بٹ خیلے کا ندیم ولی ۔۔۔ زارا مظہر

بٹ خیلے کا ندیم ولی

زارا مظہر

کِیت کِیت کِیت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بھور سمے ریشم جاناں کی کانوں کو چھیدتی آ واز سارے نئے نویلے جوڑوں کے لئیے اذّیت اور نیند میں خلل کا باعث بن جاتی مگر اسے مطلق پرواہ نہ ہوتی ۔ دونوں لائینوں کے گھروں سے اکٹھی کی گئی روٹیاں وہ رات پانی میں بھگو دیتی اور صبح اٹھتے ہی اسکا پہلا کام ڈربے میں سے رات بھر کی بھوکی مرغیوں کو نکال کر خوراک دینا ہوتا مرغیاں بھی ایک ہی کیت کیت پر اسکے گرد گھیرا ڈال کر اس سے بھی زیادہ شور کرتیں پر اسکی آ واز اب بھی نمایاں طور پر غالب رہتی ۔ بس پورے دن میں یہ واحد خوراک تھی جو اسکی طرف سے مرغیوں کو دی جاتی اسکے بعد وہ بے فکر ہو جاتی اور انہیں سارے دن کے لئیے کُھلا چھوڑ دیتی ۔اب وہ گُھورے کے ڈھیر پر پہنچ جاتیں وہاں سے اُڑتی پڑتی ہر تیرے میرے کے گھر گھس جاتیں گیٹ کی ذرا سی کُھلی رہ جانے والی درز سے بھی فائدہ اٹھا لیتیں اطمینان سے پورا باغ باغیچہ تباہ کرتیں روئیدہ کلیاں اور سبزہ پائمال کرتیں ، سفید کنیر کا خوبصورت پودا اور گلاب کی لائن سے لگی قلمیں سب اتنی دفعہ روندیں گئیں کہ اب تو ان میں زندگی کے آ ثار ہی مفقود تھے ۔ مرغیاں شِکم سیری کے علاوہ طبیعت سیری بھی کرتیں مگر انڈے صرف اپنی مالکن کے کوارٹر میں دیتیں ۔ جہاں ریشم جاناں نے ڈربے اور کابکیں بڑی نفاست اور صفائی کے انصرام سے رکھے تھے ۔

ان سے فارغ ہوتی تو مرغیوں ہی کی تعداد جتنے بچوں کی پیٹ پوجا کا اسباب کرتی جو بالترتیب سال سال بھر کے فرق سے سات سے آ ٹھ تھے ۔ روشنی کو انکی صحیح تعداد کا کبھی اندازہ نہیں ہوا بس وہ پوری سڑک پر کیڑوں کی طرح رینگتے ہوئے محسوس ہوتے ۔

سرکاری رہائشی کالونی تھی ۔ قطار در قطار عمدہ کوٹھیاں وسیع رقبے پر بنی ہوئی تھیں سامنے والی لائین درجۂ چہارم کے ملازمین کی انتہائی چھوٹے کوارٹروں کی رہائش گاہ تھی ۔ ۔ ۔ ۔اتفاق سے زیادہ تر کوارٹر پٹھانوں کو الاٹ کئیے گئے تھے ان کے بچے سارا دن درمیانی سڑک پر غدر مچائے رکھتے کوئی چیز سلامت نا رہنے دیتے ۔ سنتّھے کی باڑیں ، بیرونی دیواریں،گیس کے میٹر ، گٹروں کے ڈھکن سب انکے لئیے کھیل کود اور دل پشوری کی چیزیں تھیں ۔ رہی سہی کسر انکی بکریاں ، مرغیاں اور کبوتر پوری کر دیتے ۔ جس میں ریشم جاناں کی بکری چمکتے نگینوں والی بھنور کلی پہنے انتہائی تیز اور اپنی مالکن کی طرح ہی بےباک اور نمایاں نظر آ تی ۔ امرود کے درخت پر ایسا منہ مارا ہے کہ اسکی بڑھوتری ہی رک گئی ہے پھوپھی اماں کا افسوس ہی نا جاتا تھا مگر روشنی کو تو خار کھانے کے لئیے انکا پٹھان ہونا ہی کافی تھا ۔

