چرایا ہوا سُکھ ۔۔۔ ذکیہ مشہدی
چرایا ہوا سُکھ
ذکیہ مشہدی
ہمیشہ کی طرح آج بھی اجیت نے سونے سے پہلے کافی کا پیالہ ختم کیا، پھر دوتین سگرٹ پھونکے لیکن ہمیشہ کی طرح اس نے امیتاکے گرد بازوؤں کا حلقہ نہیں بنایا۔ بہت دیر تک وہ چھت کی طرف یونہی بے مقصد دیکھتا رہا۔ انتظار کرتے کرتے جب امیتا کے دھیر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو وہ خود ہی قریب آگئی اور اجیت کی چوڑی چھاتی پر بالوں کا آبشار بکھر گیا۔ اجیت کو نتھنوں میں چبھن کا احساس ہوا۔ فوں فوں کرتے ہوئے اس کے بال پیچھے ہٹائے مگر امیتا کسی ضدی بچے کی طرح اس سے چمٹی رہی۔
’’اجیت ڈارلنگ، جب تک میں تمہارے قریب نہ آجاؤں، مجھے نیند نہیں آتی۔‘‘
’’یہ بال تو پیچھے کرو۔ ناک میں گھسے آتے ہیں۔‘‘ اجیت کچھ جھنجھلاکر بولا، ’’آخر تم بال باندھ کر کیوں نہیں سوتی ہو؟‘‘
اسے مسز کھنہ کے بغیر مانگ کے اونچے بنے ہوئے بالوں کی کس کر باندھی ہوئی چوٹی یاد آگئی۔ ایک دن جب وہ گئی رات ان کے یہاں ٹسٹ میچ کا اسکور پوچھنے گیا تھا تو مسز کھنہ سونے کی تیاری کر رہی تھیں۔ اونچے بالوں اور سخت گوندھی ہوئی چوٹی میں ان کا بیضوی چہرہ اور تیکھے نقوش زیادہ واضح ہو اٹھے تھے۔ بڑی چوڑی مسکراہٹ اجیت کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔ امیتاکی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ آج یہ نئی بات کیسی۔ اجیت ہی تو کہتا تھا کہ اسے امیتا کے گھنے بال کھلے ہوئے ہی اچھے لگتے ہیں۔ پھر دن میں ان سے کھیلنے کا موقع ملتا بھی کہاں تھا۔ وہ رات کو اپنا سر اس کی چوڑی چھاتی پر ٹکاتی تو اجیت کی انگلیاں دیر تک اس کے بالوں میں الجھی رہتیں۔
’’تمہیں نے تو کہا تھا۔‘‘ وہ دھیرے سے بولی، ’’کہ رات کو بال کھلے رکھا کرو۔‘‘
’’میں نے؟ میں نے کب کہا تھا؟‘‘ اجیت صاف مکر گیا۔
’’تمہاری طبیعت کچھ خراب ہے؟ متفکر ہو؟‘‘ امیتا نے ہولے سے سر اس کے سینے سے ہٹالیا۔ بالوں کو سمیٹتے ہوئے پہلے اس نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا پھر نرم نرم ہونٹ ٹکادیے۔ اجیت کی جھنجھلاہٹ غصے میں تبدیل ہونے لگی مگر وہ خاموش رہا۔ یہ عورت کی ذات اگر شک میں مبتلا ہوجائے تو اس کی سانسوں تک میں زہر گھل جائے گا۔ کالے ناگ کی طرح زہر اگلتی، فوں فوں کرتی، ناچتی پھرے گی۔ کب کس کو ڈس لے۔
