آج وہ یاد بے حساب آیا ۔۔۔ زاہدہ حنا
رانا سلیم سنگھ
آج وہ یاد بے حساب آیا۔
( زاہدہ حنا )
میں اس وقت ٹیلی ویژن اور پریس کیمروں کی تیزروشنی میں نہایا ہوا تھا اور ایک آرٹ گیلری کے دروازے پربندھے ہوئے سرخ فیتے کو کاٹ چکاتھا۔ میں نے ہال میں دوسرے متعدد لوگوں کے ساتھ قدم رکھاتوسفید دیواروں پر آویزاں روغنی تصویروں سے پھوٹتی ہوئی رنگوں کی تازی خوشبو کے ساتھ اسکی یاد ایک طوفانی لہر کی طرح آئی اور مجھے شرابور کرتی ہوئی نکل گئی۔ میں اس لمحے ہجوم میں تنہا اور صرف اس کے ساتھ تھا شاید اس لیے کہ اس سے پہلی ملاقات کے بعد میں تازہ رنگوں کی خوشبو اور اس کی یا د کبھی ایک دوسرے سے یوں جڑے ہوئے تھے جیسے ایک ہی کوکھ سے نکلے ہوں۔ ایک ہی شاخ سے پھوٹے ہوں۔
یہ وہ باتیں ہیں جنہیں میں اپنے آپ سے کرتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں۔ کوئی نادیدہ ہاتھ اگر اس کے اور میرے تعلق کو میری کانفیڈینشل رپورٹ میں لکھ دے تو میں معتوب ٹھہروں۔ بھلاکہیں دشمن بھی دوست بنائے جاتے ہیں؟ لوگ بناتے ہوں گے، ہم نہیں بناتے۔
وحشت میرے اندر بھنور ڈالنے لگتی ہے۔ میں ادھر ادھر نگاہ ڈالتاہوں۔ میری اسٹڈی کے فرش پر دیوار تا دیوار سفید قالین ہے جس پرکرمان شاہی غالیچے بچھے ہیں۔ یہ غالیچے میں نے جنگ زدہ کابل کے کوچہ مرغاں کی ایک تنگ اور نیم تاریک دکان سے خریدے تھے۔ میں گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھا ہوں، سامنے برف کی ڈلیوں سے بھری ہوئی چاندی کی بالٹی ہے، شراب ہے، بھنے ہوئے نمکین کاجو اور بادام ہیں، سنکے ہوئے گوشت کے پارچے ہیں۔ نظراس سے آگے جاتی ہے تو ٹیک ووڈ کی دیوار گیر الماریاں ہیں۔ ان کے پیچھے وہ سیف ہے جس میں ڈالر اور پونڈ کی گڈیاں ہیں۔ دوسری قیمتی اشیاء ہیں۔ اس کی بنائی ہوئی ’’بنی ٹھنی‘‘ ہے جسے میں شدید خواہش کے باوجود اپنے گھر کی کسی دیوار پر آویزاں کرنے کی ہمت نہ کر سکا۔ یہ ان الماریوں کا باطن ہے اور ان کے ظاہر میں قیمتی کتابیں سجی ہوئی ہیں۔ دنیا بھر سے جمع کئے ہوئے نوادرات ہیں، سب سے اوپر کسی خطاط کا ایک شاہکارہے اور تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ میری نگاہیں الماری کے اس طاقچے تک آئی ہیں جس میں مہاتما بدھ کا وہ مجسمہ ہے جسے ‘فاسٹنگ بدھا’ کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ تیاگ اور تپسیا نے کپل وستو شہزادے کا بدن گھلا دیاہے، گنی جا سکتی ہیں۔ پیٹ پیٹھ سے جالگا ہے اس کی دھنسی ہوئی اور پتھرائی ہوئی آنکھوں سے مجھے ڈر لگتا ہے۔ میں گھبرا کر کسی اور شے کو دیکھنے لگتا ہوں۔ اس کی آنکھیں بھی میرے وجود کو حرف حرف پڑھتی تھیں اور مجھے اس کی آنکھوں سے بھی ڈر لگتا تھا پھر بھی دل اس کی طرف کھنچتاتھا۔
وہ رنگوں کی خوشبو تھی جس نے کئی برس پہلے مجھ پر ہجوم کیاتھا او ر میں نے چونک کر اپنے برابر آبیٹھنے والے کو دیکھا تھا۔ اس نے آتے ہی وہسکی ساور کاآرڈردیا تھا او ر دونوں کہنیاں کاؤنٹر پر لگا کر دلچسپی سے بارمین کو گلاس میں وہسکی، لیموں کے عرق اور شکر کو آمیزکرتے ہوئے دیکھتا رہا تھا۔ اس کا ایک ہاتھ مجھے نظر آرہا تھا۔ بالوں سے ڈھکا ہوا مضبوط ہاتھ جو اس کے نصف رخسار اور بالوں پررکھا ہوا تھا۔ میں نے غور سے اس کے ناخنوں کور دیکھا تھا، ان کے گوشوں میں رنگ سوتے تھے۔
چند منٹ بعد وہسکی ساور اس کے سامنے آئی تو اس نے رقم بارمین کے سامنے رکھی ، پہلی چسکی لے کر گردن گھمائی اور ہم دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے الجھ کر رہ گئیں۔
’’اپنی طرف کے ہیں آپ؟‘‘ اس کی آواز گہری اور مضبوط تھی اور نگاہیں آواز سے بھی گہری۔
’’میں بھی یہی سوچ رہا ہوں آپ کے بارے میں‘‘۔ میں بے اختیار مسکرادیا۔ یہاں میرے پاس سب کچھ تھا لیکن دوست نہ تھے۔ جو حاضر باش تھے وہ ملازمتیں کرتے تھے اور صرف ویک اینڈ پر دستیاب ہوتے تھے۔ وہ بھی اس لیے کہ میں انہیں مفت کی شراب پلاتا، کھانے کھلاتا اور انھیں ضرورت پڑتی تو دس بیس پونڈ ان کی جیب میں ڈال دیتا تھا۔
’’اس شہر میں آپ شاید بہت دنوں نہیں رہے؟‘‘
’’سوتوہے۔ لیکن آپ نے کیسے اندازہ لگایا؟‘‘ میں نے اپنا گلاس اٹھا کر ایک گھونٹ بھرا۔
’’یہ جتنے بھی ظالم شہر ہیں‘‘۔
’’ظالم؟‘‘ میں نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’ہاں، میں تمام بڑے شہروں کو ظالم کہتاہوں۔ ان میں آدمی زیادہ دن رہ جائے توانسان نہیں رہتا ، جزیرہ بن جاتا ہے۔ جسم کاجزیرہ۔ دوسروں سے کٹاہوا۔ اپنے بدن کا، اپنی خواہشوں کا قیدی۔ دوسروں سے اس کی روح کا مکالمہ ختم ہوجاتا ہے‘‘۔
’’واہ۔ جزیرے والی بات خوب کہی آپ نے‘‘۔ میں نے بے ساختہ اسے داد دی۔ اس کے جملوں میں روشن دھوپ کی آسودہ کردینے والی چمک تھی۔
اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اس وقت کچھ اور مانگتا تو وہ بھی مل جاتا۔ بڑی شبھ گھڑی تھی۔ اس کا گیہواں رنگ سرشاری سے دمک رہا تھا۔
’’میں آپ کی بات نہیں سمجھ سکا‘‘۔ میں نے اسے غور سے دیکھا۔
’’ارے جناب آپ کیاسمجھیں گے۔ ہوا یوں کہ جب میں کام کرتے کرتے تھک گیا تھا تو اٹھ کر کپڑے بدلے اور یہ سوچ کر باہر نکلا کہ اپنی طرف کا کوئی مل جائے تو دو گھڑی اس سے باتیں کرلیں۔ دوسروں کی بولی بولتے بولتے جبڑے دکھنے لگتے ہیں۔ جس زبان میں آپ خواب نہ دیکھیں، عشق نہ کریں، گالی نہ دیں اور ٹھوکر کھا کر جس میں ’’ہائے ‘‘ نہ کہیں، اسے آپ کب تک بولیں گے ؟ اور اگربولتے بھی رہے تو من کے بھیتر سے کوئی موتی کہاں پائیں گے‘‘۔
’’آپ تو بڑے مزے کی باتیں کرتے ہیں‘‘۔ میں پھڑک اٹھا۔ میں اب جن لوگوں میں رہتا تھا ان میں سے کوئی بھی ایسی باتیں نہیں کرتا تھا۔ یہ بھولا بسرا لہجہ تھا، بڑی دور سے آنے والی آوازیں تھیں۔
’’اجی ہم یاروں کے یار ہیں۔ آپ دو گھڑی بات کر کے تو دیکھیں‘‘۔وہ ترنگ میں تھا۔
’’لیجئے صاحب، ہم نے آج کی رات آپ کے نام لکھی۔ ایسا کیجئے، یہ گلاس ختم کریں، پھر میرے ساتھ چلیں۔ جی چاہے تو ساری رات باتیں کیجئے گا۔ یوں بھی کل ہفتہ ہے۔ نہ کہیں پہنچنے کی جلدی اور نہ کہیں جانے کا مسئلہ‘‘۔ میں بھی اسی کے سے بے تکلفانہ لہجے میں کہا۔ یوں بھی یہاں کے بار مجھے پسند نہ تھے۔ بھولے بھٹکے مجبوراً کبھی بیٹھ جاتا تھا۔
اس نے بہت گہری نظروں سے مجھے دیکھا اور چند لمحوں تک خاموشی سے دیکھتا رہا۔ ’’ضرور چلیں گے ہم آپ کے ساتھ۔ لیکن یہ تو بتائیں کہ چلیں گے کہاں؟‘‘
’’اس سے آپ کو کیا غرض میں کہاں لیے چلتاہوں۔ آپ کاجی چاہ رہا تھا کہ کوئی ہم زبان مل جائے۔ میں بھی تنہائی سے اکتا کر باہر نکلا تھا۔ اب ہم دونوں ایک دوسرے کو مل ہی گئے ہیں تو پھر ذرا جم کر باتیں ہوں‘‘۔
’’بات تو آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ ابھی چلتاہوں آپ کے ساتھ۔ لیکن کیا خیال ہے اب جب کہ ہم یہاں سے اکٹھے کہیں جارہے ہیں تو ایک دوسرے کا نام نہ جان لیں؟ باتیں کرنے میں ذرا آسانی رہے گی‘‘۔ وہ شرارت سے مسکرایا اور تب مجھے احساس ہوا کہ واقعی ابھی تک ہم دونوں ایک دوسرے کے نام سے ناواقف ہیں۔
’’مجھے احمد مسعود کہتے ہیں۔ چند مہینوں کے لیے کسی سرکاری کام سے آیاہوا ہوں‘‘۔میں نے گول مول بات کی۔