اگرچہ کالونی میں چرند پرند کا گھریلو سطح پر رکھنا جرم تھا مگر وہ پرواہ نا کرتی اسکی دیکھا دیکھی دوسرے پٹھانوں کو بھی ہمت ہو گئی مگر جو عیاری اور چُستی ریشم جاناں کی مرغیوں ، بکریوں اور کبوتروں کے پھّروّں میں تھی وہ گُٹک اور دیدہ دلیری دوسرے پٹھانوں کے جانوروں میں ناپید تھی ۔

وہ دو ننّھے بچوں کی ماں تھی جو ہر دم اسکا ناک میں دم کیئے رکھتے ۔ ریشم جان کا گیٹ عین ٹکّر پہ تھا وقت بے وقت کسی نا کسی ضرورت کے تحت گھنٹی بجا دیتی اور تقاضہ یوں کرتی گویا ادھار واپس مانگ رہی ہو ، دھڑلا اتنا ہوتا کہ انکار کی جا ہی نا ہوتی ۔ کبھی برف ،کبھی کم پڑ جانے والا سالن اور کبھی اچانک ختم ہو جانے والی چینی یا پتّی اور کبھی انگور کی بیل کو اٹکانے کے لیئے ستلی ۔ چیزوں کا مسئلہ نہیں تھا لمبادالان عبور کر کے بار بار گیٹ کھولنا چِڑن کا باعث تھا ایک دن تو عجیب ہی تقاضا کر بیٹھی کہ پلوشّہ پڑھائی میں بڑی کمزور ہے تو تو بہت پڑھی لِکّھی ہے گھنٹہ دو گھنٹہ دے دیا کر تیری آ خرت بھی سنور جائے گی وہی احسان دھرتا اور حکمیہ انداز ۔ کُنوارپت کے لئے سوال ڈالنے آ ئی ہے یا حکم چلانے روشنی جی ہی جی میں تلملائی ۔ تذبذب دیکھ کر ناصِیہ سائی پہ اتر آ ئی دیکھ روشنی تیرے چھوٹے موٹے کام بھی کر دیا کرے گی ۔ لالچ اچھا تھا مگر روشنی نے فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگائی نیلی کجراری آ نکھیں اور دودھ ملائی جیسا سراپا بد گمانی کے کئی بیج بو گیا بہت سے کہانیاں قصے یاد تھے اس ضمن میں ۔

حد تو اس دن ہوئی جب پٹھانوں کے دو تین لڑکے چار دیواری پہ زقند بھر کے کبوتروں کے پیچھے آ گئے پھوپھی امّاں لاہور گئی تھیں بہن بھائیوں کو ملنے ۔ روشنی نے محلے میں حشر اٹھا ڈالا ، وہ طوفان اٹھایا کہ پورا محلہ اکٹھا کر لیا حالانکہ اتنی بڑی بات نہیں تھی بچے کودتے ہی رہتے تھے مگر وہ تو روشنی تھی جس کا دماغ آغازِشعور سے ہی پٹھانی خوف کے شِکنجے میں پھنسا ہوا تھا ۔ ریشم جاناں کو بچوں کے ساتھ معافی اور آ ئیندہ کے لئیے محتاطی کی یقین دھانی کروانی پڑی ۔ اس دن کے بعد ریشم جاناں نے گاہے بگاہے آ نا چھوڑ دیا اسکی انا پہ شدید ضرب لگی تھی یا روشنی کی نفرت کی گہرائی بھانپ گئی ۔ اب سڑک پر بکھرے بچے بھاری گیٹ کُھلنے کی آ واز پہ چپ چاپ اندر غڑاپ ہو جاتے ۔ جو بھی تھا اب جان چھوٹ ہی گئی تھی ۔

