کملی ۔۔۔ سرفراز بیگ
کملی
سرفراز بیگ
’’رَب نواز یہ تونے کیا کیا۔ تجھے پتا ہے وہ پگلی ہے۔ اُس کا دِماغ ٹھیک نہیں
’’بشیر یار کیا بتاؤں ۔ مَیں کام سے تھکا ہوا آیا۔ وَردِی اُتاری۔ منہ ہاتھ دَھوکے کھانا کھایا۔ اِس کے بعد چائے پی۔ برتن وَغیرہ دَھو کے فارغ ہوا تو سوچا تھوڑا سا آرام کرلوں۔ مَنجی(چارپائی)پے لیٹتے ہی میری آنکھ لگ گئی۔ مجھے بالکل بھی پتا نہیں کہ وہ کب دَروازہ کھول کے کمرے میں آئی اَور یہ سب کچھ ہوگیا‘‘۔ رَب نواز نے مغموم لہجے میں بات جاری رَکھتے ہوئے کہا ،کیونکہ وہ اَپنے کیئے پے پشیمان تھا۔
’’یار مجھ سے تو بہت بڑا گناہ ہوا ہے ، لیکن جب مَیں اِس عمل میں مصروف تھا۔اُس وَقت میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں سلب ہوچکی تھیں۔ میرے دِماغ پے صرف اِیک ہی بات حاوِی تھی کہ کَملی اِیک عورت ہے اَور وہ بھی نسوانیت سے بھرپور۔ وہ اِس سارے عمل کے دَوران ہنس رَہی تھی‘‘۔
بشیر نے فکر مندانہ اَنداز میں کہا، ’’تجھے پتا ہے اِس محلّے میںچَھڑوں(جن کی شادِی نہ ہوئی ہو) کو کرائے پے بیٹھک کوئی نہیں دِیتا۔ یہ تو بھلا ہو مولوی اَکبرکا کہ اُنہوں نے سفارِش کردِی وَرنہ یہ بات ناممکن تھی۔ اَب تونے یہ کام دِکھا دِیا ہے۔ اَگر کوئی بچہ وَچہ ہوگیا تو کیا کریں گے‘‘۔
رَب نواز دِیوار کی طرف دِیکھ رَہا تھا جہاں فلم سٹار رِیما کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ بظاہر تو وہ تصویر دِیکھ رَہا تھا لیکن دَر حقیقت وہ کچھ اَور ہی سوچ رَہا تھا۔ پھر اَچانک بولا،
’’یار مَیں کوئی پہلا شخص تو نہیں ہوں۔ کَملی پہلے بھی دَو دَفعہ بچہ ضائع کروَا چُکی ہے۔ بلکہ محلّے کی عورتوں نے مِل مِلا کے دَائی کو بُلایا تھا اَور اُس کا بچہ ضائع کروَادِیا تھا۔ پہلے بھی پتا نہیں چلا یہ کام کس کا ہے۔اَگر اَب کچھ ہوا تو کیسے پتا چلے گا کہ مَیںہی بچے کا باپ ہوں۔ اِس لیئے تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔
٭
’’ بُبّو تم اِسے پکڑ کے کہاں سے لائی تھی‘‘؟
’’رَحمتاں مَیں کہاں سے پکڑ کے لائی تھی۔ اِیک دِن گھر کے باہر قدم رَکھا تو گھر کی دَہلیز پے اِسے بے سْدھ پایا۔ اِس کی سفید شلوار پے جابجاخون کے دَھبے لگے ہوئے تھے۔ مَیں سمجھی زَخمی ہے۔ اِس کو سہارا دِے کر گھر لے آئی۔ بیٹی کو کہا ، بڑے دِیگچے میں پانی گرم کر۔ اِسے دودھ میں ہلدی مِلا کر پِلائی تو اِس نے تھوڑی تھوڑی آنکھیں کھولیں۔ مَیں نے سوچا جب ہوش آئے گا، تھوڑی سنبھلے گی تو کہوں گی ، چل جاکے نہالے پھر اَتا پتا پوچھوں گی۔لیکن اِس نے جیسے ہی تھوڑا ہوش سنبھالا تو ہنسنے لگی۔ مَیںنے پوچھا ہنستی کیوں ہو۔ تم زَخمی ہو۔تمہیں دَرد نہیں ہورَہا۔ تمہاری ساری شلوار خون سے بھری پڑی ہے۔ وہ پھر ہنسنے لگی۔ مَیں نے کہا کَملی نہ ہو تو۔ وہ دِن اَور آج کا دِن ۔اِس کو سارے محلّے وَالے کَملی کہتے ہیں‘‘۔
’’لیکن بُبّو ہے کون اَور کہا ںسے آئی ہے‘‘؟
بُبّو کو اَیسے سوالوں پے بڑا غصہ آتا تھا۔ اُس کا سوال سُن کر بُبّو کے جسم کا سارا خون سُکڑ کے اُس کے چہرے پے آگیا۔ رَگیں تَن گئیں اَور گرج کے بولی،
’’رحَمتاں جہاں سے تو آئی ہے نا یہ بھی و ُ ہیں سے آئی ہے۔ رَہا سوال کہ کون ہے ۔ تو یہ میرے سونھڑے رَب کی مخلوق ہے‘‘۔
بُبّو کے تیور بھانپتے ہوئے رَحمتاں نے ذَرا ملائمت کے سے اَنداز میں کہا،
’’بُبّو غصہ کیوں کرتی ہے۔ میرا مطلب وہ نہیں تھا جو تو سمجھ رَہی ہے‘‘۔
’’رحَمتاں مَیں سب جانتی ہوں تیری باتوں کا کیا مطلب ہوتا ہے‘‘۔
’’بُبّو تونے بتایا نہیں اِس کی شلوار پے خون کیسا تھا؟وہ کہاں سے زَخمی ہوئی تھی‘‘؟
’’رحَمتاں مجھے لگتا ہے تیرا سلسلہ تو بند ہوگیا ہے لیکن کَملی بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ اُسے ہر مہینے بعد قدرت کے اِس بنائے ہوئے نظام کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘‘۔
’’بُبّو آج تو بڑے غصے میں ہے۔ لگتا ہے تیرا مزاج ٹھیک نہیں‘‘۔
’’کیا کروں رَحمتاں جب سے کَملی میرے گھر سے گئی ہے بے چاری کو لوگ بڑا تنگ
کرتے ہیں۔ میرا دِل خون کے آنسو رَوتا ہے لیکن مَیں اُسے اَپنے گھر نہیں رَکھ سکتی‘‘۔
