چھاوں ۔۔۔ جاوید بسام
چھاؤں۔
جاوید بسام۔
ایک موڑ مڑ کر جب میں اس گلی میں داخل ہوا تو ایسا لگا جیسے کسی تالاب کے کنارے آ گیا ہوں۔ آبی پرندوں کی قیں قیں کی آوازوں سے گلی گونج رہی تھی۔ میں حیرانی سے آگے بڑھتا رہا اگلا موڑ قریب ہی تھا، مڑنے پر تجسّس تو دور ہوا مگر قدم بےاختیار رک گئے، بسا اوقات غیر متوقع نظارہ آدمی کو اپنا اسیر بنالیتا ہے۔ میں نے دیکھا ایک پرانے گھر کے وسیع احاطے میں پیپل کے درخت کی چھاؤں میں بہت ساری بطخیں موجود ہیں۔ وہ چھوٹی اور بڑی، بھوری اور کالی تھیں، مگر زیادہ تر دودھ کی طرح سفید تھیں۔ ایک طرف ایک چھوٹا سا تالاب بھی تھا۔ کچھ اس میں تیر رہی تھیں۔ قریب ہی ایک عمر رسیدہ خاتون ایک مونڈھے پر بیٹھی انھیں بالٹی سے خوراک نکال کر کھلا رہی تھیں۔ میں دلچسپی سے انھیں دیکھنے لگا۔
گاؤں دیہات میں عموماً ہر کوئی مرغیاں اور بطخیں پالتا ہے، لیکن نہ جانے کیوں اُس دن اِس نظارے نے مجھے حیرت زدہ کردیا تھا، میں یوں ہی کھڑا رہا پھر اچانک مجھے پیاس محسوس ہوئی۔ میں نے کھنکھار کر سلام کیا اور کہا۔ ” امّاں جی ! پانی مل جائے گا؟ “
” ہاں بیٹا۔” انھوں نے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھنے کی کوشش کی، لیکن پھر بیٹھ گئیں ۔ میں نے دیکھا ان کے گھٹنوں پر موٹے کپڑے لپٹے ہیں۔ ایسا لگتا تھا وہ جوڑوں کے درد میں مبتلا ہیں۔
” بیٹا ! میرا اٹھنا مشکل ہے تم خود ہی پی لو۔ ” انہوں نے مٹکے کی طرف سے اشارہ کیا۔ میں جھجھکتے ہوئے احاطےکا چھوٹا سا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔ بطخیں مجھے دیکھ کر چونک گئیں۔ کچھ تو ڈر کر پیچھے بھاگیں اور کچھ نے ناراضگی کا اظہار کیا اور بہادری سے گردن نیچی کیے مجھ پر چڑھ دوڑیں۔ اماں جی نے کوئی مخصوص آواز نکالی تو وہ رک گئیں۔ میں نے مٹکے سے پانی نکالا۔
” بیٹھ جاؤ بیٹا۔” انہوں نے دوسرے مونڈھے کی طرف اشارہ کیا میں اس پر بیٹھ گیا۔
وہ اپنے کام میں لگی تھیں۔ کبھی بطخوں سے باتیں کرنے لگتیں تو کبھی انھیں ڈانٹ دیتیں۔
کچھ دیر بعد انہوں نے پوچھا۔” کیا شہر سے آئے ہو؟ “
“جی ” میں نے کہا۔
انھوں نے گردن ہلائی اور خاموش ہوگئیں، شاید اب کچھ اور پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ پھر وہ بامشکل اٹھیں اور بولیں۔ ” اس کالے سر والی بطخ کو پکڑنے میں میری مدد کرو گے؟ “
” آپ بیٹھیں میں پکڑتا ہوں۔” میں نے کہا۔
اس لنگڑی بطخ نے مجھے پورے احاطے میں نچایا اور بہت مشکل سے ہاتھ آئی۔
” ذرا مضبوط پکڑو۔ لگتا ہے تم نے کبھی کوئی جانور نہیں پکڑا۔ ” وہ بولیں۔
