بروٹس سٹاپ: ناٹ اگین۔۔۔ زویا حسن

بروٹس سٹاپ! ناٹ اگین! ۔

 زویا حسن

کھڑکی کے اندر اور باہر کی زندگی میں طلائی پل سا بن گیا ہے۔ وہ دنیا جو باہر کی فضا میں رواں دواں ہے، اور کئی قدم اور کئی چہرے اس کے نقوش کو معنی دیتے ہیں، کھڑکی کے اس پار ایک وجود میں وہ سب کے سب اپنی لہریں چھوڑ جاتے ہیں۔ اس وجود نے جس کی آنکھوں نے آگہی کے بارہ سال، اس کھڑکی میں بیٹھ کر طے کیےہیں۔ وہ وجود جو صبح مسا میں، پہاڑی چشمے سا ابلتا ہے اور پھر کھڑکی سے باہر کی بپھرتی لہروں میں ضم ہوجاتا ہے۔کچھ چلتر عورتوں کی آوازیں لپیٹتے، اکثر سائے لمبے ہوتے ہوتے، اپنے مرکز پر سمٹ جاتے ہیں۔ کبھی عمر رفتہ کو اپنے جھکے کاندھوں پہ لادے، کوئی سایہ جو اپنے عہد سے ناجانے کس پہر بچھڑ گیا تھا، اس کی دہلیز پہ سوئی سیڑھیوں پہ آبیٹھتا تو اس کی سانسوں کے نوحے اس کا سکون چھین لیتے۔مرکز سے بچھڑے سایوں کے بھی الگ ہی عذاب ہوتے ہیں ۔البتہ حالات حاضرہ پہ تبصرے، وجود میں کچھ خاص وبال نہ لا پاتے ۔شاید اس لیے بھی کہ حال جینے کے لیے ماضی مارنا پڑتا ہے، سو وہ مار نہ سکی۔ بارہ سال کے ماضی میں اتنا کچھ تو تھا کہ کٹا نہ جا سکے ۔شوہر کی بے اعتنائیاں، نظر اندازی کے دکھ، چپ کی کوکھ میں رقصاں درد کے سات سُر، شوخی سے چھنکتی چوڑیوں میں سرائیت ہوتے آگہی کے پُر آشوب نغمے، کچھ بکھرا کاجل اور اُلجھی زلفیں، پاؤں میں رقصاں گیتوں میں پڑتی جمود کی بیڑیاں اور بدن میں جمتاجوانی کا ڈھیتا بھوبل ۔۔۔