’’مگر کیوں‘‘؟ رَحمتاں نے متجسس و متحیر ہوکر پوچھا۔
بُبّو کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگی،
’’رَحمتاں خدا نے عورت کو بڑا عجیب بنایا ہے۔ یہ ماں،بیٹی، بہن، بیوی ہوتی ہے ۔اِن رِشتوں کا لوگ تھوڑا بہت خیال کرتے ہیں۔ کَملی کا کسی کے ساتھ کوئی رِشتہ نہیں تھا اَور نہ ہے۔ اِس لیئے پہلے میرے پوتے نے پھر میرے بیٹے نے اَور آخر میں میرے بابے نے بھی کوشش کی۔ مَیں اُسے گھر میں کیسے رَکھتی۔ جب سے میرے ہاں سے گئی ہے دَو دَفعہ بچہ ضائع کروَایا جاچکا ہے۔ مجھے جب بھی ملتی ہے مَیں نہلا دِیتی ہوں۔ لیکن اِیک دَو دِنوں بعد پھر وَیسی ہی ہوجاتی ہے‘‘۔
بُبّونے جب اَپنی بات ختم کی تو رَحمتاں نے پھوٹ پھوٹ کر رَونا شروع کردِیا۔
٭
وہ عصر کی نماز پڑھنے پہنچاتو مسجد میں کوئی نہیں تھا۔ موسم اَچھا تھا اِس نے سوچا صحن میں ہی نماز پڑھتا ہوں۔ اِس نے جلدی جلدی چار فرض پڑھے اَور سلام پھیر کے د ُ عا کے لیئے ہاتھ اُٹھائے۔د ُعا ختم کی اَور دَونوں ہاتھ منہ پر پھیرے۔جیسے ہی اُٹھ کے جانے لگا تو پیچھے سے آواز آئی،
’’پُتر جانے لگا ہے‘‘۔
اِس نے مُڑکے دِیکھا تو بابانوردِین بیٹھا ہوا تھا۔ وہ جاکے اُن کے پاس بیٹھ گیا۔ اِس کا اِرادہ تھا کہ حال اَحوال پوچھ کے چلتا بنے گالیکن اُنہوں نے اِسے اَپنے پاس بٹھا لیا۔ کام وَغیرہ کا پوچھنے لگے۔ سارے محلّے وَالے بابا نور دِین کا اِحترام کرتے ہیں۔ اِن کی عمر کا تو مجھے صحیح اَندازہ نہیںلیکن کافی ضعیف ہیں۔ اِن کے چہرے کے خط و خال بتاتے ہیں کہ جوانی میں بہت خوبصورت تھے۔اَب بھی برے نہیں لگتے،بس آنکھوں کے نیچے اَور ماتھے پے کچھ کالے کالے نشان ہیں۔ سر کے بال چاند کی چاندنی کی طرح سفید ہیں اَور اِن کے بالوں کو دِیکھ کر اِیک عجیب قسم کی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔ لبیںکاٹتے ہیں اَور دَاڑھی قریباًدَو ہاتھ لمبی ہوگی۔ اِن کی سفید دَاڑھی ،جب کبھی تیز ہوا چلتی ہے تو ہوا میں لہراتی ہے اَور بڑی بھلی لگتی ہے۔ وَیسے وہ اَپنی دَاڑھی پر دَونوں ہاتھ پھیرتے رَہتے ہیں۔لیکن یہ سارا عمل غیر اِرادی طور پے ہوتا ہے۔ وہ اِس بات سے بے خبر ہوتے ہیں۔ جب کبھی تسبیح کے دَانوں پے ہاتھ پھیر رَہے ہوں تو اِس عمل میں تھوڑا سا وَقفہ آجاتا ہے۔ سفید رَنگ کا شلوار کرتہ پہنتے ہیں۔ اَور اِن کے لیئے دَرزی جو قمیصیں بناتا ہے اُس کے کَف ہوتے نہ ہی کالر ہوتا ہے۔وہ کہتے ہیں اِن دَونوں چیزوں سے مجھے اُلجھن ہوتی ہے۔ اَرمغان اِنہیں گزشتہ کئی سالوں سے دِیکھ رَہا ہے۔ د ُ بلے پتلے سے ہیں۔پورے جسم پے سفید شلوار کرتہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ کسی قسم کی گھڑی یا ہاتھ وَالی گھڑی، سر پے ٹوپی یا صافہ وہ نہیں اِستعمال کرتے لیکن اِیک چیز اِن کے پاؤں میں اُس نے ہمیشہ دِیکھی ہے کیونکہ شلوار وہ ہمیشہ ٹخنوں سے اوپر رَکھتے ہیں۔وہ چیز ہے کالے دَھاگے میں پروئی ہوئی اِیک سفید چیز جس کا حجم اِیک تسبیح کے دَانے کے برابر ہوگا۔ اَیسا لگتا ہے ہاتھی دَانت کا کوئی ٹکڑا ہے۔ یہ کالا دَھاگہ وہ گزشتہ کئی برسوں سے اِن کے پاؤں میں بندھا دِیکھ رَہا ہے۔ اَرمغان بچپن سے اِس مسجد میں نماز پڑھ رَہا ہے۔ سکول ،کالج اَور یونیورسٹی کے تمام مدارج سے گزر کر سرکاری ملازمت تک پہنچا۔ ہمیشہ اِس کی بابا نوردِین سے ملاقات ہوتی رَہی۔ پہلے وہ اِنہیں اِتنا پسند نہیں کرتا تھالیکن آہستہ آہستہ دَونوں میں دَوستی ہوگئی کیونکہ وہ اِس سے بہت زیادہ اُنس و لگاؤ رَکھتے تھے۔ وہ کہتے تھے اَور ہیں کہ یہ نماز کا بڑا پابند ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ بیس سال سے تو تمہیں مَیں دِیکھ رَہا ہوں۔
جب سے وہ اِس مسجد میں نماز پڑھ رَہا ہے یہاں اِس نے مولوی اَکبر کو ہی دِیکھا ہے لیکن بابا نوردِین اُس کے سخت خلاف ہیں۔ اِیک دَفعہ اِس نے بابانوردِین سے پوچھا کہ،’’ آپ مولوی اَکبر کے خلاف کیوں ہیں ‘‘۔تو اُنہوںنے بتایا کہ،’’ بیٹا یہ مولوی بہت بڑا فراڈ ہے ۔ یہ دَھوکے بازہے۔ اِس نے اَپنے اُوپر شرافت کا ملمع چڑھایا ہوا ہے۔ حقیقت میں یہ اَیسا نہیں ہے۔ تم اُس وَقت بہت چھوٹے تھے جب یہ اِس محلّے میں آیا تھا۔ تم تو جانتے ہو یہ مسجد ٹھیکیداروں کے بزرگ نے بنائی تھی۔ تم اِس بات سے بھی وَاقف ہو کہ ٹھیکیدار کیسے لوگ ہیں۔ اُن کے بزرگوں نے جس آدمی کو مسجد کا کرتا دَھرتا بنایا تھا وہ منبر پے بیٹھ کے بڑی اَچھی اَچھی باتیں بتایا کرتا تھا لیکن یہ باتیں ٹھیکیدارَوں کو پسند نہیں تھیں۔ اُنہوں نے کئی نئے مولوی آزمائے لیکن اُن کے معیار پے کوئی بھی پورا نہ اُترا۔
