ہندی ادب یش پال … پردہ Yashpal ( Hindi Literature)
پردہ
یش پال
ہندی ادب
چودھری پیر بخش کے دادا چونگی کے محکمے میں داروغہ تھے۔ آمدن اچھی تھی۔ انہوں نے ایک چھوٹا لیکن پکا مکان بھی بنا لیا تھا۔ لڑکوں کو بھی تعلیم دلوائی۔ دونوں، لڑکے انٹرنس پاس کرکے ریلوے کے محکمے اور ڈاک خانے میں بابو ہوگئے۔ چودھری صاحب کی زندگی میں ہی دونوں کی شادی ہوئی اور بال بچے بھی ہوئے۔ لیکن عہدے میں کوئی خاص ترقی نہ ہوئی، وہی تیس اور چالیس روپے ماہ وار کا درجہ رہا۔ چودھری صاحب اکثر اپنے زمانے کو یاد کرکے کہتے
وہ بھی کیا وقت تھا کہ لوگ مڈل پاس کرکے ڈپٹی کلکٹری کرتے تھے اور آج کی تعلیم ہے کہ انٹرنس تک انگریزی پڑھنے کے باوجودلڑکے تیس چالیس سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔
اپنے بیٹوں کو اونچے عہدوں پر دیکھنے کا ارمان دل میں لیے ہوئے ہی انہوں نے آنکھیں موند لیں۔ چودھری خاندان اپنے مکان کو حویلی کہہ کر پکارتا تھا۔ نام بڑا دینے کے باوجود جگہ تنگ ہی رہی۔ داروغہ صاحب کے زمانے میں زنان خانہ اندر تھا اور باہر بیٹھک میں وہ موڑھے پر بیٹھے حقہ گڑگڑایا کرتے۔ لیکن ان کے بعد جگہ کی تنگی کی وجہ سے بیٹھک بھی زنانے میں شامل ہوگئی اور گھر کی ڈیوڑھی پر پردہ لٹک گیا۔ بیٹھک نہ ہونے کے باوجود بھی چونکہ گھر کی عزت کا خیال تھا اسی لیے پردہ بوری کے ٹاٹ کا نہیں بلکہ اعلیٰ قسم کا رہتا۔
چودھری پیر بخش نے بھی کم تعلیم حاصل کی اور جلد ہی ان کا بیاہ ہوگیا۔ اللہ کے کرم سے بیوی کی گود بھی جلد بھر گئی۔ پیر بخش نے خاندان کی عزت کے خیال سے روزگار کے طور پر تیل کی مل میں منشی گیری کی ملازمت حاصل کرلی۔ ان کی تعلیم زیادہ نہیں تو کیا ہوا….؟ سفید پوش خاندان کی عزت کا پاس تو انہیں تھا۔
مزدوری اور دستکاری ان کے شایان شان نہیں تھی۔ مل کے گودام میں چوکی پر بیٹھتے۔ صرف قلم دوات کا کام.تھا۔
بیس روپے ماہ وار اور زیادہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے چودھری پیر بخش کو ایک کچی بستی میں دو روپے کرائے پر مکان لینا پڑا۔ آس پاس غریب لوگوں کی بستی تھی۔ گلی کے درمیان میں دیوار کے ساتھ لگے کمیٹی کے نل سے پانی کی کالی دھار ٹپکتی رہتی تھی۔ اس وجہ سے نالی کے کنارے گھاس اگ آئی تھی اور اس کے اوپر مچھروں اور مکھیوں کے بادل امڈتے رہتے۔ سامنے رمضانی دھوبی کا گھاٹ تھا جس میں سے دھواں اور کپڑوں کا گند امڈتا رہتا۔ دائیں طرف ناگرہ جوتا بنانے والے موچیوں کے گھر تھے اور بائیں طرف ورک شاپ میں کام کرنے والے قلی رہتے تھے۔
پوری بستی میں صرف چودھری پیر بخش ہی پڑھے لکھے اور سفید پوش تھے۔ صرف ان ہی کے گھر کے دروازے پر پردہ لٹکا ہوا تھا۔ سب لوگ انہیں چودھری جی، منشی جی کہہ کر سلام کرتے تھے۔ کبھی کسی نے ان کے گھر کی عورتوں کو گلی میں نہیں دیکھا تھا۔ گھر میں اولاد تھی تو وہ بھی ماشاء اللہ زیادہ لڑکیاں…. بچیاں چار پانچ برس کی عمر تک کسی نہ کسی کام کے سلسلے میں باہر نکل آتیں لیکن پھر گھر کی آبرو کے خیال سے باہر نکلنا
