محبت کی جھلساتی روح ۔۔۔ ثروت زہرا ۔۔۔ شاہ محمد مری
محبت کی جھلساتی روح ۔۔۔۔ ثروت زہرا
ڈاکٹر شاہ محمد مری
میں بہت دیر میں اُس کی شاعری سے شناسا ہوا۔ اُس وقت جب میں اپنی ہم عصر اُن تمام عورتوں کی شاعری سے واقف ہوگیا تھاجو عورتوں کے حقوق کی شاعری کرتی ہیں، اور جو’’نظم‘‘ لکھتی ہیں ۔ ثروت میرے مطالعے میں اِس پوری جھرمٹ میں سب سے آخر میں نمودار ہوئی اور اپنے کلام سے مجھے متاثر کرگئی۔
یہ شاعری جینوئن، پُرجمال،اوریجنل، اور سنجیدہ ہے۔اور جب شاعری اچھی ہو تو قاری شاعر کا بلامعاوضہ پروموٹر بن جاتا ہے ۔ظاہر ہے کہ اب میں جگہ جگہ اس کی شاعری کی تعریفیں کرنے لگا۔اُس کی مزید شاعری کھوجتا رہا ، اُسے اپنے رسالے میں چھاپتا رہا اور لوگوں کو پڑھنے کی ترغیب دیتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔ اور پھر،فاطمہ حسن نے کہا’’ تم نے اُس کی شاعری پڑھی ہے، اُس سے سنی نہیں۔اُس کی شاعری پڑھنے سے زیادہ اُس کے اپنے منہ سے سننے میں میٹھی اوراچھی لگتی ہے۔اس کی آواز، ادائیگی، اور شاعری سنانے کا طرز بہت اچھا ہے‘‘۔
بات آئی گئی۔ پھراُس نے کہیں سے میری دو ایک کتابیں پڑھیں۔ اچھی لگیں تو ایک دن اس نے توصیفی فون کیا۔ بات چیت ہوئی، تو اُسی وقت اُسے بتائے بغیر میں نے فیصلہ کرلیا کہ اُس کی شاعری اُس کے اپنے منہ سے کبھی نہیں سنوں گا۔۔۔۔۔۔۔ فاطمہ کی بات بالکل ٹھیک تھی۔
جیسے کہ شاعر کرتے ہیں،اُس نے بھی فیس بک اور واٹس اپ پہ اپنی آواز میں اپنی شاعری کے آڈیو وڈیو بھیجے ۔مگر میں نظرانداز کرتا رہا۔ اور بالآخرایک دن اُس نے میری چوری پکڑ ہی لی۔اُس نے کوئی آڈیو بھیجی تھی۔ میں نے حسبِ معمول سنی نہ تھی اور اُس نے پوچھ ڈالا کہ ’’ یاد نہیں آرہا، میں نے تمھیں کس نظم کی آڈیو بھیجی‘‘۔ تب میں نے ’’راستباز خان‘‘ بن کر اُسے بتاہی دیا کہ میں نے اپنے من میں کیے گئے فیصلے کے تحت اُس کا ایک بھی آڈیو نہیں سنا اور نہ ہی شاعری کی کوئی وڈیو دیکھی۔وجہ اُس ہکا بکا انسان نے پوچھی نہیں،مزید سچ بولنے کو میں نے دل شکنی گردانا۔چنانچہ عرصے تک لہجے کی زبردست تاثیر کی مالکن اِس حیران شہری روح کو پتہ نہ چلا کہ اس کا سبب کیا ہے ۔ گو کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی کی دیہی وابستگی کی بدولت خوب جانتی ہے کہ دیہی پس منظر سے آئے لوگوں کو شہر کی زندگانی کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرنے میں کن کن تپسیاؤں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ویلیو سسٹم میں ارتقائی مراحل اور پراسیس سے گزرے بغیر ، محض سپیس بدل کر لیا ہوا leap بہر حال اپنی قیمت لیتا ہے ۔۔۔۔۔۔
