بے چاری انارکلی ۔۔۔ صفیہ شاہد

یچاری انارکلی

صفیہ شاہد

اسے عادت تھی سگریٹ کے ساتھ خود بھی دیر تک سلگنے کی اور سوچوں کے بھنور میں ڈولنے کی بے مہار سوچوں کا یہ ہنڈولہ اسے بہت پسند تھا۔

آدھی رات کا وقت تھا وہ ہمیشہ کی طرح کرسی کی پشت سے سر تیکے  کسی گہری  سوچ میں منہمک تھا۔ اس کے داہنے ہاتھ کی شہادت اور درمیانی انگلی میں سلگتی ہوئی سگریٹ زیادہ چل چکی تھی۔۔۔۔۔۔ سگریٹ والا ہاتھ میکانکی انداز میں ہونٹون تک آتا۔ وہ ایک لمبا کش لگا کر دھویئں کے مرغولے فضا میں چھوڑتا اور ہاتھ کو دوبارہ بازو پر ٹکا دیتا۔

سگریٹ سے گر تی راکھ کی ننھی ننھی ڈھیریاں کرسی کے پائے کے قریب فرش پر گری پڑی تھیں۔ ان ڈھیریوں  سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ کتنے ہی سگریٹ پھونک چکا تھا۔ سلگتی سگریٹ سے دھواں فضا میں اٹھتا اور پھر اس کا وجود ہوا میں ضم ہونے لگتا۔ نہ جانے کتنا ہی دھواں فضا میں رچ بس چکا تھا کہ کمرے میں دھند سی محسوس ہورہی۔

اب کی بار کش لگانے میں ذرا توقف کیا۔ شاید خیال کی وسعتیں ا سے نگل رہی تھیں۔ انگلیوں پر بڑھتی تپش کا احساس ہوا تو اس نے زور سے ہاتھ جھٹکا۔ جلتی فوم دور جا گری۔ اس نے ایک نظر اپنی جلی ہوئی انگلیوں پر ڈالیں پھر ڈبیا اور ماچس اٹھائیں اور نئی سگریٹ سلگا لی۔ فضا میں تیرتے دھوئیں پر جمی اس کی ساکت سرخ آنکھوں میں کسی کھوج کا عکس دکھائی دے رہا تھا

قریب ہی بستر پر سوئی اس کی پانچ سالہ بیٹی زور زور سے سانس لے رہی تھی۔ اپنے حصے کی آکسیجن فضا سے کشید کرنے کے چکر میں نکلی نکوٹین کامفت تحفہ اپنے پھیپھڑوں میں اتار رہی تھی۔ یہاں تک کہ اس دوران وہ کھانسنے لگی تھی۔ دھویئں سے نظریں ہٹا کر اس نے اپنی بیٹی کو دیکھا۔ پھر میز پر پڑی کتاب کا عنوان دیکھتے ہوئے زیر لب بڑبرایا۔

“انارکلی “۔۔۔۔ اور سر واپس ٹیک کر وہ پھر سے دھوئیں کے مرغولے کو غور سے دیکھنے لگ گیا۔ اب کی بار۔ تلاش رائیگاں نہیں گئی تھی۔ دھویئں کی چادر پر منظرکشی ہونے لگی۔ خیال الفاظ اور کردار آپس میں الجھنے لگے۔ وہ رقم شدہ روایتی کہانی کو اپنی عینک سے دیکھنے لگا۔

روایتی کہانی کا ابھرنے والا پہلا منظر شاہی دربار کا ہے۔ دربار کے بیچوں بیچ بچھے قیمتی قالین پر   انارکلی بڑا سا غرارہ پہنے ہوئے کھڑی ہے۔  اس کے پیروں اور ہاتھوں پر مہندی کا سادہ سا نقش بنا ہوا ہے۔ درمیان   سے نکلی مانگ ، ماتھے پر عین درمیان میں سجا بڑا سا ٹیکا اور بائیں جانب  ٹکی جھومر، بانہوں میں  چوڑیاں۔ موسیقار نے دھن بکھیری تو اس سر تال کے زیر بم کے ساتھ ساتھ انارکلی بھی تھرکنے لگی ہے۔