’’شاید پاکستان سے آئے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں، لیکن ہندوستان سے بھی تو آسکتا تھا‘‘۔ میں نے جواباً سوال کیا۔
’’ہاں آتو سکتے تھے لیکن وہاں کے سرکاری افسراتنی ٹیپ ٹاپ سے نہیں رہتے‘‘۔ اس نے سر سے پیر تک مجھے غور سے دیکھتے ہوئے کہا اور لحظہ بھی کے لیے میں جھنجھلا گیا۔ عجب بے دھڑک آدمی تھا۔
’’ارے بھئی برانہ مانئے گا میری بات کا۔ میں بس یوں ہی بے ڈھب بولتا ہوں‘‘۔ اس نے شاید میرے چہرے کا بدلتا ہوا رنگ دیکھ لیا تھا۔ ’’اور ہاں، میرا نام تو رہ ہی گیا۔ جے پور کا رہنے والا ہوں۔ گھر والے اور دوست سب ہی مجھے شیخو کہہ کر بلاتے ہیں۔ ویسے میرا نام سلیم ہے ،رانا سلیم سنگھ‘‘۔
’’آپ ایسے باکمال کا نام بھی ایسا ہی ہونا چاہیے تھا‘‘۔ ہندوستانیوں اور وہ بھی ہندوؤں سے میل جول کے بارے میں مجھے اپنی وزارت کی ہدایتیں یاد آئیں اور میں نے اس کے کان میں پڑے ہوئے در کو دیکھا۔
وہ نگاہیں پہچانتا تھا، کہنے لگا ’’میرے کان میں آپ یہ جو مندری دیکھ رہے ہیں اس میں پڑا ہوا یہ موتی منت کا ہے۔ اس کی بھی ایک کہانی ہے۔ ماتا جی کی شادی کو کئی برس ہو گئے تھے پر اولاد نہیں ہوتی تھی۔ جب وہ ہر سادھو سنت، پیر فقیر سے مایوس ہو گئیں تو ننگے پاؤں، ننگے سر حضرت سلیم چشتی کی درگاہ پہنچیں۔ صاحب ادھر انہوں نے منت مانگی، ادھر دس مہینے بعد ہم وارد ہو گئے۔ ماتاجی نے ترنت ہمارا نام سلیم سنگھ رکھ دیا اور صرف اسی پر بس نہیں کیا۔ سمجھیں کہ واقعی ان کے گھر میں شہزادہ سلیم پیدا ہو گیا ہے لیجئے صاحب وہ ہمیں شیخو پکارنے لگیں۔ سو آج تک ہم گھر میں اور دوستوں میں شیخو ہیں۔ اس دائرے سے باہر نکلیں تو سلیم ہیں۔لیکن کوئی انارکلی ہم سے محبت کی سزامیں دیوار میں چنوائی نہیں گئی اور مہر النساء کی بات رہنے دیں کہ اسے حاصل کرنے کے لیے شیرافگن کا قتل ضروری ہے‘‘۔
اس نے ایک ٹھاٹ دار قہقہہ لگایا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’چلیں صاحب، اب جہاں چاہیں چلیں‘‘۔
ہم دونوں باہر نکلے تو چند قدم چلنے کے بعد مجھے ایک ٹیکسی نظر آگئی۔ میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکا۔
’’ارے ٹیکسی کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
میں نے ڈرائیور کو ٹرنہم گرین کا پتہ بتایا تو اس نے احتجاج کیا۔
’’اماں بھائی صاحب سامنے ہی ہیمر اسمتھ(Hammersmith) کا ٹیوب اسٹیشن ہے۔ وہاں سے ٹیوب پکڑتے ہیں تو دو اسٹیشن بعد ٹرنہم گرین ہے۔خیر، جیسے جناب کی مرضی‘‘۔ اس نے ٹیکسی میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
میرا فلیٹ وہاں سے واقعی زیادہ دور نہیں تھا۔ بمشکل دس منٹ بعد میں اپنے اس فلیٹ کا دروازہ کھول رہا تھا جس کی لیز ختم ہونے میں ابھی کئی مہینے باقی تھے۔
میں نے اسے لے جا کر ڈرائینگ روم میں بٹھا دیا۔ ’’عالی جاہ، عالم پناہ،یہاں آرام سے بیٹھیں۔ سامنے ٹیپ رکھے ہیں۔ کلاسیکی، نیم کلاسیکی موسیقی، غزل، جو جی چاہے منتخب کریں اور سنیں۔ خود سوچئے کہ جیسا سکون یہاں ہے، کیا وہ کسی بھی بار میں میسر آسکتا تھا؟‘‘ میں نے جھک کر اس سے سوال کیا۔
’’اجی صاحب جو آپ کی رائے وہ پنچوں کی۔ کس کی مجال ہے کہ آپ کی بات نہ مانے‘‘۔ اس نے پرسکون لہجے میں کہا اور صوفے سے اٹھ کر آڈیو کیسٹوں کو الٹنے پلٹنے لگا۔ میں کچن میں گیا، کیبنٹ سے رائل سیلوٹ (Royal Solute) اور کٹی سارک (Cutty Sark) کی بوتلیں نکال کر ٹرالی میں رکھیں۔ برف، چمکتے ہوئے گلاس اور طشتریوں میں کچھ نمکین چیزیں رکھ کر ٹرالی دھکیلتا ہوا ڈرائینگ روم میں آگیا۔
اس نے جوتے اتار کر ایک طرف ڈال دئیے تھے اور صوفے کی بجائے قالین پر آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا۔ کمرے میں سہگل کی پرسوز آواز گونج رہی تھی ’’بالم آئے بسو مورے من میں‘‘۔ وہ آنکھیں بند کئے سہگل کی آواز میں یوں محو تھا جیسے عبادت کر رہا ہو۔ اس کی تقلید میں مجھے بھی قالین پر بیٹھنا پڑا۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں تو میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیا پسند کرے گا، اس نے کٹی سارک کی طرف اشارہ کیا اور میں نے پیگ بنا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے ٹوسٹ کیا اور پھر آواز کی لہروں پر بہنے لگا۔ ’’ساون آیا تم نہیں آئے، کوئل کوکت بن میں، بالم آئے بسو مورے من میں‘‘۔ گیت ختم ہوا تو اس نے سراٹھایا، آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور دھیمے سے مسکرایا۔ اس لمحے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ان کی آنکھیں مجھے پڑھنے پر، میرے اندر تک اتر جانے پر قادر ہوں۔ میں نے اپنی نگاہیں جھکا لیں۔
’’اپنے نام کے بارے میں تو آپ نے بڑی تفصیل سے بتایا لیکن یہ نہ بتایا کہ آرٹسٹ بھی ہیں آپ‘‘۔ میں نے صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’ارے آپ تو جادوگر معلوم ہوتے ہیں۔ نہیں جادوگر نہیں، جیوتش ودیا کے ماہر لگتے ہیں ۔ آخر آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں تصویریں بناتاہوں‘‘۔ اس نے اپنی بڑی اور گہری آنکھوں سے مجھے دیکھا ، ان میں واقعی حیرانی تھی۔
’’آپ جب میرے برابر آکر بیٹھے ہیں تو آپ میں سے تازہ رنگوں کی خوشبو آئی تھی اور آپ کے ناخن بھی چغلی کھا رہے ہیں‘‘۔
اس نے جلدی سے اپنے ناخنوں پر ایک نظر ڈالی، ’’اماں بھائی صاحب پاکستان سرکار کے لیے شرلاک ہومز والا کام کرتے ہیں کیا؟‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔
میں چپ رہا تو وہ بھی چپ ہو گیا۔ چند لمحوں بعد کہنے لگا ’’آپ جس بار میں بیٹھے تھے میں اس کے قریب ہیمراسمتھ میں رہتا ہوں ریور سائیڈ اسٹوڈیو (Riverside Studio) کے نزدیک، کسی روز میری طرف آئیں تو میں آپ کو اپنی بنائی ہوئی تصویریں دکھاؤں۔ کچھ دنوں میں میری Exhibition بھی ہونے والی ہے، ریور سائیڈ اسٹوڈیو کی گیلری میں‘‘۔
’’ون مین شو ہے۔ چند مہینوں بعد ہوگا۔ آپ ضرور آئیے گا‘‘۔
’’ہاں اگر اس وقت تک میں لندن میں رہا تو ضرور آؤں گا۔ لیکن اس سے پہلے بھی ان کے درشن کروں گا‘‘۔ میں نے اسے ذرا غور سے دیکھا۔
’’لیکن میری تصویریں دیکھ کر شاید آپ کو لطف نہ آئے۔ میری تصویروں کے تھیم بڑے کڑوے ہیں‘‘۔ اس نے ایک بڑا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔ اچانک اس کی پیشانی پر سلوٹیں ابھر آئی تھیں۔ اور لہجہ سنجیدہ ہو گیا تھا۔
’’زندگی اتنی کڑوی تو نہیں شہزادے‘‘۔
’’یہ زندگی کو دیکھنے کاہر آدمی کا اپنا ڈھب ہوتا ہے جو اسے کڑوا یا میٹھا بنا دیتا ہے۔ پہلے کے آرٹسٹوں کی تصویروں میں کڑواہٹ اول تو کم ہوتی تھی اور اگر ہوتی تو مٹھاس بھی ساتھ ہوتی تھی۔ بدصورتی ان کے ہاں حسن کے سائے میں ہوتی تھی۔ لیکن ہمارے زمانے میں تو مٹھاس جیسے زندگی کی تہ میں کہیں بیٹھ گئی ہے‘‘۔اس کا لہجہ اداس تھا۔
