ہوتا اُس پر جتنی بھیڑ جمع ہوتی اُتنی ہی بِکری بھی ہوتی۔ اُسے اپنی دُکان کی سمت راغب کرنے کو کئی سکیمیں لڑائی گئیں۔ پیشہ ورانہ رقابت بڑھنے لگی۔ تو تکار سے فائرنگ تک جو ایک دو قتل ہوئے وہ بھی اُسی کے نام لگے۔ بوتیکس اُسے اپنے اپنے رنگ دینے کو رقابت میں جلنے لگے۔ پارلرز اپنے رنگوں میں اُسے سجانے کو ایک دوسرے کو مات دینے لگے۔ روز وہ اُس محل سے پیدل ہی نکلتا جس کی طویل و عریض فصیل میں تین اطراف نصب گیٹوں میں سے مرسیڈیز، فراری اور لینڈکروزر کچھ دیر پہلے ہی نکل چکی ہوتیں اور باوردی گیٹ کیپر سیکورٹی کیمروں والے گیٹ ابھی بند ہی کر رہے ہوتے۔ شروع شروع میں یہ گارڈز اُس کے نکلنے میں مزاحم ہوتے لیکن وہ اُن پر کبھی چیختا چلاتا نا۔ عجیب راکھ میں دبی چنگاری جیسا دھیما مزاج۔نہ امارت کا تکبر نہ حسن کا گھمنڈ، نہ سٹیٹس کا دھیان۔ شاید یہ سبھی محرومیاں اور برتریاں خالص جنس کی فطرت ہیں۔ ناخالص جنس تو خوشگوار مغالطے میں ہی رہ جاتی ہے۔ پھر شاید اُس محل کے باسی اُس کے انجام سے متفق ہو گئے کہ اب تو گارڈز بھی اُسے لذیذ نظروں سے بس گھورتے رہ جاتے۔ شہر کے مہنگے سکول میں اُس کے کلاس فیلوز بھی اُسے ہنسی مذاق میں اُڑا اُڑا کر بور ہو گئے کہ جواباً نہ غصہ نہ احتجاج کہ طبیعتیں مچل سکیں۔ ہائی سوسائٹی کی ہر پل بدلتی تھرل اور انجوائے منٹ کے پیمانوں سے بھی باہر نکل گیا تھا کہ یہ روٹین تفریح کس قدر بورنگ۔۔۔
اب جہاں کی وہ جنس تھی اُسی بازار کے سپرد تھی، جس نے کھلی بانہوں اُسے وصول لیا تھا۔ بازار کی حوالگی کے بعد اُس کے جسم کی پوشیدگیاں زیادہ معنی خیز ہو گئیں۔ سینہ عورتوں کی ساخت اوڑھنے لگا۔بڑھے ناخنوں والی اُنگلیوں میں عجب لچک آ گئی جیسے سبھی جوڑ کھل گئے ہوں۔ سڈول کلائی میں برسلیٹ، کان میں بندا، کھلے گلے والی شوخ رنگ زنانہ ٹاپ ہر اُبھار ہر قوس، نفاست و نزاکت کی انتہا میں سینچی ہوئی متوسط طبقے اور امیرطبقے کی مامتا میں بھی دونوں طبقوں کے فاصلے جیسا ہی ُبعد، کئی بار یہ امیرمامتا بازاریوں میں گھرے اِس ُبت کو دیکھتی بھی ڈرائیور گاڑی کی رفتار کم بھی کرتا۔ میک اَپ پر پسینے کے قطرے نمودار بھی ہوتے۔ گاڑھے میک اَپ سے بوجھل آنکھیں جھک جاتیں۔
”ڈرائیور اے سی اور گاڑی کی رفتار ذرا بڑھا دو۔“
وہ کیوں رُکیں۔ یہ بہزاد تھوڑی تھا جسے اُنھوں نے مہنگے ترین گائنی ہسپتال میں پیدا کیا تھا اوراُس کے گھڑے گھڑائے نقش ونگار کو دیکھ کر سبھی نے بیک زبان پکارا تھا۔
