تمام دکھ ہے ۔۔۔ منزہ احتشام گوندل

تمام دکھ ہے

منزہ احتشام گوندل

وہ بونوں کے شہر میں تنہا تھا۔

وہ سارے کے سارے اس کے ارد گرد رہا کرتے۔ گھیرا ڈالے اس کے آس پاس رہتے۔ اس کے بے حد قریب ہونے کی کوشش کرتے، مگر وہ ان کی گرفت میں کہاں آتا تھا۔۔ وہ بونوں کے شہر میں سب سے بلند قامت آدمی تھا۔ کتنی بڑی اذیت ہے ناں۔۔ جب آپ اپنی گردن کے مقابل کسی کی گردن نہ دیکھیں ۔جب آپ کی آنکھیں قائمتہ الزاویہ پر مقابل آنکھوں سے دوچار نہ ہوں۔، آدمی صحبت ناجنس کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب اسے دیکھنے کے لئے سر کو نیچے تک جھکانا پڑے۔

۔ وہ رات دن اس کے آس پاس رہا کرتے، اسے پالینے،پہچان لینے کی جستجو میں سرگرداں رہتے۔ اس آگہی سے بہت دور۔ کہ وہ ان کی گرفت سے بہت پرے ہے۔ وہ ان کے ادراک کی حدوں سے بھی اونچا ہے۔ وہ اپنی سی کوشش کرتے رہتے ۔  وہ اس کو جتنا اور جہاں تک۔ محسوس کرتے اسے اتنا ہی سمجھتے۔ وہ تم نے اندھیرے میں چار اندھوں کے ہاتھوں سے ٹٹول کر ہاتھی کو دیکھنے کی کہاوت تو سنی ہے ناں۔

۔ جس نے اس کو جتنا پایا اس نے اس کو اتنا ہی جانا۔

کیا قوت باصرہ کے بغیر محض لامسہ اور قوت سامعہ کے ذریعے عمارت مکمل ہو سکتی ہے ؟

 وہ بہت قد آور تھا۔ بونوں کے شہر میں اونچا قد اس کے لئے مصیبت بن گیا تھا۔ وہ اس شہر کو چھوڑ کر کسی ایسی بستی جانا چاہتا تھا جہاں لوگ اس کی کامت کے ہوں مگر ایسا ہونا کہاں ممکن تھا۔ وہ جس بستی کا رخ کرتا وہیں کے لوگ بونے ہو جاتے۔ ان کے قد گھٹنے لگتے اور وہ جس بلندی پر ہوتا وہیں رہ جاتا اور ایک بار پھر صحبت ناجنس کا شکار ہو جاتا۔

۔ اس کی گردن تک کبھی کوئی پہنچا ہی نہ تھا اور تم تو جانتے ہو گردن کے اوپرسر ہوتا ہے

۔ جب تک سربہ  بسر ایک دوسرے کی دید نہ ہوشنید بھی  نہیں ہوتی۔ ان میں سے  کچھ اسے پاؤں تک جانتے تھے۔ کچھ گھٹنوں تک۔ اور کچھ  ناف تک اور ناف تک پہنچنے والوں کی معرفت و ہیں مکمل ہو جاتی تھی۔ وہاں سے اس کے ” لنگ”  سے تعبیر کرتے۔ اور اس کی عجیب وغریب تاویلات کرتے۔ اس کوطرح طرح کے نام دیتے۔ اپنی  اوقات تک اس پر تبصرے کرتے اور کھوکھلی ہنسی ہنستے۔ وہ ایڑیاں اٹھا اٹھا کر اس کو دیکھتے۔ مگر ان کی  بصارتیں پست ہو جاتیں۔ وہ چیخ چیخ کر اپنی آوازوں کے ہاتھوڑوں سے اس کی سماعت کو گراں بار کرنے کی کوشش کرتے مگر ان کی آوازیں دب جاتیں۔ وہ ان کے سارے تبصروں سے بالا ہی بالا اپنی دھن میں رہتا تھا۔ وہ بصری، سمعی ،حسی وجدانی ہر سطح پر بلند تھا۔