میں خاموشی سے شراب میں گلتی ہوئی برف کی ڈلیوں کو دیکھتا رہا۔ وہ چند لمحے تک خاموش رہا پھر اچانک بول اٹھا ’’سترہویں، اٹھارویں، انیسویں صدی میں بنائی جانے والی تصویریں دیکھیں۔ اس زمانے کے بڑے بڑے چترکار چرچ کے لیے تصویریں بناتے تھے یا بادشاہوں، شہزادوں، ان کی محبوباؤں ، ان کے گھروں اور ان کے شکاری کتوں کی تصویریں۔ میدان جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی لاشوں پر کھڑے، تنتے ہوئے، فاتح حکمراں ان کا موضوع ہوتے تھے۔ وہ جو کچھ بھی بناتے تھے اس کا معاوضہ انہیں مذہب کا ادارہ ادا کرتا تھا یا بادشاہت کا۔ کچھ رقم اور سرپرستی انہیں فیوڈل لارڈز (Feudal Lords) سے مل جاتی تھی۔ ان کا کمٹ منٹ (Commitment) صرف اپنے فن سے تھا۔ یہ تو بیسویں صدی ہے جس نے کوئی کو، ادیب اور چتر کار کو براہ راست جنتا سے جوڑ دیا ۔ اب اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں، یا جنتا کے ساتھ جا کر کھڑا ہو جائے یا اسٹبلشمنٹ سے ناتا جوڑے۔ پہلے کا آدمی راستوں کے انتخاب کے مرحلے سے نہیں گذرتا تھا جس طرح اب ہم گذرتے ہیں۔ اسی لیے ہماری ذمہ داری بھی بڑی ہے اور ہمارے عذاب بھی بہت ہیں‘‘۔
میں جانتا تھا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔ میرے اپنے ڈرائینگ روم میں ایک بہت مشہور مصور نے ہمارے ہر مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، صدر اور وزیر اعظم کی تصویر بنائی تھی اور اسی لیے اس کے مرتبے بہت بلند تھے۔ وہ سرکاری محکموں کے لیے، سفیروں اور سفارت خانوں کے لیے تصویریں پینٹ کرتا تھا۔ ان کا معاوضہ اسے لاکھوں میں ملتا تھا۔ اب وہ محض حکم کی تعمیل کرتا تھا۔ تخلیق کرنابھول چکا تھا۔ آپ لاکھوں میں کھیل رہے ہوں، ساری دنیا کا سفر کررہے ہوں تو ’’تخلیق‘‘ اور ’’تخیل‘‘ کے جھنجھٹ میں کیوں پڑیں؟ یہ رانا سلیم سنگھ ابھی دنیا کو نہیں سمجھا تھا، میری طرح جب دنیا اس کی سمجھ میں آجائے گی تو یہ خود ہی سدھر جائے گا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا۔
’’اچھا اب تم اپنا پیگ بناؤ اور ایک میرے لیے بھی‘‘۔ ہم دونوں کے ہی گلاس خالی ہو گئے تھے۔ اور میں اب ’’آپ‘‘ سے تم پر اتر آیا تھا، وہ ابھی اسی لہر بہر میں تھا جس میں اکثر نوجوان ہوتے ہیں، آدرش کی باتیں اور دنیا اور دنیا کو بدلنے کے خواب۔ کبھی میری آنکھیں بھی یہ خواب دیکھتی تھیں۔
اس نے پیگ بنا کر میرے سامنے رکھ دیا۔
’’میاں گھونٹ بھرو اور غم بھلاؤ۔ اس میں اداس ہونے کی ذرا بھی ضرورت نہیں‘‘۔ میں نے اسے دلاسا دیا۔
’’میں اس لیے اداس ہوتا ہوں یار صاحب کہ میراجی خوش ہونے کو چاہتاہے۔ حسن کو محسوس کرنے اور میٹھے رنگوں سے کھانڈ کے کھلونوں جیسی تصویریں بنانے کو جی چاہتا ہے۔ لیکن میرے اردگرد جو کچھ ہورہا ہے ، جو کچھ ہو گیا ہے وہ مجھے زندگی کو کسی اور طرح دیکھنے پرمجبور کرتا ہے‘‘۔ میں نے اس کی آنکھوں کے نم کو دیکھا اور یوں بن گیا جیسے کچھ نہ دیکھا ہو۔
وہ کچھ دیر سر جھکائے بیٹھارہا، پھر کہنے لگا ’’پہلے والے آرٹسٹ Nudes بناتے تھے تو اس میں حسن، توازن ، تناسب جھلکتا تھا۔ آج بھی ماسٹرز کی بنائی ہوئی نیوڈز کے سامنے کھڑے ہو توکچھ دیر بعد حواس دھوکا دینے لگتے ہیں۔ ان تصویروں میں سے جیتی جاگتی عورت کے بدن کی خوشبو اٹھنے لگتی ہے۔ لیکن میں ایسی حسین تصویریں کیسے بنا سکتا ہوں؟ کالج میں تھا تو ریلیف ورک کے لیے بنگال گیا۔ وہاں میں حسن بنگال کے بجائے فاقہ زدہ عورتیں دیکھیں جن کی چھاتیاں سوکھ کر پسلیوں سے چپک گئی تھیں۔ یونیورسٹی پہنچا تو کمیونل رائٹس میں گھروں کے آنگنوں میں لیٹی ہوئی نیوڈز دیکھیں جن کی کھلی ہوئی آنکھیں آسمان کو تکتی تھیں‘‘۔
وہ بولتا چلا گیا۔ کچھ دیر پہلے ہنس رہا تھا، قہقہے لگا رہا تھا اور اب یوں بیٹھاہوا تھا جیسے دیوتا اٹلس ہو اور دونوں شانوں پر دنیا اٹھائے ہو۔
اس سے ملنے سے پہلے مجھے اپنے آپ پر ناز تھا کہ ماسٹرز کی تصویروں کے بارے میں بہت جانتا ہوں لیکن اس سے ملنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ میں نے بڑے مصوروں اور ان کی تصویروں کے بارے میں پڑھاہے، سرسری طور پر انہیں آرٹ گیلریوں میں دیکھا ہے۔ سلیم سنگھ ان تصویروں کی روح میں اترا ہوا تھا۔ وہ کس روانی سے بولتا تھا اور کس سہولت سے اپنی بات بیان کرتا تھا۔ وہ Guya سے بے حد متاثر تھا۔ جنگ ، قحط اور انسانوں پر ہونے والے مظالم نے گویا کے فن پر جو اثرات مرتب کئے وہ دیر تک ان کا ذکر کرتا رہا۔ اس کے خیال میں گویا پہلا بڑا مصور تھا جس نے انسانی عذابوں کی تصویر کشی کی تھی۔ جہنم کے ساتویں طبقے اور جیل خانوں میں ہونے والے شدائد، فاتحین کے خلاف بغاوت کرنے والوں کا قتل عام اور بھٹی دہکانے اور غاصبوں کے خلاف لڑنے کے لیے کارتوس بنانے والوں کی تصویریں۔
وہ بطور خاص ان Eochings کا ذکر کرتا رہا جو گویا کے البم The Shadow of War کا ایک حصہ ہیں۔ جیل خانے میں انسان ، انسان پر جو ظلم روا رکھتا ہے گویا نے یہ تصویریں اس بارے میں بنائی تھیں۔ یہ تین تصویریں جو بیڑیوں ہتھکڑیوں اور زنجیروں میں جکڑے ہوئے ایک قیدی کی تصویریں تھیں، اس پر گذرنے والے سارے عذابوں کو اور ’’انصاف کرنے والوں‘‘ کے ’’انصاف‘‘ کو ظاہر کرتی تھیں۔’’قیداس قدر وحشیانہ ہے جس قدر کہ جرم‘‘، ’’کسی مجرم پر تشدد کیوں۔۔۔‘‘، ’’اگر وہ مجرم ہے تو اسے جلد مر جانے دو‘‘۔ وہ ان عنوانات والی Ecohings پر بولتا رہا۔ پھر اچانک خاموش ہوگیا۔
’’کیوں بھئی۔ شیخو بابا تم چپ کیوں ہو گئے؟‘‘ خاموشی طول کھینچنے لگی تو میں نے ہنس کرپوچھا۔ کمرے کی فضا بوجھل ہو گئی تھی اور میں ایک عرصے سے اتنی بوجھل باتوں کا عادی نہیں رہا تھا۔
’’مجھے اب اپنا رنواس یاد آنے لگا‘‘۔ اس کا لہجہ شراب سے بھیگا ہوا تھا۔
’’رنواس؟‘‘ میں نے اسے حیرت سے دیکھا۔
’’ہاں جان عالم۔۔۔ رنواس۔۔ جہاں رانیاں رہتی ہیں، جسے تم حرم کہتے ہو، جی چاہے پرستان کہہ لو‘‘۔ وہ مجھے آنکھ مار کر ہنسا۔
’’رنواس کے معنی میں جانتا ہوں ، اتنی اردو یا ہندی مجھے بھی آتی ہے‘‘۔ میں برا مان گیا۔
اس کی سرخ آنکھیں میرے اندر سفر کررہی تھیں۔
’’کیسے شرابی ہو یار صاحب ، بوتل والی اندر اترے تو سینہ دھو دیتی ہے، ساری کھوٹ کپٹ کینہ کاٹ دیتی ہے‘‘۔
اس نے اپنا خالی گلاس اٹھایا اور میری آنکھوں کے سامنے لہرایا‘‘۔ یہ جب میرے اندرسفر کرتی ہے تو مجھے اپنی رانیاں، اپنی پریاں یاد آنے لگتی ہیں۔ اب میں جاؤں گا ، وہ روٹھ گئی ہوں گی تو انہیں مناؤں گا۔ سبز پری، نیلم پری، لال اور بستنی پری‘‘۔
وہ دروازے کی طرف بڑھا اوراس نے اپنے دائیں ہاتھ کو یوں لہرایا جیسے اس کے ہاتھ میں برش ہو اور وہ اس سے رنگ بکھیر رہا ہو۔
میں اس کے ساتھ سڑک تک آیا۔ میں اسے ٹیکسی میں بٹھا کر گھر بھیجنا چاہتا تھا لیکن اس نے میری ایک نہ مانی اور ہلکی پھوار میں بھیگتا ہوا اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی گنگناتا ہوا چلتا چلا گیا۔
میں اس وقت تک پھوار میں بھیگتا رہا جب تک وہ گلی کا موڑ مڑ کر میری نگاہوں سے اوجھل نہ ہو گیا۔ یہ میں تھا جو گنگناتا ہوا جارہا تھا۔ یہ میں جو بوجھل قدموں سے اپنے فلیٹ میں واپس آیا اور ایش ٹرے کے نیچے رکھے ہوئے کاغذ کے اس پرزے کو اٹھا کر دیکھتا رہا جس پر اس نے اپنا پتہ لکھا تھا۔ یہ میرا پتہ تھا۔ اس احمد مسعود کا پتہ جس کا ہاتھ میرے ہاتھ سے برسوں پہلے چھوٹ گیا تھا۔ اس کی یاد تو مجھے نہ جانے کب سے نہیں آئی تھی اور اب جب کہ وہ اپنی جھلک دکھا کر چلا گیا تھا تو میرے دل پر آرے چل رہے تھے۔