مناسب نہ سمجھتیں۔ چودھری پیر بخش خود ہی صبح و شام کمیٹی کے نل سے مسکراتے ہوئے گھڑے بھر لاتے۔
پندرہ برس میں چودھری صاحب کی تنخواہ بیس سے پینتیس روپے ہوگئی۔ ان کے یہاں خدا کی برکت ہوئی بھی تو روپے پیسے کی شکل میں نہیں بلکہ اولاد کی صورت میں اور وہ بھی پندرہ برس میں پانچ بچے۔ پہلے تین لڑکیاں بعد میں دولڑکے۔ دوسری لڑکی کے وقت پیر بخش کی والدہ مدد کے لیے آگئیں۔ والد صاحب کا تو انتقال ہوچکا تھا۔ کوئی دوسرا بھائی بھی والدہ کی فکر میں نہیں آیا اس لیے وہ چھوٹے بیٹے کے ہاں ہی رہنے لگیں۔
جہاں گھر بار اور بال بچے ہوتے ہیں وہاں سو طرح کے جھنجھٹ بھی ہوتے ہیں۔ کبھی بچے کو تکلیف ہے تو کبھی ماں کو۔ ایسے وقت میں قرض کی ضرورت کیسے نہ ہو، گھربار ہو تو قرض بھی ہوگا۔ مل کی نوکری کا تو قاعدہ پکا ہوتا ہے ہر مہینے کی سات تاریخ کو گن کر تنخواہ مل جاتی ہے اور پیشگی سے مالک کو چڑ تھی کبھی انتہائی ضرورت پڑنے پر ہی مہربانی کرتے تھے۔ چودھری صاحب ضرورت کے وقت گھر کی کوئی چھوٹی موٹی چیز گروی رکھ کر ادھار لے آتے تھے۔ گروی رکھنے میں روپے کے آٹھ آنے ملتے اور بیاج ملا کر سولہ آنے ہوجاتے پھر وہ چیز کبھی گھر واپس نہ آتی۔
محلے میں چودھری پیر بخش کی بہت عزت تھی اور اس عزت کی وجہ تھی گھر کے دروازے پر لٹکا ہوا پردہ۔ اندر جو بھی ہو پردہ سلامت رہتا۔ اگر کبھی بچوں کی کھینچا تانی یا ہوا کے بےدرد جھونکوں سے اس میں چھید ہوجاتے تو پردے کی آڑ سے ہاتھ سوئی دھاگہ لے کر اس کی مرمت کردیتے۔
دنوں کا کھیل دیکھیے کہ مکان کے بیرونی کواڑ گلتے گلتے بالکل ہی گل گئے۔کئی مرتبہ کَسے جانے سے پیچ بھی ٹوٹ گئے اور سوراخ ڈھیلے پڑ گئے۔ مالک مکان سورج پانڈے کو اس کی فکر نہیں تھی۔ کبھی اگرچہ چودھری صاحب جا کر کہتے تو آگے سے جواب ملتا
کون سی بڑی رقم تھما دیتے ہو….؟ دو روپے کرایہ اور وہ بھی چھے چھے مہینے کا بقایا۔ جانتے ہو لکڑی کا کیا بھاؤ ہے….؟ نہ رہو مکان میں، چھوڑ جاؤ۔
آخر کار کواڑ گر ہی گئے۔ رات کو تو چودھری صاحب جیسے تیسے انہیں چوکھٹ سے لٹکا دیتے لیکن رات بھر دہشت رہتی کہ اگر کوئی چور آجائے۔ سفید پوشی اور محلے میں عزت کے باوجود بھی گھر میں چور کے لیے کچھ نہ تھا۔ شاید چور کو لے جانے کے لیے ایک بھی ثابت کپڑا یا برتن نہ ملتا۔ لیکن چور تو پھر چور ہے چھیننے کے لیے کچھ بھی نہ ہو تو بھی چور کا ڈر ہوتا ہے وہ چور جو ٹھہرا، لیکن انہیں چور سے زیادہ گھر کی آبرو کی فکر تھی۔ کواڑ نہ رہنے پر گھر کی آبرو کا رکھوالا صرف پردہ ہی تھا آخر کار وہ پردہ بھی تار تار ہوتے ایک رات آندھی آنے پر بالکل لٹکنے کے لائق نہ رہا۔ صبح سویرے گھر کی اکلوتی خاندانی دری دروازے پر لٹک گئی جب محلے والوں نے دیکھا تو چودھری صاحب کو مشورہ دیا