اِیک دِن زَورَوں کی بارش ہورَہی تھی۔ مَیں اَپنے کسی کام سے شہر کی طرف جارَہا تھا۔ جیسے ہی گاڑی سٹارٹ کی تو گاڑی کی ہیڈلائٹس بارش میں بھیگے ہوئے اِیک آدمی پر پڑیں۔ وہ شخص ٹھیک ٹھاک صحت مند تھا۔سر پے کالے گھنے بال تھے جو بارش میں بھیگ جانے کی وَجہ سے اَور بھی عجیب و غریب لگ رَہے تھے ۔دَاڑھی بھی بڑھی ہوئی تھی۔ مَیلاکُچیلا لباس اَور پاؤں میں پھٹی پرانی جوتی۔ مَیں نے شہر جانے کا اِرادہ ترک کردِیا اَور اُس شخص کو گھر لے آیا۔ تولیہ دِیا ، سوکھے کپڑے دِیئے اَور اُس سے کہا بال خشک کرلو اَور بدن بھی پونچھ لو اِس کے بعد کپڑے بدل لینا۔ پھر مَیں تمہاری کہانی سنو ں گا۔ تھوڑی دِیر میں وہ کپڑے بدل کے میرے سامنے آگیا۔ چوبیس پچیس سال کا نوجوان تھا۔ اِس نے مجھے بتایا کہ مَیں بے سہارا ہوں۔ میرا کوئی گھر نہیں۔ میرے پاس کوئی کام نہیں۔ مَیں نے اُس کی کہانی پے یقین کرلیا۔ مَیں نے کہا ،تمہارا نام کیا ہے ۔تو کہنے لگا ،جو بھی آپ رَکھ دِیں۔ مَیں بڑا حیران ہوا۔ مجھے یہ شخص کچھ مشکوک سا لگا لیکن گھر وَالوں کو بتائے بناہی مَیں نے اِس شخص کو اِیک رَات کے لیئے پناہ دِے دِی۔صبح ہوتے ہی مَیں نے اِس سے کہا، تم ٹھیکیداروں کے ہاں چلے جاؤ۔اُن کے ہاں تمہیں کام بھی مل جائے گا اَور رَہنے کا ٹھکانا بھی۔ ٹھیکیداروں نے اِسے مسجد کی صفائی کے کام پے لگا دِیا۔اِس طرح اِس شخص نے دَاڑھی وَغیرہ مزید بڑھا لی اَور و ُہیں پے رَہنے لگا۔ بلکہ اِس مسجد میں رَہنے لگا جہاں تم نماز پڑھنے آتے ہو۔ آہستہ آہستہ اِس نے ٹھیکیداروں کی سیاست کو سمجھنا شروع کردِیا اَور اِس پرانے مولوی کی جگہ لے لی۔ اَب وہ کبھی کبھی نماز بھی پڑھا دِیا کرتا پھر آہستہ آہستہ ساری نمازوں کی اِمامت و ُ ہی کرنے لگا۔ آخرکار اِس نے جمعے کا خطبہ بھی پڑھنا شروع کردِیا۔ تقریر وَغیرہ بھی کرلیا کرتا۔ آدھاگھنٹہ پرانا مولوی تقریر کیا کرتا اَور آدھا گھنٹہ یہ ۔آخر کار اِیک دِن ٹھیکیداروں نے اِس مسجد کا کرتا دَھرتا اِسی شخص کو بنادِیا۔ بارش میں بھیگے ہوئے اِس شخص کو لوگ اَب مولوی اَکبر کے نام سے جانتے ہیں‘‘۔
اِس نے کہا، ’’لیکن وہ تو بڑی اَچھی تقریر کرتا ہے‘‘۔
تو بابا نوردِین نے اِسے بتایا، ’’پُتر تقریر کرنا اِیک فن ہے اَور وہ اِس فن میں بہت ماہر ہے۔ اِس نے آتے ہی پہلے مسجد کی صفائی کا کام سنبھالا۔ پھر اِسلامی مہینوں کے حساب سے تقریریں رَٹنی شروع کیں۔بازار سے باقاعدہ طور پے مہینوں کی مناسبت سے لکھی ہوئی تقاریر ملتی ہیں۔ اِس کے علاوہ اِس نے ہر اِسلامی تہوار کے مطابق علم حاصل کرنا شروع کیا۔ زیادہ کمال اِس کی آواز کا ہے جو مائیکروفون سے نکل کر لوگوں کے کانوں تک پہنچتی ہے تو بہت بھلی لگتی ہے۔ کیونکہ بہت سے لوگ جب مائیک میں بولتے ہیں تو خود اُنہیں بھی اَپنی آواز پسند نہیں آتی تو لوگوں کے کانوں کو خاک بھائے گی۔ اِس کے علاوہ وہ ٹھیکیداروں کو خوب مکھن لگاتا ہے۔ اُن کی خوشامد کرتا ہے اَور منبر پر بیٹھ کر بھی اُن کی خوب تعریف و توصیف کرتا ہے اِس لیئے اِس نے اَپنے پاؤں بڑی مضبوطی سے جمالیئے ہیں۔ مَیںنے کبھی کسی سے اَپنے خیالات کا اِظہار نہیںکیا نہ ہی اْس رَات کا کبھی کسی سے ذِکر کیا ہے۔ یہ بات مَیںجانتا ہوں، مولوی اَکبر جانتا ہے اَور تم تیسرے آدمی ہو جو اِس بات سے وَاقف ہو‘‘۔
٭
مَیںگلی سے گزر رَہا تھا مجھے بشیر اَپنی بیٹھک کے دَروازے میں کھڑا نظر آیا۔ مَیں نے پاس جاکے ہاتھ ملایا۔ سلام د ُعا کے بعد مَیں نے بشیر سے پوچھا،’’بشیر باہر کیوں کھڑے ہو‘‘؟
اُس نے مغموم اَنداز میں کہا،’’اَرمغان صاحب بجلی نہیں ہے۔ نہ رَوشنی ہے، نہ پانی ہے نہ پنکھا۔ کام سے تھکا ہوا آیا ہوں۔اَبھی کھانا کھایا ہے ۔ سوچا تھا تھوڑا سا آرام کرلوں گا لیکن‘‘۔