میں پیتا رہا، برسوں کا غبار دھوتا رہا اپنے آپ سے بچھڑ جانے والے احمد مسعود کو یاد کرتا رہا جو فراق گھورکھپوری کا شاگرد تھا اور ان جیسا ، مجنوں گورکھپوری اور احتشام حسین جیسا استاد بننا چاہتا تھا۔لیکن ملازمتیں عنقا کا پر ہو چکی تھیں۔ تب احمد مسعود نے الٰہ آباد چھوڑا ، لکشمن ریکھا پار کی اور کووندا کا رخ کیا جہاں جانے والے کبھی واپس نہیں آتے۔ وہ جو استاد بننے کے سفر پر نکلا تھا دنیا اس سے استادی کر گئی۔ اس نے ایک کالج میں پڑھانا شروع کیا لیکن فراق گورکھپوری اور احتشام حسین لکشمن ریکھا کے ادھر رہ گئے تھے۔ خواہشیں بھٹکے ہوئے پرندوں کی طرح احمد مسعود کے وجود کی منڈیر پر اتریں، اور پھر انہوں نے اس کے سارے بدن میں بسیرا کر لیا۔ اس کے باطن میں سوئی ہوئی دنیا جاگ گئی اور چپکے چپکے پاؤں پھیلانے لگی۔ احمد مسعود خود سمٹتا گیا ، سکڑتا گیا۔ دنیا کو اور اس کی خواہشوں کو جگہ دیتا گیا۔ پھر وہ سمٹتے سمٹتے بدن کے دائیں ہاتھ میں رہنے لگا۔ مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد جس روز میں نے کالج کے پرنسپل کے نام استعفیٰ لکھا تو میں نے دیکھا کہ میرا ماں جایا، میرا یار جانی احمدمسعودکسی سائے کی طرح میری انگشت شہادت سے نکلا اور خواہشوں اور دنیا کی ہم سائیگی سے آزاد ہوگیا۔
وہی احمد مسعود اب رانا سلیم سنگھ کے قالب میں رہتا تھا۔ شاید کسی اور بدن میں بھی رہتا ہو۔ لیکن میرا تو برسوں بعد اس سے آمنا سامنا ہوا تھا۔ تبھی تو اس اجنبی آشنا سے مل کر میں بے قرار ہو گیا تھا۔ وہ اپنے رنواس میں چلا گیا تھا، تصویروں اور پریوں کی سبھا سجانے۔لیکن میں کسی حجرۂ ذات کا رخ نہیں کر سکتا تھا۔ میں اپنے بٹوے میں بھرے ہوئے ملکہ کی تصویر والے نوٹوں سے کوئی مہنگی کتاب خرید کر پڑھ سکتا تھا۔ اس کے ذکر سے اپنے کم حیثیت ملنے والوں پررعب ڈال سکتا تھا۔ لیکن ادب یا فلسفہ یاشاعری کے اسرار اب مجھ پر نہیں کھلتے تھے۔ باحیا کنواریاں اپنے بند قبا کسی اجنبی کے لیے کب اور کہاں کھولتی ہیں۔
اس رات میں پیتا ہی چلا گیا اور میرے کانوں میں اس کی آواز گونجتی رہی۔ مجھے کئی بار اس کی آواز پر اپنی کھوئی ہوئی آواز کا شبہ ہوا۔ باہر بارش ہورہی تھی۔ اورکبھی کبھی بارش جب بہت زیادہ ہو تو پرانی قبریں کھل جاتی ہیں اور برسوں پہلے دفن کر دی جانے والی لاشوں کے ڈھانچے باہر آنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ لیکن سمجھدار لوگ فوراً ہی ان ڈھانچوں کو بیلچوں سے قبروں میں دھکیل دیتے ہیں اور ان پر تازہ مٹی ڈال دیتے ہیں۔ ان قبروں کو پتھروں سے بھر دیتے ہیں۔ اس رات میں نے بھی سلیم سنگھ کی باتوں کے بہاؤ سے کھل جانے والی ایک قبر سے جھانکنے والے اپنے ڈھانچے کو اندر دھکیلا اور اس پر یادفراموشی کی بھربھری ریت ڈال دی۔
میں کئی دن تک اس کی یاد کو ذہن کے مردہ خانے میں دھکیلتا رہا ، خود کو سمجھاتا رہا کہ اس سے ملنے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ کسی رانا سلیم سنگھ کا مجھ سے بھلا کیا علاقہ؟ میں جس شعبے سے تعلق رکھتا تھا اس میں اسے لوگوں سے ملاقاتیں ناپسندیدہ ٹھہرتی ہیں۔ لیکن اس میں کوئی ایسی بات تھی جو دوسروں میں نہ تھی۔
اورپھر ایک شام میں نہ چاہنے کے باوجود اس کے فلیٹ کی گھنٹی بجارہا تھا۔ دروازہ کھلا تو رنگوں سے لتھڑے ہوئے کرتے پاجامے میں وہ سامنے کھڑا تھا۔ ہاتھ میں برش تھا مجھے دیکھتے ہی وہ کھل اٹھا۔
’’ارے واہ تو آپ آگئے۔ میں روز ہی آپ کی راہ دیکھتا تھا‘‘۔ اس کی بے ساختگی میں کیسی مٹھاس، کیسا سوندھا پن تھا۔ مجھے ہائی سکول کے سامنے سے خریدی ہوئی گزک یاد آنے لگی۔ سوندھی اور میٹھی منہ میں گھلتی ہوئی، نشے میں لاتی ہوئی، وہ نشہ تو اب مہنگی شرابوں سے بھی میسر نہیں آتا تھا۔
میں اندر داخل ہوا ۔ یہ ایک بڑا کمرہ تھا، بے ترتیب، تازہ رنگوں کی خوشبو درودیوار سے پھوٹتی ہوئی۔ کئی کینوس دیواروں پر آویزاں تھے، کئی دیوار سے ٹکا کر رکھ دیے گئے تھے۔ ایک کینوس ایزل پر تھا اور ادھورا تھا۔ وہ شاید اسی پر کام کر رہا تھا۔ فرش پر، تپائیوں پر، کتابوں کے ڈھیر تھے۔ ایک کونے میں ایک زنگ آلود ہاون دستہ رکھا تھا۔ شیشے کے مرتبان تھے جن میں سے پھول اور جڑی بوٹیاں جھانک رہی تھی کسی عطار کی دکا ن کامنظر تھا۔
میں نے اسے دیکھا تو وہ گردن خم کیے ہوئے مجھے دیکھ رہا تھا اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ ’’یہ سب کچھ دیکھ کر پریشان ہو گئے ہیں آپ لیکن بس یہی میرا رنواس، میرا پرستان ہے۔ انتظار کیجئے کہ کسی بھی لمحے اچانک کوئی پری نمودار ہو جائے اور یہ آواز لگائے کہ معمور ہوں شوخی سے شرارت سے بھری ہوں، دھانی میری پوشاک ہے میں سبز پری ہوں‘‘۔
’’میرے خیال میں اس کے بعد اسے یہ اعلان بھی کرنا چاہیے کہ شہزادہ گلفام کی صورت پہ مری ہوں‘‘۔ میں نے اس کی بات پر گرہ لگائی۔
میرے جملے پر اس نے قہقہہ لگایا اور کمرے میں بچھے ہوئے واحد دیوان پر سے رسالے اورکتابیں اٹھا کر فرش پر رکھنے لگا۔ ’’آپ آرام سے یہاں بیٹھ جائیں ، میں ابھی آیا‘‘۔ گیلری کا دروارہ کھول کر وہ میری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔
مجھے لکشمن ریکھا پار کرنے سے پہلے کے دن یاد آئے۔ ان دنو ں میراکمرہ بھی اتنا ہی بے ترتیب ہوتا تھا۔ فرق تھا تو صرف اتنا کہ اس میں تصویروں کی بجائے کتابیں تھیں۔ کسی کونے میں کرتے کا گولہ پڑا ہوا ہے۔ دلائی فرش پر لوٹ رہی ہے۔ پلنگ کی ادوائن کسنے کی فرصت نہیں سو وہ جھلنگا ہوگئی ہے۔ ایک تپائی پر ابا کا گراموفون رکھا ہے جس پر صبح شام کوئی ایک ریکارڈ اس وقت تک بجایا جاتا ہے جب تک کہ وہ گھس کر ختم نہ ہوجائے۔ ایک ہی ریکارڈ نہ بجائیں تو کیا کریں کہ گرہ میں دوسرا خریدنے کا دم نہیں۔ ’’کھینچو کمان، ماروجی بان، رت ہے جوان، ادمورے پران، مارو جی بان‘‘۔ میرے بدن پرا رمانی(Armani) کاسوٹ تھا، قمیص آسٹن ریڈ کی اور اوور کوٹ بربری (Burberry) کاتھا۔میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کہاں بیٹھوں جو سوٹ پر دھبے نہ لگیں اور قمیص کے کف داغ دار نہ ہوں۔اوور کوٹ کس چیز پر لٹکاؤں کہ وہ گرد آلود نہ ہو۔ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیںآیا۔ ایک تپائی پر گراموفون رکھا تھا۔ میں نے جیسے خواب میں اپنا اوورکوٹ اتار کر اسے ایک کرسی کی پشت پر ڈال دیا اور اس گرامو فون کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
اسکے آنے کی خبر مجھے تارپین کی تیز بو سے ہوئی۔ ’’میں اپنے ہاتھ دھورہا تھا‘‘۔ اس کے ہاتھ پر سے رنگ اتر گئے تھے لیکن تارپین کے سفید دھبے نظر آرہے تھے۔
’’میرے خیال میں تھوڑی سی دارو چلے، تب ہی دلوں پر جمی ہوئی برف پگھلے گی‘‘۔ اس نے کہا اور کچن سے ایک بوتل اور دو گلاس لے آیا۔ پھر کسی کونے سے اس نے چپس کا ایک پیکٹ نکالا اور اسے کھول کر میرے سامنے رکھ دیا۔ وہ جب گلاس میں شراب انڈیل رہا تھا تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ شخص جو اتنے بے ڈھنگے پن سے یہاں رہتا ہے، میرے آراستہ فلیٹ میں آکر یوں بیٹھ گیا تھا جیسے آسائش کی زندگی اس کا روزمرہ ہو۔ مجھے پہلے اس پررشک آیا، پھرحسد ہوا۔ پھرکسی نے مجھ سے کان میں پوچھا کہیں اپنے آپ سے بھی حسد کرتے ہیں؟ کبھی اپنے آپ پر بھی کسی کو رشک آتاہے؟