یہ سب کچھ میں نہ لکھتا اگر وہ مجھے یہ نہ بتاتی کہ لکھو میرے بارے میں اِس لیے کہ اب میری عمر ’’اٹھارہ ‘‘برس سے زیادہ ہوچکی ہے ( پیدائش 5 مئی1972)۔مگر اُسے کیا پتہ کہ جس سرزمین میں میں رہتا ہوں وہاں میں نے اٹھارہ سو برس عمر والوں کو بھی معمولی باتوں پہ وطن جلا ڈالنے کا رد عمل دکھاتے سنا پڑھا اوردیکھاہے۔ انسان کی بلوغت کے آثار ابھی تک نہ غاروں کے سماج میں ہیں نہ سکائی سکریپرز کے سماجوں میں۔ کیا امریکہ اوربرطانیہ اکیسویں صدی کے سماج کے چاکروگوۂرام نہیں ہیں؟
۔۔۔۔۔۔ہماری دوستی کو چار سال ہوگئے۔ میں اُس کی اپنی آواز میں اس کی شاعری نہ سننے والی اپنی بات پہ ابھی تک قائم ہوں۔
ہر اچھی عورت کی طرح ثروت بات کرتے ہوئے اپنے خاوند ، کیلاش کا ذکر ضرور کرتی ہے۔میں مشتاق یوسفی ہو تا تو ضرور کہتا کہ ’’ مشرقی خاتون کا اپنے شوہر کے بارے میں بار بار ذکرکرنا، شوہر کے ساتھ محبت سے زیادہ خود مدافعت کا ایک ہتھیار ہوتا ہے۔ دوسروں کی بھوکی آنکھوں کو اُن کے حد حدود سے آگاہ رکھنے کاہتھیار‘‘۔۔۔۔۔۔۔ بہر حال ، وہ جس بھی وجہ سے خاوند کا ذکر کرتی ہومیں نے فیصلہ کرلیاکہ پہلے اسی کیلاش ہی کے بارے میں لکھوں گا۔
مجھے نہیں معلوم کہ پیر محمد کو کس چیز نے کیلاشؔ بنا دیا۔ وہ سندھی زبان کا مشہور افسانہ نگاراور نقاد ہے۔ہوا یوں کہ اٹھارہ سالہ ایف ایس سی کی طالبہ ثروت زہرا اچھی خاصی ڈبیٹر تھی۔ درجنوں بار بیسٹ ڈبیٹر ایوارڈ لیتی رہی۔جلسوں میٹنگوں مقابلوں میں حصہ لیتی تھی ۔ ریڈیو کراچی سے وابستگی تھی ۔وہاں وہ بزمِ طلبہ نامی پروگرام کرتی تھی ، اورمشاعروں میں حصہ لیتی تھی۔ پھر جب ٹی وی کو نیوز ریڈر کی ضرورت پڑی تو ریڈیو والوں نے ثروت کو آڈیشن کے لیے بھیج دیا۔وہ ٹی وی میں بھرتی ہوگئی۔ خبریں پڑھنے لگی اور دیگر پروگرامزکرنے لگی۔
نظریات اور محبت دو ایسے مظاہر ہیں جن کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ بغیر پاؤں رکھے ہوئے بھی ہزاروں میل کی مسافت کیسے طے کرتے ہیں۔ اپنے لیے موزوں ترین شکار کیسے شناخت کرلیتے ہیں۔ بہر ہال ثروت کے لیے مچان یہی ٹی وی کے نیوز سیکشن میں سجا اور اُس کے دِل کے حتمی درد کے لیے اسی سیکشن کے پروڈیوسر کوچُن لیا گیا تھا ۔ ظاہر ہے نیوز پروڈیوسر اٹھارہ سالہ نیوزریڈرسے تو عمر میں کافی بڑا ہوگا۔ ثروت کا دل اُسی بڑی عمر والے اپنے نیوز پروڈیوسر پہ ڈھیر ہوگیا۔کیلاش کا دل جیتنے میں اُسے زیادہ کشٹ تو نہیں اٹھانے تھے اس لیے کہ کیلاش ،بلوچ مائتھالوجی والا شیو نہ تھا کہ جس کا دل جیتنے کے لیے پاروتی کو برسہا برس کی تپسیائیں کرنا پڑتیں۔ وہ توبہر حال جاگیرداری کے بند ماحول کا سندھی مانڑھوں تھا ۔دِل پھینکے جانے کو ہمہ وقت تیار۔
اِسی اثنا میں ثروت کو میڈیکل کالج میں داخلہ ملا۔( سندھ میڈیکل کالج)۔میڈیکل کالج میں وہ پڑھائی میں بہت اچھی تھی۔ فرسٹ پروفیشنل تک پوزیشنیں بھی لیتی رہی۔ بعد میں تو خیر محبت نے سب شعبوں کو بس زندہ رہنے کی حد تک ہی رہنے دیا، بقیہ سب کچھ اپنے لیے رکھ دیا۔یہ عشق پاگل پن میں اگتا، بڑھتا گیا۔