اُس نے اَپنی بات لیکن پے ہی ختم کرکے میرا حال اِحوال پوچھنا شروع کردِیا،
’’میری چھوڑِیں آپ بتائیں آپ کیسے ہیں‘‘؟
مَیںنے بھی اِیک سرد آہ بھر کے کہا، ’’مَیں ٹھیک ہوں ،و ُ ہی مسئلہ ہے بجلی کا ۔ اَچھا خیر چھوڑو یہ بتاؤں کیسی لگی شہاب نامہ‘‘۔
’’اَرمغان صاحب بہت اَچھی کتاب ہے ۔مَیں نے ساری پڑ ھ لی ہے اِیک دَو دَفعہ رَویا بھی ہوں۔ خاص کر ڈِپٹی کمشنر کی ڈائری تو اِس کتاب کی جان ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ اِیک سرکاری اَفسر اِتنا اِیماندار بھی ہوسکتا ہے‘‘۔
’’بس بشیر د ُ نیا میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ اَگر نیک لوگ د ُ نیا سے بالکل ختم ہوجائیں تو یہ د ُ نیا ختم ہوجائے گی‘‘۔
’’آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں اَرمغان صاحب۔ اَچھا یہ بتائیں کوئی اَور کتاب ہے‘‘۔
’’ہاں علی پور کا ایلی ہے ،ممتاز مفتی کی ۔اَچھی کتاب ہے‘‘۔
’’اَگر یہ بات ہے تو وہ مجھے ضرور دِیجئے گا‘‘۔
’’بشیر، رَب نواز نظر نہیں آرَہا ‘‘۔
’’اُس کی آج شام کی ڈِیوٹی ہے‘‘۔
’’اَچھا بشیرے مَیں اَب چلتا ہوں۔مغرب کی نماز جب پڑھنے آؤنگا تو تمہارے لیئے علی پور کا ایلی لیتا آؤنگا۔ یہ بڑی اَچھی بات ہے کہ تم نماز پڑھتے ہو لیکن رَب نواز کبھی نہیں آیا۔ اُس کو بھی ساتھ لے آیا کرو‘‘۔
’’بس جی کیا کروں ،اُس کی اَپنی مرضی ہے۔ ہم دَونوں اِیک ہی گاؤں کے ہیںلیکن وہ مجھ سے تھوڑا مختلف ہے‘‘۔
اِس بات کو سُن کے مَیں چلتا بنا لیکن اَبھی دَس قدم ہی چلا ہونگا کہ مجھے بُبّو اَپنے گھر کے دَروازے کے سامنے کھڑی نظر آئی۔
مَیں نے کہا، ’’بُبّواَسلام و علیکم‘‘۔
بُبّونے بڑے پیار بھرے اَنداز میں کہا، ’’وعلیکم اَسلام اَرمان پُتر‘‘۔بُبّو مجھے اَرمغان کے بجائے اَرمان کہتی ہے۔
بُبّو مجھ سے پھر مخاطب ہوئی،’’پُتر اُس بیٹھک وَالے سے کیا باتیں کررَہا تھا‘‘؟
’’کچھ نہیں بُبّو ، بشیرے کو کتابیں پڑھنے کا بڑا شوق ہے ۔مجھ سے کبھی کبھی کتابیں مانگ کے پڑھ لیا کرتا ہے۔وَیسے مسجد میں بھی ملاقات ہوتی ہے‘‘۔
’’تُجھے پتا ہے کل اِنہوں نے کیا کیا‘‘؟
مَیں نے لاعلمی کے سے اَنداز میں کہا،’’نہیں‘‘۔
’’اِنہوں نے کَملی کے ساتھ ‘‘۔
مَیں نے بُبّو کو وَکیلوں کے سے اَنداز میں کہا، ’’نہیں بُبّو یہ تو پردِیسی ہیں۔ بڑے شریف ہیں‘‘۔
پُتر مجھے خود کَملی نے بتایا ہے۔ وہ کہہ رَہی تھی بُبّو بڑا مزہ آیا‘‘۔
’’بُبّو آپ بھی کس کی بات پے یقین کررَہی ہیں۔ وہ تو کَملی ہے۔ کل وہ آپ کو میرے بارے کچھ کہے گی تو آپ مان جائیں گی‘‘۔
’نہیں پُتر تو بڑا شریف ہے۔ مَیں جانتی ہوں‘‘۔
مجھے بُبّوکی یہ بات بالکل پسند نہ آئی کیونکہ مَیں اُس کی بہت عزت کرتا ہوں۔ اِس لیئے مَیں نے جان چھڑانے کے سے اَنداز میں کہا، ’’اَچھا بُبّو میں چلتا ہوں۔ کام سے تھکا ہوا آیا ہوں۔نہا دَھو کے تھوڑا سا آرام کروں گا‘‘۔ مَیں نے اِتنا کہا اَور گھر کی رَاہ لی۔
٭
مولوی اَکبر اَپنے حجرے میں بیٹھا اَپنے دَو شاگردوں سے گفت و شنید کررَہا تھا۔ عمیر اَور عنان اُس کے خاص بندے تھے۔ اُس کی ہر بات کی اِن دَونوں کو خبر ضرور ہوتی لیکن کچھ باتیں وہ اِن سے بھی پوشیدہ رَکھتا۔ سارے محلّے کے لوگ اُس کی بہت عزت کرتے تھے۔ یہ مقام مولوی اَکبر نے پچیس سال کے عرصے میں حاصل کیا تھا۔
مولوی اَکبر کا قد ٹھیک ٹھاک تھا اَور جسم بھی بھاری بھرکم تھا۔ رَنگ گورا چٹااَور چہرے پے کالی سیاہ دَاڑھی(جو کہ وہ خضاب سے رَنگتا تھااِتنی باقاعدگی سے کہ ذَرا سے سفید بال نمودار ہوتے تو وہ فوراًحمام پے جاکے اُن کو رَنگوالیا کرتا)۔مونچھیں اُس کی کٹی ہوئی ہوتیں لیکن اُوپر وَالے ہونٹوں پے جہاں مونچھیں نمودار ہوتی ہیںاُس کی کٹی ہوئی مونچھوںکے باوجود و ُ ہاں اِیک عکس سا دِکھائی دِیتا ۔ اُس کے سر کے بال کبھی نظر نہ آئے کیونکہ وہ ہمیشہ اَپنے سر کو کسی نا کسی چیز سے ڈَھکے رَکھتا۔ اُس کے پاس اِیک خاص قسم کا پگڑ تھا جو کہ کالے اَور سبز رَنگ کا بنا ہوا تھا۔ نماز وَغیرہ کے دَورَان وہ ٹوپی کا اِستعمال نہ کیا کرتا بلکہ اُسی طرح کا اِیک چھوٹاسا عمامہ اِستعمال کیا کرتا۔ مولوی اَکبرکے ہاتھ گورے گورے تھے لیکن اُن پے کثرت سے بال ہونے کی وَجہ سے اُن ہاتھوں میں مزید خوبصورتی پیدا ہوجاتی۔ اُس کے ہاتھ نرم اَور گرم ہوتے کیونکہ جب بھی کوئی اُس سے ہاتھ ملاتا تو وہ ہاتھ ملانے وَالے کا ہاتھ چند لمحوں کے لیئے اَپنے ہاتھ میں رَکھتااَور اُس کی پوری کوشش ہوتی کہ ہاتھ کھینچ کر اُس شخص کو گلے لگالے ۔لیکن آجکل گلے ملنے کا یا سینے سے لگانے کا اِتنا رِواج نہیں رَہا اِس لیئے لوگ زیادہ تر ہاتھ چھڑا لیتے اَور گلے ملنے کے عمل سے اِجتناب فرماتے۔