میں زیر لب مسکرایا، کیونکہ یہ حقیقت تھی میں نے بچپن میں کچھ چوزوں اور توتے کے علاوہ کبھی کوئی جانور نہیں پالا تھا۔ انھوں نے دوا نکالی اور بولیں۔ “اس کی داہنی ٹانگ آگے کرو۔ “
یوں میں نے دوا لگانے میں ان کی مدد کی۔
” سبز چائے پیا کرو نزلے کو فائدہ دیتی ہے۔ ” انھوں نے کہا۔
میں نے سعادت مندی سے گردن ہلائی۔ کچھ دیر اور وہاں بیٹھا اس ماحول سے لطف اندوز ہوتا رہا پھر سلام کر کے باہر نکل گیا۔
میرا پیشہ قدیم دور کے سوداگروں جیسا ہے۔ بعض چیزیں میں شہر سے گاؤں لے جاتا ہوں اور بعض چیزیں وہاں سے شہر لے آتا ہوں۔ اس ادل بدل سے جو یافت ہوتی ہے۔ اس سے میرا گزارا ہوتا ہے۔ وہاں میں کافی عرصے سے جا رہا تھا۔ ایک دکاندار سے میری اچھی نبھ رہی تھی۔ مہینے میں ایک بار میرا وہاں کا چکر ضرور لگتا تھا۔ اسٹیشن سے نکل کر میں پیدل بازار تک جاتا جو زیادہ دور نہ تھا۔ آج اتفاق سے اس گلی میں جانکلا تھا۔ دکان دار کا نام عبد الکریم تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے مرحبا یا اخی ! کا نعرہ بلند کیا اور اٹھ کر گلے ملا۔
” آؤ بیٹھو۔ آج تو منہ پر رونق نظر آرہی ہے لگتا ہے سفر اچھا کٹا ہے۔ ” وہ بولا۔
میں نے سامان کا تھیلا اسے دیتے ہوئے کہا۔” سفر تو جیسا کٹتا ہے ویسا ہی کٹا، البتہ تمھارا گاؤں بہت اچھا ہے۔ “
” گاؤں تو تم بہت عرصے سے دیکھ رہے ہو آج کیا نیا دیکھ لیا؟ “
میں نے اسے امّاں جی کا بتایا۔
” اچھا اُم بطہ کی بات کر رہے ہو۔ میں نے بھی انہیں ہمیشہ بطخوں کے درمیان دیکھا ہے۔ “کریم کو عربی زبان سے بہت دلچسپی تھی۔ ایک موٹی لغت ہر وقت اس کے پاس رکھی رہتی، فرصت میں وہ اسے پڑھتا رہتا تھا۔
” مجھے ان کے بارے میں بتاؤ۔” میں نے کہا۔
” بس اخی ! وہ بیچاری اکیلی ہیں۔ ایک بیٹا تھا، غیروں کی جنگ میں اپنوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ اب وہ بطخیں ہی اس کی دوست اور معاشی سہارا ہیں۔ “وہ بولا۔
اس دن کے بعد میں جب بھی اُس گاؤں میں جاتا میرے قدم خودبخود اس گلی کی طرف اٹھ جاتے۔ وہ ہمیشہ اسی طرح بیٹھی نظر آتیں۔ میں سلام کر کے مونڈھا سنھبال لیتا۔ اب بطخیں مجھے پہچاننے لگی تھیں۔ اماں جی پوچھتیں۔ ” اور سناؤ ۔۔۔تمھارا شہر کیسا ہے؟ “
“ویسا ہی بگ ڈٹ بھاگتا ہوا بیمار بیمار سا۔ ” میں جواب دیتا۔
” بیمار تو نہیں بھاگتے؟” وہ مسکرا کر کہتیں۔