گھونٹ بھرتے ہوئے میری نظر گرامو فون کا طواف کرنے لگی۔
’’کچھ سنیں گے آپ؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’یہ چلتا ہے؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھا۔
’’ارے یار صاحب ایسا ویسا چلتا ہے؟ ون ہنڈریڈپرسنٹ چلتاہے‘‘۔اس نے دیوان کے نیچے سے ایک ریکارڈ کیس نکالا اور اس میں رکھے ہوئے ریکارڈ الٹنے پلٹنے لگا۔ پھر ایک ریکارڈ اٹھا کر وہ گراموفون تک گیا ، سوئی بدلی چابی بھری اور پھر وہ آواز درودیوار پر پھیل گئی، ’’کھینچو کمان مارو جی بان مارو جی بان‘‘۔
میرے سینے پر تیر سا لگا اور میرے ہاتھ میں تھما ہوا گلاس لرز گیا۔ یہ کمرہ تھا کہ جادو نگری؟ یہ شخص تھا کہ میری بھولی بسری یادوں کو پڑھنے والا؟ یہ وہ تھا کہ میں تھا؟ یہ میں تھا کہ وہ تھا؟
سامنے اس کی ایک پینٹگ تھی۔ اس میں سمندر تھا، تہ میں سبز اور نیلا، سطح پر سفید جھاگ پر آسمان کی نیلگونی کا عکس تھرتھرارہا تھا۔پلٹتی ہوئی لہروں کی سبزی مائل نیلگونی میں سے کئی شکاری کتے نکل رہے تھے اور سمندر کی لہروں پر پر دوڑتے ہوئے اس ایک بگلے کا تعاقب کررہے تھے جو ان کے کھلے ہوئے نوکیلے جبڑوں اور رال گراتی ہوئی سرخ زبانوں سے کچھ ہی اوپر اڑ رہا تھا۔ تصویر میں سمندر اور کتے دونوں ہی اس خوبی سے پینٹ کیے گئے تھے کہ دیکھ کر کتوں کی سانسوں کی گرمی محسوس ہوتی تھی اور بھنور ڈالتا ہوا پانی اس قدر زندہ تھا کہ اس میں ہاتھ ڈبونے کو جی چاہتا تھا۔
’’تم تو سمندر کا ایک ٹکڑا چرا کر لے آئے ہو اور اسے کینوس پر رکھ دیا ہے‘‘۔
’’اجی ہم تو آنکھوں سے سرمہ اور پسلیوں سے دل چرا لاتے ہیں، یہ سمندر کیاچیز ہے‘‘۔ اس کی ہنسی کیسی بے ریا، کیسی ٹھاٹ دار تھی۔
’’لیکن رانا جی ، سرمے والی کہیں نظر تو نہیں آرہی‘‘۔ اپنے لہجے کی شرارت مجھے خود اجنبی لگی۔
’’ذرا چھری تلے دم تو لو یار صاحب ، سرمے والی سرکا ر بھی آجائے گی، پھر آپ کو اس سے میر کی غزلیں اور میرا کے بھجن سنواؤں گا۔ شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو‘‘۔ اس کی زبان سے پھول جھڑ رہے تھے۔ وہ آپ سے تم پر اتر آیا تھا۔
’’ماشاء اللہ۔۔۔ کیا بامحاورہ اردو بولتے ہو‘‘۔ میں نے گھونٹ بھرکر اسے دیکھا۔
’’میں نے مولوی صاحب سے صرف ہندی اور اردو ہی نہیں ، فارسی بھی پڑھی ہے۔ تختی لکھی ہے۔کہیے تو کریما بہ بخشاے برحال ما سناؤں، یا شاہنامے کے اشعار سنیں گے؟‘‘ وہ مسکراتارہا اور میں سوچتا رہا کہ میں نے ہندی کیوں بھلا دی۔ ہندی، ہندوی، ہندوستانی، امیرخسرو اس جھنجھٹ میں پڑے بغیر سات سو برس پہلے کہہ گئے تھے، ’’سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھو تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں، نہ آپ آوی نہ بھیجیں پتیاں‘‘۔ اب لکشمن ریکھا کے اس پار سے خط بھی نہیں آتے تھے۔ خون کے تمام رشتے بتاشے کی طرح بیٹھ گئے تھے اور مشترک تہذیب کی سیتا کو سیاست کا راون اٹھا لے گیا تھا۔
میرے فلیٹ پر سرکاری اور درباری دونوں ہی قبیلوں کے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ سلیم سنگھ ان لوگوں کو میرے یہاں وقت بے وقت نظر آتا تو سرگوشیاں شروع ہو جاتیں اور سرگوشیاں سوال اٹھاتی ہیں۔ میرے الجھے ہوئے معاملات مجھے اس کی اجازت نہ دیتے تھے لیکن اس سے پہلی ملاقات کے بعد سے دل بے اختیار اس سے ملنے کی خواہش کرتا۔ اسی لیے سلیم سنگھ کوبلانے کی بجائے میں خود اس کے یہاں چلاجاتا۔ میں کبھی کسی عورت کا بھی یوں اسیر نہیں ہوا تھا ، آسمان کو چھوتی ہوئی اس سیڑھی کا بھی نہیں جو میری بیوی ہے اور ایک افسر اعلیٰ کی بیٹی ہے۔ سیڑھیاں بلندیوں تک پہنچنے کے لیے ہوتی ہیں۔ ان کی ہم پوجا نہیں کرتے۔
سلیم سنگھ کے در پر میں بے قراری اور بے تابی سے جاتا تھا۔ اس لیے نہیں کہ میں اس سے ملنا چاہتا تھا۔ میں وہاں اپنی تلاش میں جاتا تھا، وہ بھی مجھ سے یوں ملتا جیسے صدیوں کا بچھڑا یار مل رہا ہو۔ دوسری تیسری ملاقات میں ہی وہ مجھے ’’سوائی صاحب‘‘ کہنے لگا تھا۔ جے پور کے راجہ جے سنگھ کا وہ خطاب جو اسے اورنگ زیب کے دربار سے ملا تھا۔ کچھوا ہاراج کو دوسرے تمام راجپوت راجوں سے ایک چوتھائی زیادہ ماننے کااعلان۔ وہاں پہنچ کرمجھے محسوس ہوتا کہ چند گھنٹوں کے لیے ہی سہی میں کسی دیو کی قید سے آزاد ہو گیا ہوں، وہ جو زندانی ہوں وہی جانتے ہیں کہ چند گھنٹوں کی رہائی بھی کیامعنی رکھتی ہے۔ میں اس سے وہ باتیں کرتا جنہیں میں کب کا بھلاچکا تھا۔ان ناموں کو سنتا جن کا نام لیتے ہوئے کبھی میری آنکھیں بھیگ جاتی تھیں۔ وہ کس طرح اترا کر خسرو، میر، کبیر کا نام لیتا، تلسی داس کی چوپائیاں اور غالب کی غزلیں سناتا، تان سین اور بسم اللہ خان، کون تھا جو اس کا نہیں تھا۔ تاج محل اور اجنتا ایلورااس کا ورثہ تھے، راجہ دہلو کی بسائی ہوئی دلی اس کی تھی اور کمپنی بہادر کا آباد کیاہوا کلکتہ بھی ترکے میں اسے ملا تھا۔ستم تو یہ تھا کہ بٹوارے کے نتیجے میں شہید بھی تقسیم ہو گئے تھے۔ بھگت سنگھ اور دادا اشفاق ، جھانسی کی رانی اور حضرت محل بھی اسی کے حصے میں آئی تھیں۔ میرے دونوں ہاتھ خالی رہ گئے تھے۔ ایک رات اس سے باتیں کرتے ہوئے مجھے بہت سے لوگ بہت سے شہر اور بہت سی عمارتیں یاد آئیں، اس رات میں اس کے سامنے رو دیا۔
’’یار بہ تو بڑی بے ایمانی ہے۔ تونے مجھ سے سب کچھ چھین لیا ‘‘۔ اپنی ٹوٹی ہوئی آواز سن کر میرا گریہ اور بھی زیادہ ہوگیا۔ اس نے نشے سے بھیگی ہوئی آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھااور دیکھتا رہا۔ پھر اس نے ایک گہرا سانس لیا۔
’’تم تاریخ کا کیک کھانا بھی چاہتے ہو، اسے رکھا بھی چاہتے ہو۔ اتہاس تو دھرتی سے جڑا ہوتا ہے۔ ہم جب دھرتی سے ناتا توڑ لیں تو اتہاس سے ناتا خود ہی ٹوٹ جاتا ہے‘‘۔
میں نے سرجھکا لیا تھا، نشے میں بھی مجھے یہ یاد رہا تھا کہ میں اس سے شکایت کا حق نہیں رکھتا۔
جے پور اس کے پور پور میں رچا ہوا تھا۔ ایک دن ترنگ میں تھا سب کچھ بھول کر امیر جے پور کی باتیں کرتا چلا گیا۔
’’جن نے جے پور نہیں دیکھا سوائی صاحب ان نے کچھ نہیں دیکھا، کچھ بھی نہیں۔ جانو کہ زندگی اکارت گئی‘‘۔ اس نے افسوس سے سر ہلایا۔ ’’سوائی صاحب، اپنی زندگی کے کچھ دن مجھے دے دو ، میرے ساتھ جے پور چلو، دیکھو کہ راجپوتوں اور مغلوں کی رشتہ داریاں آج بھی ہمارے شہروں اور بازاروں میں کس طرح جھلکتی ہیں۔ مغل بادشاہ اور شہزادے ہمار ی گودوں میں کھیلے ہیں۔ ہم نے ان پر سے جانیں واری ہیں۔ سامو گڑھ میں ہارتے ہوئے دارا کے گرد ہم راجپوتوں نے گھیرا ڈالا تھا۔ اپنی گردنیں کٹادی تھیں، پر پیٹھ نہیں دکھائی تھی‘‘۔
اس کی آواز بھرا گئی اور وہ وہیں فرش پر لیٹ گیا۔ میں نے دیکھا، اس کی آنکھوں کے گوشے نم ہو گئے تھے، وہ ماضی اور حال میں بہ یک وقت زندہ رہتا تھا۔ سانس لیتا تھا۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھا۔
