فساد فی الارض ۔۔۔ نودان ناصر

فساد فی الارض

نودان ناصر

میرے پاس کُچھ مزدور دن پڑے ہیں

صُبح تکرارِ اجرت سے شروع ہوئی

دوپہر ڈھلتے ہوئے ان کا پسینہ جمنے لگا

زمین کی بالٹی میں کُچھ خواب انڈیلے

سورج کی اُداس چادر اوڑھے

شام کے کالے جنگل میں

خوف اور ذلت کے سیاہ ڈامبر سے

افلاس و گمنامی کی

سڑک بچھاتے ہوئے داخل ہوئے

جب رات نے اپنا پھن پھیلایا

تو گیدڑوں نے سناٹے کا قتل کرنا شروع کردیا

اُن کی نیند اکثر موت کا زیرِ جامہ پہنے

سسکتی ہوئی سحر کے آس پاس

محُو ِرقص رہتی ہے

تُم جانتے ہو

انھیں کوئی نہیں خریدے گا

کیونکہ پہاڑ ، ندیاں ، درخت ، کُتے اور پرندے

جب نیم شب کو ماتم کرنے لگیں

تو سینہ چاک سوداگراں

مُنہ پہ مادے کا لہو لگائے سوتے ہیں

ہاں تُم چاہو تو جامِ زیاں لے کر

جہانِ خراب کی دھوکے باز آنکھوں میں

سیاہ کار شراب کے چند قطرے برسانا

یہ آنکھیں بند ہوجائیں گی

اور آسماںِ کی بے رحم کمیٹی کو

سب اوکے کی رپورٹ روانہ ہوجائے گی۔۔

ڈیل کلوزڑ!

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031