Teleportation ….توحید ذیب
Teleportation
توحید زیب
میں خوابوں کو انسانی شکلیں دیتا ہوں
میں ان کی عمریں لکھتا ہوں
میں ان کی پیدائش کا موجب لکھتا ہوں
یہ لازم ہے
اور لازم ہے ان کی جائے پیدائش لکھی جائے
میں سب کچھ اک پرچی پہ لکھ کر رکھتا ہوں
اس پرچی کو ناکارہ امیدوں کے تھوک سے
خوابوں کی پیشانی پر چپکاتا ہوں
وہ ماتھے پہ چپکی پرچی سے تنگ بھی ہوتے ہیں
یہ پرچی ان کی نیندوں کی قاتل جو ہوتی ہے
پر قاتل تو انسانی شکلوں والے خواب بھی ہوتے ہیں
کچھ نیندوں کے ، کچھ رمزوں کے ، کچھ رشتوں کے ،
پر ان قاتل خوابوں پر کوئی کیس نہیں بنتے
میں ان خوابوں کو انسانی شکلوں میں لاتا ہوں
اور پھر سگریٹ کے
لمبے لمبے کش لے لے کر
خوابوں کے چہروں پر ملتا ہوں
اک مدّت تک ایسے ہی چلتا رہتا ہے
جب لگتا ہے ان خوابوں کی پہچان اب ممکن نئیں ،
میں ان خوابوں کو ٹیلی پورٹ بھی کرتا ہوں
ان دنیاؤں کی سمت ،
جہاں ڈیکمپوزر ہیں اور نہ گلنے سڑنے کا خدشہ
انسانی شکلوں والے خواب انہی دنیاؤں میں
مردہ حالت میں ،
اپنے سالم جسم اٹھا کر
سالوں محوِ گردش رہتے ہیں
میں ٹیلی پورٹ کے بعد بہت بے ڈر ہو جاتا ہوں
پھر اطمینان سے اس گردن کا بوسہ لیتا ہوں
تو ایسے حَظ کی راحت پاتا ہوں
جس راحت کی دریافت سے دونوں دنیاؤں کی سائنس عاجز ہے