تسخیر ذات کا سفر ۔۔۔ سلمیٰ جیلانی
تسخیر ذات کا سفر
سلمیٰ جیلانی
خدا خدا کر کے تو نوکری ملی لیکن مسئلہ بینک تک جانے کا تھا جو اتنا دور تھا کہ دو بسیں بدل کر جانا پڑتا تھا- یہ مشقت اسے بھاری نہ لگتی اگر بس کنڈکٹروں، ڈرائیوروں اور دوسرے مرد مسافروں کی گھورتی ہوئی نظروں ، زو معنی جملوں اور دوسری ہراساں کرنے والی حرکتوں کا سامنا کرنا نہ پڑتا
آج بھی بینک سے واپسی پر صدر تک آنے کے لئے جو بس ملی وہ حسب معمول انتہائی بھری ہوئی تھی ، عورتوں کے حصے میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی ، کھینچا تانی کر کے بس کے دروازے پر پاؤں ٹکانے کی جگہ تو مل گئی لیکن ساتھ میں دروازے پر لٹکے کنڈکٹر کی دست درازیوں کو بھی ہوا مل رہی تھی ،
ایک لڑکی جیسے ہی اگلے اسٹاپ پر اتری اس کی آڑ لیتے ہوئے بس میں اندر کو کھسک گئی ، یوں تھوڑا سکون کا سانس لینے کو ملا لیکن جلدی میں ایک فربہ اندام خاتوں کے پیر پر ہلکا سا دباؤ پڑ گیا وہ تو جیسے بھری بیٹھی تھیں ایک دم ہتے سے اکھڑ گئیں اور لگیں بے نقط سنانے
” ارے اماں جی ناراض کیوں ہوتی ہو” ڈرائیور نے سامنے لگے ہوئے بڑے آئنے میں سے پیچھے کا جائزہ لیتے ہوئے ہنس کر کہا
” میں– تمہیں اماں نظر آتی ہوں؟ ، ابھی میری عمر ہی کیا ہے ” خاتون تنک کر بولی
” میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی “
ڈرائیور بد تمیز تو تھا لیکن کچھ خوش مزاج معلوم ہوتا تھا، ہنسی اڑاتے ہوئے بولا
” نہیں ہوئی تو ہو جائے گی، مجھے بتاؤ ، کہاں ہے تمہارا گھر”
“تمہیں کیوں بتاؤں ” وہ خاتون بڑ بڑانے لگی- لیکن اب اس کی زور دار آواز مدھم ہو گئی تھی،
اسے اپنے چہرے پر کسی کی نگاہوں کی تپش محسوس ہوئی چونک کر سامنے لگے ہویے آئنے میں سے جھانکتے ہوئے ڈرائیور پر نظر پڑی ، جو بات کرتے ہوئے مسلسل اسے ہی گھور رہا تھا
” بی بی ” ، تم ادھر آجاؤ، ڈرائیور نے اسے اپنی طرف دیکھتے پا کر جھٹ سےاپنی سیٹ کے پاس تھوڑی سی خالی جگہ پر آنے کی آفر کی
وہ اپنے آپ میں اور سمٹ گئی ،
دل میں سوچا
” اتنی موٹی چادر پہنے ہوئے ہوں جس میں چہرہ بھی کافی چھپا لیا ہے با مشکل میری آنکھیں ہی دکھ رہی ہیں پھر بھی ایسے دیکھ رہا ہے جیسے میں نے کچھ پہنا ہوا ہی نہیں”
اسے اپنی برہنگی کا احساس دو چند ہو گیا، ایک عجیب سی خفت جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا اندر سے کھانے لگی ، بس میں مسلسل گانوں کا شور ، عورتوں کی تیز آوازیں ، سب نے مل کر اس کے سر میں درد سا پیدا کر دیا تھا، وہ ایک ہاتھ سے بس کی چھت پر لگے ڈنڈے کو پکڑے ہوے دوسرے ہاتھ سے اپنے سر کو دبانے لگی-
زیرک ڈرائیور جو گاڑی چلاتے ہوے سڑک پر کم اس پر زیادہ دھیان دئیے ہوئے تھا فوراََ بولا ” کیا سر میں درد ہے– میرے پاس پینا ڈول ہے”
گیر کے پاس لگے ہویے ایک ڈبے کا ڈھکنا کھولنے لگا
” نہیں نہیں – آپ زحمت نہ کریں ” وہ کچھ بات نہ کرنا چاہ رہی تھی اور دل میں دعائیں مانگ رہی تھی جلدی سے اس کا اسٹاپ آ جائے اور اس خبیث ڈرائیور کی گھورتی ہوئی نظروں سے چھٹکارا ملے
ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ اگلے اسٹاپ پر کچھ اوباش لڑکے بس کے اگلے حصے میں چڑھ گئے انہیں دیکھ کر عورتوں نے شور مچایا اور کنڈکٹر بھی چلایا ” اوے– تم لوگ پیچھے جاؤ”-