جاگیرداری اورما قبل فیوڈل سماجوں کے اندر عشق دو انتہاؤں میں ڈھل جاتی ہے۔ شادی، یا ، ناکامی۔ چنانچہ حصولِ عشق کا خبط کم سن ثروت کے حواس پہ گھڑ سواری کرنے لگا۔ مگر اصل مصیبت خاندان والوں کو راضی کرنے میں تھی۔پتہ نہیں پاپڑ بیلنا اصل میں کس کو کہتے ہیں کہ میں نے خود ایسا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ مگر یہاں تو بات پاپڑ کے بجائے نا ممکن کو بیلنے کی تھی۔
یقیناً عمروں میں ڈبل کا فرق تھا مگر عشق مقدس شجرہِ نسب رکھنے کے باوجود جب بد مست ہوجاتا ہے تو بقول میرے ایک دوست کے ’’ کتے کا بچہ بن جاتا ہے ‘‘۔ سو اب عشق یہاں یہی کچھ بن چکا تھا۔
سندھی اور بلوچ اگر Pollute نہ ہو چکے ہوں تو مذہب اور فرقے کے بارے میں بہت کھلے ڈلے رہتے ہیں۔ یہ دونوں قومیں شیعہ کی حد تک سُنّی ہیں۔ بت پرستی کی حد تک پیر پرست ہیں۔ ظلِ الٰہی سازی تک سردار اِسٹ ہیں۔اقلیت میں ہندواور دیگر مذاہب کے دوسرے لوگ دنیا بھر میں سب سے زیادہ بلوچ اور سندھی کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ چنانچہ میرا دعویٰ کہ پیر محمد کیلاش طور اطوار میں شیعہ اور سنی کا ملغوبہ ہے۔جبکہ شاعری پڑھتے ہوئے مجھے لگا کہ ثروت مکمل نہیں تو تھوڑی تھوڑی شیعہ ضرور ہے۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوگیا کہ اُسے تو پانچ سال کی عمر میں ممبر پر بٹھا یا گیا تھا۔ تیرہ سال کی عمر تک وہ باقاعدہ ذاکری کا کام کرتی رہی۔ لباس، وضع قطع ، اٹھنا بیٹھنا سارا کچھ ذاکروں والا تھا۔ مذہبی حلقوں ( لہٰذا پورے علاقے) میں اُس کی بڑی توقیر و عزت تھی۔ بالکل ایک پیر بن گئی ۔ اب وہی ذاکر، وہی مولوی ، ایک دوسرے فرقے میں شادی کا فیصلہ کرچکی تھی۔ شادی بھی محبت والی!!
پھردونوں میں شہری دیہاتی کابہت بڑا فرق موجود تھا۔ شہری لوگ دیہاتیوں کو پسماندہ ذہنیت اور پست کلچر والے گردانتے ہیں جبکہ دیہی لوگ شہریوں کو دھوکے باز، بے وفا ، بے رواج قرار دیتے ہیں۔
تیسرا فرق تو بہت بڑا تھا۔پیر محمد اور ثروت زہرا کے درمیان سندھی اور غیر سندھی ہونے کا ۔
مگر محبت ہوجائے تو لگے کہ ساری کائنات کی زبان کو خوشبوؤں کا ذائقہ لگ چکا ہو۔ زمان اور مکان کا ہر مظہر لطیف ہوچکا ہو۔ زمانے بھر کی کثافتیں عداوتیں بدعتیں ’’ محبت‘‘ کی لا شریک دیوی کی خوشنودی میں خود کو معدوم کرچکی ہوں۔یہ ایک ایسا نظر نہ آنے والا تعلق ہے جو دو روحوں کو اکٹھا رکھتی ہے۔