مولوی اَکبر کا پیٹ بہت زیادہ نکلا ہوا تھا لیکن وہ شلوار، قمیص کے اُوپر کبھی کالا اَور کبھی سبز رَنگ کا چُوغااِستعمال کیا کرتا جس کی وَجہ سے اُس کے پیٹ کی نمائش کم ہوتی۔ وہ ناک نقشے کے لحاظ سے خوبصورت تھا اَور اُس کی آنکھوں میں بلا کی چمک تھی۔ اُس کے سامنے بیٹھ کے اَیسا لگتا ، جیسے اُس نے سامنے وَالے شخص پے کوئی اِسمِ اَعظم پھونک دِیا ہے۔ یا وہ ہیپناٹزم یا میسمیرزم کا ماہر ہے۔ آج سے پچیس سال پہلے مولوی اَکبر ،ٹھیکیداروں کی اِس مسجد میں جھاڑو دِیا کرتا تھا۔ اذان دِیا کرتا تھا۔اِس کے علاوہ پرانے مولوی کے پاؤں دَابہ کرتا تھالیکن جب اِس نے مسجد کا اِنتظام و اِنصرام سنبھالا تو اِس نے چھوٹی سی مسجد کو بڑا کرنا شروع کردِیا۔ اَپنی شعلہ بیان تقریروں سے لوگوں کو اِس حد تک قائل کیا کہ لوگوں نے کثرت سے چندہ دِینا شروع کردِیا۔ اِس طرح یہ چھوٹی سی مسجد بہت بڑی مسجد بن گئی اَور اِس کے ساتھ ساتھ جمعے کے اِجتماع میں بھی اِضافہ ہونے لگا۔ آہستہ آہستہ لوگوں کو مولوی اَکبر کی تقریروں کا چسکہ پڑ گیا۔ لوگ اِس کی تقاریر ٹیپ ریکارڈرز میں رِیکارڈ کرنے لگے۔ اِسے تقریر کرنے میں اِتنا ملکہء حاصل ہوگیا کہ دَوسرے محلّے کے لوگ بھی اِسے تقاریر کے لیئے بُلانے لگے۔ وہ باقاعدہ تقریر کرنے کے پیسے لیا کرتا۔ اُس کا یہ تقریر کرنے کا فن اُسے اِنگلستان تک لے گیا۔ اَب وہ صرف مولوی اَکبر نہیں تھا بلکہ مُبلغِ یورپ کے نام سے جانا جانے لگا۔ اُس کے پاؤں اِتنے مضبوط ہوچکے تھے کہ ٹھیکیدار بھی اُس کی شہرت سے خائف تھے۔ اُس کے بارے میں یا مخالفت میں،مَیںنے اَگر کسی کے منہ سے بات
سُنی تھی ۔تو وہ تھے بابا نوردِین۔ باقی محلّے کے بچے ،بوڑھے،جوان، عورتیںجوان لڑکیاں سب اُس کے گروِیدہ تھے۔
جمعے وَالے دِن لوگ دَور دَور سے اُ س کی تقریر سننے آتے۔ عورتیں گھر بیٹھ کے اُس کی تقریر سُنا کرتیں۔وہ تقریر کے دَوران دَو طرح کی آوازیں اِستعمال کیا کرتا۔ اِیک اَنداز تو اُس کا اَیسا ہوتا جیسے وہ گریہ و زَاری کررَہا ہو۔ جس جملے کو وہ گریہ و زَاری کے اَنداز میں بیان کرتا اُسی جملے کو وہ دَوسرے اَنداز میں اِنتہائی گرجدار اَور بلند آواز میں کہتا تو سننے وَالوں پے اِیک عجیب سا سحر طاری ہوجاتا۔ تقریر سننے وَالوں کو اَیسا لگتا جیسے جنگِ بدر کا میدان اُن کے سامنے ہے اَور گُھمسان کا رَن پڑا ہے اَور کفارِ مکہ ، مسلمانوں کے ہاتھوں شکستِ فاش سے دَوچار ہورَہے ہیں۔اِس طرح کی تقاریر رَمضان کے مہینے کے لیئے مخصوص تھیں۔ اِس کے علاوہ محرم الحرام اَور رَبیع الاوّل کی مناسبت سے بھی اُس کی تقاریر بڑی شعلہ بیان ہوا کرتیں۔ محرم کے مہینے کے لیئے تو وہ خاص طور پہ تیاری کیا کرتا۔ باقاعدہ دِیگیں پکتیں اَور لوگوں میں کھانا تقسیم کیا جاتا۔ وہ اَہلِ سنت وَل جماعت کے علاوہ اَہلِ تشیع میں بھی یکساں مقبول تھا۔
٭
اَرمغان، مولوی اَکبر، کَملی، بابانوردِین، بُبّو حتیٰ کہ بشیر اَور رَب نواز بھی اِیک اَیسے محلّے میں رَہتے تھے جس کا عنانِ حکومت ٹھیکیداروں کے پاس تھا۔ اُنہوں نے اِس محلّے کا اِنتظام و اِنصرام اِس طرح سنبھالا ہوا تھا کہ کوئی بھی شخص اُن کی مرضی کے خلاف کوئی بھی کام نہیں کرسکتا تھا۔ شادی ہویا فوتیدگی ہو، الیکشن ہوںیا عید میلاد النبی کا جلوس ہو، عید ،بکر عید سب کچھ اِنہی کی مرضی سے ہوتا تھا۔ محلّے کے پرانے لوگ جانتے تھے کہ اِن ٹھیکیداروں کا دادا اَنگریزوں کے دَور میں ٹھیکے لیا کرتا تھا۔ ہوتا کچھ یوں کہ اَنگریزوں کے زیادہ تر ٹھیکے پنڈی میں رَہنے وَالے سکھوں کو ملا کرتے۔پھر وہ سکھ چھوٹے موٹے ٹھیکے کسی نا کسی مسلمان کو دِے دِیا کرتے۔ اِنہی ٹھیکوں میں سے چند اِیک ٹھیکے جس بڑے ٹھیکیدار کو ملتے۔ وہ اِیک دَو ٹھیکے اِن ٹھیکیداروں کے دادا کو دِے دِیا کرتا ۔اِس طرح یہ لوگ ٹھیکیداروں کے نام سے جانے جانے لگے۔ پھر جب پاکستان بنا تو اَنگریزبھی چلے گئے اَور سکھ بھی ۔ اِس طرح بڑے ٹھیکدار کے ساتھ ساتھ اِن ٹھیکداروں کا دادا پنڈی کا دَوسرے نمبر کا بڑا ٹھیکیدا ر بن گیا۔ کینٹونمنٹ کے ہر اَیکسی