ارے چودھری صاحب اس زمانے میں یوں ایسی دری کا ہے خراب کروگے….؟ بازار سے ٹاٹ کا ٹکڑا لا کر لٹکا دو۔
کیا ہے….؟ ہونے دو! ہمارے ہاں پکی حویلی میں بھی ڈیوڑھی پر دری ہی کا پردہ رہتا تھا۔” وہ ہنس کر جواب دیتے۔
مہنگائی کے اس دور میں گھر کی پانچوں عورتوں کے جسم کے کپڑے بھی خستہ ہو کر یوں گر رہے تھے جیسے پیڑ اپنی چھال تبدیل کرتے ہیں۔ لیکن چودھری صاحب کی آمدنی سے دن میں ایک مرتبہ پیٹ بھر سکنے کے علاوہ کپڑوں کی گنجائش کہاں رہتی تھی۔ خود انہیں بھی تو نوکری کے لے جانا ہوتا تھا۔ ان کے پاجامے میں جب اور پیوند سنبھالنے کی تاب نہ رہتی و ان کے لیے مارکین (کپڑے کا نام) کا نیا کرتا پاجامہ خریدنا ضروری ہوجاتا تو وہ لاچار ہوجاتے۔
جب گھر میں گروی رکھنے کے لیے کچھ نہ ہو تو غریب کا اکیلا سہارا ہوتا ہے، پنجابی خاں….! وہ بھی رہنے کی جگہ دیکھ کر ہی پیسے ادھار دیتا ہے۔ دس ماہ پہلے گود والے بیٹے ‘‘برکت’’ کی پیدائش کے وقت جب پیربخش کو پیسوں کی ضرورت پڑی تھی اور کہیں سے بھی ملنے کا وسیلہ نہ بنا تو انہوں نے پنجابی خان “ببر علی خان” سے چار روپے ادھار لیے تھے۔ ستیوا کے اس کچے محلے میں ببر علی خان کا روزگار خوب چلتا تھا۔ موچی، ورک شاپ کے مزدور اور کبھی کبھی رمضانی دھوبی سبھی ببر میاں سے قرض لیتے رہتے تھے۔ چودھری پیر بخش نے اکثر دیکھا تھا کہ قرض اور سود کی قسط نہ ملنے پر ببر علی اپنے دو ہاتھ کے ڈنڈے سے ان لوگوں کے گھر کا دروازہ پیٹ رہا ہوتا تھا اور کئی مرتبہ تو انہوں نے خود بھی ان لوگوں کے درمیان بچ بچاؤ کرایا تھا۔
چودھری صاحب، خان کو شیطان سمجھتے تھے لیکن جب لاچار ہوگئے تو پھر اسی سے مدد لینی پڑی۔ انہوں نے چار آنہ روپیہ ماہانہ پر چار روپے قرض لیا۔ ببر علی نے صرف خاندانی اور مسلمان بھائی کا خیال کرکے ایک روپیہ ماہ وار کی قسط مان لی اور آٹھ مہینے میں قرض ادا ہونا طے پایا۔
چودھری صاحب کے رونگٹے اسی بات پر کھڑے ہوجاتے۔ جب وہ خیال کرتے کہ اگر خان کی قسط ادا نہ ہوسکی تو وہ ان کے گھر کے دروازے کو بھی اسی طرح پیٹے گا۔ اسی وجہ سے وہ سات مہینے تک بھوکوں رہ کر بھی کسی نہ کسی طرح قسط ادا کرتے رہے لیکن جب ساون میں برسات شروع ہوئی اور باجرہ بھی تین سیر ایک روپے کا ملنے لگا تو چودھری صاحب کے لیے قسط دینا ممکن نہ رہا۔
سات تاریخ کی شام کو خان آیا تو چوھری پیر بخش نے اس کی ڈاڑھی چھو کر اور اللہ کی قسم کھا کر خوشامدی لہجے میں ایک مہینے کی مہلت مانگی اور اگلے مہینے ایک کا سوا دینے کا وعدہ کیا۔ اس طرح خان ٹل گیا۔
لیکن بھادوں میں اور بھی پریشان کن حالت ہوگئی۔ بچوں کی ماں کی طبیعت روز بروز گرتی جارہی تھی۔ کھایا پیا اس کے پیٹ میں نہ ٹھہرتا۔ ہاضمہ کے لیے اسے گیہوں کی روٹی دینا ضروری ہوگیا۔ گیہوں بھی روپے کا اڑھائی سیر مشکل سے ملتا تھا اور پھر بیمار کا دل تو کبھی پیاز کے ٹکڑے یا دھینے کی خوشبو کے لیے بھی مچل جاتا ہے اور کبھی کالا نمک اجوائن اور سونف کی ہی ضرورت پڑ جاتی ہے تو کوئی چیز بھی پیسے سے کم نہیں ملتی۔ اب تو بازار میں ان چیزوں کا نام ہی رہ گیا ہے۔ بات بات پر اَنّی (ایک آنہ) نکل جاتی ہے۔ چودھری صاحب کو تو دو روپے الاؤنس بھی ملتا تھا لیکن پیشگی لیتے لیتے تنخواہ والے دن صرف چار روپے ہی حساب میں باقی.رہتے۔