امیتا کی انگلیاں اس کے بالوں میں گھوم رہی تھیں۔ لانبی لانبی نرم انگلیاں۔ اسے میٹھی سی خنکی کا احساس ہوا۔ نیند دھیرے دھیرے غلبہ پا رہی تھی۔ کبھی آنکھیں کھلتیں، کبھی بند ہوتیں۔ نیند کی آتی جاتی ترنگوں میں مسز کھنہ کا چہرہ کبھی اوپر آتا کبھی نیچے جاتا۔ امیتا کیسی اچھی ہے، موڈ پہچانتی ہے، اجیت کو متفکر دیکھا تو خاموشی سے ہٹ گئی۔ ہوگا کوئی آفس کامسئلہ۔ زیادہ سے زیادہ اس نے یہی سوچا ہوگا۔ اجیت کے دل میں سویا ہوا پیار پل کے پل جاگا۔ جب سے اس کے مکان کے اوپر والے حصہ میں مسز کھنہ آن کر رہی تھیں، یہی ہو رہا تھا۔ امیتاکے لیے کبھی اس کا دل جھنجھلاہٹ سے بھر اٹھتا، کبھی غصے سے اور کبھی پیار سے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے ان احساسات کو کس خانے میں رکھے۔
بڑی مشکل سے وہ اپنے خوبصورت دومنزلہ مکان کی اوپری منزل سے اس موٹے ان کلچرڈ مارواڑی کرایہ دار کو ہٹاپایا تھا۔ سارے ڈرائنگ روم میں کیلیں ٹھونک ٹھونک کر لال پیلے کلنڈر لٹکا رکھے تھے، اوپر سے کبھی کدو کے چھلکوں کی بارش ہوتی، کبھی شریفے کے بیجوں کی اور کبھی صرف راکھ کی۔ بدتمیز بچے لان پر کھلے ہوئے گلاب توڑلے جاتے۔ نوکر سلیقے سے تراشی ہوئی گھاس پر ان کے دومہینے کے ننھے بچے کے پوتڑے پھیلا جاتا۔ ’’اوپر دھوپ نہیں آتی جی‘‘ وہ دانت نکوس کر کہتا۔ سیٹھ کی بیوی امیتا کے ہاتھ کی بنائی ہوئی کوئی چیز نہیں کھاتی۔ ’’تم مانس مچھی کھاتی ہو، ہم ٹھہرے ساتوک بھوجن والے۔‘‘ وہ ناک چڑھاکر کہتی اور اجیت غصے سے لال پیلا ہو جاتا۔ بڑی مشکلوں سے جان چھوٹی۔
سرن کے توسط سے نئے کرایے دار آئے تو اجیت کو لگا کرایہ دار نہیں آئے بلکہ ڈرائنگ روم کے لیے ڈیکوریشن پیس خریدا گیا۔ کھنہ صاحب تو اسمارٹ تھے ہی، ان کی بیوی کا بھی جواب نہ تھا۔ واہ، واہ، واہ! گوری بھی بہت سی عورتیں ہوتی ہیں، لانبی بھی بہت ہوتی ہیں، تیکھی سی، چھوٹی سی ناک بھی بہت سی عورتوں کی ہوتی ہے مگر ان تمام چیزوں کا صحیح امتزاج اور اس امتزاج کا صحیح استعمال شاید سب میں نہیں ہوتا۔ جیسے قورمے کی بنیادی ترکیب تو ایک ہی ہوتی ہے، کچھ مرچیں، کچھ گرم مصالہ، کچھ دہی، کچھ پیاز، نرم ملائم گوشت، لیکن ان کا صحیح امتزاج کچھ ہی لوگوں کو آتا ہے ورنہ ہر باوچی کے پکائے ہوئے سالن کے ذائقے میں فرق کیوں ہوتا۔ اجیت کا دل چاہتا ذرا اس ہانڈی کو بھی سونگھ کر دیکھے۔
بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات۔۔۔ بس اجیت کے ذہن میں یہ مصرعہ یوں ہی گونجتا رہتا تھا۔ جیسے کسی پرانے ریکارڈ پر سوئی آکر اٹک جائے۔ بلائے جاں ہے غالب۔ بلائے جاں ہے غالب۔ نیند سے بوجھل آواز میں غیرشعوری طور پر پھر وہ یہی گنگنانے لگا۔ دھت تیری کی۔ امیتاسوچے گی ابھی جھنجھلارہے تھے، ابھی غالب کا شعر پڑھنے لگے۔ پھر کان کھانا شروع کردے گی۔ ہے بھگوان؟ تو نے عورت کیوں بنائی۔ اس نے آنکھوں کے کونوں سے چور انداز میں جھانک کر دیکھا۔ امیتا تقریباً سوچکی تھی۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا۔ اچھا ہے سو گئی۔ اب کم از کم جاگتی آنکھوں کے خوابوں پر پہرہ تو نہیں بٹھائے گی۔
