داستان (قسط اول) ۔۔ ڈاکٹر صابرہ شاہین

داستان

ڈاکٹر صابرہ شاہین

ڈیرہ غازی خاں

قسط اول

گئے وقتوں کی بات ہے اک نجومی نے ہم سے کہا تھا کہ بی بی۔۔۔ آپ عمر بھر محبت باٹنے کا کاروبار کریں گی ۔ مٹھی بھر بھر کر پیار ورتائیں گی اور چراغ تلے اندھیرا کے مصداق آپ کے پلو میں کبھی محبت کی پینی بھی نہ ٹپکے گی۔ اب اس علم کے اندھے (جی عقل کے اندھے تو دوسری قسم ہے نا)اور جہل سے پر رال ٹپکاو  بندے کو کون سمجھاتا کہ ہم  زندگی سے محبت کے طلبگار کہاں  رہے ہیں؟  ہمیں تو بس دوستانہ اخلاص کی اک خمار چڑھاو لبا لب  چھلکتی صراحی کے سوا کچھ نہیں چاہیئے ہے۔۔۔۔۔جس کا امکان نہ پورب سے ہے  نہ پچھم سے۔ باقی دو سمتوں کے نام کچھ ایسے سندر بھی نہیں کہ ان کو  گنوایا جائے۔۔۔
خیر ہم بتا رہے تھے ۔وقت کے دھارے میں لمحوں ‘دنوں’ہفتوں ‘مہینوں اور سالوں کا خالص پسینہ بہہ کر اپنی شناخت  کھو چکا تو وہ ذات_شریف نجانے کیسے وقت کی جھولی سے مچل کر اچھلے اور سامنے آن ٹپکے۔ فرمانے لگے بی بی یوں خاموشی سے محبت ورتانے والوں کو محبت کے جواب نہیں آتے۔ کچھ کاری کرنا ہو گی ۔۔۔۔۔کہو تو پیر  پھکڑ سایئں سے ملاقات کرا دوں ؟ ہم نے پوچھا مگر کیا پانے کی تمنا کریں ہم ۔۔۔۔؟کہ عزت’ شہرت’ اور پیٹ بھر اناج تو ہمیشہ سے در کی باندی رہی ہے اپنی۔۔۔۔ نہیں اب نہیں چاہئیے۔۔ کوئی فقیر_با تدبیر۔۔۔ بولے او بھولے بادشاہو ! وہ تو ایسا صاحب_ کرامت ہے کہ ہفتوں میں بچھڑے محبوب کو قدموں کی خاک چٹا دیتا ہے۔آپ بھی۔۔۔۔؟ ہم دو دلی سے سوچا کئے۔۔ ۔ پھر خیال آیا اتنے برسوں کی کالی دلدل میں  گردن تک ڈوبا لتھڑا محبوب تو باقائدہ طور پر سالخوردہ ریچھ بن کر تلوے چاٹنے کی طاقت بھی کھو چکا ہو گا ۔ سو دفع کرو ۔ لہذا اک کھڑی ہتھیلی کا وار اس موئے نجومی کی پیشانی پر جڑا اور دلدوز چیخ کے ساتھ آٹھ بیٹھے کہ ہمارا بھر پور وار سائیڈ ٹیبل کے تیز دھار کنارے پر وج چکا تھا۔۔۔۔