اب پچھلے ہفتے سے بچے قریباً فاقے سے تھے۔
چودھری صاحب گلی سے کبھی دو روپے کی چولائی خرید لاتے اور کبھی باجرہ ابال کر سبھی کٹورا بھر بھر کر پی لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ چار روپوں میں سے بھی خان کو سوا روپیہ دینے کی ہمت چودھری صاحب میں نہ ہوئی۔ اس لیے مل سے گھر لوٹتے ہوئے وہ منڈی کی طرف نکل گئے اور دو گھنٹے بعد جب سوچا کہ خان ٹل گیا ہوگا تو اناج کی گٹھڑی لے کر گھر پہنچے۔ لیکن اب خان کے خوف سے دل ڈر رہا تھا۔ دوسری طرف چار بھوکے بچوں، ان کی ماں، جو دودھ نہ اترنے کے سبب سوکھ کر کانٹا ہو رہی تھی وہ اور گود کا بچہ اور چلنے پھرنے سے لاچار بوڑھی ماں۔ ان سب کی بھوک سے بلکتی صورتیں جب آنکھوں کے سامنے ناچتیں تو وہ دھڑکتے دل کے ساتھ کہتے
مولا سب دیکھ رہا ہے وہ ضرور رحمت کرے گا۔
سات تاریخ کی شام گزر گئی اور آٹھ کی صبح سویرے خان اپنا ڈنڈا ہاتھ میں لیے چودھری صاحب کے مل پر جانے سے پہلے ہی دروازے پر آپہنچا۔
چودھری صاحب نے رات بھر سوچ سوچ کر خان کے لیے جواب تیار کیا کہ مل کے مالک لالہ جی چار روز کے لیے باہر گئے ہیں۔ ان کے دستخط کے بغیر کسی کو بھی تنخواہ نہیں مل سکتی۔ تنخواہ ملتے ہی وہ سوا روپیہ ادا کردے گا۔ معقول وجہ بتانے پر بھی خان بہت دیر تک غراتا رہا
ایسے روپیہ چھوڑنے کے واسطے تو ام اپنا وطن چھوڑ کر پردیس میں نہیں پڑا، امارا بھی بال بچہ ہے۔ چار روز میں روپیہ نہیں دے گا تو ام تمارا….!
لیکن پانچویں روز بھی روپیہ کہاں سے آتا….؟ تنخواہ ملے ہوئے تو ابھی ہفتہ ہی گزرا تھا اور مالک نے بھی پیشگی دینے سے انکار کردیا تھا۔ مل میں چھٹی ہونے کے باوجود چودھری صاحب، خان کے ڈر سے صبح ہی نکل گئے۔ اپنی جان پہچان کے کئی آدمیوں کے پاس گئے
ارے بھئی اگر تمہارے پاس بیس آنے یا روپیہ ہو تو ایک روز کے لیے ذرا دینا۔ ایسے ہی ضرورت آپڑی ہے۔
ادھر ادھر کی بات چیت کے بعد وہ ان سے کہتے
میاں اس زمانے میں پیسے کہاں…. پیسے کا تو مول کوڑی بھی نہیں رہ گیا ہاتھ میں آنے سے پہلے ہی ادھار میں تمام اٹھ جاتا ہے۔
جواب ملتا۔
اسی طرح دوپہر ہوگئی۔ ‘‘اگر خان آیا بھی ہوگا تو اس وقت تک بیٹھا نہیں رہا ہوگا۔’’ چودھری صاحب نے سوچا اور گھر کی طرف چل دیے۔ گھر پہنچنے پر معلوم ہوا کہ خان آیا تھا اور گھنٹہ بھر دروازے پر لٹکی دری کے پردے کو پکڑے گالیاں دیتا رہا اور پردے کی اوٹ سے بڑی بی کے قسم کھا کر یقین دلانے پر کہ چودھری صاحب روپیہ لینے باہر گئے ہیں۔ خان گالیاں دیتا رہا اورکہا