مگر کھڑکی کے اس پار سے، ایک ٹھنڈے ہوا کا جھونکا بھی تو آتا تھا ۔جس کے انتظار میں وہ دن سے رات کرتی تھی۔ کھڑکی کے اس پار ایک خوبصورت باغ تھا جس میں کالونی کے بچے، بوڑھے، عورتیں اور مرد حضرات ہر وقت چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں آتے جاتے تھے ۔باغ اور فضیلت کے گھر کے درمیان، ایک پختہ سڑک تھی اور باغ کی سرحد کے گرد درخت، اس سڑک کو ٹھنڈا رکھتے تھے،۔انہیں میں سے ایک درخت کے سائے تلے، وہ روز صبح صادق ہی آ بیٹھتا تھا۔ ٹانگوں پہ معذوری کے قفل تھے، مگر زبان ہر چوکھٹ کھٹکھٹاتی تھی ۔ناجانے پہلے وہ کہاں تھا، کن پانیوں میں سرگرداں تھا، پھر اچانک ایک دن وہ وہاں بیٹھنے لگا تھا ۔کالج یونیورسٹی جاتے لڑکوں کو دن چڑھے آتے جاتے دیکھنا ان دونوں کا محبوب مشغلہ تھا۔ توقیر اگر کبھی گھر ہوتا، تو اس کے اٹھنے سے پہلے سارے گھر کی جھاڑ پونچھ کرکے، ناشتہ بنا کر وہ کھڑکی میں آ بیٹھتی اور وہ اسے وہیں آنکھوں میں شوخی اور ہلکی ہلکی کمینگی لیے ملتا۔ وہ ہر اس بانک، ہلکی بھیگتی مسوں والے لڑکے کو روک کر اس سے محلے کی لاڈلیوں کے قصے سنتا، جو وہاں سے گزرتا تھا ۔شہروز صاحب کی لڑکی پہ جوانی ٹوٹ کر برسی تھی کہ جب وہ چلتی تھی تو، زمین کے توازن میں بگاڑ پیدا ہوتا تھا۔ راوٴف صاحب کی دلاری کی آنکھوں میں، بے شرمی کی شرارتیں اٹھکیلیاں بھرتی تھیں، تو مولوی جمیل کی دوشیزاوں کے سروقد اور خمدار بدنوں سے اٹھتے شرارے، کس کس بانکے کو رات بھر مخمور رکھتے تھے، سب پہ تبادلہ خیال کرتے، جب وہ بے حال ہوتا، ہنستا تھاتو، فضیلت کے زہن میں غصے اور نفرت کے سانپ پھن اٹھائے کھڑے ہو جاتے اور وہ ان سانپوں سے کئی بار اس کے مکروہ چہرے پہ ڈستی اور کبھی کبھار جب اس کے ہاتھ بھی کسی لڑکی کا نمبر لگ جاتا تو وہ، گھنٹوں فون کان سے لگائے من چاہی دنیا میں راحتیں ڈھونڈنے نکل جا تا۔تب فضیلت ادھر ادھر کا جائزہ لیتی، اندر کے جہنم میں باہر کاجہنم بھرتی رہتی۔ ہاں تب اس کےلیے وہ جہنم ہی تو تھا۔مگر پھر ذرا دھوپ ڈھلے، ریٹائرڈ اور بے کار بوڑھے، اپنے پوتے پوتیوں کو اٹھائے گلی میں نکلتے، تو وہ ان کو بھی روک کر ان کے من چاہے ٹاپکس مذہب، سیاست اور ادب سب پہ سیر حاصل بحث کرتا تو فضیلت کا سارا غصہ پیار میں بدل جاتا۔بوڑھے داد دیتے مسکراتے، گھر کی طرف مسرور سے لو ٹتے۔کیسا علم دوست تھا وہ، اور بوڑھوں کی وقت گزاری بھی خوب ہوتی تھی۔