وہ رقص میں منہمک ہے لیکن اس کا سر جھکا ہوا ہے۔ سر کے جھکنے کی وجہ شاید بھاری جھومر اور ٹیکا  ہیں۔ یا دربار کے آداب کا بوجھ ہے جو اسے اوپر دیکھنے نہیں دیتا۔کتنی ہی دیر بیت  گئی انارکلی کے رقص کو تھمنے کا اشارہ نہ ملا تو وہ سر  اٹھانے کی کوشش کرنے لگی ہے۔ اس کا دھیان رقص سے ایک لمحے کے لیے ہٹتے ہی وہ قد سے بڑے غرارے میں پاؤں الجھنے کے باعث اوندھے منہ جا گرتی ہے انارکلی کے گرنے سے دیگر کردار متحرک ہو چکے ہیں۔ شاہی دربار میں گرنے کی گستاخی کرنے پر انارکلی کی سزا تجویز کی جارہی ہے۔

ایک شخص کی کمر دکھائی دے رہی ہے جواب انارکلی کے سوجے پیروں میں زنجیریں باندھ رہا ہے اور انار کلی ۔۔۔۔۔۔  وہ پاؤں چھڑانے کے لیے جدوجہد کرنے میں سرگرم ہے۔ اس کھینچا تانی میں اس کے پاؤں چھلنی ہو چکے ہیں۔۔پاوں پر لگی حنا  کے نقش و نگار لہو کے رنگ سے مزید رنگنے لگے ہیں۔ پاوں باندھنے والا شخص پیچھے کی جانب رخ کرتا ہے۔

” ارے یہ تو مجھ سا ہے” ۔۔۔۔  اس نے زیر لب کہا اور گھبرا کر دھویئں پر پھونک ماردی۔

دھویئں پر ابھرا ابھرا بھرپور منظر فقط ایک ہی پھونک سے گڈ مڈ ہونے لگا۔ دھواں تیزی سے منتشر ضرور ہوا لیکن اس پر بنا منظر مکمل طور پر غائب نہ ہوا۔۔ کردار اگلے ایکٹ کی تیاری کرنے لگے اور چند ہی لمحوں میں ایک نئے منظر نے جنم لیا۔ اب کی بار پھر سے روایتی کرداروں کی نئی جنبش سے ایک اور مختلف سا منظر تخلیق ہو چکا تھا

شاہی دربار کی بجائے اب ایک چھوٹے سے کمرے کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ انارکلی کے پاؤں میں زنجیریں باندھنے والے ہاتھ دکھائی نہیں دے رہے مگر پاؤں اب بھی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اس کے قریب لکڑی کی ایک بڑی سی میز دھری ہے جس پر ایک بو سیدہ گرد آلود بڑی سی دیوار گیرگھڑی اتری پڑی ہے گھڑی کے گرد سے اٹے شیشے سے تینوں سویئاں  بمشکل دکھائی دے رہی ہیںجو کہ بارہ کے ہندسے پر جم چکی ہیں۔ ساتھ ہی ماچس اور سگریٹ کے پیکٹ  رکھے ہیں فرش کے عین درمیان میں انارکلی گری پڑی ہے جس کے بال الجھے ہوئے اور آنکھوں کے پپوٹے سوجے ہوئے ہیں۔ انارکلی کے جسم پر لباس جگہ جگہ سے کتا پھٹا ہے۔۔سفید غرارہ میل کچیل سے اٹ کر اب مٹی رنگ ہو چکا ہے اور آخری کناروں سے اتنا پھٹ چکا ہے کہ اب لباس انارکلی کے ناپ کا ہے۔

وہ اپنے پیروں پر جھکی زنجیروں سے بننے والے چھالوں کو چھیل رہی ہے۔۔ کہیں پانی سے بھرے چھالے کی شکل میں ابھرا ہوا اور کہیںپچکا چپکا ہوا ماس ہے جسے وہ اتار پھینک رہی ہے۔ مردہ ماس پر کئی  چیونٹیاں اکٹھی ہوگئی ہیں انارکلی مردہ زنانہ ماس پر  اکٹھی ہوتی ان چیونٹیوں  کو دیکھتی ہے۔ جن کی تذکیر و تانیث کی پرکھ عام آنکھ نہیں کرسکتی اور بلند بانگ  قہقہہ لگا کر ہنستی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ گئے۔ آنکھیں پانیوں سے بھر گئی۔ وہ دونوں ہاتھوں سے پیٹ کو دباتے ہوئے اپنی جگہ سے بڑبڑاتی  ہوئی گھسٹتی ہے۔ ہے اور قریب میں سے بھی اٹھا کر سگریٹ سلگا لیتی ہے۔

 وہ منظر سے باہر بیٹھا بے یقینی  سے انار کلی کی انگلیوں میں دبئی سگریٹ کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