انہی دِنوں ریشم جاناں کے گھر بٹ خیل سے کچھ مرد و زن مہمان ہوئے شاید کچھ خاص تھے جو وہ بِچھی جاتی یا اپنی روایتی میزبانی نبھا رہی تھی کوارٹر تو کافی چھوٹا تھا سو مہمانوں کی میزبانی بھی سڑک کے حصے میں آ ئی انہی میں تھا جوان جہان ، اونچا لمبا ندیم ولی ۔ اپنے روستائی حُلیے سے رشتہ داروں جیسا ہی دِکھتا تھا مگر اسکی آ نکھوں میں عجیب بھنورائی سی کیفیت ہلکورے لیتی رہتی لمبے قد اور خالص پٹھانی نقوش کے ساتھ سارا دن گیٹ سے باہر ہی پایا جاتا کوارٹر کے اندر اتنی جگہ ہی نا تھی کہ اسکا وجود سما سکتا ۔ گیٹ کے باہر سکھ چین کے درخت کے نیچے لال دامنی والی چارپائی پہ شوخ رنگوں والے شنیل کے تکیے سے ٹیک لگائے شہزادوں کی سی شان سے براجمان کئی طرح کے دھندے نپٹا ئے جاتا ۔ شاید فارغ بیٹھنا پسند نہیں تھا اسے ۔ سارے مہمان جاچکے تھے جانے کیوں وہ وہیں ٹک گیا روشنی کی سرگرمیوں میں بڑا فرق آ گیا اتنے بڑے گھر کی تنہائی سے اکتا کر دن میں ایک آ دھ بار کالے آ ہنی گیٹ سے جھانکنا اس کا دل پسند مشغلہ تھا اب ممکن نا رہا جونہی گیٹ کھولتی سامنے بھنورا سی آ نکھوں کو منتظر پاتی عجیب بِھکشا ہوتی اسکی آ نکھوں میں ۔ اسکا پورا جسم سراپا آ نکھیں بن جاتا تب اسکی آ نکھوں کی بے اختیاری پر بڑا غصہ آتا کہتا کچھ بھی نا تھا بس کالے بھنورے کو ٹِکٹکی لگ جاتی وہ غصے کے اظہار کے طور پر پاؤں پٹختی پھر ٹھاہ کرکے گیٹ دے مارتی

اور کِچکِچاتی ،بڑبڑاتی قدم اندر موڑ لیتی ۔

روشنی ۔ ۔ ۔ ۔ پھوپھی امّاں کی غنودہ مگر تیز آ واز ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بچوں کو اندر کر لے پٹھانوں کا کوئی اعتبار نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ پھوپھی اماں جب سے ساس بنی ہیں کچھ زیادہ ہی رعب جھاڑنے لگی ہیں روشنی نے اکتا کر سوچا بڑے بے اعتبارے ہیں مسلسل آ واز ۔ ۔ ۔ عشروں پرانی خاندانی روایتی کہانی شروع ہو چکی تھی اور وہ پھوپھی اماں کی آ واز کے سہارے بچپن کی حسین وادیوں میں بھٹکنے لگی جہاں اسکا بچپن جابجا بھاگتا دوڑتا پھر رہا تھا کتنی ہی سانولی سلونی ، کھٹی میٹھی اور لال گلابی یادیں دامن سے لِپٹ گئیں جہاں ابّا میاں کا پر شفقت سایہ تھا اماں بی کی پیار بھری نرم گرم آ غوش تھی بڑی بہنوں کے لاڈ اور معصوم سے رعب تھے بھائیوں کے ناز نخرے تھے یہی پھوپھی اماں تھیں جو بیوہ ہونے کے بعد اکلوتے بیٹے کے ساتھ واپس بھائی کے در پہ تھیں اور کیسے ڈری سہمی سی رہتی تھیں ان دِنوں ہر دم امّاں کی جی حضوری کرتی رہتیں ۔