توقیرسے پسند کی شادی کے بعد، وہ اس کی زندگی میں سے کب نکل گئی، اسے معلوم نہ تھا۔ بس وہ فضیلت پہ شک کرتا تھا اور اس کے گھر والوں نے فضیلت کو قبول ہی نہ کیا تھا، تو توقیر نے اسے ایک کرائے کے مکان میں ٹھہرا رکھا تھا ۔مگر فضیلت کو سختی سے کہیں آنے جا نے سے روک دیا تھا۔ شروع شروع میں فضیلت اگر کبھی کسی ہمسائی کےاصرار پہ، مارکیٹ تک ہو آتی، تو اس بات پہ خوب جھگڑے ہوتے۔ فضیلت کا چھت پہ جانا بھی توقیر کو نہ پسند تھا۔پہلے پہل وہ لڑنے جھگڑنے کے بعد، فضیلت کو یوں منا لیتا کہ اسے اپنے ساتھ کہیں گھمانے پھرانے لے جاتا۔ مگر وہاں جاکر بھی، الگ مسلے شروع ہو جاتے ۔ کسی کے فضیلت کی طرف دیکھ لینے پہ یا پاس سے گزر جانے پہ ہی، توقیر ہتھے سے اکھڑ جاتا اور بات مار دھاڑ تک پہنچ جاتی۔گھر آکر فضیلت کی بھی کلاس ہوتی کہ وہ ہی منہ بنائے بیٹھی تھی، تو توقیر کو اسے لے کے جاناپڑا۔ اور پھر اس دن جب وہ توقیر کی غیر موجودگی میں بیرونی دروازے پہ دستک پہ، ہمسائی کے خاوند سے بریانی وصول رہی تھی تو، توقیر آگیا تھا۔ توقیر نے فضیلت کو مار مار کر ادھ موا کر دیا تھا اور آئندہ اس کےگھر سے باہر ایک قدم بھی رکھنے پہ پابندی لگا دی تھی۔ زندگی سے محبت لفظ کے تمام معنی روپوش ہو گئے۔توقیر شروع سے ہی رات کو دیر سےآتا تھا، اب تو رات رات گھر سے غائب رہنے لگا تھا۔وہ ایک کھوکھلا مرد تھا، جس کے پاس کسی عورت کو دینے کے لیے، نہ تو جسمانی راحت تھی نہ ذہنی خوشی۔ فضیلت دھیرے دھیرے چپ ہو گئی اور وہاں اس نے اپنی سانسوں کی سہولت کے لیے ایک روزن تلاش کر لیا تھا۔ گھر میں کچن اورواش روم کے علاوہ دو ہی کمرے تھے ۔ ایک بیڈ روم اور ایک ڈرائینگ روم۔ڈرائینگ روم میں ایک کھڑکی تھی اور اس کھڑکی میں فضیلت کے جینے کا کچھ سامان رکھا تھا۔ اس کھڑکی میں بیٹھی وہ اپنے حصے کی دنیا دیکھتی رہتی، وہ دنیا جو بارہ سال تک اس کا کُل بن گئی۔اس دنیا میں توقیر کے علاوہ سب کچھ تھا۔ وہ اس کھڑکی سے اپنے لیے زندگی کشید کرتی تھی ۔ ہنسنے رونے کے بہانے،محبت ونفرت کی ہنگامہ خیزیاں،حیرانی وتجسس کے فریب سب، اس ایک کھڑکی سے کشید ہوتا تھا۔

جسم۔۔۔جسم وہ کہاں تھا اسے نہیں یاد تھا کہ توقیر کے ساتھ لمحہ وصل میں برہنہ جذبات نے کبھی، آتشگی کے حظ اٹھائے ہوں۔ اور اب تو امید رکھے بھی کئی سال گزر گئے،۔مگر سالوں کی گنتی بھی اب بھولنے لگی تھی، کھڑکی میں نمو پذیر وجود کو سالوں سے سروکار ہی کیا تھا۔ روح کے لیے بہت سامان تھا مگر جسم۔جسم نے بھی اپنی عرضی جلد ہی فضیلت کے سامنے رکھ دی۔وہ روح کا بار اٹھا اٹھا کر تھک گیا تھا۔اپنے ہونے کا احسا س دلانے لگا تھا۔اور تب اس کھڑکی ہی نے تو سامان راحت فراہم کیا تھا۔وہ جو باہر بیٹھا تھا، تصور کی آنکھ سے اندر جھانکنے لگا تھا۔

دوپہر کا کھا نا بناتے اسے اپنے ذہن وجسم پہ رستے زخموں کا خیال آتا، جو توقیر اکثر وبیشتر اپنے زہن کے انتشار کو کم کرنے کی خاطر اسکو دیتا تھا۔ اندرون کے انتشار کو نکیل ڈالنے کے لیے جسمانی چارہ جوئی ضروری ہوتی ہے۔ مگر اسکا جسم درست سمت میں انتشار کو رام کرنے کے قابل نہ تھا، تو وہ فضیلت کو ذدوکوب کرکے خود کی محرومیوں کے بھرم قائم رکھتا تھا ۔