”بہزاد۔۔۔“ لیکن وہ تو بہزادکا صنم ہو گیا۔ یہ بت اس بہزاد کے اندر فطرت کے کسی غیرمتوازن رویے نے چھپا رکھا تھا کہ بہزاد پر صنم حاوی آ گیا۔ صنم کہ یہ شناخت بازار والوں نے اُسے دی تھی۔ بلکہ ہر بازار کی ہر گلی کا دیا ہوا اپنا اپنا نام تھا۔ گلابو، پنکی سویٹی، زری، نازو۔۔۔
کیسے شرمندہ کر دینے والے لچر نام تبھی تو پورے گھرانے نے بہزاد کے نام سے آنکھیں اور کان لپیٹ لیے تھے۔ ایسے ہی جیسے وہ کسی بھی بازاری تماشے سے منہ پھیر لیا کرتے تھے۔
وہ زیادہ لچکیلا، زیادہ شرمیلا، زیادہ نازک اندام ہوتا چلا گیا تھا جیسے بگھی کے گھونگھٹ میں چھپی کوئی نازنین دھیرے دھیرے عیاں ہوتی چلی جا رہی ہو۔ فطرت بھی کیسی دھوکے باز اپنی منافقت میں ذومعنویت میں، دوغلے پن میں گھات لگائے دُشمن کی طرح شکار کرتی ہوئی۔ چھپ کر وار کرنے والی، جو نظر آتا ہے وہ اُچک لینے والی اور جو نظر نہیں آتا وہ ٹھونس دینے والی۔۔۔ بہزاد کے قالب میں صنم کو بھرنے والی۔ بعض اوقات قدرت بھی آسمانوں سے انسانی لطیفے ارسال کرتی ہے۔ پھبتیاں گھڑتی ہے، جنسِ آدمیّت کے ساتھ مخول کر جاتی ہے۔ انسان کو خود اسی کی ہیئت ِترکیبی کے ہاتھوں مجبور کر دیتی ہے۔ عوام الناس کی تفنن طبع کے لیے لطیفائی رُوپ میں ڈھال دیتی ہے کہ جہاں سے گزریں پیچھے تفریحِ طبع ”اوئے اوئے“ کی بدروؤں میں انقباض کا نکاس کرتی رہے۔ یہ بھی ذہنی صحت کے لیے کتنے ضروری ہیں۔ خود کو مکمل اتم اور باوقار کا تفاخر حاصل کرنے کے لیے یہ بگاڑ یہ کمتری کتنی ضروری یہ ناخالص جنس، انسان اور جانور کے بیچ، عورت اور مرد کے بیچ کا رُوپ۔۔۔ معاشرے کی ذہنی صحت کے لیے لطیفیائی معالجہ قدرتی کلوننگ۔۔۔
دو دھڑوالا بچہ پنجرے میں بند جس کے دیکھنے کو ٹکٹ لگا ہو اپنے ذرا ذرا ہاتھوں سے تماشاگاہ کی طرف راغب کرتا پچکے ہوئے چہرے اور اعضا والا بونا۔ تالیاں پیٹتا چہرہ پینٹ کیے ہوئے ناچتا گاتا وجود کی بھیک مانگتا ہوا ہیجڑا۔ ریچھ اور بکری کا تماشا، سانپ اور نیولے کا تماشا بندر اور بندریا کا تماشا اور یہ مہنگے بوتیکس اور پارلرز سے سج کر نکلتا ہوا تماشا، جس کے رنگ میں پورا بازار رنگ جاتا تھا، جیسے سمندر کے نیلگوں پانیوں میں ڈوب جاتا ہو جیسے برف کی سفید چادر کو اوڑھ لیتا ہو، جیسے سُرمئی شام کو پہن لیتا ہو۔ اتنا قیامت خیز حسن کسی عورت کو کیوں نہ مِلا آج تک۔ حسن کا کوئی علیحدہ ہی پیمانہ، الگ ذائقہ،الگ ہی کوئی حساب اور تناسب۔ الگ ہی عناصر اور ترکیب ِاستعمال، جسے اس حسن کی چاٹ لگ گئی پھر کسی نازک اندام حسینہ میں مزا نہ رہا۔ قدرت نے منفرد وحشی لذت کے سامان کیوں بھر دیئے۔ بازاری تماشا، دودہڑ والا بچہ، ریچھ اور بکری کی دوستی، نیولے اور سانپ کی لڑائی بندر اور بندریا کا رُوٹھنا، ماننا کیسے عجیب اور دلچسپ کھیل پورا بازار کھیلتا۔