نہیں بد ذات چور اندر ہی چھپا ہے۔ ام چار گھنٹے میں پھر آتا ہے اور روپیہ لے کر جائے گا۔ اگر وہ روپیہ نہیں دے گا تو اس کی کھال اتار کر بازار میں بیچ دے گا…. امارہ روپیہ ارام کا ہے کیا….؟
اور پھر چار گھنٹے سے پہلے ہی خان کی آواز سنائی دی
“چودھری”
پیر بخش کے جسم میں بجلی سی تڑپ گئی۔ اس کے ہاتھ پیر سن اور گلا خشک ہوگیا۔ خان نے پردے کو پکڑ کر گالی دی اور چودھری کو دوبارہ پکارا۔ چودھری صاحب کا جسم بالکل بےجان ہوگیا اور وہ اٹھ کر باہر آگئے۔
“پیسہ نہیں دینے کے واسطے چھپتا ہے۔”
خان آگ بگولا ہو رہا تھا۔ خان کے منہ سے مسلسل پیر بخش کے آباؤ اجداد کے لیے گالیاں نکل رہی تھیں۔ اس بھیانک صورتحال کی وجہ سے پیر بخش کا خاندانی لہو بھڑکنے کے بجائے اور بےجان ہوگیا۔ وہ خان کے گھٹنوں کو چھو کر اپنی حالت بتا کر معافی کے لیے درخواست کرنے لگے۔ لیکن خان اور زیادہ بھڑک اٹھا۔ اس کی گرج دار آواز سے پڑوسی، موچی اور مزدور بھی چودھری کے دروازے کے سامنے اکٹھے ہوگئے۔
پیسہ نہیں دینا تھا لیا کیوں….؟ تمہارا تنخواہ کدھر جاتا ہے، ارامی امارہ پیسہ مارے گا۔ ام تمارا کھال کھینچ لے گا۔ اگر پیسہ نہیں تو پھر گھر کے دروازے پر پردہ لٹکا کر کیوں شریف زادہ بنتا ہے….؟ تو چاہے ام کو بی بی کا گینا دو، برتن دو کچھ بھی دو ام ایسے واپس نہیں جائے گا۔” خان نے غصے سے ڈنڈا لہرا کر کہا۔
پیر بخش نے بےبسی اور لاچاری سے دونوں ہاتھ اٹھا کر خان کو دعا دی اور قسم کھائی کہ ایک پیسہ بھی گھر میں نہیں ہے اور نہ ہی کپڑا۔ خان چاہے تو بےشک اس کی کھال اتار کر بیچ دے۔
ام تمارا دعا کا کیا کرے گا….؟ ام تمہارا کھال کا کیا کرے گا۔ اس کا تو جوتی بھی نہیں بنے گا اور تمہارا کھال سے تو یہ ٹاٹ اچھا ہے۔
خان نے آگ بگولہ ہو کر کہا اور ڈیوڑھی پر لٹکا دری کا پردہ جھٹک لیا۔ ڈیوڑھی سے پردہ ہٹتے ہی چودھری صاحب کے جیسے جیون کی ڈور ٹوٹ گئی۔ وہ ڈگمگا کر زمین پر گر پٹے۔ کیونکہ اگلا منظر دیکھنے کی تاب چودھری صاحب میں نہ تھی۔ لیکن اردگرد کھڑی بھیڑ نے دیکھا کہ پردے کے دوسری طرف گھر کی عورتیں اور بچیاں پردہ گرتے ہی لوگوں کی دہشت اور خوف سے کانپتی ہوئیں ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ گئیں۔ ان کے جسم پر باقی بچے چیتھڑے ان کے ایک تہائی اعضا ڈھکنے میں بھی ناکام تھے۔
بھیڑ نے نفرت اور شرم سے آنکھیں پھیر لیں۔ اس ننگے پن کی جھلک سے خان کی سختی بھی پگھل گئی:
“لاحول واللہ….”
غلاظت سے تھوک کر پردے کو واپس آنگن میں پھینک کر، غصے بھری نظروں سے چودھری صاحب کو دیکھ کر خان نے کہا اور ناکام لوٹ گیا۔
خوف سے چلاتی، اوٹ میں چھپی ہوئی عورتوں پر رحم کھاتے ہوئے بھیڑ چھٹ گئی۔ چودھری صاحب ابھی بھی بےسدھ تھے۔ جب انہیں ہوش آیا تو دیکھا کہ ڈیوڑھی کا پردہ آنگن میں پڑا تھا۔ لیکن اب اسے دوبارہ لٹکانے کی ہمت ان میں نہ تھی اور شاید اب اس کی ضرورت بھی نہ رہی تھی۔ کیونکہ پردہ جس عزت کا سہارا تھا وہ مر چکی تھی۔