’’اجی مہابلی، اکبر ہم کچھواہہ راجپوتوں کے بہنوئی تھے اور شہزادہ سلیم کو چاندی کی کٹوری میں دودھ طیارہ ہم نے کھلایا تھا۔ ہم ان کے ماموں، وہ ہمرے بھانجے‘‘۔ پھر وہ گنگنانے لگا۔ ’’مانگے ہے جو دھاجی کا راج للا جی کا تال نہ چھوائے‘‘۔
وہ یہ باتیں کرتے ہوئے کبھی روتا، کبھی ہنستا رہا۔ ماضی اور حال کو یوں گڈمڈکرتا رہا کہ میں بھی اس کے ساتھ زمیں بوس ہو جانے والی محل سراؤں میں پھرتا رہا۔
’’کچھ جانتے بھی ہو سوائی صاحب، شہزادہ سلیم ہماری مان بائی کو بیاہنے گیا تو دلہن کی پالکی مہابلی اور شہزادہ سلیم اپنے کندھوں پر اٹھا کر راجہ بھگوان داس کے محل سے باہر لائے تھے اور مہابلی نے راجہ سے کہا تھا ’’تمہاری رے بیٹی، تمہارے محلوں کی رانی، تم صاحب سردارے۔۔۔‘‘ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے کانوں کی لو چھوئیں اور ’’ہے رام‘‘ کا نعرہ لگایا۔
’’میاں سلیم سنگھ تم اگر پچیس تیس برس پہلے مجھے ملے ہوتے تو میں کہتا کہ اپنا یہ کام دھام چھوڑ کی بمبئی چلے جاؤ اور کے۔ آصف کے یہاں بھرتی ہو جاؤ۔ انہوں نے بھی ’’مغل اعظم‘‘ بناتے ہوئے مغلوں اور راجپوتوں کی مالا اس طرح نہیں جپی ہے‘‘۔ میں نے اسے آنکھیں دکھائیں۔
وہ مجھے کچھ دیر دیکھتا رہا پھر اداسی سے مسکرایا۔ ’’میں یہ باتیں کسی اور سے نہیں کرتا صرف تم سے کرتا ہوں سوائی صاحب دوسرے تو مجھے سودائی سمجھیں گے‘‘۔
’’میں بھی تمہیں کچھ کم سودائی نہیں سمجھتا‘‘۔
’’واہ کیا نام رکھا جاسکتا ہے۔ رانا سلیم سودائی جے پوری‘‘۔ اس نے گلاس میں شراب انڈیلتے ہوئے زور دار قہقہہ لگایا۔
’’اس نام سے تو میں کل ہند مشاعرہ پڑھ سکتا ہوں‘‘۔
’’اور غزلیں کہاں سے آئیں گی؟‘‘
’’اجی غزلوں کا کیا ہے، ڈیڑھ دوسو برس پہلے پران تیاگنے والے کسی بھی کا ئستھ کوی کا کلام آخرکسی کے کام تو آئے‘‘۔
ہم دونوں اس طرح بے تکی باتیں کرتے۔ شاید یہی کتھارسس کا ایک طریقہ تھا۔ کبھی میرا جی چاہتا کہ سرپیٹ کر اس کمرے سے نکل جاؤں جس میں کھرل گئے ہوئے زعفران کی، ہاون دستے میں کوٹی جانے والی جڑی بوٹیوں اور پھولوں کی، تارپین کے تیل اور خداجانے کن کن چیزوں کی خوشبو تھی۔ مجھے الٰہ آباد کے عطار خانے یاد آتے۔
’’اور میاں مغلوں کے ماموں صاحب۔ ہم لندن میں بیٹھے ہیں۔ کبھی پکاڈلی اور آکسفورڈ اسٹریٹ کا رخ کرو، کبھی تو ٹاور آف لندی یا بکنگھم پیلس کا بھی دیدار کرنے چلو‘‘۔ ایک روز میں نے جھنجھلا کر کہا تھا۔
’’کیسی باتیں کرتے ہو سوائی صاحب؟ ہمارے خزانے، ہمارا اتہاس، ہمارے درشن جھروکے اور ہماری چوکھٹیں تک تو لوٹ لائے یہ لوگ۔ اور ہم جا کر اپنی ہی چیزوں کو دیکھنے کے لیے ٹکٹ خریدیں، پونڈ خرچ کریں اور گورے ڈاکوؤں کا لوٹا ہوا مال دیکھیں؟ نہیں سوائی صاحب یہ نہیں ہونے کا‘‘۔
’’جب یہ سب کچھ نہیں دیکھنا تو پھر یہاں لندن میں کیوں بیٹھے ہو؟ جاؤ اور جاکر جے پور میں دھونی رماؤ‘‘۔ میں نے اس پر چوٹ کی۔
میری یہ بات سنتے ہی اس کا نشہ ہرن ہو گیا۔ وہ بیٹھا سر ہلاتا رہا، پھر اس نے اپنی مدھ ماتی آنکھوں سے مجھے دیکھا ’’گھر کیسے جاؤں؟ پتا جی کھانڈے سے چورنگ کاٹیں گے‘‘۔
’’پتا جی کیوں کھانڈے سے چورنگ کاٹیں گے؟ کیا ڈاکہ ڈال کے بھاگے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یار وہ اپنے جگری دوست کی بیٹی سے میرے پھیرے کرانے کے چکر میں ہیں۔ میں وہاں سے یہ کہہ کررفو چکر ہوا ہوں کہ لندن میں میری نمائش ہے، اس سے نمٹ کرمیں ترنت آیا‘‘۔ وہ ایک ادا سے ہنسا۔
’’اور اب کتنے دنوں سے لندن میں ہو؟‘‘
’’یہی کوئی چھ ایک مہینے ہو گئے‘‘۔
’’لیکن اس طرح کب تک یہاں رہو گے؟‘‘
’’یہ نہ پوچھو۔ ماتا جی نے ڈاک اور فون سے میرا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ میں ہر مرتبہ انہیں کوئی نیا جھانسہ دے دیتاہوں‘‘۔
’’ابے گاؤدی، کب تک نیا جھانسہ دیتے رہو گے؟‘‘ میں نے اسے آنکھیں دکھائیں۔ ’’ان سے صاف انکار کیوں نہیں کردیتے؟‘‘
اس نے آنکھیں نکال کر مجھے دیکھا، ’’اپنے اللہ رسول کا شکر ادا کرو کہ جس نے تمہیں ایک راجپوت باپ کے گھر نہیں پیدا کیا‘‘۔
’’تو اب کیا کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘
’’وہ مجھے تو بس بنی ٹھنی کا انتظارہے‘‘ اس نے اپنے دانتوں کی نمائش کی۔
’’بنی ٹھنی؟ بھئی یہ کس بلا کا نام ہے؟‘‘
’’سچ کہتے ہو سوائی صاحب واقعی قہر ہے، بلا ہے‘‘۔ اس نے ایک ٹھنڈا سانس لیا۔
اس روز وہ دیر تک میرا سین کی باتیں کرتا رہا جسے وہ لاڈ سے ’’بنی ٹھنی‘‘ کہتا تھا۔
’’اسے دیکھ کر تم بھی یہی کہو گے کہ اس پر یہ نام سجتا ہے۔ ایسا سنگھار پٹار کرتی ہے کہ بس دیکھتے رہو‘‘۔ میرا سین کا نام ’’بنی ٹھنی‘‘ اس نے راجہ ساونت سنگھ کے دربار کے نہال چند کی بنائی ہوئی ایک تصویر سے دیکھ کر رکھا تھا۔ نہال چند اپنے عہد کا سب سے مشہور چتر کار تھا۔ اس نے رادھا اور کرشن کی کہانی رنگوں اور برش سے کاغذ پر اتاری تھی۔ کرشن اس نے راجہ ساونت کو بنایا تھا اور رادھا کا چہرہ بناتے ہوئے راجہ کی چہیتی محبوبہ ’’بنی ٹھنی‘‘ کو سامنے رکھا تھا۔
’’میں نے نبی ٹھنی کا پورٹریٹ دیکھا ہے۔ تم یقین کرو سوائی صاحب ، یوں دکھائی دیتا ہے جیسے میرا کا ہی عکس ہے‘‘۔اس نے بڑی راز داری سے مجھے بتایا تھا۔
میرا تھیٹر کی دنیا سے وابستہ تھی، بنگال کی رہنے والی، گانے اور ناچنے میں طاق۔ پہلی ہی ملاقات میں رانا سلیم سنگھ کا دل لے گئی تھی۔ لیکن سلیم سنگھ کے پتاجی کے لیے یہ ناک کٹا دینے والی بات تھی کہ ان کی اکلوتی بھانجی کے بجائے ان کا منتوں مرادوں کا بیٹا ایک بنگالن سے شادی کر لے۔ مرنے مارنے پر تیار تھے۔ اپنا کھانڈا لہرا کر بنگالیوں کے خلاف بھاشن دیتے اور یہ ثابت کرتے کہ نہ انہوں نے بنگال میں انگریزوں کو پاؤں ٹکانے دئیے ہوتے نہ ہندوستان غلام ہوتا۔
اب وہ بات بے بات پر بنی ٹھنی کا تذکرہ کرتا۔ ’’ظالم ہے بنگال لیکن آنکھیں بالکل جودھ پوری ہیں۔ ویسی ہی کٹار سی‘‘۔ اس نے راز داری سے مجھے بتایا۔
مجھے ہنسی آگئی۔ ’’یار جودھ پوری کوٹ تو دیکھا، سنا اور پہنا تھا، لیکن یہ جودھ پوری آنکھیں کس کھونٹی پر لٹکائی جاتی ہیں؟‘‘ اس نے ڈپٹ کر کہا، ’’چپ‘‘ اور اپے ایزل پر جھک گیا۔
یہ وہ لمحہ تھا جس نے مجھے ہندوستانی مصوری کے رمزسکھائے۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہندوستانی موسیقی کے گھرانوں کی طرح مصوری کے بھی گھرانے ہیں۔ جے پور گھرانہ، کشن گڑھ، بوندی اور کوٹا گھرانہ۔۔۔ میں نے اسے پستے سے سبز، زعفران سے نارنجی، ہڑ سے زرد اور نیل سے نیلا رنگ کشید کرتے دیکھا۔ اس کے کمرے میں طرح طرح کی سبزیاں، پھول، پیڑوں کی چھالیں اور شاخیں نظر آتیں۔ کبھی وہ ریت کو کپڑے سے چھانتا دکھائی دیتا اور کبھی سیاہ رنگ کے لیے اپنے فرائنگ پین کا پیندا کھرچ کر اس کی کالک اکٹھا کرتا نظر آتا۔سرخ رنگ کے لیے شیشے کے ایک مرتبان میں اس نے قرمزی کیڑے محفوظ کر رکھتے تھے۔ کھرل، باریک ململ ، طرح طرح کی باریک موٹی چھلنیاں، ہاون دستہ کا کباڑ خانہ اکٹھا کررکھا تھا رانا سلیم سنگھ نے۔
میں نے پہلی مرتبہ جب اسے اس بکھیڑے میں الجھے ہوئے دیکھا تو حیران رہ گیاتھا۔ ’’تم لندن میں بیٹے ہو رانا جی، جہاں دنیا کے بہترین رنگ ملتے ہیں۔ دنیا بھر کے مصور یہاں سے رنگ خریدنے آتے ہیں اور تم یہاں بیٹھے کسی وید جی کی طرح خدا جانے کن جڑی بوٹیوں کو پیستے کوٹتے رہتے ہو‘‘۔ میں نے بھنا کر کہا تھا۔ ’’میں کل تمہارے لیے ایک گرائنڈر لے آؤں گا‘‘۔