اٹھارہ برس کا ہوئے اسے ایک سال گزرا لیکن اُس کا شناختی کارڈ نہ بنوایا جا سکا تھا، ورنہ جس بازار کی وہ جنس تھا اُسے اُدھر ہی دھکیل دیا جاتا۔ اُدھر امریکہ و یورپ کے بازاروں میں جہاں اس انوکھی ترکیب والی فصل کی خوب کھپت تھی، یوں یہ باعزت خاندان اس طعنے سے نجات پا سکتا تھا، وہاں جہاں وہ بزنس ٹورز لگاتے اپنی مصنوعات کی کھپت کے لیے بازار کھوجتے تھے، جہاں شناخت کا عمل بالکل ذاتی تھا، لیکن اُس کا بے فارم اُس کارد تھا۔ وہ جب بھی تصویر اُتروانے کو جاتا، ہونٹوں پر لالی، آنکھوں پر آئی شیڈز، ترشی ہوئی بھنویں۔ ناک میں کیل کان میں بالی، گلے میں مالا، اُونچا پونی ٹیل، کھلے گلے اور اُبھرے سینے والی چست شرٹ۔
اُس کی ولدیت کے خانے میں جو نام لکھا جاتا تھا وہ مُلک کی ایک معروف سیاسی شخصیت کا تھا جو ہر الیکشن میں ایک باعزت سیاسی نمائندہ کے طور پر اسمبلیوں میں براجمان ہوتے تھے۔ کتنا باعث ِشرم تھا وہ جتنا چھپایا جاتا اُتنا ہی عریاں ہوتا جتنا انکار کیا جاتا اُتنا ہی اصرار کرتا۔ یہ پکا ثبوت سیاسی ساکھ اور خاندانی وقار کو تباہ کر دینے والا ثبوت۔ یہ بگڑے ہوئے مسخ شدہ مکمل انسانوں کی بھیڑ میں اس قدر نمایاں کیوں ہو جاتے ہیں۔
وجود کی غلاظتوں کو گٹربرد کر دیا جاتا ہے۔ چشم پوشی ناک پر کپڑا، ایئرفریشنر، اگزاسٹ، فین، تیزاب، فنائیل، گندے جرثومے مار دینے کو ایجاد ہوئے ہیں۔ اچانک ایک روز بازار میں لوٹ سی پڑ گئی جیسے ڈھاٹے دار بندوق برداروں نے ایک ہی ہلے میں سب نوچ کھسوٹ لیا ہو۔ تمام تر سجاوٹوں اور ہمہ رنگیوں سے بازار چھلکتے رہے لیکن زندگی اور رس کسی نے نچوڑ لیا تھا۔ دو روز سے صنم کا کہیں اتہ پتہ نہ تھا۔ انتظار کی سولی سے ٹنگی نگاہیں مندنے لگی تھیں۔ سگریٹ پان کے کھوکھوں پر گرم موضوع سوگواری میں تبدیل ہونے لگا تھا۔ سارے شوخ رنگ حیران تھے۔ سُرخ اور کرمزی گلابی کلیجی گوڑھے رنگ پھیکے پڑ رہے تھے۔ نیلے سبز رنگ شب خوابی کا لباس اوڑھنے لگے تھے۔ سفید پیلا پژمردہ چہرہ لیے جیسے صف ِماتم میں بیٹھے ہوں۔وہ جس کی بازار میں رل پڑی تھی جوکم باب ہوتے ہوئے بھی پایاب تھا۔ کھوکھوں، تھڑوں، ریڑھیوں، تنوروں سے شاپنگ مالز تک کسادبازاری، مندی کا سودا، بھلا کبھی بت بھی بکے ہیں۔ بت فروشی نہیں بت شکنی شعار ہے یہاں کا۔ اغواکاروں کے فون آتے رہے تاوان کی رقم دس کروڑ سے گھٹتے گھٹتے دس لاکھ ہو گئی۔ دس لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ کے قعرِمذلت میں جست لگا گئی لیکن وارثوں کی جانب سے کوئی جوابی کارروائی عمل میں نہ آئی۔ کسی پولیس اسٹیشن پر رپورٹ تک درج نہ ہوئی۔ بازار والے ہزار دو ہزار بھی چندہ جمع کرتے تو دو کروڑ کے باعزت تاوان کے بعد وہ پونی ٹیل والی صراحی دار گردن اکڑا کر تفاخر سے رہا ہوتا اور یہ قرض جانِ ناز پر رکھتا تھوڑی چکا ہی دیتا بازار کی مندی کو اپنے تیز رنگوں میں رنگ دیتا۔ لیکن کسی تجوری کا منہ کھلا ہی نہ جن تجوریوں میں وہ تیز بکری ڈلوانے کا باعث رہا تھا۔ مہینہ بھر جب اُس کا کوئی وارث پیدا نہ ہوا تو ایک روز سویرے سویرے وہ خودبخود ہی بیچ بازار آن کھڑا ہوا۔ پر نچا راج ہنس سا خود پر گزرنے والی روداد رو رو کر سناتا ہوا، اور قریبی چوکی پر بیٹھے سپاہی اُس کی برہنہ پنڈلیوں کے سیخ کباب نگلتے ہنس ہنس سنتے تھے۔ بازار کی اُداس فضاؤں نے انگڑائی کھول کر اُسے خوش آمدید کہا۔ اغواکاروں نے تاوان کی رقم شاید اُس کے بدن کی لوٹ کھسوٹ سے ہی وصول پالی تھی، پھر بھی اُس کے کھانے رکھنے کے اخراجات دوبھر ہو گئے تھے۔ بہزاد کے صنم کو شاید یہی بے توقیری اُداس کر گئی تھی۔ اس دورانیے میں باوردی ڈرائیور اور گن مینوں کی حفاظت والی چارگاڑیاں بازار میں سے گزریں، جنھیں دیکھ کر پولیس کے سپاہی اپنی اپنی پوزیشن پر اٹین شن ہو گئے۔
سیٹھ عنایت اللّٰہ کی مرسیڈیز، شیخ شاہد اللّٰہ کی لینڈ کروزر، مسز عنایت اللّٰہ کی ہنڈااکارڈ، اور مس فاطمہ اللّٰہ کی فراری۔
ہر گاڑی کے ہر ڈرائیور نے اس مجمعے میں ایستادہ بت کو پہچان کر حیرت کی بریکیں لگائیں، لیکن مالکان نے بندشیشوں پر چڑھی دُھند میں سے فطرت کی ڈھٹائی اور بے حیائی سے آنکھیں چرا لیں۔
”زندہ چھوڑ دیا کم بختوں نے۔۔۔“
فاطمہ پہلو میں بیٹھے منگیتر سے ہنی مون پلین کرنے لگی۔ شیخ عنایت اللّٰہ آج کی شیڈول میٹنگز کے بارے میں سیل فون پر استفسار کرنے لگے۔ شیخ شاہد اللّٰہ شام کی فلائیٹ کا ٹائم کنفرم کرنے لگے اور مسز عنایت اللّٰہ نے کہا تو صرف اتنا کہا:
”ڈرائیور گاڑی ذرا ڈاکٹر کے کلینک کی سمت موڑ لو۔ لگتاہے، بی پی شوٹ کر گیا ہے۔۔۔“