چنانچہ ثروت زہرا نے کفر تو لا اور ’’ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو‘‘ سے بغاوت کر ڈالی۔ میں ویسے ہی اٹکل پچولڑا کر کہتا ہوں کہ دو چار سال کی سخت مزاحمت کے بعد ہی کہیں جا کرثروت کا خاندان مانا ہوگا ۔ڈرو اُس وقت سے جب صنعتی شہر کا فرد فیوڈل غیرت کی ٹوکری اپنے سرپہ سجائے ۔اچھا بھلا آدمی راونڑ بھانبڑبن جاتا ہے۔یہاں ثروت کے خاندان والوں کو کچھ ہوگیا۔ ہائے غیرت ، ہائے دوسرے فرقے کا ، ہائے سو کن گیری ، ہائے شہری دیہی، ہائے عمروں میں صدیوں کا فرق۔۔۔۔۔۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کے کیڑے نکالے گئے ہوں گے۔ اصلی نہ ملے تو فرضی گھڑ لیے ہوں گے۔ ثروت کا خاندان آناً فاناً ابوجہل کے گھر کا پڑوسی بن چکا تھا۔ لڑکی مکمل طور پر گھر میں بند کردی گئی۔ چلیں اس پس منظر کی دو نظمیں پڑھیں:
ورثہ
زندگی کو آئینوں سے محبت
ورثے میں ملی ہے
اور آئینے میں اس کی محبوب کا عکس
منجمد کردیا گیا ہے
زندگی عکس کو دیکھ سکے گی
عکس کے منجمد زاویوں پر
اپنے ہونٹ رکھ سکے گی
مگراپنے محبوب کی حرارتوں کو
چھونے کے لئے ،
اسے آئینے کو توڑنا پڑے گا
لیکن زندگی کو تو
آئینوں سے محبت ورثے میں ملی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صلیبِ زیاں سے
میں صلیب زیاں پر لٹکتی رہوں
کیلیں دھنستی رہیں، خون رستا رہے
ایک انبوہ ہے، بے کراں بد زباں
ایک سچ جو سبھی پر ہے کوہِ گراں
میں تماشا رہوں ،شور بڑھتا رہے
گالیاں سیٹیاں ،چند خاموشیاں
دوہرے معیار کے فیصلوں کی دکاں
چپ کی تدبیر میں دل سنبھلتارہے
کیلیں دھنستی رہیں ، خون رستا رہے
جھوٹ اور خوف کی آنکھ عادی نہیں
کوئی مجرم نہیں ،میں فسادی نہیں
تیر ودشنام کا وار چلتا رہے
کیلیں دھنستی رہیں ، خون رستا رہے
مگر کاسٹرو مکمل بلاکیڈ میں بھی تو زندہ رہتا ہے ۔ محبت کا فرچیز ہے،چھ ہزار جنموں کی زندگانی کا پروانہ لے کر آتی ہے۔
ظاہر ہے کہ ہتھیار پہلے اُس کی ماں نے ڈالے ہوں گے۔
پتہ نہیں مروج کے باغی، انسانوں کو اچھے کیوں لگتے ہیں؟۔ مضمحل ارواح ابدی کیوں بن جاتی ہیں؟۔ نام و نمود ، شجرہ و نسب پہ جان دینے والے لوگ، ماورائے فکرِ ننگ و نام ’’محبت ‘‘کے سامنے دوزانوں کیوں ہوتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔ پتہ نہیں میں ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کیوں لکھتا ہوں؟۔
بھئی ہر کوئی کرشن چندر اور سلمیٰ صدیقی کی جوڑی نہیں بنا سکتا۔ لہٰذا ثروت و کیلاش بھی وہ جوڑی نہیں ہوسکتی۔ مگر یہ کیا کم ہے کہ ایک اردو والا ؍ والی ایک سندھی بولنے والے ؍ والی سے پیار کرے اور شادی بھی کرے ۔اور وہ بھی اُس سندھ میں جہاں کاروکاری کی مہیب کلہاڑی سے نرخرہ دولخت ہونے کے خطرات موجود ہوں۔ہاں ،مگر اس کے لیے واحد شرط یہ ہوتی کہ کیلاش ثروت ہوتا اور ثروت کیلاش۔
ہم رجعتی اکیسویں صدی میں رہ کر ترقی پسند 20 ویں صدی کو جانچنے کے اہل بھی تو نہیں۔ اور اگر بات کراچی کی ہو تو ماننا پڑتا ہے کہ ثروت اور کیلاش کی شادی محبت کی ہے ( 1997میں)۔ہاں، یہ اس جوڑی کی خوش قسمتی ہے کہ نہ کسی باپ نے کسی کو گھر سے دارالامان بھجوایا ،اور نہ ہی کسی باپ نے کسی کو عاق کردیا۔