شاید خاندان میں ماضی بعید میں کوئی واقعہ ، وقوع پذیر ہوا تھا جو سب بچوں کے شعور کے ساتھ ہی پل کر جوان ہوا تھا کہ کسی بچے کو پٹھانوں نے اغوا کر لیا تھا بچہ تو بر آ مد نہیں ہوا تھا مگر ثبوت پکّے ملے تھے کہ بچہ انہوں نے ہی غائب کیا ہے وہ علاقہ ہی چھوڑ گئے تھے کہ انکا ٹال اور ملحقہ تندور دم توڑ رہے تھے ویسے بھی عرصے سے سرکاری زمین پر قابض تھے اور سرکار جگہ چھوڑنے کے لئیے نوٹس پہ نوٹس بھیج رہی تھی ۔ پتہ نہیں کتنی پیڑھیاں پیچھے واقعہ ہوا تھا اور پورا خاندان عشروں سے اس واقعے کا خوف سر پر لاد کر بچوں کو پٹھانوں سے خوف ہی دِلاتا رہا تھا ۔

مائیں بچوں کو بلّی کتے اورجن بابے سے دھمکا کر سلایا کرتی ہیں مگر اس کے خاندان میں بچوں کی شرارتوں کو لگام دینے کے لئیے پٹھانوں سے دھمکایا جاتا تھا بچے بھی جن بھوتوں سے ڈرنے کی بجائے پٹھانوں ہی سے ڈرتے کہ جن بھوت اور چڑیلیں تو گھر کے افراد ہی معلوم ہوتے تھے روز ہی کسی ڈرامے میں موجود ہوتے ۔ اب جبکہ وہ خود بال بچوں والی تھی بچوں کو خاندانی مروجّہ طریقے سے ڈراتی گو کہ وہ بالکل نا ڈرتے روز ہی تو اس مخلوق کو اپنے سامنے عام انسان کی طرح بولتے چالتے اور امور ہائے زندگی انجام دیتا دیکھتے تھے ۔

ریشم جان سارا دن کپڑوں میں مرغیوں کی بِھکراند لیئے سڑک پر ہی گزار دیتی جہاں وہ بڑے دھڑلے سے رہتی ۔ سردیوں میں اُجرتی لحاف کھونپتی ۔ موسمِ برسات میں کھجور کے پٹھوں سے خوب صورت چنگیریں اور روٹی دان ، زردوزی کی کڑھت سے شیشے والی کوٹیاں اور بھنور کلیاں بناتی ، لسّی کو سکھا کر محفوظ کرتی ناڑے پراندے سب بنا لیتی راچھ ، چرخہ بھی نظر آ تے رہتے اور نہیں تو گرمی کی لمبی دوپہروں میں بان بٹنا شروع کر دیتی پوری سڑک پہ یہ لمبی لمبی رسیاں بچھا دیتی کبھی مرغیاں الجھتیں کبھی بکریاں اور کبھی خود اسکے بچے مگر سب کو اتنا محاورہ تھا کہ الجھ سلجھ کر ، جھڑ جھڑا کر بڑی جانفشانی سے نکل آ تے ۔