دوپہر کا کھانا بناتے وہ زخم رسنے لگتے اور ناجا نے کہاں سے دو گرم اور پیاس سے بے قابو ہوتے ہونٹ، کھڑکی کی جالیوں سے راستہ بناتے اسکی کمر کے زخموں پہ آکر پیوست ہو جاتے۔ وہ مسرور سی ہو تی آنکھیں موند لیتی۔ ان ہونٹوں کی گیلاہٹ اسکے وجود میں سرسرانے لگتی تو وہ جان لیوا کیفیت میں دیوار سے آلگتی۔ اسکا جسم بے قابو ہوتا، لباس کے ساتھ ساتھ خود سے بھی آزاد ہوجاتا اور وہ نیم جان سی کچن میں ہی زمان و مکان کے بندھنوں سے باہر نکل کر خود کو پا لیتی۔تب کو ئی اسکے کان میں سرگو شی کرتا۔

”تخیل کبھی معذور نہیں ہوتادیکھ لیا تم نے اسکو کھڑکی سے باندھ کر رکھنا نا ممکن ہے”

وہ سرشار سی اٹھتی اور قد آور آئینے میں خود کے انگ انگ کو چھوتی سراہتی،چمکارتی رقص کرنے لگتی۔

”ہاں تخیل کبھی معذور نہیں ہوتا“

یہ تخیل کے پنکھ بھی تو اس کھڑکی سے ہی کشید ہو ئے تھے۔وہ جو کھڑکی سے باہر بیٹھا تھا۔ اس نے فضیلت کو ملے بغیر اس کے تمام دکھ با نٹ لیے تھے اور ایک وہ تھا جو ایک کمرےمیں ساتھ ہوتا تھا۔ مگر کبھی فضیلت کے کسی جذبے میں اس کے پاس نہ ہوا تھا۔شام گہری ہوتی جب رات کو آغوش میں بھرنے لگتی تو وہ اپنی وہیل چئیر گھسیٹتا فضیلت کی کھڑکی کے ساتھ آلگتا۔اور اس سے سرگوشیوں میں باتیں کرتا اس کو تمام محلے کے قصے سناتا۔فضیلت اس کے ساتھ مل کر محلے کے پریمیوں کی ملاقاتوں سے لے کر شادیوں تک کے منصوبے بنا تی۔اس کے کہنے پہ فضیلت نے کتابیں سننی شروع کی تھیں۔اور فضیلت اس کو سنتے کہانی کی وادیوں میں گھومتی رہتی۔کتنے نا ول تھے جو اس نے پڑھے اور فضیلت نے سنیں ۔زندگی یوں ہی گزر سکتی تھی مگر توقیر جو اسے ہر اتوار اپنےساتھ بازار لے جاتا تھا کہ جو خریدنا ہے خرید لو اس پہ بھی اس نے پابندی لگا دی ۔وہ حیران تھا کہ فضیلت اتنی قید کے بعد بھی نکھرتی کیوں جا رہی ہے حالانکہ اتوار کو وہ ستم گر جو کھڑکی سے باہر تھا اپنے گھر ہی رہتا تھا کہ اس کے سوتیلے بھائیوں کو کاروبار سے چھٹی ہوتی تھی تو وہ بھی گھر ہوتے تھے پھر بھی توقیر کو شک تھا کہ کوئی تو بات ہے کہ فضیلت پہ اس کے کسی ستم کا اثر نہ ہوتا تھا تو اس دن فضیلت سے سچ اگلوانے کے لیے فضیلت توقیر کے ہاتھوں بہت پٹی تھی۔ اس دن فضیلت نے خواہش کی تھی کہ کاش کوئی ہوتا جس کے سہارے وہ اس جہنم سے آزادی حاصل کر سکتی ۔تب اس رات اس وجود کے ساتھ لگ کر وہ بہت روئی تھی ۔وہ دیر تک اسے دھارس دیتا رہا ۔فضیلت نے اسے کہا کہ

” وہ اسے سب کچھ مہیا کرتا ہے ہر جذبے کا پاس رکھتا ہے مگر اسے امید کیوں نہیں دیتا ۔کیوں نہیں کہتا کہ تم ایک دن آزاد ہو جاو گی اور تمہارے گھر والے تمہیں قبول کر لیں گے ۔گو تم نے گھر سے بھاگ کر بہت بڑا گناہ کیا مگر اس کی سزا تم کاٹ چکی ۔تم کیوں نہیں کہتے۔”