اَین کے ساتھ اِن کے اَچھے تعلقات ہوتے۔بیشمار اَلاٹمنٹس اَور جگہیں اِنہوں نے حاصل کیں۔ اِ س کے علاوہ کئی غیر آباد جگہیں اِنہوں نے اَیکسی اَین کے ساتھ مِل مِلاکے نناوِے سال کی لیز پے حاصل کرلی تھیں ۔ اَب اِن کی تیسری نسل کو بِنا کام کے کھانے کی عادَت پڑچکی تھی۔ رَوپے پیسے کی کمی نہ تھی جس کی وَجہ سے اِن کی تیسری نسل میں بیشمار معاشرتی برائیاں پیدا ہوچکی تھیں۔ جس میں شراب، جواء اَور زَنا معمولی بات تھی۔
اِنہوں نے محلّے کو اِیک چھوٹی سی سٹیٹ بنایا ہوا تھا۔جہاں اِن کی اَپنی بادشاہت تھی۔ بالکل رَومن طرزِ حکومت۔ اِیک طرف د ُنیاوِی سیاست میں اِن کا رَاج تھا تو دَوسری طرف مولوی اَکبر کی شاباشی تھی۔ یعنی لوگوں کی آنکھوں میں دَھول جھونکنے کے لیئے وہ مذہب کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے۔ پورے محلّے میں دَو ہی گھر اَیسے تھے جواِن کے جعلی دَبدبے میں نہ تھے۔ وَرنہ سارے محلّے وَالوں کا اِن سے کوئی نا کوئی کام ہوتا۔ کسی کو بیٹی کی شادی کے لیئے اُدھار چاہئے ہوتا ، کسی نے اَپنے بیٹے کو نوکری دِلوانی ہوتی۔ ہر شخص کا کسی نا کسی وَجہ سے اِن سے تعلق تھا۔ دَو گھر جو اِن کی باج گزاری میں نہیں تھے ۔ اُن میں
اِیک اَرمغان کا گھر تھا۔ اِس کے وَ الد سچے اَور کھرے مسلمان تھے۔یہی عادات و اَطوار اَرمغان کے بھی تھے۔ دَوسرا شخص تھا بابا نوردِین کیونکہ وہ اِن ٹھیکیداروں کی اَصلیت سے وَاقف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اِن ٹھیکداروں کا نیک عمل بھی اَپنے مکر و فریب کو چھپانے کے لیئے ہوتا ہے۔ پیسے سے سب کا منہ بند کیا جاسکتا ہے لیکن اَرمغان وَغیرہ کے ہاں پیسے کی قلت نہ تھی کیونکہ اِن کا گھرانہ قناعت پسند تھا اَور دَوسری طرف بابانوردِین مالی لحاظ سے آسودَہ تھا۔ اُس کو پیسے دَھیلے کی کمی نہ تھی۔ ٹھیکیدار جانتے تھے کہ بابا نوردِین پانچ نہیں تو دَس سال اَور جی لے گا لیکن اَرمغان کو رَام کرنے کے لیئے وہ کئی حیلے بہانے ڈَھونڈتے رَہتے۔ حتیٰ کہ وہ اِسے اَپنا دَاماد بنانے کو بھی رَاضی تھے لیکن اَرمغان مطلق العنان تھا۔ اَپنی
د ُنیا میں خو ش تھا اَور شادی بیاہ کی تمام ذِمہ دَاری اِس نے ماں باپ پر چھوڑی ہوئی تھی۔ اِس کا خیال تھا جب بھی اِس کے ماںباپ کہیں گے جہاں کہیں گے و ُہاں شادی کرلے گا۔
٭
آج سے تین سال پہلے جب کَملی اِن ٹھیکیداروں کے محلّے میں آئی تھی تو اُس کی عمر پندرہ سال تھی۔ اَور جس گھر میں اُس کو پہلی دَفعہ پناہ ملی تھی ، وہ بُبّو کا گھر تھا۔ کَملی کا دِماغی توازن ٹھیک نہیں تھا ۔ وہ بالکل پاگل تھی یا کسی گہرے صدمے کا شکار تھی۔ اِس بات سے کوئی وَاقف نہیں ۔ اِس لیئے نہ تو اُس کے اَصلی نام سے کوئی وَاقف تھا اَور نہ ہی کوئی یہ جانتا تھا کہ کَملی کہاں سے آئی ہے۔ سارے محلّے وَالے اِسے کَملی کہہ کر بلاتے اَور کَملی اِس بات سے شناسا تھی کہ لوگ اِسے کَملی کہہ کر بلاتے ہیں۔ وہ کَملی لفظ سنتے ہی مسکرانا شروع کردِیتی۔ پھر وہ زَور زَور سے قہقہے لگاتی، اِس کے بعد بڑی دِیر تک تالیاں بجاتی رَہتی۔