۔ انار کلی کے منہ اور ناک سے دھواں نکل رہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر اس کی آنکھوں میں مرچیں بڑھنے لگیں۔ وہ منظر کی اذیت کو خود پر حاوی ہوتا محسوس کر کے مچلنے لگا تھا۔۔ پھونک مار کر خود اپنے ہی تخلیق کردہ منظر سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔ ۔۔۔۔۔  مگر منظر یوں جاری رہتا ہے جیسے دھویئں پر نہیں پردہ اسکرین پر ہو۔۔ وہ ایک کے بعد ایک سگریٹ سلگا کر دھویئں کے نئے مرغولے سے پرانا منظربگاڑنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر انارکلی جوابی پھونک مار رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔  انارکلی کے چھوڑے ہوئے دھویئں پر بھی ایک منظر تخلیق ہو چکا ہے۔۔۔۔۔۔  منظر میں منظر کا بوجھ بڑھ چکا ہے۔ آخری ڈبیہ میں ابھی چند سگریٹ باقی تھے۔ دھویئں کی جنگ اختتام کی جانب بڑھ رہی ۔۔۔۔ وہ بعید کی نظر سے دھوئیں کے اس پار دیوار پر لگی اپنی بیوی کی تصویر کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔۔ مزاج نہ ملنے پر راستہ بدل لینے والی بیوی کی تصویر اب دھندلی نظر آ رہی تھی۔ اس کے ذاتی دربار کی کلی کا سر اٹھانا اسے کبھی نہیں بھولا تھا۔۔ اور اب دھوئیں پر بنے منظر میں موجود کلی کے ہاتھ میں سگریٹ کا ہونا بھی جوابی کارروائی کی ایک شکل تھی۔ سینے میں ایک ان دیکھی آگ کی تپش مزید بڑھنے لگی۔ اسے دھوئیں کی اس جنگ میں باغی کلی کو ہرانا تھا۔۔۔۔ وہ پھر سے سگریٹ سلگا کر آنکھیں بند کر لیتا ہے انار کلی کے کھانسنے کی آواز اسے اطمینان بخش رہی ہے۔ وہ اپنا کام جاری رکھتا ہے۔۔خود ا سے بھی شدید کھانسی آ رہی ہے لیکن وہ ہونٹوں کو سختی سے دبائے کھانسی روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کوشش میں اس کا چہرہ سرخ ہو چکا ہے۔عرصے سے چلنے والے اس قصے کا شاید فیصلہ کن دن تھا۔ ایک کے بعد ایک سگریٹ اور دھویئں  کے بیش بہا مرغولے ۔۔۔۔  محبت، مزاحمت اور وقت۔۔۔۔۔۔ ہر سفر میں ہی انارکلی کو مار فقط فطری نزاکت کے باعث ہیں کھانی پڑی ہے۔۔ وہ دونوں ہاتھ اپنے گلے پررکھے کھانستے کھانستے دوہری ہو رہی ہے۔ ۔۔۔ یہاں تک کہ  زمین پر گر پڑی ہے۔۔۔۔  اس کی آنکھیں باہر کو ابل آئی ہیں۔ وہ ایڑھیاں رگڑ رہی ہے۔ سر کو دائیں بائیں جھٹک رہی ہے۔ اضطراب اور کرب  کا لامتناہی سلسلہ رواں  دکھائی دیتا ہے ۔۔۔۔۔ اور اب  فرش پر گری نڈھال دم توڑتی انارکلی کی آنکھیں بند ہوگئی ہیں۔ ۔۔۔  مگر سلگتی ہوئی سگریٹ ابھی بھی انارکلی کی انگلیوں میں دبی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ انارکلی کی بند آنکھیں دیکھ کر وہ بھی پسلیوں  پر ہاتھ رکھے کرسی کی پشت سے سر ٹکائے وہیں سو گیا۔۔۔۔۔۔۔

۔ صبح سویرے اس کی آنکھ کھلی تو پہلی نظربستر پڑی۔ کرسی سے اٹھا اور بستر کے قریب آیا۔بیٹی کے نیلے پڑتے ہونٹ دیکھتے ہوئے ایک لمحے کو چونکا ۔۔۔۔  پھر جیسے اسے کچھ یاد آیا اور اس کے ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ پھیلنے لگی۔۔۔۔۔۔ وہ بستر کے قریب سے  ہوتا ہوا دروازے کی جانب بڑھا ۔۔۔۔۔ دروازے کی چٹخنی گراتے ہوئے طنزیہ مسکراہٹ سے زیر لب بولا

” بے چاری انار کلی ”  اور کھلے دروازے سے باہر نکل گیا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031