یونیورسٹی سے واپس آئے تو تھکن روئیں روئیں میں چیخ آٹھی ۔ پلنگ پر لیٹنے بھی نہ پائے تھے کہ ہم زاد کی مرچیلی سر میں سنسناتے بول کان پڑے
“کنیاں مسافراں نوں ‘ اج تک توں پار لایا” ہم نے جل کر گرہ لگائی
” اللہ دی قسمے فر وی ‘ شاہ جیونڑاں نہ آیا ”
آس کے ہونٹوں پر خبیث قسم کی مسکان کا اک لہریا سا گزر گیا۔ اور بولی تم نے آنے دیا ہوتا تو آتا وہ شاہ جیونڑاں۔۔۔ہوں  ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔۔۔۔اس نے انگلیاں نچائیں ۔ اب بک بھی چکو ہم بہت تھک گئے ہیں ۔ زیادہ دیر تمہاری نصیحت پٹاری کے رنگ نہیں دیکھیں گے۔ اس نے اک نگاہ_ غلط انداز سے میری طرف دیکھا اور گویا ہوئی مجھے زیادہ کچھ نہیں کہنا بس تم اپنے لیے بھی کسی منزل کا انتخاب کرلیتیں ۔۔۔۔ جس طرح زمانے بھر کو راہ دکھاتی  پھرتی ہو۔میں نے کروٹ بدلی اور اس کی آنکھوں میں گھسڑتے ہو ئے انداز سے پوچھا منزل سے کیا مراد ہے تمھاری۔۔۔؟   وہ گڑبڑا کر اٹکتے ہوئے بولی کوئی سنگی’کوئی ساتھی کوئی جوڑی دار۔ ۔۔۔آووو۔۔۔۔۔۔۔ اب میری آنکھوں میں شرارت ناچی۔ او بی بی گپن کماری  کبھی  اسمان کی وسعتوں میں جیومیڑیکل سنجیدگی کے باوا “قطب ستارہ”کو دیکھا ہے ارے وہی جس کا وجود  بھٹکے ہو ئے مسافروں کو درست سمت کے تعین میں مدد دیتا ہے۔یعنی درست راستہ دکھانے والی آسمانی قندیل ؟۔ ہاں ہاں تو۔۔۔۔؟ کیا اس کا جوڑی دار بھی دیکھا ہے تم نے۔۔؟ نن نہیییں تو۔۔،۔ اب اس کی اواز نحیف ہونے لگی تھی ۔ ہم نے اک لمبی سانس لی اور آنکھیں موندتے ہوے ارشادئیے۔تو بس پھر ہمارا جوڑی دار بھلا کب ہو سکتا تھا۔۔۔ ہوں۔۔؟.