کَملی کا رَنگ بہت زیادہ گورا تھا اَور آنکھیں بڑی بڑی، قد کاٹھ ٹھیک تھا اَور صحت بھی بہت اَچھی تھی۔ ناک نقشہ اَیسا تھا کہ میلے کچیلے کپڑوں میں بھی خوبصورت لگتی۔ اُس کے جسم میں اِتنی کشش تھی کہ وہ حقِ نسوانیت بھر پور طور پے ادا کرتا تھا۔ جب کبھی وہ قہقہے لگا ہنسا کرتی تو اَیسا لگتا جیسے پورے جسم کا خون سُکڑ کے اُس کے گالوں پے آگیا ہو۔اَیسا لگتا تھا کہ اُس کے رَس بھرے اَنار اَبھی پُھوٹ جائیں گے اَور تازہ تازہ خون کا سا رَنگ اُس کے گالوں سے بہنے لگے گا۔ کَملی اِس بات سے ناوَاقف تھی ،یہ سوچنے سے عاری تھی کہ اُس کی بھرپور جوانی دِیکھ کر لوگوں کا دِل مچل جاتا ہے اَور اِس محلّے کے بیشمار مرد جن میں جوان،نوجوان، مرد، حتیٰ کہ بوڑھے بھی اُس کے گورے جسم کا لمس محسوس کرنے کے لیئے اَپنے تئیں تڑپتے ہوں گے ۔ کتنے ہی نوجوان رَات کو سونے سے پہلے کَملی کوتصور میں لاتے ہوں گے اَور نہ جانے خیال ہی خیال میں اُس کے ساتھ کیا کچھ کر گزرتے ہوں گے۔ آتے ہی وہ جب بُبّو کے ہاں چند ماہ رَہی تو تین مختلف لوگوں کے دِل مچلے۔ جس میں بیٹا، باپ اَور داداشامل تھے۔ جب بُبّو نے کملی کو گھر سے فارغ کیا تو فوراًہی اِسے اِیک اَور گھر میں پناہ مل گئی۔ اِس طرح کَملی کو اِس محلّے میں رَہتے ہوئے تین سال ہوچلے تھے ۔اَور اُس کی خوبصورتی میں کمی ہونے کے بجائے اِضافہ ہی ہورَہا تھا۔ اَب اِس کی جوانی کپڑوں سے چَھن چَھن کے باہر آنے لگی تھی۔ کئی دَفعہ اَیسا ہوتا کہ وہ اَپنی ٹانگ کُھجانے کے لیئے گلی میں کہیں بیٹھ جاتی اَور اَپنی شلوار گُھٹنو ںسے اُوپر تلک اُٹھالیا کرتی اَور رَاستے سے گزرنے وَ الے لوگوں کی پرواہ کیئے بغیر وہ اَپنے کام میں مصروف رَہتی۔ نوجوان لڑکے اَیسے مناظر دِیکھ کر دِل ہی دِل میں مچلا کرتے۔وہ اَپنے دِماغ کے نہاں خانوں میں بے شمار خواب و خیال تخلیق کرلیا کرتے اَور اِن میں سے جیسے ہی کسی کو موقع ملتا وہ اِس سنہرے موقعے کا بھرپور طریقے سے فائدہ اْٹھایا کرتا۔ کملی دَو دَفعہ حا ملہ بھی ہوئی لیکن دَونوں دَفعہ محلّے کی عورتوں نے مل ملا کے بچہ ضائع کروَادِیا۔ عام طور پے عورتیں جب اِس عمل سے گزرتی ہیں،عرفِ عام میں جب وہ پیٹ کو صاف کروَاتی ہیںتو اُن کا جسم یاتو پھولنے لگتا ہے یا وہ اِیک دَم موٹاپے کا شکار ہوجاتی ہیں، اُنہیں ہمیشہ کے لیئے کوئی نا کوئی عارضہ لاحق ہوجاتا ہے۔ لیکن کَملی کے ساتھ اَیسا کچھ نہیں ہوا۔ اُس کی صحت بالکل ٹھیک تھی اَور وہ موٹاپے کا بھی بالکل شکار نہ ہوئی۔ وہ اَپنا خوبصورت جسم،خوبصورت چہرہ اَور نسوانیت سے بھرپور پیکر لیئے کبھی اِیک گلی میں پائی جاتی اَور کبھی دَوسری گلی۔
٭
بابا نوردِین ، مولوی اَکبر کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا تھا اِس لیئے وہ جماعت کے بعد مسجد میں وَارد ہوا کرتا اَور اَپنی نماز مکمل کرکے کافی دِیر ،تک تسبیح پڑھتا رَہتا۔بابا نوردِین کو لوگ چند سال ہوئے اِسی نام سے پکارتے تھے وَرنہ اُس کا پرانا نام تو اَین ڈِی تھااَین ڈِی یعنی نور دِین۔نور دِین نے فلسفے میں اَیم اَے کیا لیکن کوئی بھی نوکری کرنے کے بجائے اَپنا کاروبار شروع کیا حالانکہ جب نور دِین نے اَیم اَے کیا تھا اُن دِنوں پڑھے لکھے لوگوں کی کافی مانگ تھی۔ لیکن نہ جانے اُس کے جی میں کیا آئی کہ غیر ممالک سے تیزاب اِمپورٹ کرنے کا کام شروع کیا اَور کام میں خوب مال بنایا۔یورپ کے کئی ممالک کی سیر کی اَور بے شمار کتابیں اَکھٹی کیں۔ ہمیشہ اَچھے کپڑے پہنے۔کوٹ پتلون اَور ٹائی نوردِین کا پسندیدہ لباس تھا۔ اِس کے علاوہ کبھی کبھی فیلٹ ہیٹ بھی پہن لیا کرتا لیکن اِس کا اِستعمال خاص مواقعوں پر کیا کرتا۔ نوردِین کے دَونوں بیٹوں نے بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اِس کاروبار میںقدم رَکھا اَور اِس کو مزید ترقی دِی۔ اِس محلّے میں اُس کے تین گھر تھے۔ اُس نے لالہ زار میں بھی بہت بڑی کو ٹھی خرید رَکھی تھی۔ اِس کے علاوہ ترلائی میں اُس کا فارم ہاوس تھا۔ نور دِین کو شروع میں محلّے کے سارے لوگ دَہریہ سمجھتے تھے۔ کئی اِیک نے تو اَپنے تئیں کُفر کے فتوے بھی لگا رَکھے تھے۔ اِس کی وَجہ صرف اَور صرف اِتنی تھی کہ نوردِین کے گھر میں بھگوت گیتا، رَامائین، مہابھارت،اْپنِشدہ، رِگ وِید،یجروِید،سام وِیداَور اِتھر وِیدکے علاوہ سدھارتھا گوتما بدھا کی جاتکائیںبھی تھیں۔ جن میں دِیپن کارا جاتکا، دَھمپدہ اَور تانترک بدھ اِزم تھا۔ یہ سب کتابیں اُ س کے ہاں کوموجود تھیں۔بائیبل کا عہد نامہ عتیق اَور عہد نامہ جدید دَونوں ہی اُس کے پاس تھے۔ یہودِیوں کے مذھب کے بارے میں بھی دَو تین کتابیں تھیں۔ نوردِین یِن یَین سے بھی متاثر تھا۔ پھر نوردِین پرویز کی کتابیں پڑھنے لگا۔ اِس کے بعد ڈاکٹر غلام جیلانی برق اَور سید امیر علی کی باری آئی۔ نور دِین نہ سُنی تھا نہ ہی شیعہ اَور نہ ہی وَہابی تھا۔ اْس کا اَپنا علیحدہ مسلک تھا۔ آہستہ آہستہ اُس نے اِس طرح کی تمام سرگرمیاں ترک کردِیں اَور سیدھا سادہ مسلمان بن گیا۔ نماز پڑھتا اَور رَوزے رَکھتا۔زکوۃدِیتا، قربانی دِیا کرتا۔ اَنگریزی لباس پہننا بالکل ترک کردِیا تھا اَب صرف اَور صرف سفید شلوار کرتہ پہنا کرتا۔ جس کی وَجہ سے اَین ڈی یعنی نوردِین، بابا نوردِین بن گیا تھااَور پاؤں میں کالی ڈَوری میں سفید رَنگ کا منکا ہمیشہ کے لیئے باندھ لیا تھا۔ اِس ڈَوری کا مطلب تھا
د ُنیاکی تارِیکی جو کہ ہمیشہ اِس د ُنیا پے چھائی رَہتی ہے اَور یہ کبھی زَلزلے کی شکل میں کبھی سیلاب کی شکل میں اَور کبھی ملکی اِنتشار کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ د ُ نیا کی تارِیکی میں فوجی حکومت اَور جمہوریت بھی شامل تھے ۔اِس میں سفید رَنگ کا ہاتھی دَانت کا منکا اِس بات کی علامت تھا کہ د ُ نیا میں اِیک اُمید کی کرن باقی ہے جس کی وَجہ سے لوگ جیئے جارَہے ہیں حتیٰ کہ لوگ اِس د ُنیا سے چلے جاتے ہیںلیکن یہ چھوٹی سی اُمید کی کرن ہمیشہ قائم رَہتی ہے۔اِس منکے میں اِیک چھوٹا سا کالا نقطہ تھا جس کا مطلب تھا اِس اُمید کی کرن میں تھوڑا سا کھوٹ ہے۔ جب یہ کھوٹ دَور ہوجائے گا تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔یہ فلسفہ کچھ کچھ یِن یَین سے ملتا جلتا تھا۔اِس کے پاؤں میں بندھا ہوا یہ چھوٹا سا زِیور ہمیشہ اِس کو اِس فلسفے پے قائم رَہنے کی یاد دِلاتا اَور ترغیب دِیتا ۔ کَملی کے بارے میںبابا نوردِین کا خیال تھا کہ یہ اِس محلّے کے لوگوں کا اِمتحان ہے جس میں لوگ بری طرح فیل ہوئے ہیں۔یاچند اِیک لوگ جو پاس ہوگئے ہیںاُن کی وَجہ سے کوئی مصیبت و آلام نہیں آیا۔
٭
رَب نواز کا کیا ہوا عمل رَنگ لایا اَور کَملی اِیک دَفعہ پھر حاملہ ہوگئی۔اَب کے سارے محلّے میں یہی چہ میگوئیاں ہورَہی تھیں کہ بچے کا باپ رَب نواز ہے۔ بُبّو کو تو پہلے ہی پتا چل چکا تھا لیکن کَملی دَو تین ماہ کہیں غائب رَہی اَور اِتنی مُدت بعد نظر آئی کہ جب محلّے کی عورتوں نے بچہ ضائع کرنے کے لیئے دَائی کا اِنتظا م کیا تو دَائی نے صاف اِنکار کردِیا کیونکہ بہت زیادہ مْدت گزر چکی تھی۔اِیک دَولیڈ ی ڈاکٹروں سے بھی بات کی تو اُنہوں نے بھی اِنکار کردِیا۔ اَب کَملی سَرسوںکی طرح پھولی ہوئی گلیوں میں آوارَہ پھرتی۔ اِس بات سے بابا نوردِین، اَرمغان، مولوی اَبوبکر اَور ٹھیکیدار بلکہ ٹھیکیداروں کا پورا کنگڈم وَاقف تھا ۔ رَب نواز کو کسی بات کا خوف نہیں تھا کیونکہ وہ اِس بات سے وَاقف تھا کہ کَملی ہر جگہ گھومتی رَہتی ہے ۔ اِس لیئے مَیںاَکیلاتو نہیں جس سے یہ غلطی یا گناہ سرزَد ہوا ہے۔ خدا خدا کرکے بچے کی پیدائش کا دِن قریب آیا ۔کَملی کو ٹھیکیدارَوں کے گھر لے جایا گیا اَور اُنہوں نے اَپنے پارسا اَورنیک ہونے کا خوب ڈَھونگ رَچایا۔ کَملی نے مرے ہوئے بچے کو جنم دِیا لیکن اُس کی شکل کس سے ملتی تھی یہ بات دَائی نے کسی کو نہ بتائی۔ اُس کا منہ ٹھیکیدارَوں نے بہت سارِی رَقم دِے کے بند کردِیا تھا۔
اِس وَاقعے کے بعد ٹھیکیدارَوں کے گھر اِیک میٹنگ بلائی گئی جس میں کَملی کے مسئلے پے غور کے لیئے سب کو بُلایا گیا۔ سب کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ اِسے پاگل خانے بھیج دِیا جائے لیکن بُبّو نے اِس بات کی سخت مخالفت کی ۔ آخرکار ٹھیکیدارَوں نے کَملی کا آپریشن کروَادِیا تانکہ کَملی دَوبارَہ کبھی ماں نہ بن سکے اَور نہ ہی قدرت کے اِس ماہ وَار عمل سے گزرے۔
اِس وَاقعے کے بعد جب اَرمغان کی ملاقات بابا نوردِین سے ہوئی تو و ہ یہ دِیکھ کر حیران رَہ گیا کہ اُن کے پاؤں میں وہ کالا دَھاگہ نہیں تھا۔ جب اَرمغان نے دَھاگے کے بارے میں پوچھاتو بابا نور دِین کہنے لگا ،’’میرا فلسفہ غلط ہے‘‘۔
کَملی اُسی طرح گلی گلی پھرتی اَور اُس کے منہ سے اِیک ہی بات نکلتی، ’’مولوی اَکبر کہتا ہے اَب کوئی خطرہ نہیں، اَب کوئی خطرہ نہیں ،اَب کوئی خطرہ نہیں‘‘۔