میں خاموش ہوجاتا۔ شہروں کے بارے میں میری سوچ دوسروں سے الگ تھی۔ وہاں کی مصروف زندگی مجھے پسند نہیں تھی۔ وہ بھی چپ سادھ لیتیں۔ انھوں نے میرا کام، میرے حالات، یہاں تک کہ کبھی میرا نام بھی نہیں پوچھا تھا۔ میں بھی ان سے ذاتی سوالات نہیں کرتا تھا۔ وہ مجھے چھوٹے سے کپ میں سبز چائے پلاتیں۔ میں کچھ دیر بیٹھا رہتا پھر سلام کر کے آٹھ جاتا۔ وہ لمحات جو میں اس گھر میں گزارتا تھا۔ میرے اندر نئی ہمت اور تازگی بھر دیتے، تصنع اور خود غرضی سے پاک اس کچے صحن میں ایک الگ دنیا آباد تھی۔ جتنی دیر میں وہاں رہتا اپنے خوف، فکریں اور اندیشے بھلا دیتا۔ میرا دل مسرت سے لبریز ہوجاتا اور واپس آنے کے بعد بھی کئی دنوں تک میں خوشی اور خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا تھا۔
ایک دن میں وہاں بیٹھا تھا وہ بولیں۔ ” یہ بطخ کے دو چوزے لے جاؤ ۔ تمہارے بچے کھیل لے گے۔ ” ان کی نظریں میرا چہرہ ٹٹول رہی تھیں۔
” جی ۔۔۔۔ کھیل تو لے گے لیکن میرے چھوٹے سے فلیٹ میں نہ دھوپ آتی ہے نہ ہوا۔ ” میں نے سوچتے ہوئے کہا۔
وہ خاموش ہو گئیں۔ پھر کچھ دیر بعد بولیں۔
” کسی دن بال بچوں کو ملانے کے لیے لے آؤ۔ “
” ہاں لاؤں گا۔ ” میں نے کہا۔
مگر وہ دن کبھی نہ آیا۔
ایک شام میں کریم کے پاس بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ میرے منہ سے بے اختیار نکلا میں گاؤں میں آکر رہنا چاہتا ہوں۔
“ماشاء اللہ یا اخی! ایسا ہرگز نہ کرنا۔ لوگ شہروں کو جارہے ہیں اور تم شہر سے بھاگ رہے ہو۔” وہ تیزی سے بولا۔ “
میں حیران تھا کہ یہ بات میرے منہ سے کیسے نکل گئی میں نے تو کبھی یہ بات نہیں سوچی تھی۔ شاید میرے لاشعور میں کہیں موجود تھی جو اچانک زبان پر آگئی۔ بہت عرصے تک میں وہاں اسی طرح جاتا رہا۔
ایک دن جب میں وہاں گیا تو گلی میں قدم رکھتے ہی چونک پڑا۔ میرے کان وہاں کی آوازوں کے عادی ہو چکے تھے، لیکن اس دن وہاں خاموشی طاری تھی۔ میں موڑ پر گھوما تو دیکھا احاطہ خالی پڑا ہے۔ ایک بھی بطخ وہاں نہیں تھی۔ میں پریشان کھڑا تھا کہ سامنے کوٹھری سے ایک ادھیڑ عمر عورت باہر آئی میں نے اسے اکثر پڑوس کے گھر سے نکلتے دیکھا تھا۔ میں نے پوچھا کہ اماں جی کہاں ہیں؟ اس نے کوٹھری کی طرف اشارہ کیا۔ میں جھجھکتے ہوا دروازے پر جاکر کھنکھارا نحیف سی آواز آئی۔ کون؟ میں نے نام بتایا۔ آجاؤ۔ میں اندر داخل ہوگیا۔ مدہم روشنی میں وہ جھلنگا سی چار پائی پر بیمار پڑی تھیں۔ میں نے سلام کیا ۔ انھوں نے آنکھیں کھول کر دیکھا اور بولیں۔ ” آگئے تمہارا شہر کیسا ہے؟ “
” آپ بتائیں آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ “
” اللہ کا شکر ہے۔ ” وہ دھیرے سے بولیں۔
” دوائی لی؟ ” میں نے پوچھا۔
” ہاں لی ہے۔ “
“شہر چلیں کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھاتے ہیں۔”