فضیلت ہچکیوں کے بیچ روتی تھی۔تب اس نے کہا تھا

“حاصل سوائے لاحاصل کو جنم دینے کے کچھ بھی نہیں فضیلت ۔چاند پہ پہنچ جانا مریخ پہ پہنچ جانے کی حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کیا جنت کے حاصل نے زمین کے لاحاصل کو جنم نہیں دیا تھا? تم واپس جنت میں جا کر کیا کرو گی? “

اور فضیلت اسے بے یقینی سے دیکھتی تھی

”شاید میں بھی اس کے جینے کا واحد سہارا ہوں۔ مجھے کھو کر اس کے پاس بھی تو کچھ نہیں بچے گا ۔ایک واحد میں ہی تو ہوں جو اس کو ہر وقت سننے کو دستیاب رہتی ہوں۔ماں باپ مر گئے اور سوتیلے بھائی کیوں کر اس کی سنیں ۔رات گئے اسے لینے آتے ہیں ۔آہ! میں بھی کتنی خود غرض ہوں اپنے محسن کو چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتی ہوں ۔” درد اب ندامت کے آنسوؤں میں بدل گیا ۔”

اور مجھے یہاں کمی بھی کیا تھی۔ راوف صاحب،تصوف صاحب، کنیز بوا یا جن جن کے گھروں کے واقعات وہ مجھےسناتا ہے ان کے گھر کبھی میں حقیقت میں گئی ہوں? ۔نہیں ناں? مگر اس کے تخیل کے گھوڑے پہ سوارمیں ان سب کے گھروں تک پہنچ جاتی ہوں ۔ہے کےنہیں? ۔”

”ہاں ہاں ایسا ہی ہے ۔مجھے تو اب یہ تک گمان ہو جاتا ہے کہ جمیل صاحب اپنی جمع پونجی کدھر رکھتے ہوں گے، اور راوف صاحب کی بیگم نے بیٹی کے جہیز کے لیے کتنے زیورات بنا لیے ہوں گے۔”

فضیلت نے اس روز کے بعد اس کھڑکی کو جہنم سے تعبیر کرنا چھوڑ دیا تھا اور وہاں سے فرار کی امید اسے گناہ لگتی تھی. کئی سال گزر گئے تھے اب تو ۔امید نے اب بھول کر بھی ادھر کا رخ نہ کیا تھا ۔مگر اس دن زور کے بادل گرجے تھے کہ کھڑکیاں ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھیں ۔بدن نے شور مچا رکھا تھا اور فضیلت سرگوشیوں میں اسے چپ کراتی تھی ۔مگر وہ سنتا نہ تھا ۔بضد تھا کہ روح سے کچھ ہی دیر کو سہی فرار ہو ۔وہ ناچنے لگی تھی اور بدن بارش کی بوندوں میں بھیگتا جاتا تھا ۔زور سے بادل گرجا تو وہ آسودگی کی کھڑکی ٹوٹ گئی۔ وہ ہونٹ جو کب کے بے چین کھڑکی پہ دستک دیتے تھے، گھر میں دھڑلے سے داخل ہوئے تھے اور فضیلت کے انگ انگ کو چومتے جاتے تھے۔ وہ صحن کے بیچوں بیچ بھیگتی کانپتی ماہی بے آب سی کیفیت میں تھی، مگر سکون تھا کہ جان نکالتا تھااور تبھی توقیر بیرونی تالا کھول گھر میں داخل ہوا، اس کے ساتھ اس کا کوئی دوست بھی تھا ۔فضیلت کو بے لباس دیکھ اس نے فضیلت کی چٹیا کھینچتے لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی ۔فضیلت جب نیم مردہ سی لڑھک گئی تو توقیر نے اسے طلاق دے دی تھی اور خود وہاں سے نکل گیا تھا۔تین دن یونہی زندگی موت کے بیچ جنگ کرتے فضیلت نے جب ہوش کیا، تو تمام واقعات یاد کر کے پریشان سی ہو گئی کہ اب وہ کہاں جائے گی? ۔ ابا کا گھر کتنا پرایا ہو گیا تھا کہ وہاں جاتے شرم آتی تھی ۔دس سال لا پتہ رہنے والی لڑکی بیٹی کہاں ہوتی ہے وہ تو بد چلن و بدکردار عورت بن جاتی ہے۔عرصے بعد وہ بہت روئی تھی مگر پھر اسی کھڑکی نے جیسے دھارس بندھائی تھی ۔ساتھ ہی ایک خوشی کی لہر اس میں کوند کر آئی ۔

