نظم ۔۔۔ عاصمہ ناز
نظم
عاصمہ ناز
آٹھ دس گھونسوں ،تھپڑوں اور لاتوں کے بعد
ھانپتے کانپتے درد کی انتہا سے بھرے جسم کو
نخوت سے اُس نے آخری بار
پلٹ کے دیکھا اور باھر کو لپکا
درد سے اٹے جسم کو
اپنی پناہ میں لیکر
دُکھ کی شہزادی اُٹھی اور
وقت کی خدمت میں پھر سے یوں جُت گئی جیسے
کُچھ ھوا ھی نہ ھو
معصوم بیٹی، آنے والے درد کی شہزادی نے ماں سے پوچھا
ابا نے اتنے زور سے مارا
ماما کیا تمھیں درد نہیں ھے
بروفن کی اک گولی کھا لو
شھزادی نے شھزادی کا ماتھا چوما
یاس بھرے لہجے میں بولی
سُن لے بیٹی، درد کی عادت پڑ جاتی ھے
اور
روح کی کوئی گولی نہیں ھے
Facebook Comments Box