” تم تو کہتے کہ تمھارا شہر بیمار ہے؟ ” انہوں نے ہسنے کی کوشش کی۔
” چھوڑیں، میرے ساتھ چلیں۔ “میں نے کہا۔
” نہیں۔۔۔۔ کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ” وہ خلا میں دیکھتے ہوئے بولیں۔
میں نے بہت ضد کی، لیکن وہ نہیں مانیں۔
میں نے بطخوں کا پوچھا۔
” دے دیں۔۔۔۔انھیں تو دینا ہی تھا۔” انہوں نے چہرہ گھماتے ہوئے کہا۔
میرا دل بوجھل ہو رہا تھا۔ میں وہاں سے اٹھ کر کریم کے پاس چلا گیا۔ کریم نے بتایا کہ انہوں نے بیوپاری کو بلا کر تمام بطخوں کا سودا کردیا۔ گھر بھی انھوں نے ایک فلاحی ادارے کو دے دیا تھا۔
” لیکن کیوں؟” میں نے حیرت سے پوچھا۔
وہ بولا۔ ” اخی۔۔۔۔ ام بطہ پیش بین ہیں۔ انھیں چاپ سنائی دینے لگی ہے۔ “
” کیسی چاپ؟ ” میں نے ہونقوں کی طرح پوچھا۔
” بچے نہ بنو۔ وہ ستر سال سے اوپر کی ہیں۔”
میں اس سے نظریں چرا کر باہر دیکھنے لگا۔ اس نے اپنی لغت اٹھائی اور کوئی لفظ تلاش کرنے لگا۔
اس دفعہ جب میں وہاں گیا تو راستے میں بارش شروع ہوگئی۔ سامان زیادہ تھا۔ بھیگنے کے ڈر سے میں سیدھا کریم کے پاس پہنچا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ خاموش ہے اور مجھ سے نظریں نہیں ملا رہا، سامان کا حساب کر کے جب ہم فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا۔ ” اور کیا خبریں ہیں؟“
اس نے دھیرے سے کہا۔ ” یا اخی ۔۔۔۔ ام بطہ کا انتقال ہوگیا۔ “
میرے ہونٹ سختی سے بنچ گئے۔ مجھے ان سے پہلی ملاقات یاد آرہی تھی۔ کریم نے مجھے اِدھر اُدھر کی باتوں میں لگانے کی کوشش کی لیکن میں نے دلچسپی نہیں لی۔ پھر میں وہاں سے اٹھ گیا۔
” اُدھر جاؤ گے؟ ” اس نے پوچھا۔
” شاید ” میں نے کہا۔
میں وہاں جانا نہیں چاہتا تھا، لیکن میرے قدم ایک بار پھر مجھے وہاں لے گئے۔ آج بھی گلی سنسان پڑی تھی، کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، کوٹھری میں پرانا زنگ آلود تالا لگا تھا، خالی صحن میں سوکھے پتے اڑتے پھر رہے تھے اور مونڈھوں پر گرد جمع تھی۔ احاطے کی دیوار پر ایک کّوا خلاف عادت خاموش بیٹھا گردن گھما گھما کر جیسے کچھ سننے کی کوشش کر رہا تھا۔ میری بے چین نگاہیں کچھ ڈھونڈ رہی تھیں، اچانک مجھے لگا کہ گرمی کی شدت بڑھ گئی ہے، سورج نیچے چلا آیا ہے اور وہ چھتنار درخت کٹ کر گرچکا ہے۔ جس نے مجھے کچھ دنوں کے لیے دوڑتی اور جھلستی زندگی میں اپنے سائے میں لے لیا تھا۔ جب میرے پیر وجود کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے احتجاج کرنے لگے تو میں بوجھل قدموں سے گلی پار کرگیا۔