مسز کھنہ کی ناک میں پڑی ہوئی ہیرے کی جگر جگر کرتی لونگ پھر اندھیرے میں کوندنے لگی۔ اجیت آج کل کچھ زیادہ ہی کنفیوزڈ ہو رہا تھا۔ کل کی بات۔۔۔ امیتانے کہا تھا، ’’اجیت ڈارلنگ ذرا مسز کھنہ سے ان کا کافی پر کولیٹر تو مانگ لاؤ، میں ذرا نہانے جارہی ہوں۔‘‘ اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھوٹی سی پلاسٹک کی ٹرے پر نہ جانے کیا کیا ڈھیر تھا۔ کریم کی شیشیاں، شیمپو، نیل فائل، کلنیزنگ ملک، ابلتے ہوئے پانی کا جگ۔۔۔ تو امیتا تفصیل سے نہانے جا رہی ہے۔ ایک گھنٹے کی چھٹی۔ مارے خوشی کے اجیت نے اس کے گال پر چٹکی بھری اور ایک ایک قدم میں دو دو سیڑھیاں پھلانگتا اوپر پہنچ گیا۔ دیوان پر دراز مسز کھنہ فلم فیئر کی ورق گردانی کر رہی تھیں اور اپنے سجے سجائے ڈرائنگ روم کاایک حصہ ہی معلوم ہو رہی تھیں۔
’’ہائی۔۔۔‘‘ انہوں نے اپنے موتی جیسے دانت چمکاکر کہا۔
’’مسز کھنہ! وہ بات یہ ہے کہ امیتا کو۔۔۔‘‘
انہوں نے بات کاٹ دی، ’’دیکھیے ہم لوگوں کو ایک دوسرے کو جانتے ہوئے چھ مہینے سے زیادہ ہوگئے ہیں اور ابھی تک اس قدر تکلف برتتے ہیں۔ میرا نام شیلا ہے۔‘‘
’’بات یہ ہے۔۔۔‘‘ اجیت ان کا نام لیتے ہوئے ہکلا گیا۔
’’بات وات کچھ نہیں۔ شیلا کہیے تب ہی سنو ں گی۔‘‘
’’اچھا تو شیلا جی۔۔۔‘‘ اجیت کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس ابلتے ہوئے احساس کو کیا نام دے۔ خون کنپٹیوں پر ٹھوکریں مار رہا تھا۔
’’شیلا جی۔ میں اس لیے آیا تھا کہ امیتا کو آپ کاکافی پرکولیٹر چاہیے۔‘‘
’’ضرور۔۔۔ وہ تو میں دے ہی دوں گی لیکن پہلے آپ یہاں جو کافی پی لیں۔۔۔‘‘ اور انہوں نے نوکر کو آوازدی۔ اجیت سنبھل کر بیٹھ گیا پھر گپیں چلیں تو چلیں۔ ساتھ بیٹھنے کے مواقع تو بہت آتے تھے مگر ایک طرف تو کھنہ جی ہوتے تھے دوسری طرف امیتا۔ یہ موقع شاید اپنی نوعیت کا دوسرا ہی تھا۔
تنہائی کا پہلا موقع آیا تھا تو تکلف کی دیوار خاصی موٹی تھی۔ اس مرتبہ اس میں رخنے پڑتے دکھائی پڑ رہے تھے۔ شاید اگلی بار ایسا موقع آئے تو کچھ اور رخنے پڑیں اور پھر شاید بیٹھ ہی جائے۔۔۔ ہوں۔ بلی کے خواب میں چھیچھڑے۔ چھی چھی میں کیا سوچ رہا ہوں، امیتا جیسی بیوی کے ہوتے ہوئے۔۔۔ اجیت نے خود پر لعنت بھیجنی چاہی ہی تھی کہ ان کا نوکر کافی لے کر آگیا۔ بھلا مسز کھنہ کو خود اٹھ کر پیالہ بڑھانے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ قریب آکر جھکیں تو ان کے گہرے کٹے ہوئے بلاؤز کا گریبان کچھ اور نیچا ہوگیا۔ اور بڑی مدھم، بڑی پیاری سی خوشبو اجیت کی ناک سے ٹکرا کر اس کے حواس پر سوار ہوگئی اور اس وقت تک سوار رہی جب تک امیتا نے نیچے سے ہانک نہیں لگائی۔
