مُنو کی سوچیں ۔۔ قاضی علی ابو الحسن
مُنو کی سوچیں
قاضی علی ابوالحسن
باورچی خانہ دھوئیں سے بھرا تھا۔ توے سے اس طرح دھواں اُٹھتا تھا جیسے ٹھنڈے پانی کی جھیل سے دھند۔ پوری رسوئی جو بہ مشکل تین چار بندوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی برتنوں سے بھری تھی۔ وہ دونوں پسینے سے شرابور تھے۔ منو مسلسل اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا جو گندم کے آٹے کے ساتھ چند منٹ تماشا کر کے اُسے خوب صورت روٹی بنا دیتی۔ وہ ٹانگیں سینے میں گھسائے خاموشی سے موڑھے پر بیٹھا ماں کو تکے جا رہا تھا جو منہ میں کچھ بڑ بڑا رہی تھی۔گرمی کی شدت اور پسینے کی زیادتی سے اس کا قمیض بدن پر چپک چکا تھا۔ ماں کے ماتھے پر آئی وٹوں سے اُس کا ماتھا آدھا ہوا تھا اور غصے سے جسم کانپ رہا تھا۔
یہ سب منو کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی، یہ معمول تھا۔ منو اس کو روز خاموشی سے دیکھتا اور سوچتا رہتا۔ وہ جانتا تھا میرے باپ کے کام پر جانے کے بعد میری ماں کچھ دیر چیخے چلائے گی پھر کچھ دیر بعد ٹھنڈی پڑ جائے گی اور باپ کے واپس گھر آنے تک مہکتی رہی گی۔ مگر جیسے ہی باپ گھر آئے گا وہ شام کے بعد پھول کی طرح بے جان ہو جائے گی۔
منو اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک کمرے والے گھر میں رہتا تھا۔ ویسے اُس کو گھر کہنا ہماری اعلیٰ ظرفی ہو گی کیوں کہ وہ گھر تو دوزخ کے مترادف تھا۔ اُس میں ایک کمرہ، ایک رسوئی اور ایک غسل خانہ تھا جس کے دروازے کی جگہ اک پردہ لگا تھا۔ چھوٹا سا مورچے بنے گڑھوں والا صحن، جس میں دو بوڑھی سی چارپائیاں مرنے کے قریب تھیں۔
منو کے ماں باپ کی شادی آج سے 8 برس قبل ہوئی، باپ محکمہ مال میں چپڑاسی تھا جب منو کی ماں اُس سے بیاہ دی گئی۔ وہ بھی بلا کی خوب صورت عورت تھی، سفیدے کی طرح ہمیشہ تنی رہتی اور سب پر حکم چلاتی۔ 19،18سال کے عین شباب میں شادی ہوئی،نہ کلثوم جانتی تھی کہ شادی کیا ہے اور نہ منو کا ابا اس بات سے واقف تھا کہ شادی ہو کیوں کررہی ہے؟
پورے ایک صد انہتر لوگ شادی میں موجود تھے۔ دیگیں چڑھیں، چاول بنے اور لا تعداد چھوارے بانٹے گئے۔ کلثوم کے اباکو اپنی دودھ دینے والی بکری اور پہاڑی بکرابھی بیچنا پڑا۔ رہی بات منو کے ابا کی تو اس کا صاحب سخی آدمی تھا۔ بس جی پھر کلثوم چاچا کریمن کی ریڑھی پر رخصت ہو کر منو کی اماں بننے آگئی۔
وہ گھر میں آتوگئی پر شاید آنہ سکی۔ چند مہینوں میں دونوں نفرتوں سے بھر گئے۔ نہ دونوں کی سوچ ملتی تھی، نہ پسند، نہ عادات اور نہ انداز، منو کی اماں کچھ اور کہتی تو ابا کچھ اور کرتا، ابا کچھ اور کہتا تو اماں کچھ اور کرتی۔ پھر اسی نفرت کے سال میں پورے ۱۱ مہینے بعد منو پیدا ہوا۔ دونوں کے درمیان کئی بار طلاق کی بات بھی ہوئی مگر لوگ فورا ً ہی اس بھڑکتی آگ پر پانی ڈال دیتے۔
اب دونوں زندگی کی نہر کے مخالف کناروں پر اپنی اپنی دھن میں بہہ رہے تھے، مگر اکثر کناروں کا پانی بھی آپس میں ٹکرا جاتا ہے اور جب پانی ٹکراتا تو ان میں جنگ ہوتی۔
کلثوم اپنے من کی بھڑاس محلے والیوں، اپنی اماں اور واحد بہن رقیہ کو بتا کر بجھایا کرتی۔ شاید ہی اِن سب سے اُس کی کوئی ملاقات ایسی ہوتی جس میں وہ اپنے شوہر کے گِلے نہ کرتی، اُس پر تہمتیں نہ لگاتی اور اُس کو ننگا نہ کردیتی۔
کچھ یہی حال منو کے ابا کا تھا۔ وہ اپنے محکمے کے چوکیدار، محلے کے دودھ والے اور چند دوستوں کو اپنے دل کا حال، گھریلو معاملات بتا کر اپنا بوجھ ہلکا کرتا۔ چند ایک باتیں جو وہ اپنے دوستوں سے کرتا:”کیا رکھا ہے اُس میں؟نہ ڈھنگ سے کھانا بنانا آتا ہے، نہ گھر کی صفائی کرنا۔ جب سے یہ بلّا میرے گھر آئی ہے کوئی کباڑ خانہ لگتا ہے میرا گھر، شکل کی ایسی پوری سوری ہے کہ دیکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ کتنے کتنے روز نہاتی نہیں۔ اُس کے جسم سے ایسی باس آتی ہے جیسے مرے ہوئے گدھ کی۔نہ سلیقے سے بول سکتی ہے، نہ بیٹھنا آتا ہے، بس چیختی ہے اور منہ پر اس قدر نحوست کہ اتنی تو شودر پر بھی نہ ہو، اورضدی کمینی ایسی بھینس کی سی ہے جس کو جتنی سوٹیاں مارو مجال ہے اک قدم بھی آگے بڑھے، بلکہ وہیں گوبر اتار دے“۔