وہ میری یہ بات سنتے ہی کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا اور اس نے مجھے گھور کر دیکھا۔ ’’جی ہاں، آپ گرائنڈر لے آئیں گے، بڑی کرپا آپ کی۔ یہ احسان مت کیجئے گا مجھ پر۔ کوٹنے اور کھرل کرنے سے رنگ ہی الگ نکلتا ہے، اس میں ہاتھ اور بازوکا زور بھی شامل ہوتا ہے۔ اب اگر موتی کھرل کرنا ہو تو ہفتوں لگتے ہیں اس میں۔ لیکن اس کا اجالا، اس کا روپہلاپن سارے بنے بنائے رنگوں سے جدا ہوتا ہے‘‘۔
’’بھئی تم تو جانے کسی صدی کی بات کرتے ہو۔۔۔ تمہاری یہ باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں‘‘۔ میں نے بیزاری سے کہا۔
’’ہم راجپوت رنگوں سے کھیلتے ہیں اور اپنے رنگ ہم چیزوں سے خود نچوڑتے ہیں۔ ہمارے لیے زندگی، موت سب رنگوں کا کھیل ہے۔ جان دینے جاتے ہیں تو کیسری بانا پہنتے ہیں۔ ہماری عورتیں جوہر کرتی ہیں تو نارنجی آگ اوڑھ لیتی ہیں۔ ہمیں زندگی کرتے دیکھنا چاہو تو ہماری لڑکیوں کی چندریاں، چوڑیاں اور چولیاں دیکھو، گہرے رنگوں سے رنگے ہوئے ہمارے شہر اور گاؤں دیکھو‘‘۔ وہ بولتا چلا گیا۔
’’تو پھر تمہاری تصویریں اتنی کڑوی اور دل دہلا دینے والی کیوں ہیں؟‘‘ میں نے اس کی بنائی ہوئی ان تازہ تصویروں کی طرف اشارہ کیا تھا جو دیوار سے ٹیک لگائے کھڑی تھیں اور جن کے رنگ ابھی خشک نہیں ہوئے تھے۔
’’اپنشد میں کہا گیا ہے سوائی صاحب کہ سب سے پہلے صرف پانی تھا، اس پانی نے سچ کو، سچ نے برہما کو، برہما نے پرجاپتی اور پرجاپتی نے دیوتاؤں کو پیدا کیا اور دیوتا سچ کی پوجا کرتے ہیں۔ اب تم جانو کہ میں ٹھہرا ناستک، میں برہما، پرجاپتی اور دیوتاؤں کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں رکھتا
Top of Form
لیکن میں پانی کی لکیروں سے اور اس کے رنگوں سے اپنی تصویریں بناتا ہوں‘‘۔
شدید انتظار کے بعد میرا سین آپہنچی۔ سلیم سنگھ اسے بنی ٹھنی کہتا تھا تو کیا غلط کہتا تھا۔ میں نے اسے دیکھا تو دیکھتا رہ گیا۔ وہ پہلا دن تھا جب مجھے رانا سلیم سنگھ پر رشک نہیں آیا ، اس سے حسد ہوا۔ اس بنی ٹھنی کی آنکھیں واقعی جودھ پوری کٹار تھیں کہ دل کو کاٹتی چلی جائیں۔ اسے دیکھ کر مجھے ایک بھولا بسرا گیت یاد آیا ’’بنے سہرا جو باندھیں تجھے حور پریاں، جن کے لانبے لانبے کیس ، رسیلی انکھیاں‘‘۔ سسرال دی دہلیز پر پہلا قدم رکھتے ہی یہ بول میریے کانوں میں پڑے تھے، آواز گجن بیگم کی تھی جو بہت ناز، بہت ادا سے گارہی تھیں۔ ’’جن کے لانبے لانبے کیس، رسیلی انکھیاں‘‘۔
میرا پر نظر پڑی تو مجھے بے ساختہ گجن بیگم کے گائے ہوئے یہ بول یاد آئے۔ گھنے گھنیرے بال آبشار کی طرح کمر سے بہت نیچے گرتے ہوئے اور آنکھیں رسیلی مدھ سے بھری۔ہم ہیتھرو ایئر پورٹ پر تھے جہاں آنے والوں اور رخصت ہونے والوں کے لیے گلے ملنا، ہونٹ چومنا ایک روز مرہ تھا۔ لیکن ان دونوں کی آنکھوں میں ایسی حیا تھی کہ میں نے نگاہیں جھکا لیں۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ یوں چل رہے تھے جیسے سینکڑوں نگاہوں کے حصار میں ہوں اور ہمت نہ رکھتے ہوں کہ ایک دوسرے کو چھولیں۔
اس رات میں کچھ دیر ان کے ساتھ رہا اور پھر سلیم سنگھ کے اصرار کے باوجود انہیں ایک دوسرے کے ساتھ چھوڑ آیا۔ اس رات مجھے نیند نہیں آئی۔ رانا سلیم سنگھ نے مجھے ہر میدان میں شکست دی تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ برصغیر کی صرف تاریخ اور جغرافیہ اس کا ہے۔ لیکن وہ تو سوئمبر میں بھی سب سے سہانی شہانی جیت لایا تھا۔میں دو دن اس کی طرف نہیں گیا لیکن تیسرے دن اپنے دل پر میرا قابو نہیں رہا۔ اب تک میں اپنے آپ سے ملنے جاتا تھا اور اب میں اس سہانی کو دیکھنا چاہتا تھا جو میری نہیں تھی اور کبھی بھی میری نہیں ہو سکتی تھی۔
میرا قیامت ناچتی تھی اور اس سے بڑی آفت اس کی آواز تھی۔ تان اڑاتی تو اس کے گلے کی سبز رگیں تانت کی طرح تن جاتیں۔ میرا بائی کے بھجن سناتی تو عبادت کی، اگر اور صندل کی خوشبو آتی، مندر میں کوئی آرتی اتارتا رہتا۔ ’’رانا جی نے وش کا پیالہ بھیجا، پیالہ دیکھ کر میرا ہانسی رے‘‘۔ یہ بھجن میں نے اسے کشتی میں گاتے سنا تھا اور پانی میں روشنیوں کا، رات او ر رسیلی آنکھوں کا عکس دیکھا تھا۔ ان رسیلی آنکھوں کا قصیدہ گجن بیگم کی آواز میں پڑھتی رہی تھی۔ جن کے لانبے لانبے کیس، رسیلی آنکھیاں۔ ہوا اس کے بال اڑاتی رہی تھی اور اس کی آواز پانی میں آگ لگاتی رہی تھی۔ پیالہ دیکھ میرا ہانسی رے۔
اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا، وہ رقص کاعالم تھا۔ جس میں ہر جنبش اس تیزی سے ہوتی ہے کہ وہ اپنی تفصیل میں نہیں، اپنے تاثر میں یاد رہتی ہے۔ اس لیے کچھ باتیں مجھے یاد ہیں، کچھ بھول بیٹھا ہوں۔
سلیم سنگھ کی اور میرا کی شادی پہلے رجسٹریشن آفس میں ہوئی اور پھر سلیم کے ایک دوست کے گھر پھیرے ہوئے۔ گھر عورتوں اور مردوں سے بھرا ہوا تھا۔ سانولی سلونی لڑکیوں کے رنگین گھاگھرے ، ان کے ٹھمکے، ان کے ذومعنی جملے، ایک لڑکی راجستھانی میں کوئی تیز تیکھا گیت گارہی تھی جس کا مطلب کچھ یوں تھا کہ اے مونچھوں والے تواب تو میرا دل لے گیا۔ شراب بہہ رہی تھی۔ میں اس محفل میں تھا اور نہیں تھا۔ ان دونوں نے جب آگ کے گرد پھیرے لگائے تو میں انہیں ایک ٹک دیکھتا رہا۔ سلیم سنگھ کی ریشمی شیروانی اس کا نارنجی صافہ، اس کی پنڈلیوں میں پھنسا ہوا سفید چوڑی دار پاجامہ اور دوسری طرف وہ تھی جو صرف رنگ ہی رنگ تھی۔ خوشبو ہی خوشبو تھی۔ ایسے ہی جوڑوں کو دیکھ کر بڑی بوڑھیاں کہتی ہیں کہ چشم بد دور چشم بد دور۔ میں انہیں حسرت سے دیکھتا رہا۔ یہ میں تھا، یہ میں نہیں تھا، وہ میری تھی وہ میری نہیں تھی۔ میں شادی کو تجارت سمجھتا تھا وہ اسے عبادت جانتا تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں اس لڑکے کے لیے رو رہا تھا جو الٰہ آباد کے ایک چھوٹے سے گھر میں کھری کھاٹ پر لیٹ کر رات کی تنہائی میں تاروں سے باتیں کرتا تھا۔ ہم کب اپنا ہاتھ خود اپنے ہاتھ سے چھڑا لیتے ہیں۔ ہم کب اپنے اندر سے نکل کر کہیں اورچلے جاتے ہیں۔
پھیرے پورے ہوئے تو میں نے اسے بدھائی دی، میرا کو دعائیں اور ایک مخملی تھیلی دی اور جلدی سے وہاں سے نکل آیا۔ اس رات میں نے کوئی ٹیکسی نہیں روکی۔ کسی ٹیوب اسٹیشن کا رخ نہیں کیا۔ بس چلتارہا اورسوچتارہا وہ باتیں جو اس رات کے بعد میں شاید کبھی نہیں سوچیں۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو پانے کے سفر پر نکل گئے۔ ان دونوں نے اپنے دستخطوں سے پیرس، وینس اور روم سے مجھے پوسٹ کارڈ بھیجے جنہیں دیکھ کر جنہیں پڑھ کر میں خاک و خاکستر ہوتارہا۔
میرا اور سلیم واپس آئے تو نہالوں نہال تھے۔ ایک دوسرے کے رنگ میں رنگے ہوئے۔ سلیم سنگھ میں مجھے اپنا عکس نظر آتا تھا۔ میں اس سے ملنے کے لیے بے قراری سے جاتا تھا جیسے کچے دھاگے سے سرکار بندھے جاتے ہیں۔ لیکن اب ہم دونوں کے درمیان جدائی پڑ گئی تھی۔
پہلی ملاقات ہوئی تو سلیم سنگھ نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنی شادی کی تصویریں اور میریج سرٹیفکیٹ کی کاپی گھر بھیج دی تھی اور وہاں سے پیغام آگیا ہے کہ اب وہ کبھی جے پور کارخ نہ کرے۔