صنم آٹھ کنال کی کوٹھی میں یہ اطمینان کر کے داخل ہوا کہ گھر میں اپنا کوئی نہیں ہے۔ نوکروں، نوکرانیوں کی فوج نے گھیر لیا، جیسے ٹکور کرنے ہلدی لون لگانے، دودھ میں کچا انڈا گھول پلانے اور کئی مرہم تعویذ اور ٹوٹکے پہلے ہی تیار رکھے بیٹھے تھے۔ کیا ہوا کہاں ہوا کا شور۔ ٹکوریں سینک اور مرہم۔
”بس منورنجن کیا اور چھوڑ دیا کہتے تھے تجھے مارتے ہوئے افسوس ہوتا ہے۔۔۔“
”یعنی وہ کہتے تھے۔ بت کو توڑنے کا فائدہ پجاری بے نوا ناراض ہو گئے تو خدا اُن کے دھندے میں بے برکتی ڈال دے گا۔ وہ جب بھی اغواء برائے تاوان کی پلاننگ کریں گے کوئی بت جال میں پھنس جائے گا کبھی کوئی پورا مرد یا عورت قابو میں نہ آئے گا، جس کے لیے لواحقین منہ مانگے دام دینے پر رضامند ہو جائیں۔۔۔“
وہ پہلی بار ادھورے پن کے تماشا جیسے دُکھ سے دوچار ہوا تھا، لیکن ان دنوں بازار والوں کو ایک دوسرا تماشا ہاتھ لگ گیا تھا۔ اسی لیے اُس کے گوشہ نشین ہونے کی خبر اپنی پوری اہمیت نہ بنا سکی۔
الیکشن کا تماشا، ایسا کاروبارِ بازاری جس میں ہر نشئی ہر معذور ہر بے کار کو کام مِل گیا تھا۔ نعرے لگانے جھنڈے لہرانے کا کاروبار۔ جھنڈیاں بنانے، جھنڈے پوسٹر لکھنے، وال چاکنگ کرنے، جلسوں میں کرسیاں لگانے، چرانے برسانے، مخالفین کو گالیاں دینے،اُن کے خاندانی رازوں شجروں کے اشتہار بنانے، کالم لکھنے، لفافے وصول کرنے، ٹاک شوز کو بھرپور ڈرامہ اور تھرل بنانے کے لیے افرادی قوت کی مانگ بے پناہ بڑھ گئی تھی۔ روزگار کے اتنے متنوع ذرائع ہاتھ آ گئے تھے کہ صنم کی تفریح کے لیے تو فرصت ہی نہ بچی تھی۔ کسی کو یہ خیال ہی نہ رہا تھا کہ پُرکشش اُبھاروں والے اُس سینے میں بھی ایک دل ہو سکتا ہے جس کے اندر بھی کچھ ٹوٹتا اور بکھرتا ہے۔ وہ تو بازار کا بت تھا۔ کرتب دکھانے والا رِیچھ، بندر، نیولا اور سانپ، پنجرے میں بند دو دھڑوالا بچہ، دوسروالا بچہ، سڑکوں پر ناچنے والا ہیجڑا، مسخرا، ان تماشاگاہوں کے اندر دل جیسی شئے کا کیا کام۔ اس کھوئے ہوئے دل کا سراغ لگانے کی فرصت کس کے پاس ہے۔ الیکشن کے اُبلتے کڑاہے میں ہر فرصت، ہراحساس، ہر جذبہ، ہر اصول، ہر قدر جھونک دیئے گئے تھے۔