شدید گرمی ‘ شکر دوپہر ‘  اور میرے تن پر بس  اک جانگیا اور بنیان نما کرتی  تھی۔ تمام بہن بھائی سوئے ہوئے تھے۔ مگر میں حسب_معمول جاگ رہی تھی۔ اکلاپے اور بے کاری سے بیزار ہوئی تو چپکے سے کمرے کا دروازہ کھولا اور دبے پاوں سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ گھر کی تیسری منزل کی وسیع چھت پر سے مغرب کی طرف کوہ سلیمان بازو کھولے منتظر نظر آیا۔ یہ ہوش ربا منظر  میرے بچپن کی پہلی بھر پور مسکان تھی ۔میرا مرغوب نویلا  پسندیدہ منظر جس پر میری ننھی سی جان فدا تھی۔اتنی شدید دھوپ میں منظر کھو جانے کی حد تک دھندلا گیا تھا۔ مایوس ہو کر نیچےاتری اور سیڑھیوں میں ہی بیٹھ گئی ۔ بے چینی مصر تھی کہ  آٹھو۔۔۔ کچھ کرو ۔سمجھ نہ آتی تھی کہ کیا کیا جائے ؟۔آخر زچ ہو کر صحن کا دروازہ اولانگھا اور روڈ پر نکل آئی ۔روڈ کی دوسری طرف اک بڑی بد رو  بہتی تھی جس میں ننگ دھڑنگ لڑکے گندگی میں اچھل کود کر رہے تھے۔ میرے ہاتھ میں پچاس پیسے کا سکہ تھا ۔نجانے  من میں کیا سمائی کہ میں نے وہ سکہ لڑکوں کے سامنے بد رو میں پھینک دیا۔ لڑکے اس کے حصول کے لیے زیادہ بے ڈھنگے پن سے گندگی میں اچھلنے کودنے’ اک دوسرے کو دھکیلنے’ اور ہاتھا پائی کرنے لگے۔ میں چند لمحوں تک حصول_زر کے لیے آنھیں غلاظت میں لتھڑتے دیکھا کی  اور پھر بے نیازی سے اپنے دروازے کے سامنے لگے سایہ دار نیم کے اک شاخچے پر جا بیٹھی۔ نیم کی پکی زرد نمولی توڑی اور منہ میں رکھ لی کچھ کڑوا کچھ میٹھا ذائقہ اگرچہ لزیذ نہیں تھا تو اتنا برا بھی نہیں لگا کہ نمولی کے مواد کو اگل دیا جاتا۔ بس دوسری نمولی کو منہ میں ڈالنے . . . .  کی حماقت نہ ہو  سکی۔ ٹہنیوں’ پتوں اور نرم شاخوں سے کھیلتے کھیلتے شام ہو گئی ۔اب پہاڑ صاف نظر آئیں گے ذہن میں خیال کا اک تیز چھپاکا سا کوندا ۔چھلانگ لگائی اور دوڑتے ہوئے مکان کی تیسری منزل کی چھت پر جا پہنچی۔ کوہ سیلمان کی ساری بلندیوں اور نیچے اترتی سرمئی اترایوں پر وہی  سجیلی ‘انجان سی سندرتا مسکاتی نظر آئی جو ہمیشہ دکھتی تھی۔ جبکہ کہیں کہیں ڈوبتے سورج کی کرنوں نے عجب سنہرے رنگوں کی دھاریں سی بہا دی تھیں۔  اونچی۔ اونچی چوٹیوں کی ڈھلوانوں  میں دودھیا آب_رواں بل کھاتا  محسوس ہوتا۔ ایسا لگتا کہ یہ پہاڑ زیادہ دور نہیں ہیں اگر میں بھاگتے ہوئے اک لمبی چھلانگ لگاوں تو وہاں پہنچ پاوں گی ۔ اس خیال کا آنا تھا کہ ہم نے پیھچھے  قدم ہٹائےاور تیز دوڑ تے ہوئے چھلانگ لگا دی۔ ہمارے گھر سے متصل ہمسائی کا ایک منزلہ گھر تھا جس کی چھت پر بچھی چار پائی پر ہم  دھڑام سے جا گرے زور کا دھماکہ ہوا کچھ دیر تو معاملے کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کی پھر یاد آیا گوشت کے پہاڑ (گھر کی مالکن) کو اگر پتہ چلا تو۔۔۔۔۔۔؟ اس خیال_خوفناک کا آنا تھا کہ ہم نے زقند بھری  اور چارپائی سے سیڑھیوں کی طرف لپکے۔ اتنے میں گوشت کا پہاڑ بھی دھماکے کی وجہ تسمیہ جاننےکے لیے بھاری رولر کی طرح سیڑھیوں پر گھومتا آوپر تشریفتہ دکھائی دیا۔ ہم نے آو دیکھا نہ تاو بس پہاڑ کے گداز لجلجے سے کولہے سے زور آزمائی کرتے ہوئے بخیر و عافیت پھسلے۔ پہلے اس کے گھر کے صحن اور پھر سڑک پر آکر سانس بحال کرنے کو آن رکے۔ پوری طرح سانس بھی نہ لینے پائے تھے کہ مغلضات کے طوفان کے ساتھ اک بوسیدہ کالا جوتا ہمارے پیروں سے بس بال برابر فاصلے پر دھمک سے آن گرا ۔ ہم نے ایک مرتبہ پھر چوکڑی بھری اور گھر کے صحن میں آن وارد ہوئے