’’کچھ دنوں میں تمہارے پتا جی کاغصہ یقیناًٹھنڈا ہو جائے گا‘‘۔
اس کی آواز اداس تھی۔ ’’میرے دل پر ماتا جی کاخیال آرے چلاتا ہے۔ ان پر کیا گذری ہوگی‘‘۔
’’یہ بات تو تمہیں پہلے سوچنا چاہیے تھی‘‘۔ میں نے اسے یاد دلایا۔
’’اس بنی ٹھنی کے سامنے کوئی بات یادرہ سکتی ہے’‘‘ اس نے بیچارگی سے مجھے دیکھا اور لاجواب کر دیا۔
وہ دونوں ایک نسبتاً بڑے فلیٹ میں منتقل ہو گئے تھے۔ سلیم سنگھ کی کئی تصویریں بک گئی تھیں اور اس نے گھر کے لیے بہت سی چیزیں خرید لی تھیں، لیکن ایک کمرے میں وہی بے ترتیبی اور بکھراؤ تھا جو سلیم کے مزاج کاحصہ تھا۔ باقی گھر بنی ٹھنی کا تھا، اسی طرح سجا سجایا۔ پھر میری اس کی چند ہی ملاقاتیں ہوئیں۔ اب میں اس کے یہاں جاتے ہوئے جھجکتا تھا۔ ان ہی دنوں معلوم ہوا کہ میرا دو مہینے کے لیے واپس ہندوستان جارہی ہے۔ وہاں کئی شہروں میں تھیٹر فیسٹول ہورہا تھا۔ میرا اپنے تھیٹر گروپ کی فرمائش پر نہ چاہتے ہوئے بھی جارہی تھی۔
اس کے چلے جانے کے بعد بھی ہم دونوں کی ملاقاتوں میں اضافہ نہیں ہوا۔ وہ سنجیدگی سے تصویریں بناتا رہا۔ میری واپسی کے دن قریب تھے سو میں اپنا سامان سمیٹنے اور اپنی بیوی اور اس کے رشتہ داروں کی فرمائشیں پوری کرنے میں لگا رہا۔
وہ رات مجھے یوں یاد ہے جیسے ابھی کی بات ہو۔ اس رات میں دیر سے گھر پہنچا توسیٹرھیوں پر سلیم سنگھ کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ نشے میں ڈوبا ہوا تھا اور رو رہاتھا۔ مجھے دیکھ کر وہ مجھ سے لپٹ گیا اور کچھ کہنے لگا لیکن میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔میں اسے اندر لے گیا۔ اس کے سر پر پانی بہاتا رہا۔ پھر میں نے اسے فرش لائم کا ایک گلاس پلایا۔ تب وہ اس قابل ہوسکا کہ مجھے کچھ بتائے۔
اس کی بات جب میری سمجھ میں آئی تو میں بھی رورہا تھا۔ میرا ایک Accident میں ختم ہو گئی تھی۔
’’ہم دھواں سوائی صاحب۔ ہم دھواں‘‘۔ وہ اپنی بات پوری کرکے پھر چیخیں مارنے لگا۔
بنی ٹھنی کو بھی موت آسکتی ہے؟ یہ ممکن نہیں تھا۔ وہ تو میرا تھی۔ رانا جی نے وش کا پیالہ بھیجا، پیالہ دیکھ کر میرا ہانسی رے۔ اور پھر سلیم سنگھ کی چیخوں کے ساتھ میری چیخیں بھی شامل ہو گئیں۔ وہ اس کے لیے رو رہا تھا اور جو پور پور اس کی تھی اور میرے آنسو اس کے لیے تھے جو پل چھن کے لیے بھی میری نہیں ہوئی تھی۔
وہ رات کس طور گذری، مجھے یاد نہیں۔ یاد ہے تو اتنی سی بات بات کہ سلیم سنگھ نے ہچکیوں کے درمیان یہ بتایا کہ میرا جب رخصت ہوئی ہے تو اکیلی تھی۔ وہ ماں بننے والی تھی۔ اس کا بچہ اس کے ساتھ تھا۔ میں نے اور سلیم سنگھ کے دوسرے دوستوں نے اسے سمجھایا کہ کلکتہ چلا جائے۔ میرا کا بھائی اسے کلکتہ لے گیا تھا۔ میرا کے انتم سنسکار میں شریک ہو جائے۔ لیکن اس کی ’’نہیں‘‘ ہاں میں نہیں بدلی تھی۔
’’میں نے اسے زندہ دیکھا تھا، چاہاتھا، برتاتھا۔ اب اسے آگ کی چادر اوڑھ کر جلتے ہوئے کیسے دیکھوں؟‘‘ اب اس کی آنکھیں آنسو سے اور اس کی آواز کسی تاثر سے خالی تھی۔
میرے جانے کی گھڑی سر پر تھی اور چاہنے کے باوجود میں اس وقت سلیم سنگھ کے ساتھ نہیں گذار سکا تھا۔
میں اس سے آخری بار ملنے گیا تو اسے دیکھ کر دل کٹ گیا۔ وہ جس کی پورپور سے زندگی پھوٹتی تھی، جس کی آنکھیں ہنستی تھیں، جس کی آواز میں پھلجڑیاں چھوٹتی تھیں وہ اب ایک کھنڈر تھا۔ رنگ جھلس گیا تھا آنکھوں کے گرد حلقے اور آواز میں تھکن۔
’’میں تمہارے ساتھ چلوں‘‘ اس نے اچانک مجھ سے پوچھا۔ اس کی آنکھیں سوالی تھیں۔
میں خاموش رہا اور میری خاموشی ہی میرا جواب تھی۔
اس نے ایک ٹھنڈا سانس لیا۔ ’’ہا ں ٹھیک ہے سوائی صاحب، تم اپنی راہ جاؤ ہم اپنی راہ لیں گے‘‘۔
’’ہم سے کیامطلب ہے تمہارا؟‘‘ میں نے اسے ٹوکا۔
’’تین کے لیے تو ہم ہی کہا جاتا ہے‘‘۔ اس نے کچھ عجیب سے لہجے میں کہا تھا۔
ہم دونوں ایک دوسرے سے لپٹے تو خاصی دیر تک لپٹے رہے۔ جانے وہ کیا سوچ رہا تھا اور جانے میں کن خیالوں میں گم تھا۔ مجھے اب کچھ یاد نہیں۔
میں چلا آیا۔ مجھے اپنی پیکنگ کرنی تھی، زیادہ سامان تو میں دو دن پہلے ہی ائیر کارگو سروس سے بھیج چکا تھا۔اس وقت صبح کے شاید سات بجے تھے جب میری آنکھ ٹیلی فون کی گھنٹی سے کھلی۔ دوسری طرف سے سلیم سنگھ کا ایک دوست بول رہا تھا۔
’’خیریت تو ہے؟‘‘ میں تڑپ کر اٹھ بیٹھا اور اس بات پر بھی حیران نہیں ہوا کہ اسے میرا نمبر کہاں سے ملا تھا۔
’’آپ فوراً سلیم سنگھ کے فلیٹ پر آجائیں‘‘۔ اس نے کہا اورٹیلی فون بند کر دیا۔
میں منہ پر جھپکا مار کر اور ٹیکسی پکڑ کر اس کے یہاں پہنچا۔ سٹرک پر ایمبولینس اور پولیس کی گاڑیاں دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا۔
دروازے کے باہر ہی سلیم سنگھ کے کئی دوست کھڑے تھے سب کے چہرے ستے ہوئے تھے، آنکھیں سرخ، ایک نے مجھے اندر جانے کااشارہ کیا۔ ایک پولیس والے نے مجھے روکنا چاہا لیکن تعارف کرانے پرمجھے اندر جانے کی اجازت مل گئی۔
وہ اپنے اور میرا کے بستر پر لیٹا تھا۔ چہرے پر سکون اور گہری نیند تھی۔سفید لیس کی چادر پر سرخ رنگ کے دھبے تھے، جواب سیاہی مائل ہو گئے تھے۔ یہ رنگ اس کی کٹی ہوئی کلائی سے نکلا تھا اور چادر پر نقش و نگار بنا گیا تھا۔
اس نے کہا تھا کہ ہم راجپوت رنگوں سے کھیلتے ہیں۔ اس نے اپنے جود سے رنگ کی آخری بوند بھی نچوڑ لی تھی۔ میں ساکت سامت کھڑا اپنے آپ کو دیکھتارہا۔ یہ میں تھا جو بستر پر تھا، یہ میں تھا جو کھڑا ہوا تھا اور خود کو دیکھ رہا تھا۔ میں اسے چھونے کے لیے جھکا تو پولیس والے نے مجھے روک دیا۔ میں فرش پر بیٹھ گیا۔ وہ ننگے پیر تھا اور اس کے دنوں پیر مسہری سے کچھ نیچے لٹکے ہوئے تھے۔ میں ان پیروں کو دیکھتا رہا جنہیں پھیرے لگانے کے بعد بنی ٹھنی نے جھک کر ہاتھ لگایا تھا۔ اس نے جو کچھ بھی کیا تھا، مجھ سے آخری ملاقات کے بعد کیا تھا۔ رات کو اگر میں اسے اپنے ساتھ لے جاتا، اگر میں اس کے ساتھ رہ جاتا ، میں اس کے پیروں پر سر جھکائے سوچتارہا۔
اس کے لیے میری آنکھ سے ایک آنسو نہیں نکلا۔ جب اسے کریمنویم لے جایاگیا تب بھی نہیں۔ لیکن جب اس کے سرہانے سے ملنے والی چند سطری وصیت کے مطابق بنی ٹھنی کا پورٹریٹ مجھے دیا گیا تو میں دھاڑیں مار کر رو دیا۔ وہ پورٹریٹ میں نے اپنے گھر میں نہیں لگائی ہے۔ اسے بہت احتیاط سے اپنے سیف میں رکھ دیا ہے۔ میں ان جودھ پوری آنکھوں کو دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ میں ان رنگوں کو کس دل سے دیکھوں جنہیں سلیم سنگھ نے جانے کن پھولوں ، چھالوں اور شاخوں سے کشید کیا تھا۔ نہیں وہ اس کی نہیں میری بنائی ہوئی تصویر ہے۔میں اس تصویر کو سب کی نگاہوں سے چھپاکر رکھتا ہوں اور سلیم سنگھ کی یاد بھی میرے اندر کہیں رہتی ہے۔ میں نے کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا لیکن میں تازہ رنگوں کی خوشبو سے رانا سلیم سنگھ کی یاد کبھی جدا نہ کرسکا۔ اور کیسے جدا کروں کہ جب اس کی یاد آتی تو میں خود کو یاد کرتاہوں، اپنے خواب یاد کرتا ہوں، پھر ان خوابوں کو شراب میں ڈبونے لگتا ہوں۔