صنم کا منا سا چڑی جنتا دل بھی انجانے میں ٹوٹ گیا تھا، لیکن اُس کے ٹوٹنے کی صدا اس پُرشور ہنگامے میں کوئی سماعت نہ رکھتی تھی۔ وہ بے سماعت صداؤں کو کرچی کرچی بت میں دفن کر دینے کی کوشش میں تھا۔ وہ ٹوٹے ہوئے بے شمار زرّوں کو بند کمرے میں بکھیرے واپس بت کے قالب میں سمیٹنے میں کئی روز سے مصروف تھا۔ اس کے رنگ پھیکے پڑ گئے تھے۔ کیونکہ جھنڈیوں اور جھنڈوں کے شوخ رنگ مخالفین پر اُچھالے جا رہے تھے۔ الزامات کی تڑپتی پھڑکتی بوٹیاں، کسی زشخے کے لچکیلے بدن جیسے ننگے نعرے۔ مشتعل کرنے والی جذباتی تقریریں جو بین شدہ گیتوں کی نسبت زیادہ لذیذ اور اشتعال انگیز تھیں۔ ہیجانی چیخم دھاڑ کرتا بے ہنگم میڈیا۔اتنے بے تحاشارنگوں میں صنم کا رنگ کسے یاد رہتا۔ بازار خودست رنگا، پٹاخہ بن چکا تھا۔ صنم کے وجود کے ملگجے، سیاہ سُرمئی رنگ شبِ غم کے لبادے میں کیموفلاج کر گئے تھے۔جڑواں دھڑ والے بچے، دوسروالا بچہ، پنجروں میں بند تماشہ، سرکس میں تنبو توڑ رش لانے والے بونے، ان دنوں سب تماشے بے کار ہو چکے تھے۔ اُن کی تفریح الیکشن تماشے کے مقابل ماند پڑ چکی تھی۔ سبھی تماشے الیکشن تماشے سے مات کھا چکے تھے۔ اُن تماشوں کے ست رنگ الیکشن پھل جڑی نے راکھ کر دیئے تھے۔
دنوں بعد اچانک یہ خبر لگی کہ وہ بت آج پھر سوئے بازار نکلا ہے۔ پورا بازار شوخ سُرخ رنگ میں نہا گیا۔ لال شوخ رنگ کیپری گھٹنوں سے ذرا نیچے۔ شفاف ملائم پنڈلیاں جس میں سے یوں جھانکتیں جیسے شیشے کی بوتل جس کی آدھی شراب ایک ہی ڈِیک میں کسی شرابی نے چڑھا لی ہو۔ آدھی بھری آدھی خالی شیشے کی بوتل لال سینڈل کے سٹینڈ پر سجی ہوئی جس کے نشے میں سارا بازار بہکنے لگا تھا، جس جس بازار میں گلی میں اِس نشے کی بوتل کاڈاٹ اُٹھتا پیاسوں کے ٹھٹھ لگ جاتے۔ مجمع بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ یہ جانے بنا کر وہ بت کہاں جا رہا ہے کہاں لے جا رہا ہے۔
شیخ عنایت اللّٰہ اپنے ورکروں کی کارکردگی پر اُنھیں بُری طرح ڈانٹنا چاہتے تھے لیکن مارے صدمے کے لفظ اپنی اصل ہیئت میں ادا ہی نہ ہو پا رہے تھے۔ مخالف کے جلسے میں ایسا رش اُمڈا تھا کہ میڈیا کے کیمرے اور حلق بس وہیں روشنیاں بکھیرتے پوری طاقت سے چیخ رہے تھے۔ یہاں کیمروں کا رُخ ہوتا بھی تو خالی کرسیاں تضحیک اُڑاتیں شہر کے سارے بے روزگار، نشئی، مجرم کئی روز پہلے سے بک تھے لیکن آخری رات دوسری پارٹی دوگنی دیھاڑی کی ادائیگی کر کے سبھی کو اُٹھالے گئی تھی۔
کس لفظ پر تالیاں پیٹنی ہیں۔ تقریر کے کس وقفے پر تنبو توڑ نعرے لگانے ہیں۔ کس مقام پر اُچھل اُچھل کر مخالفین کو گالیاں دینی ہیں۔ ساری ریہرسل پڑی رہ گئی اور اداکار کسی دوسرے ڈرامے کے اسٹیج پر مصروف ہو گئے۔ مِل سے آئے ہوئے سو دو سو مزدور ہزاروں خالی کرسیوں میں دُور دُور یوں سجائے گئے تھے کہ میڈیا کا کیمرہ بس سروں کے اُوپر اُوپرسے گھوم جائے لیکن خالی پنڈال کسی کیمرہ ٹرک سے بھی بھرا بھرا محسوس نہ ہو رہا تھا۔