”ہاں اب وہ جو کھڑکی کے باہر ہے، وہ اور میں ہم دونوں ایک دوسرے کا ہمیشہ کے لیے سہارا بن جائیں گے ۔کتنا بے وقوف تھا وہ، ناجانے اس رخ پہ کبھی کیوں نہ سوچا تھا اس نے ۔اگر ماں کے گھر واپسی کی امید غلط تھی، تو کیا وہ مجھے ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ کی امید نہ دلا سکتا تھا ۔شاید اسے اپنی معذوری کی لاج آتی ہو، مگر وہ نہیں جانتا کہ میں بھی تو معذوری کی زندگی گزارتی آئی ہوں اور پھر اس نے مجھے تخیل کے سہاروں سے چلنا سکھایا ۔”

فضیلت اس دن خوب خوب تیار ہوئی ۔چوڑیاں، پائل اور گہنے پہنے کاجل اور لپ اسٹک سے خود کو سجایا ۔گھر کو دیکھتی وہ کئی بار روئی کہ اب نا جانے یہاں رہنا نصیب ہو یا نہیں کہ اب تو جہاں وہ وہاں فضیلت ۔سرشار سی ہوتی اس نے گھر سے قدم نکا لا تھا ۔

”آزادی کتنی بڑی نعمت ہے”

وہ مسکرائی تھی۔

”وہ سامنے ہی تو ہو گا مجھے سامنے دیکھ کر کہیں وہیل چئیر چھوڑ کر مجھے تھام لے گا تو ۔اُف جان ہی تو نکل جائے گی میری ۔۔”

فضیلت نے جھکی نظریں اُٹھائی تھیں، سامنے پارک میں بچے کھیل رہے تھے اور جمیل صاحب جو روز فضیلت کی کھڑکی کے سامنے سے گزر کر دودھ لینے جاتے تھے اور جن کی تمام تر کہانیاں وہ سُن چکی تھی، سامنے سے آ رہے تھے ۔مگر وہ۔۔وہ کہاں تھا? ۔ فضیلت نے حیرانی سے اردگرد دیکھا ۔پچھلے دس سال میں اتوار کے علاوہ ایک دن بھی، ایسا نہیں ہوا کہ وہ نہ آئے۔ مگر آج ۔۔

“کہیں توقیر نے تو اس کو۔۔۔نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔”

پسلیوں میں دل بہت زور سے دھڑکا تھا

“جمیل صاحب!

جمیل صاحب! ”

وہ ان کی طرف لپکی تھی، مگر وہ سنتے کیوں نہ تھے، وہ تیز قدم اٹھاتی ان کے پاس پہنچ گئی۔

“جمیل صاحب میری بات سنیں “

“جی آپ نے مجھ سے کچھ کہا?”