۔شاید جون کا مہینہ تھا شیدید گرمی اور قبرستان کی خاموش فضا میں لو چیختی؛ کوڑے برساتی ہوئی گال چیرتی پھرتی تھی ۔مگر ہم دونوں( میں اور میری ماموں زاد) اس سب کچھ سے بے نیاز  تیزی سے اپنے ننھے ننھے نرم ناخونوں کے ساتھ قبر کی مٹی اکھیڑنے میں مصروف تھے۔  سوکھے گارے کی موٹی لپائی تھی کہ اکھڑنے میں ہی نہ آتی تھی۔ میری ساری خالائیں بے پناہ حسین تھیں اور نانو کہتی تھی کہ میری ماں حسین  تر تھی۔ اب مجھے یہ دیکھنا تھا کہ اماں کتنی حسین ہیں ۔ اور پھر اماں کو بند قبر میں سے چاند بھی تو نظر نہیں آتا ہو گا۔ اس لیے آن کی قبر میں ایک روشن دان بنانا چاہیئے جہاں سے انھیں چاند نظر آئے اور میں اپنی اماں دیکھوں۔ مشقت کرتے کرتے شام ہو گئی اور کوئی روزن تک نہ بن سکا انگلیاں زخمی تھیں اور پوروں سے خون ٹپکنے لگا تھا ۔درد سے پلکوں میں انسو اترنے لگتے تو ہونٹ بھیچ  لمبی سانس لے کر انھیں واپس آنکھوں میں دھکیل دیتی ۔جبکہ ماموں زاد باقائدہ اونچے سروں میں  رونے لگی  تھی۔ اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ اک جگہ سے مٹی کی تہہ اتر چکی ہے اور وہاں سے سرخ رنگ کی پکی اینٹ ہمارا منہ چڑا رہی ہے ۔ کزن رونا بھول گئی اور گھبرا کر بولی پکی اینٹیں تو ناخونوں سے نہیں توڑی جا سکتیں۔۔۔۔ لہذا مایوس ہو کر ہم نے  قبر کشائی کا ارادہ ترک کیا۔ قبرستان سے پار اک ہینڈ پمپ پر پہنچے ۔ اپنی زخمیں انگلیاں دھوئیں  چلو بھر کے پانی پیا اور خیال آیا اماں کو بھی پیاس لگی ہوگی آس پاس نظر دوڑائی اک شاپر پڑا ہوا  نظر پڑا ۔اسے اچھی طرح دھویا پھر  ڈھیر سارا پانی اس میں  بھرا اور پوری قبر پر انڈیل انڈیل کر قبر نہلا کر رکھ دی اور اطمنان سے گھر کی راہ لی ۔اماں کے بعد ننھیال والے یہ کہہ کر لے گئے تھے کہ بچے بہت چھوٹے ہیں۔ اس لیے آپ اکیلے ان کی دیکھ ریکھ نہ کر سکیں گے ۔بچے اپنی نانو ماں کے سامنے رہیں گے  اور ممانی وغیرہ سب مل کر باقی ذمہ داریاں بھی نبھا لیں گی۔ بابا ہمیشہ کے لیے تو نہیں مکان کی تعمیر تک کے عرصے کے لیے مان گئے۔ شاید یہ خیال تھا چھ سات ماہ میں بڑی باجی کچھ گھر داری سیکھ لیں گی۔ ڈھلتی مغرب کا وقت تھا چڑیاں اپنے بسیروں کو لوٹ آئی تھیں ہمسایوں کے گھر کا درخت چڑیوں کے غل سے آباد تھا۔ گھروں میں روشنیاں جگمگانے لگی تھیں ۔جبکہ بابا ہمارے گھر کے سب بلب بجھاتے جاتے تھے اور ہمارے سروں پر ہاتھ پھیرتے جاتے تھے۔ ان کے ہاتھوں پر  ابھی تک خشک آٹے کی تہیں جمی ہوئی تھیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو بابا اور باجی مل کر روٹی بنانے  کی کوشش کر رہے تھے ۔ ماموں کی جلدی کی لاج رکھتے ہوئے گندھا ہوا آٹا چھوٹی سی بالٹی میں ڈالا  گیا اور یہ نو نفوس پر مشتمل قافلہ ہجرت کر چلا۔ ۔۔نئے ٹھکانے پر  جو کمرہ ملا اس پر عجب وحشت اور خوف منڈلاتا دکھتا تھا۔ نانو نے ہم بہنوں کو اپنے بازووں میں سمیٹا اور روتے روتے سونے کو کہنے لگیں ۔نانو کا منہ میری طرف تھا میں نے ان کی چھاتیوں میں ناک گھسیڑی اور سونے کی ناکام کوشش کی ۔ مگر نانو کی چھاتی میں وہ آرام نہیں تھا جو اماں کی نرم گرم زندہ چھاتی فراہم کرتی تھی۔ دم گھٹنے لگا اور میں سیدھی پشت کے بل سو رہی۔ صبح آنکھ کھلی تو سارا منظر اجنبی اور بیگانہ سا تھا۔بابا جانے کہاں چلے گئے تھے صبح کا ناشتہ دوپہر ایک بجے کے قریب ملا۔ اور پھر یہ  ہمیشہ کی روٹین ہو گئی  کبھی صبح کا ناشتہ اور کبھی رات کا کھانا نہ ملتا باجی پر دوہری افتاد پڑی کہ گھرگر ہستی سکھانے کے بہانے اسے نوکر بنا دیا گیا۔ میرے اندر ہمیشہ سے اک منکر اک باغی موجود تھا جو کسی مصلحت کسی خوف اور ڈر کو نکارتے ہوئے مقابل آنے کی مکمل صلاحیت سے بہرہ مند تھا ۔ میں اور شاہدہ( میری بہن) چھوٹے سے تھے اور ہم سے بھی تین اور چھوٹے تھے لہذا ہم دونوں کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ بھینس کے گوبر کو اپلے بنانے والی جگہ پر لے جائیں۔ میں نے انکار کر دیا میں یہ غلیظ کام نہیں کروں گی۔ اور پھر زور دار تھپڑ میرے سرخ و سفید گالوں پر تواتر کے ساتھ پڑنے لگے کیوں نہیں کرے گی  تو یہ کام ۔۔۔ہاں ؟۔۔تو کسی دیس کی شہزادی ہے کیا ؟ ہاں میں اپنے بابا کی شہزادی آرام بانو ہوں ۔جھانسی کی رانی کہتے ہیں میرے بابا۔ اور جو میری بیٹی یہ کام کرتی ہے اس کا کیا؟ وہ تو کالی کلوٹی  با لکل چوہڑی  ہے ۔ آپ گوری چوہڑی اور آپ کی بیٹی کالی چوہڑی دونوں چوہڑیاں۔۔۔ گندی بچیاں۔۔۔۔ نانو بچا کر اپنے کمرے میں لے گئی اور میں روئے بغیر اپنی باجی کو اداس نظروں سے دیکھا کی جو زار وقطار روتی جاتی تھی اور میرے بدن پر ٹکور کرتی جاتی تھی۔بزدل چڑیا ۔۔۔۔۔اک خیال سا گزرا اور میں آٹھ بیٹھی مجھے ٹکور نہ کریں مجھے درد نہیں ہو رہا۔خالہ ٹھیک 01.00 بجے یہ کہہ کر  ہمارے کمرے کا پنکھا بند کر دیتیں کہ بل آئے گا تو بہنوئی سے تقاضا کرتے شرم آئے گی۔ باقی بہن بھائی تو اللہ کی رحمت سے نیندر علی تھے پسینوں پسینے ہو کر بھی سوئے رہتے مگر مجھے اس انداز میں سونا منظور نہ تھا سو سارے گھر میں دبے پاوں گھومتی پھرتی۔ آہٹ تک نہ ہونے دیتی کہ کسی کی نیند خراب نہ ہو۔ ایک دفعہ خالہ کے کمرے کے سامنے سے گزری تو دیکھا خالہ ہمارا مہینے بھر کا راشن جو با با لائے تھے سنبھالتے ہوئے چینی ‘ گھی  اور چائے کی پتی کا کچھ حصہ اپنے ڈبوں میں ڈال رہی تھیں اور کچھ حصہ ہمارے ڈبوں میں شام کو بابا گھر آئے تو میں نے  بابا کے کان کی لووں سے  کھیلتے ہوئے کہا ۔بابا اک مزے کی بات بتاوں ۔ بتاو بابا بولے خالہ نے ہماری چینی’ گھی اور چائے کی پتی چوری کر لی ہے اور ۔۔۔۔بابا نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور سختی سے بولے ہش۔ہش بڑوں کے بارے میں ایسا نہیں کہتے ۔۔۔کیوں۔۔۔۔ ؟ میں جھلا گئی۔ بیٹا اللہ میاں ناراض ہوتے ہیں  ۔یہ کیسے اللہ میاں ہیں جو خالہ کی بجا ئے مجھ سے ناراض ہوتےہیں۔ میں نہیں مانوں گی ایسے اللہ میاں کو۔ بری بات بیٹا شہزادیاں تو ایسی بات نہیں کرتیں ۔ تو کیسی بات کرتی ہیں ۔۔؟ میں نے بابا کی داڑھی کی مینڈھیاں بناتے ہوئے سوال کیا ۔۔۔خاموش رہتی ہیں اپنے بابا کی مشکلات بڑھانے والی باتیں نہیں کرتیں ۔ اور دیکھو جب تک ہمارا مکان مکمل نہیں ہو جاتا ہمیں خاموش رہنا ہے وعدہ۔۔۔۔۔وعدہ میں ہنس دی۔

(جاری)

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

May 2024
M T W T F S S
 12345
6789101112
13141516171819
20212223242526
2728293031