زبردستی بٹھائے گئے یہ مزدور جمائیاں لیتے معاوضے کے مطابق طے شدہ وقت کے خاتمے کے منٹ گن رہے تھے۔ کئی روز کے تھکے ہوئے حلق اِشارہ پا کر نعرے تو بلند کرتے لیکن اِس آہنگ سے نہیں کہ میڈیا کے کیمروں کو متوجہ کر سکیں۔ کئی بار جہاں تالیاں نہیں پیٹنی تھیں وہاں پیٹ دیتے جہاں نعرے نہیں لگانے وہاں لگا دیتے پورے پورے خاندان کی بکنگ تھی۔ بعض اوقات بچے وہ نعرے بھی بلند کر دیتے جو وہ گزشتہ رات مخالف کے جلسے میں لگا چکے تھے۔ آج کا جلسہ ایسا ہی بے ترتیب اور بدنظم تھا کہ یکدم جلسے میں آگ سی لگ گئی، پورا بازار اُمڈا چلا آتا تھا شاید اسٹیبلشمنٹ کی غیبی امداد آن پہنچی تھی، لیکن ان کے نعرے کرائے کے حلق کے نعرے نہ تھے۔ وہ تو دل سے، شوق سے، جذبے سے عجب رنگین سے نعرے لگا رہے تھے۔ میڈیا کے سارے کیمرے اسی مرکز پر روشنیاں بکھیر رہے تھے۔ مخالف پنڈال سونا ہو گیا تھا سارے رنگ ادھر منتقل ہو گئے۔ ہنگامہ تھرل ہیجان نعرے ناچ گانے، مخالفین کے خفیہ رازوں کی ننگی پھڑکتی ہوئی مصالحے دار بوٹیاں، گالیوں اور طعنوں کے گرم کباب، رقص کے بھاؤ، میڈیا کی دل پذیری کا سارا سامان جمع۔ مخالف کا مجمع بھی ادھر ہی اُمڈ چلا آتا تھا، جیسے کسی نے آوازہ لگا دیا ہو۔ چیز ونڈی دی آئی جاؤ کھائی جاؤ۔
سراسیمہ سے شیخ صاحب کی نگاہ پنڈال کے صدر دروازے پر ترازو ہو گئی عوام کا جمِ غفیر تھا کہ عارضی دروازے اُکھڑ گئے تھے۔ میڈیا کے اینکرز ریسلنگ کے ریفریوں کی طرح اُچھل پھاند کر رہے تھے۔ بھائیں بھائیں کرتی خالی کرسیاں اب انسانی چہروں سے اُبل رہی تھیں۔ کامیاب جلسے کا پورا رنگ اور رس کسی غیبی سے خدائی سے اسٹیبلشٹائی سے خفیہ حکم کی بروقت تعمیل معلوم ہوتا تھا۔ تبھی بے قابو نشئیوؤں کے جھومتے جھامتے کندھوں پر سوار عنابی شراب کی ادھ پی بوتل سی چھلکتی تھی جس کا ڈاٹ کھلا تھا اور جھاگ اُبل رہا تھا۔ ہجوم اسٹیج کی سمت بڑھ رہا تھا اور شیخ عنایت اللّٰہ نے مائیک جھپٹ لیا تھا۔
ہم انتہائی فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے صاحبزادے بہزاد عرف صنم سٹیج پر تشریف لا رہے ہیں۔ یہ ہردلعزیز لیڈر پارٹی کا سرمایہ اب ہمارے ہر جلسے کی رونق ہوں گے۔ ہمارا انتخابی نشان۔۔۔
نیچے سے کسی نے آوازہ لگایا۔
ہمارا انتخابی نشان۔
”بازار کا بت۔“