اس طرح کے بے شمار شکوے منو کی اماں کو بھی تھے۔ جن کا بہتر حال تو ہمسائے کی عورتیں یا اُس کی بہن ہی دے سکتی ہے۔
منو جب باپ کے ساتھ ہوتا تو اپنی ماں کی باتیں سن کر حیران ہوتا۔ اور واپسی گھر آنے پر وہ ماں کے ساتھ بھی نہ بیٹھتا۔ اور کبھی جو ماں کے ساتھ گھر میں اُس کی باتیں سن لیتا، تو باپ کے گھر آتے ہی ماں کے پیچھے جا چھپتا۔ پھر منہ میں انگوٹھا ڈال کے سوچتا
”کیا یہ وہی مرد ہے جس کے متعلق میری ماں ابھی بات کرتی تھی۔“ منو سمجھ نہ سکا کہ میری اماں سچی ہے یا ابا۔
اک روز منو کے محلے کا یار دانی اُس کو اپنے گھر لے گیا۔ وہاں جو منو نے دیکھا کہ دانی کے اماں ابا رسوئی میں اکھٹے بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ منو پھر منہ میں انگوٹھا ڈالے سوچنے لگا۔ میرے ابا اماں کو تومیں نے اِس طرح کبھی کھانا کھاتے نہ دیکھا۔
دیکھتا بھی کیسے ذرا جو بات ہوتی تو اُس کا ابا کلثوم کو اس بے دردی سے مارتا کہ منو مارے ڈر کے بستر کے نیچے گھس جاتا اور اُس روز اُس کی اماں بھی گھر اجاڑ دیتی اور اُس کے ابا کا کھانا تک نہ بناتی اور منو کا ابا سگریٹ یا حقا پیتا بھوکا ہی سو جاتا۔ محلے کا قاری کہتا تھا منو گالیاں دینا اچھا نہیں ہوتا مگر منو کو تو روز اماں اَبا کو اِک دوجے کو گالیاں دیتے دیکھنا پڑتا۔ بس منو کو پسند تھی تو خالہ شاہدہ۔ محلہ کی نیک عورت۔جب بھی اماں، ابا کی لڑائی کی آواز سنتی تو جھٹ سے چھڑانے آجاتی۔ منو ہمیشہ سوچتا تھا کہ آخر میرے اماں ابا دوستی کیوں نہیں کر لیتے؟
دن گزرنے کے ساتھ ساتھ منو کے شعور اور سوچ میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ وہ اکثر انہی سوچوں میں مگن ہو جاتا اور کبھی کبھی اُن کی دوستی کا حل ڈھونڈنے لگتا۔
اب منو نے محلے کی بچیوں کے ساتھ کھیلنا بھی چھوڑ دیا تھا کہ کہیں اُن میں بھی ویسی لڑائی شروع نہ ہو جائے۔ اور خالہ شاہدہ سر پیٹتی آن پہنچے۔ وہ جب بھی کہیں مرد عورت کو ساتھ میں دیکھتا تو منہ چھپا لیتا، نظریں جھکا لیتا، بھاگ جاتا، یا ایسا کچھ بھی کر لیتا، کیونکہ وہ جب بھی مرد عورت کو ساتھ میں دیکھتا تو اس کو اپنے اَماں اَبّا یاد آجاتے۔
وہ کہتا اگر شادی اسی کو کہتے ہیں تو میں کبھی مر کر بھی شادی نہ کروں گا۔ مگر وہ بھولا ابھی کیا جانے، کہ اک اور طاقت ایسی بھی ہوتی ہے جو مجبور کرتی ہے۔
پھر اک اور روز منو نے اسکول کے درخت پر دو پرندوں کو ساتھ میں بیٹھے دیکھا۔ جو مدھم آواز میں بول رہے تھے۔ کچھ لمحوں کے لیے وہ ساکت کھڑا اُن کو دیکھتا رہا۔ مگر اچانک غصے میں آکر اس نے زمین سے ایک پتھر اٹھایا اور ان پرندوں کو اُس شاخ سے اڑا دیا اور بڑبڑانے لگا۔
اُس رات دوبارہ منو کے ماں باپ میں جھگڑا ہوا اور منو کے ابا نے اُس کی اماں کو بڑی بے دردی سے مارا اور اُس کی اماں نے بھی کچن کے برتن اِدھر اُدھر دے مارے۔ منو ڈر کے مارے سہم گیا اور اُسی طرح انگوٹھا منہ میں ڈالے سو گیا۔
مگر آج کچھ اور ہوا۔
آدھی رات کو منو کی آنکھ کھلی تو بے اختیار اُس کا انگوٹھا منہ سے نکل آیا اور آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کیوں کہ اُس کا ابا آج مرے ہوئے گدھ کی باس سونگھ رہا تھا اور اُس کی ماں پر اوندھا پڑا اُس کے ہونٹوں پر انگلیاں پھیر رہا تھا اور اُس کی اماں کہہ رہی تھی:
”منو کے ابا ____بہت اچھے ہو تم! بہت اچھے، بہت اچھے “