یہ بلندی۔ اس کے لئے خوشی نہیں اذیت کا باعث تھی۔ آدمی کی سب سے بڑی دشمن اس کی اپنی دانش ہے۔ اس کو اکیلا اور تنہا کر دیتی ہے۔۔ اور وہ  اگر اپنی ذہانت سے توقع کرے کہ وہ اس کو بہت سارے دوست دے گی تو یہ اس کی سب سے بڑی خطا ہے۔ وہ خود کو بونوں کے برابر کیسے لاتا ؟۔ وہ اپنے پاؤں ، گھٹنے حتی کہ  پوری پوری ٹانگیں کولہوں سمیت کاٹ دیتا تو بھی اس کا سر دونوں کے سر کے برابر نہ ہوپاتا۔ اور جب تک  سربہ  سر نہ ہو، دید شنید بھی نہ ہوتی۔

۔ عمرانیات کے سارے اصول اس کے لئے فنا ہو گئے تھے۔ اس کے ہونٹ اپنے ہم جنسوں کی محبت کے لئے لرزتے۔۔اس کی آواز کپکپا جاتیاس کی بصارت اپنے مقابل آنکھیں ڈھونڈتی مگر نا رسائی آڑے آ جاتی ۔نیچے والے اوپر دیکھنے کی اذیت میں مبتلا ہوتے تھے اور وہ نیچے دیکھنے کی اذیت میں مبتلا تھا

وہ اتنا بلند ہی کیوں ہوا تھا ؟۔ عمرانیات کا اصول ہے کہ لوگوں کے قد برابر ہوں تو ابلاغ ہوتا ہے۔ ابلاغ ہو تو ترسیل ہوتی ہے۔ ترسیل ہوتو زندگی جاری رہتی ہے۔ قد اونچ نیچ کا شکار ہوں تو معاشرہ عدم توازن کی نذر ہو جاتا ہے۔

 مگر اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ وہ تو قدرتی طور پر بلند قامت تھا۔ بولو کے اور اس کے درمیان ابلاغ نہیں تھا۔  بلکہ ایک خلا تھا اس خلا کے اندر تنہائی کی وحشت بھی تھی اور لاتعلقی کی نعمت بھی۔ آدمی کو وحشت تو ہوتی ہے جب وہ اپنی آنکھوں کے مقابل کسی کی آنکھیں نہ دیکھے۔ بونوں کی بستی  میں رہنے والے کو اپنی تنہائی کے ساتھ جینے کی عادت ہو گئی تھی کہ ایک رات ایک عجیب حادثہ ہوا۔

ایک رات کو جب وہ سویا تو کسی دوسری نیند کے اندر چلا گیا۔  اس کا بدن کسی نرم و ملائم سی نیم سیال نیم گرم دلدل کے اندر دھنستا چلا گیا۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ حواس کی دنیا میں نہیں رہا۔ اس نے ہاتھ پاؤں نہیں مارے۔ قاتل  دلدل  نے اس کے حواس اور بدن کو مفلوج کردیا تھا مگر اسے لگا کہ اسے یہ بے بسی مرغوب تھی، اس کے بدن کو مطلوب تھی۔ اس کے وجدان کا مقصود تھی۔ دلدل نے چاروں اور اس کے بدن کو جکڑ لیا۔۔ جیسے وہ کوئی آکٹوپس ہو- یہ آکٹوپس تجریدیت کی ضد تھی ۔وہ تجریدیت جو اس کو بونوں کے شہر میں رہ کر حاصل ہوئی تھی۔۔ یہ دلدل ثنویت تھی۔ ” دوسرا وجود” جو اس کے پورے بدن کے اردگرد کھال کی طرح لپٹ گیا تھا۔ ہو بہو اس کے اپنے بدن، اپنے قد کے برابرتھا۔ ۔ ایسا عین ممکن تھا۔ کیونکہ وہ دلدل کے کفن میں کسی لاش کی طرح پورا آیا ہوا تھا۔  اس انکشاف نے اس کے اندر سرد بہجت کی ایک لہربھر دی۔ اس کی تجریدیت پر کاری ضرب لگانے والی محویت۔ اس کے بدن اور قامت کے عین مطابق ایک دوسرا بدن۔ اس خوش کن انکشاف کے بعد اس کے حواس بحال ہونا شروع ہوئے۔ وہ پورے حواس کے ساتھ دوسرے وجود کی مکمل شناخت چاہتا تھا۔ پہلے قوت لامسہ بیدار ہوئی۔ موجودگی کا احساس ۔۔۔ جسم کی مکمل ساخت کی پہچان وہ اپنی جلدانگلیوں کی پوروں، ہونٹوں کے لمس، بدن کے ایک ایک پور کے ساتھ اس کو یکجا کرتا رہا ، مگر معرفت نہ ہو سکی ۔۔۔۔ کیا محض قوت لامسہ کے ساتھ معرفت ممکن ہے ؟