میں نے کہا، ’’میں نے تو صرف پر کولیٹر منگایا تھا۔ تم خود کافی بنانے بیٹھ گئے کیا؟‘‘
امیتا کے لہجے میں فطری خوش مزاجی سے پیدا ہونے والی شوخی تھی مگر اجیت کے دل میں چھپے چور نے اس کو گھور کر دیکھا۔ یہ خوش مزاجی سچی ہے یا جھوٹی؟ جملہ کھرا ہے یا طنز میں ڈوبا ہوا۔ اس کا ذہن ترازو لے کر امیتا کو تولنے لگا۔ وہ پرکولیٹر لے کر کچن میں گھس گئی۔
’’سنو میتو۔ مسز کھنہ پوچھ رہی تھیں کہ آپ کی مسز نے انیٹرئر ڈیکوریشن میں کوئی ڈپلومہ لیا ہے کیا؟ آپ کا گھر بے حد سلیقے سے سجا ہوا ہوتا ہے۔‘‘
امیتا کا مسرور چہرہ کچن سے جھانکا۔ اجیت نے اطمینان کا سانس لیا۔ بھگوان تیرا شکر ہے۔ عورت بنائی تھی سو بنائی تھی لیکن اگر اسے عقل بھی دے دی ہوتی تو مجھ جیسے مردوں کو تو مرجانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہتا۔ اطمینان کا سانس لیتا ہوا وہ تولیہ اٹھاکر غسل خانے میں گھس گیا۔ جسم پر صابن رگڑتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ مسز کھنہ کی بے تکلفی کو کس خانے میں فٹ کرے۔ محض خوش مزاجی، صاف دلی۔۔۔ یا کہیں۔۔۔ کہیں ان کے دل میں بھی نرم گوشے جاگ رہے ہیں۔ اجیت کے دل میں انار چھوٹنے لگے۔ صابن رگڑ رگڑ کر اس نے آدھاکردیا۔ وہ تو شاید پورا ہی گھس دیتا اگر امیتا کافی تیار ہوجانے کی اطلاع نہ دیتی۔
قسمت آزمانے میں کیا حرج ہے۔ اجیت نے نرمی سے سوئی ہوئی امیتا کا بازو گلے سے ہٹاتے ہوئے سوچا۔ دیکھیں گے اس ہانڈی کا قورمہ کیسا ہے۔ وہ اپنی باریک تراشی ہوئی مونچھوں میں مسکرایا۔
صبح اجیت کی آنکھ کھلی تو امیتا چائے کی ٹرے لیے دروازے پر کھڑی ہوئی تھی۔ بستر کے پاس تپائی رکھ کر اس نے چائے رکھی اور نازک سنہری پیالیوں میں چائے ڈالنے لگی۔ اجیت کا ڈریسنگ گاؤن اس کے سرہانے ٹنگا ہوا تھا۔ سلیپر مسہری کے نیچے موجود تھے۔ امیتا کے چہرے پر بڑی میٹھی سی مسکراہٹ تھی۔ رات کی تلخ گفتگو وہ یکسر بھول چکی تھی۔ اس کے تازہ شیمپو کیے ہوئے بالوں سے ہلکی ہلکی خوشبو آرہی تھی۔ اجیت نے پھر اپنے اوپر لعنت بھیجی۔ کیسی اچھی بیوی ہے۔ بھلا میں کہاں پرائی عورت کے چکر میں پڑ رہا ہوں۔ لیکن چائے پی کر نیند کا خمار اترا تو حواسوں پر وہی آٹھ انچ کے کٹے بلاؤز کا گلا ناچ گیا۔ مسز کھنہ اپنی تمام تر حشرسامانیوں کے ساتھ لان پر کھڑی تھیں۔
’’میں نے کہا اجیت جی۔ شام کو فرصت ہو تو شام کو چائے اوپر ہی پی لیجیے گا۔ کھنہ صاحب آج ٹور پر جارہے ہیں۔ مجھے تنہا چائے پینا بالکل اچھا نہیں لگتا۔‘‘ اجیت کو لگا اس کے سرپر ایک ایسا بم پھٹا جس میں رنگ برنگے تارے بھرے ہوئے تھے۔ وہ سارے تارے اب اس کی آنکھوں کے سامنے تھرک رہے تھے۔