وہ سب کے سب عورتوں کو دھکیلتے، قہقہوں اور گالیوں سے پرجملے کستے ، بس کے پارٹیشن والے دروازے سے مردانہ حصے میں جانے لگے، اسی دوران ان میں سے ایک زور سے اس کی پشت سے ٹکرایا وہ اپنے کو بچانے کے لئے ڈرائیور کے ساتھ بنی اسی خالی جگہ پر جھک گئی ڈرائیور خباثت سے مسکرایا اسے آنکھ ماری اور زیر لب کوئی چھچھورا سا گانا گنگنانے لگا ، اس کے ماتھے اور تمام مساموں سے پسینہ پھوٹ نکلا ، چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا جسے ڈرائیور نے جانے محسوس کر لیا تھا یا ویسے ہی بسوں پر لکھاکوئی عامیانہ سا گیت زور زور سے گانے لگا–
اس کے ساتھ کھڑی ہوئی دوسری لڑکیاں آپس میں ہنس بول رہی تھیں ، وہ ان آوازوں کا جو ان پر کسے جا رہے تھے یا تو کوئی نوٹس نہیں لے رہی تھیں یا خود بھی کرارے جملوں کا تبادلہ کر رہی تھیں،
وہ دل میں سوچ رہی تھی” یہ صرف مجھے ہی کیوں برا لگ رہا ہے
جیسے میں لوگوں کے دل بہلانے کا سامان ہوں ،
کیا واقعی میں کوئی شریف عورت ہوں
یا
یہ محض میرا خیال ہے “
انگنت سوالوں کی بوچھاڑ اسے جھنجھوڑ رہی تھی جن کا کوئی جواب سجھائی نہ دے رہا تھا
جب اس کے اندر کا شور کچھ تھما — تو کنڈکٹر کی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی
” صدر صدر”
اس کا اسٹاپ تو کہیں پیچھے رہ گیا تھا،
بس دوبارہ چل پڑی تھی-
اس نے تیزی سے عورتوں کے ہجوم کو دھکیل کر آگے نکلنے کی کوشش کی – لیکن- ناکام رہی ، ہاں ، یہ ضرور ہوا کہ گیٹ کے کچھ قریب آگئ، اسی اثناء میں ایک اسمارٹ سی لڑکی تقریباؒ چلتی ہوئی بس میں چڑھنے میں کامیاب ھو گئ حسب توقع دروازے پر لٹکے ھویے کنڈ یکٹر نے اس کے ساتھ بھی بد تمیزی شروع کردی لڑکی
پہلے تو تھوڑا ھچکچایئ ، کنڈیکٹر کی ہمت اور بڑھی، وہ بے ہودہ سا فلمی گانا گنگناتے ہوئے اور بےباک ہونے لگا
ایک دم لڑکی نےغیر محسوس انداز میں اسے دھکا دیا ،
کنڈکٹر لڑکھڑایا ،
ابھی خود کو سنبھال ہی رہا تھا کہ لڑکی نے اپنے کندھے پر پڑا سا بیگ ایسے گھمایا جیسے اسے ٹھیک سے پکڑ رہی ہو لیکن— وہ سیدھا کنڈکٹر کی ناک پر لگا،
کنڈکٹرکا ہاتھ ہینڈل سے چھوٹ گیا اور وہ بدحواس ہو کر باہر ہوا میں ہچکولے کھانے لگا قریب تھا کہ بس سے گر جاتا کہ اس لڑکی کے ساتھ کھڑی موٹی سی ادھیڑ عمر عورت نے ہاتھ بڑھا کراسے تھام لیا اور دوبارہ دروازے میں ٹکنے میں مدد دی اور چلاتے ہوئے بولی ” ارے—- سمجھ کیا رہی ہے خود کو، ایسی ہی میم صاحب ہے تو بس میں سفر کیوں کر رہی ہے– ابھی مر جاتا لڑکا تو تیرا کیا جاتا “
اب سب کی ہمدردیاں کنڈکٹر کے ساتھ ہو چلی تھیں جو بڑی معصوم شکل بنائے بس کے دروازے میں لٹکا ہوا تھا
لڑکی کچھ بول نہیں رہی تھی پر ایک ادا سے زیر لب مسکرا رہی تھی ، اس کے چہرے پر بلا کی خود اعتمادی تھی اور آنکھیں دیکھ کر تو ایسا لگتا تھا جیسے کہہ رہی ہوں ” ساری دنیا کو ٹھوکر پر رکھ لیا ہے میں نے” –
یہ منظر دیکھ کر نہ جانے کہاں سے اس کے اندر بھی خود اعتمادی کی لہر نے انگڑائی لی ،
اس نے اپنے بیگ کو ہتھیار بناتے ہوئے ایک جست لگائی، ساتھ کھڑی عورتوں میں سے اپنے کو نکالا اور ایسے کڑک کر بولی کہ خود اپنی ہی آواز اجنبی لگی
” ڈرئیور بس روکو” ،
ڈرائیور بھی چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا، بس رکی تو نہیں لیکن اس کی رفتار ہلکی ضرور ہو گئی ، اس کے لئے اتنا ہی کافی تھا اور وہ چشم زدن میں
بس سے باہر تھی ، اپنی پھولی ہوئی سانسیں بحال کیں، بس اسٹاپ پر کھڑے ہوئے لوگوں پر ادائے بے نیازی سے ایک نظر ڈالی ،
اور —
چہرے پر خود اعتمادی کی چمک ، ہونٹوں پر شرارتی سی مسکان لئے ، دوسری بس کا انتظار کرنے لگی-