پھوپھی اماں محلے میں عیادت کو گئیں تھیں روشنی نہا کر نکلی ہی تھی گیلے بال شانوں پر دھرے تھے گلابی تولیہ پُشت پہ پڑا تھا پتہ نہیں کیوں ڈھائی سالہ رستم باتھ روم میں گھس کر خود کار قفل چڑھا بیٹھا اور چیخنے چلانے لگا پہلے تو سمجھ ہی نہیں آ ئی مگر جونہی آ گہی کا در وا ہوا روشنی کا کلیجہ منہ کو آ نے لگا گھبرا کر باہر بھاگی سامنے ہی بھنورا بیٹھا تھا شکل سے پریشانی بھانپ گیا اور بھاگتا ہوا درّانا وار اسکے ساتھ اندر آ گیا منٹوں میں دروازے کا قفل توڑ کر خوفزدہ بچّہ روشنی کے حوالے کیا اور آ ج پہلی بار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسکے کالے ، لمبے ، کُھلے اور گیلے بال دیکھ کر کالی بھنورا آ نکھیں ایکدم رنگ بدل کر رتّی ہو گئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسی دم روشنی کو اپنا بایاں پہلو ایک دم خالی ڈھنڈار معلوم ہوا لمحوں میں واردات ہو گئی اور وارداتیا بڑی سہولت اور دلیری سے چلتا بنا ۔ روشنی کے حواس ہی باختہ ہو گئے ایسی بے اختیاری لگ گئی کہ ہر وقت کھوئی کھوئی رہنے لگی سینے کی بھٹکن دھونکنی میں پناہ ڈھونڈ لیتی پھوپھی اماں دم پہ دم پھونکے جاتیں مگر وہ خود میں ایسی غروب ہوتی کہ طلوع ہونا ہی بھول جاتی عجیب کیفیت طاری رہتی ۔ ہر دم خیال رکھنے والے ساتھی کا برماتا لہجہ اچھا لگتا نا کسی کام میں جی ٹہرتا ۔ وہ سر نیہوڑائے ریشمی بالوں کی ردا اوڑھے گھنٹوں غافل رہتی پھوپھی اماں کی تیز آ واز اور سڑک پہ صبح وشام کی کیت کیت کیت کچھ سنائی نا دیتا ۔

ایسے ہی بے زاری کے دن اور بے چین ، بے خواب سی راتیں تھیں جب محلے میں ایک بازگشت نے ڈنکے کی صورت اختیار کر لی کی پٹھانوں کو کوارٹر خالی کرنا پڑے گا ۔ ریشم جاناں کے بچّے اب بلوغت کی سرحد پر کھڑے تھے اور الزام لگا تھا کہ ان میں سے کسی ایک نے شاہ صاحب کے بیٹے سے زیادتی کی کوشش کی ہے شاہ صاحب بڑے غصے میں ہیں کیس بنا کے ہیڈ کوارٹر بھیجیں گے ریشم جاناں روز ہی ان کی کوٹھی معافی مانگنے پہنچ جاتی مگر روشنی کو یقین تھا معافی بھی حکمیہ ہی مانگتی ہو گی جب ہی تو وہ رام نہیں ہو رہے تھے ورنہ انکی نرم دلی تو مشہور تھی آ خر ایک دن انکے منہ سے نکل گیا کہ محلے میں سے کوئی ضمانت لے آ ؤ تو معاف کر دوں گا ۔ ادھر ادھر سب سے کہا مگر کوئی راضی نا ہوا کہ ہر کوئی تنگ تھا ۔

ریشم جان نے اپنی ساری ناراضگی اور انا ایک طرف رکھی اور آ ج ایک بار پھر روشنی کے گیٹ پر کھڑی تھی آ واز میں گھّن گرَج مفقود تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روشنی تیری ضامنی چاہیئے آ ج آ خری بار ۔ ۔ ۔ ۔ تو گواہی دے دے میرا بچہ بے قصور ہے وہی حکمیہ لہجہ ۔ تو میری سب سے پرانی اور اچھی بہن ہے اب اسکی آ واز میں تضّرُع در آ یا ۔ پیروں پر ہی جھک آ ئی یہ انداز ذرا نا سج رہا تھا اس پہ روشنی خاموشی سے ہٹ گئی ۔ پورے محلے کو یقین تھا کہ لجاجت کام نہیں آ ئے گی روشنی گزرے پانچ برسوں میں کتنی شدید اور برملا نفرت کرتی آ ئی تھی آ جکل تو ویسے ہی بول چال بند تھی جان چھڑانے کا اچھا موقعہ ملا ہے روشنی گواہی نہیں دے گی ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اگلے دن پورا محلہ انگشت بدنداں رہ گیا جب روشنی نے چپ چاپ اسکے حق میں گواہی دے دی اسکی معتبر ضمانت کے عوض ریشم جان کا کوارٹر بچ گیا تھا ۔ دونوں لائینوں کا احاطہ کرتی اسکی کیت کیت پھر شّد و مّد سے ماحول میں بکھری رہتی اور نئے نویلے پھر سے بیزار ۔