’’آپ آرہے ہیں نا؟‘‘ مسز کھنہ نے دوہرایا۔
’’شام کو امیتا کی سہیلی کی شادی کی سالگرہ ہے۔ ہم دونوں وہاں مدعو ہیں۔‘‘ اجیت بڑی مری ہوئی آواز میں بولا۔
وہ اپنی نقرئی ہنسی ہنس کر بولیں، ’’تویہ تقریب تو امیتا جی کی سہلیگ کی ہوئی۔ آپ کی سہیلی کی تو نہیں۔ آپ انہیں جانے دیجیے۔ ہم لوگ چائے پئیں گے۔‘‘
اجیت بالکل ہی حواس باختہ ہوگیا۔ یہ سوا نیزے پر آیا ہوا آفتاب اس کے سر پر گر رہا ہے کیا؟
شام کو اجیت نے سردرد کا بہانہ کیا۔ ثبوت کے طور پر وہ امیتا کو دکھاکر اے۔ پی۔ سی کی دو ٹکیاں اکٹھی کھاگیا۔ ’’میتوڈارلنگ۔ تم چلی جاؤ۔ ان کی شادی کی پہلی سالگرہ ہے۔ تمہارا جانا ضروری ہے۔ میں ذرا آرام چاہتا ہوں۔ کچھ متلی سی بھی معلوم ہو رہی ہے۔‘‘
امیتا کا سیدھا سادا چہرہ فکر سے بھر اٹھا، ’’آفس کینٹین سے الٹا سیدھا لے لیا ہوگا کچھ۔ میں نے جو چکن سینڈوچ دیے تھے وہ بدمعاش انور کھا گیا ہوگا۔ تم فوراً ڈاکٹر سکسینہ کو فون کرلو۔ تم بھلا کیا کرو گے۔ لاؤ میں ہی کردیتی ہوں۔ زیادہ تکلیف ہو تو میں بھی نہیں جاؤں گی؟‘‘ وہ حسب عادت ایک سانس میں بولتی چلی گئی۔
مارے غصے کے اجیت کی مونچھیں پھڑپھڑانے لگیں۔ اس کا بس چلتا تو امیتا کی ایک ایک بوٹی علیحدہ کردیتا۔ ناک الگ، کان الگ، آنکھیں الگ، بازو الگ۔ اور سب کو بالکل علیحدہ علیحدہ دفن کرتا تاکہ وہ کبھی ایک جگہ ہو کر پھر امیتا کی شکل اختیار نہ کرسکیں۔
غصہ دباکر جلدی سے بولا، ’’نہ نہ تم ضرور جاؤ ڈارلنگ۔ میں صرف ہنگامے سے بچنا چاہتا ہوں۔ سر میں درد کوئی ایسی بڑی بات تو نہیں۔ پھر بائیں آنکھ دباکر بولا۔ ویسے رکنا چاہو تو رک بھی سکتی ہو۔ ہم بھی اپنی شادی کی سالگرہ آج ہی منالیں گے۔ بالکل دلہن نظر آرہی ہو۔‘‘
امیتا فکر بھول کر ہنسنے لگی۔
’’بدمعاش! اچھا آرام کرو۔‘‘ اور ایک ہوائی بوسہ پھینکتی ہوئی باہر نکل گئی۔ اس کے جاتے ہی اجیت نے کمبل پھینکا۔ آئینے میں اپنا جائزہ لیا اور حسب معمول ایک قدم میں دو دو سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر چڑھ گیا۔ ڈرائنگ روم میں سناٹا تھا۔ ڈرائنگ روم سے متصل بیڈ روم سے مسز کھنہ کے گنگنانے کی آواز آرہی تھی، ’’بالم آئے بسومورے من میں۔‘‘
اس نے پکارا، ’’شیلا جی!‘‘
’’یس کم اِن۔‘‘ کھنکتی ہوئی آواز میں جواب ملا۔
وہ جھجکا۔ ان کے بیڈروم میں وہ کبھی داخل نہیں ہوا تھا۔
’’آئیے بھئی؟ کیا سوچ رہے ہیں۔‘‘ کھڑکی کا پردہ اٹھا۔ مسز کھنہ کی ناک کی لونگ جگمگائی۔
