غزل ۔۔۔ اختر کاظمی

غزل

(اختر کاظمی)

تھی مال و زر کی ہوس اضطراب بیچ آئے
سوال لے کے گئے تھے جواب بیچ آئے
جو دردمندی نے پیدا کیا تھا سوچوں میں
لگے جو دام تو وہ انقلاب بیچ آئے
متاعِ عمر اصولوں کے کچھ اثاثے تهے
جھکے سروں سے مرے ہمرکاب بیچ آئے
یہ سانحہ ہے کہ آسائشوں کے لالچ میں
سبھی ارادے سبھی اپنے خواب بیچ آئے
تهیں جی میں شرفِ بشر کی حکایتیں اختر
عجیب لوگ ہیں ہر وہ نصاب بیچ آئے

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930