کتنی دفعہ کہا ہے شام سے پہلے بچوں کو اندر کر لیا کر پھوپھی اماں نے اسکی سنجیدگی اور لاپروائی پر ایک تیز نظر ڈالی مگر روشنی پتہ نہیں کس سمے ، کس خیال میں تھی گھٹنوں پر سر گِرائے اضطراری کیفیت میں پاؤں جھلاتی جا رہی تھی ۔ روشنی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ساس کی تنبیہی تیز آ واز پر اس نے چونک کر ژولیدہ نظری سے پھوپھی اماں کو دیکھا گُھورتے پا کر ہڑبڑا کر اٹھی اور بد حواسی سے باہر بھاگی اور عین اس لمحے بٹ خیلے کے ندیم ولی نے اپنی پھوپھی سے اجازت چاہی ، ماتھے پہ الوداعی بوسہ لیا بھاری گیٹ کُھلنے کی آ واز سننے کے باوجود پیچھے مڑ کر نا دیکھا ۔

روشنی کا دل حلق میں ، کانوں میں ، آ نکھوں میں اور سانسوں میں دھڑ دھڑانے لگا پسلیوں کو مجروح کرنے لگا ۔ وہ کوکلتاش کالے فوجی بوٹ ، لیدر کی جیکٹ پہنے اپنے نمایاں ہوتے دراز قد کے ساتھ لمبی سرمئی سڑک کے بیچوں بیچ شانِ بے نیازی سے چلتا جا رہا تھا ۔ اچانک ایک ذرا کی ذرا مڑ کے دُزدیدہ نگاہی سے دیکھا اور ٹِکٹِکی رمائے روشنی کو لگا کہ کالی بھنورا سی آ نکھوں نے اسکا دل مٹّھا بھر کر ریشم جان کی سی دیدہ دلیری سے نوچ لیا ہو ۔ ٹھس بے جان وجود کو بڑی مشکل سے دیوار کا سہارا دیا ۔ دونوں وقت مِل رہے تھے شام کا ملگجا اندھیرا گُھور کالی رات میں مدغم ہونے جا رہا تھا دور سے ریشم جان کی کیت کیت کیت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرغیوں کو جمع کر رہی تھی ۔

روشنی نے اسکے بھاری بوٹوں کی دھمک میں ایک لال لوتھڑا واضح طور پر لنگڑاتا دیکھا جو کاہِ رُبا بنا بوٹوں کی دھم دھم میں دھمال ڈالتے لپٹ لپٹ جا رہا تھا ۔ دور سے آ تی کیت کیت بڑے سُر میں لال دھمال کا ساتھ دے رہی تھی ۔

وہ بٹ خیلے کا ندیم ولی ریشم جاناں کا مہمان تھا نا بڑا صید افگن اور دھڑلے والا ، بڑی دست درازی سے دو بچوں کی ماں کا دل سینے سے نوچ کر چلتا بنا تھا ۔ روشنی روئے جا رہی تھی صدیوں بعد پھر ایک ایسا واقعہ ہو گیا تھا کہ نسلوں کو خمیازہ بھگتنا تھا مجرم اب بھی پٹھان ہی تھے ۔ پھوپھی اماں آ وازیں دئیے جا رہی تھیں اور وہ بھوچک کھڑی تھی سو دفعہ سمجھایا ہے دونوں وقت مل رہے ہوں تو سر ڈھانپ کر رکھا کر نہیں تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پتہ نہیں کیا کہنے جا رہیں تھیں پھوپھی اماں مگر ہونی تو ایک بار پھر ہو چکی تھی ۔ ۔ ۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031