اجیت اندر داخل ہوا۔ کمرے کی ہر چیز میاں بیوی کے نفیس ذوق اور آرام طلب مزاج کی غماز تھی۔ اس نے ایک نظر مسز کھنہ پر ڈالی۔ وہ بے نیازی سے بالوں میں برش پھرا رہی تھیں۔ تقریباً بیک لیس چولی سے ان کی سنہری کمر جھانک رہی تھی۔ اجیت پر پھر وہی دورہ پڑا۔ جی چاہا انہیں چھوکر دیکھے۔ کچھ لوگ اصلی نہیں معلوم ہوتے۔ تخیل کا واہمہ محسوس ہوتے ہیں۔
’’آپ کی خاطر میں نے امیتا کو تنہا بھیج دیا۔‘‘ اجیت ’آپ کی خاطر‘ پر زور دیتا ہوا بولا۔
’’تھینک یو اجیت جی۔ آپ بے حد اچھے انسان ہیں۔ بے حد اچھے۔ یقیناً آپ کی بیوی خوش قسمت ہے جو آپ جیسا شوہر ملا۔ ایک کھنہ جی ہیں روز ٹور۔ روز ٹور۔ پتہ نہیں یہ سارے ٹور آفیشیل ہوتے ہیں یا پردۂ زنگاری میں کسی معشوق کو چھپا رکھا ہے۔‘‘ اجیت کی تعریف کرتے ہوئے مسز کھنہ کی آواز میں طنز کا شائبہ بھی نہ تھا۔ بے حد اپنائیت تھی اور وہ بے حد قریب آکر سیدھے اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھیں۔ اس کو اپنے چہرے پر ان کی سانسوں کے لمس کا احساس ہوا اور اس کے اندر خون شراب بن کر جھاگ دینے لگا۔
عورت اور مرد کے اس ازلی رشتے کا یہ کمزور لمحہ کب اور کیسے ان کے درمیان سرک آیا، اجیت کچھ سمجھ ہی نہیں سکا۔ جب مسز کھنہ کے بازو اس کے گلے سے علیحدہ ہوئے تو اسے محسوس ہوا کہ وہ ایک ہارا ہوا جواری ہے۔ مسز کھنہ کا کاجل پھیل گیا تھا، اڑے ہوئے پاؤڈر کے دھبے برص کے داغ لگ رہے تھے۔ لپ اسٹک ہونٹوں کے درمیانی حصے سے غائب ہوکر بانچھوں میں بھر گئی تھی۔ ان کے چہرے پر وہی طمانیت تھی جو موٹا سا چوہا پاجانے والی بلی کے چہرے پر ہوتی ہے۔
بڑی حیرت سے آنکھیں پٹپٹاکر اجیت نے سوچا کہ یہ عورت اسے اس قدر انوکھی، اچھوتی، آسمان سے اتری ہوئی مخلوق کیوں معلوم ہوئی تھی۔ یہ عورت جو کسی بھی عام عورت سے الگ نہیں ہے۔ کیا یہ چرایا ہوا سکھ امیتا سے ملنے والے سکھ سے کچھ الگ تھا؟ حساب لگایا تو سارے جمع خرچ، ضرب، تقسیم کا جواب ایک ہی آیا۔ پھر بھلا چھ مہینوں سے اس نے اپنی نیندیں کیوں حرام کر رکھی تھیں؟ محض بند لفافے کو کھولنے کے لیے؟ ایک بیمار سے تجسس کی تسکین کے لیے؟ یا اس لیے کہ وہ ایک ناقابل حصول شے محسوس ہوتی تھیں اور اجیت کے لیے ایک چیلنج؟ اسے امیتا یاد آئی جواب آتی ہی ہوگی۔ ایک سیدھی سادھی، معصوم سی گھریلو بیوی جسے وہ پچھلے چھ ماہ سے ٹھگتا چلا آرہا تھا۔ وہ آہستہ سے اٹھا اور ان کا ڈریسنگ گاؤن ان پر ڈالتا ہوا نظریں چار کیے بغیر کمرے سے نکل گیا۔
پارٹی سے لوٹ کر رات کو جب امیتا میک اپ اتارنے کے بعد اپنے بالوں کو کس کر چوٹی میں گوندھ رہی تھی تو اجیت نے اپنا چہرہ اس کے شانوں میں ڈبوتے ہوئے کہا، ’’امیتا! ان بالوں کو کھلا رہنے دو۔ یہ ایسے ہی اچھے لگتے ہیں۔ پھر دن میں ان سے کھیلنے کا موقع ملتا بھی کہاں ہے؟‘‘