یاد ۔۔۔ ثمینہ سید

یاد

ثمینہ سید

تمہیں بھی یاد تو ہو گا

کہ کیسے تم چلے آئے

مجھے سوچا

مجھے چاہا

مری باتیں

مری آنکھیں

مرا لہجہ

مری سوچیں

جنہیں تم نے سراہا تھا

بہت ہی مجھ کو چاہا تھا

تمہیں بھی یاد تو ہو گا

وہ باتیں گرم لہجوں کی

وہ راتیں سرد لمحوں کی

وہ ڈرنا ہجر سے میرا

وہ وعدے، وہ ارادے سب

جو پیہم ہم نے باندھے تھے

تمہیں بھی یاد تو ہو گا

مری آنکھوں کا دریا وہ

جو اکثر اُمڈا رہتا تھا

مری فکروں کا لمحہ وہ

جو تم پر چھایا رہتا تھا

تمہیں بھی یاد تو ہوگا

یونہی میں سوچ بیٹھی تھی

ذرا سوچو تو تم جاناں

تمہیں بھی یاد تو ہوگا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930