بونوں کی بستی میں رہنے والے شخص کی اذیت دوہری ہوگی۔ ( عدم معرفت)۔۔ وہ دو طرفہ عدم معرفت کے شکنجے میں تھا۔  دوسرا وجود اس کے  بدن پر کھال کی طرح منڈھا ہوا تھا ۔ وہ اس کی معرفت چاہتا تھا مگر نہ ہو سکی۔

تو اسے اس کی معرفت کیوں نہ ہو سکی ؟۔

 مجھ سے کیا پوچھتے ہو۔ اپنی  ایک آنکھ بند کرو، دوسری کو پوری طرح کھولواب اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کو اپنی کھلی آنکھ کے اوپر رکھو اور ہاتھ کی لکیروں کو دیکھو۔ بتاؤہاتھ کی ہتھیلی میں کچھ نظر آیا

کیا نظر آیا ؟؟؟؟

۔ کچھ بھی نہیں۔ ہتھیلی نے بصارت کو بند کر دیا تھا ۔ نظر کیا آتا۔ تو ثابت ہوا کہ زیادہ قربت بھی پہچان کو دھندلا کر دیتی ہے۔ بلکہ معرفت کو مٹا دیتی ہے۔تم کہتے ہو دوئی نہ رہی۔ حالانکہ دوئی ہوتی ہے بس اس کی معرفت نہیں رہتی۔ دوسرا وجود دلدل کی طرح اس کے چاروں اور لپٹ گیا تھا وہ اس کی معرفت کیسے کرتا۔

قوت لامسہ سے، قوت شامہ سے، قوت ملہمہ سے محض تین حسوں کے ذریعے معرفت ممکن ہو سکتی ہے کیا ؟

قوت باصرہ، قوت سامعہ، قوت ذائقہ کے بغیر معرفت ممکن ہو سکتی ہے مگر مکمل نہیں ہو سکتی۔— ادھورے حواس کے ساتھ  معرفت کا امکان تو ہے تکمیل نہیں۔ تکمیل کے لیے چھے کی چھے حسیں  ضروری ہیں اور ایک مناسب حد تک نظارہ کی تکمیل ایک مناسب دوری کے بغیر ممکن نہیں۔ بونوں کے شہر میں رہنے والا تنہا آدمی تجریدیت سے ثنویت کی طرف سفر کر کے دوبارہ تجریدیت کی طرف لوٹا تو اپنی ذات کا عارف ہو چکا تھا اور عرفان ذات وہ نشاط ہے۔ جس کے بعد سارے جھگڑے ختم ہو جاتے ہیں۔ اب دوسرے وجود کی عدم معرفت۔ بونوں سے نا ہمواری،  عدم ابلاغ،  بلندی کی اذیت پستی کا احساس، سب ختم ہو گئے تھے۔ دکھ ہی اپنے وجود کی پہچان کے ہیں۔ جب وجود کی پہچان ہو جائے تو

وجود دکھ ہے وجود کی یہ نمود دکھ ہے

حیات دکھ ہے ممات دکھ ہے

یہ ساری موہوم و بے نشاں کائنات دکھ ہے

شعور کیا ہے ؟ اک التزامِ وجود ہے

اور وجود کا یہ التزام دکھ ہے

یہ ہونا دکھ ہے نہ ہونا دکھ ہے

ثبات دکھ ہے دوام دکھ ہے

میرے عزیزو تمام دکھ ہے۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031