“جی وہ میں فضیلت، خیر آپ مجھے کہاں جانتے ہوں گے، مگر میں آپ کو بہت اچھے سے جانتی ہوں۔ جمیل صاحب مہربانی فرما کر یہ بتا دیں کہ جو ادھر پارک کے پاس ایک اپاہج آدمی بیٹھتا تھا وہیل چئیر پہ ۔سوری میرے الفاظ شاید غلط ہیں۔ آپ کا دوست جو ادھر بیٹھتا ہے روز، وہ کہاں ہے آج نظر نہیں آ رہا? “

فضیلت پر جوش لہجے میں بولی تھی

“محترمہ میں جمیل نہیں اور نہ ہی یہاں کوئی اپاہج آدمی کبھی میں نے دیکھا ۔الحمدالله! ۔اس کالونی میں سب تندرست لوگ ہی رہتے ہیں”

فضیلت کو دھچکا لگا مگر فوراﹰ سنبھلتی وہ دوبارہ گویا ہوئی

“آپ مذاق کر رہے ہیں نا? ۔چلیں اب بتا بھی دیں، مجھ سے اب مزید دھوپ میں کھڑا نہیں ہوا جا رہا ۔ عرصہ ہوا یوں دھوپ اور روشنی کو دیکھے “

وہ بربرائی تھی۔

“محترمہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، میں آپ سے مذاق کیوں کروں گا میرا نام منور ہے اور یہاں کوئی اپاہج آدمی کبھی نہیں دیکھا گیا” ۔

فضیلت کے سامنے آسماں گھوم گیا تھا وہ بھاگتی ہوئی راوف صاحب کے گھر گئی، مگر وہاں سے کوئی شکور صاحب برآمد ہوئے ۔۔۔شام تک ہر ہر جگہ اسے ڈھونڈتے، جب وہ نڈھال سی ہو گئی تو تھک کر پارک کے ایک کونے میں بیٹھ گئی۔اپنے تصور کے پنکھ سامنے رکھ کر، وہ ماتم کرتی تھی ۔مگر پھر ناجانے کیا سوچ کر وہ زور زور سے ہنسنے لگی۔ساری حقیقت واضح ہو گئی تھی ۔اس کی اصل دوست تو وہ خود ہی تھی تو اب رونا کس بات کا وہ ایک بار پھر ہنسی تھی ۔اور تبھی وہ اس کے پاس آ بیٹھا تھا

”تم نے امید کا چہرہ کیوں نہ دیکھا فضیلت ۔یہ نا امیدی کے خمیر سے ہی طلوع ہوتا ہے ۔ میں چاہتا تھا کہ تم امید اپنے اندر خود پیدا کرو، سو جانتے بوجھتے تم کو اس کے معنی نہ بتائے ۔تم جو خزاں کے بعد بہار آنے پہ کھڑکی کھولتی ہو گی تو وہاں سوکھے درختوں پہ جو ننھے پتے چٹختے ہوں گے تو وہ امید تھے ان نا امید کوکھوں کے لیے جو خود کو با نجھ جان کر وقت کی دیوار پہ ابد کا راہ تکتی ہیں۔تم نے امید کو ہر چڑھتے سورج سے کشید کیوں نہ کیا? جو ہر روز غروب سے پہلے خوب خوب جوبن پکڑتا تھا، تم نے اپنے تخیل کے پنکھ اس قدر کمزور کیوں کر دئیے۔بعض دفعہ امید مستقبل کے کسی پر فسوں لمحے سے کشید کرنی پڑتی ہے۔تمہیں تخیل کے پنکھ سنبھال کر رکھنے چاہیے تھے۔کیا تم نے کتابیں پڑھنا چھوڑ دی تھیں۔سنو فضیلت کتاب پڑھنا اور کتاب سننا دو الگ باتیں ہیں

کیا تم پارک کے اس خزاں زدہ بھورے گھاس کے اس پار ، ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھ سکتی ہو?”

اور اس بار فضیلت نیلے سمندر کی لہروں میں اٹھکیلیاں کرتی تھی اور وہ اس پہ پانی پھینکتا تھا، تو بدن کے ساتھ روح تک سرشار ہو جاتی تھی۔تخیل کے پر اُسے اُمید بھری زمینوں کی طرف اڑائے چلے جاتے تھے

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031