مسترد شدہ عورت ۔۔۔ ملیحہ سید
مسترد شدہ عورت
ملیحہ سید
میں ایک مسترد شدہ عورت ہوں
یہ جملہ کہانی کا ایک ثانوی سا پہلو ہے
کسی بدکردار مرد کے تین بول
میرے کردار کی سند نہیں ہو سکتے
میں کسی شلف میں سجا ڈیکوریشن پیس نہیں
سانس لیتا ہوا وجود ہوں میں
احساسات و جذبات سے گندھی عورت
جس کی آنکھیں غم ہو یا خوشی
بھیگ جاتی ہیں
میں وہ ہوں جس نے سماجی بہودگیوں کے خلاف بغاوت کی
قلم کی آبیاری کے لیے جسم کا سودا نہیں کیا
رزق کے لیے کسی رذیل کی رانوں پر خود کو نہیں دھرا
محبت میں بھی روایت شکنی کی
محبوب کو
بدن کی وادیوں میں قیام کی اجازت نہیں دی
اک مقدس رشتے سے وابستگی میں بھی
ایک مرد کی وحشت پر قربان ہونے کو ترجیح نہیں دی
میں ستی کی روایت کی پلی نہیں
نہ میں بدکرداری کی ان سرحدوں پر تھی
جہاں پر سزا کے طور پر میرا نان نفقہ ایسے مرد پر ڈال دیا جاتا
جسے خدا کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا گوارا نہیں تھا
جس کے لیے خدا کا نام اس کے قبیح مفادات کی حفاظت کا ذریعہ تھا اور بس
خدا اور اس کے رسول کے منکر سے میرا نبھاہ کیسے ہوتا
اس لیے میں نے مسترد شدہ ہونے کا اعزاز قبول کر لیا