شکار پور تو پہلے ہی پیر محمد سے رہ گیا تھا۔ وہ تو بہت عرصے سے کراچی میں رہ رہا تھا۔
چھوڑو، اس بات پہ کیو ں سر کھپایا جائے کہ آیا کیلاش کی پہلے سے شادی یا منگنی تھی کہ نہیں ۔معلوم بات ہے کہ سندھی چالیس برس تک کیسے بے شادی ہوگا۔
مگر یہاں کوئی فلمی سٹوری نہ بنی۔ ثروت تو محبت کے ہاتھوں بے چاری ترین مخلوق بن چکی تھی، ’’ بچہ جمہورا‘‘ بنی ہوئی تھی۔ اُس بوئے گرفتار ثروت نے کیا نخرے کرنے تھے، کیا شرائط لگانی تھیں۔اس نے دوسری بیوی بننا قبول کیاہوگا۔
ڈاکٹر ثروت نے اپنے ہاؤس جاب کا عرصہ جناح اور سول ہسپتال میں گزارا ۔ پھر کراچی کے سوشل سیکورٹی ہسپتال میں نوکری کی۔اس کے بعد دس سال اسلام آباد میں زحمت آلود نوکریاں کیں۔ اور پھرتو وہ یہ ملک ہی چھوڑگئی ۔ آجکلوہ UAE کے ایک بہت ہی مصروف بڑے ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں کام کرتی ہے۔
بلاشبہ اُس کی شاعری کی پہلی کتاب (2003) پوری کی پوری اسی عشق کے قدموں پہ نچھاور ہوئی۔ بھئی ،اُسے اِدھر اُدھر کچھ نظر آتا تو کچھ اور لکھتی ناں۔شکار پور ہی اُس کا یروشلم بن چکا تھا ۔( ارے شکار پور یوں کے بارے میں ہم بچپن میں بہت عجیب شعر پڑھا کرتے تھے، منفی تاثر والا)۔شاعرہ کی انگلی کی پوروں سے حرف بہے جانے لگے۔
پیر محمد نے کچھ اور کیا ہو یا نہیںیہ کمال ضرورکیاکہ اُس نے شاعرہ کو سپیس دی۔ اُس کی شاعری کو گروم ہونے میں زبردست مدد کی۔ فکری سطح سے جو بھی مقوی کمک ہوسکتی تھی اس نے ثروت کو دی۔
میں نے اُس کی ’’خود ساختہ ‘‘ جلا وطنی پہ بہت غور کیا۔ وجوہات یقیناًدوسری ہی ہونگی مگر میرا شکّی دل کہتا ہے کہ کہیں نہ کہیں تہہ میں اُن کی باہمی محبت کے لیے سماجی یا،عزیز داری استرداد کا عنصر ضرورموجود ہوگا۔روایتیں، طوق بن جانے کے مرحلے کو کہتے ہیں۔اورنمیبیا کے معدنی کانوں کے غلام مزدوروں کے طوق تو کسی ورینیا کا محبوب ہی توڑ پاتا ہے ۔ مگر یہاں ہمارے سماج میں تو ہر طرح کی رحمت عدت میں ہے۔ روایتیں خضر کا عمر پاگئی ہیں۔ روایتیں جو بڑے بڑے مربعوں سے جنم لیتی ہیں مگر جو خارکانوی سماج میں بھی طویل زن کندنی کرتی رہتی ہیں، مرتی نہیں۔
اندازہ ہوسکتا ہے کہ جلا وطن ثروت زہرا کو معاش کے لیے کتنی محنت کرنی پڑی ہوگی۔ سمجھو مشقت ، سمجھو مزدوری ، سمجھو غلامی ۔ نہ دن کا پتہ نہ رات کا، نہ بچوں کا ہوش نہ اپنی صحت و خوبصورتی کی فکر۔ کسی طرح گھر چلے، کسی طرح دن رات ہوجائے اور رات دن میں بدل جائے۔ محبت کی لاج رہ جائے۔ خاندان کا منہ بند ہو۔ طعن لعن کی ایکسپریس ٹرین مدہم پڑ جائے۔۔۔۔ یہ محبت کی لاج بھی فیوڈل سماج میں انقلاب جتنی بھاری چیز ہوتی ہے۔ لاکھوں انسان اس لاج اور بے لاجی کے دھکتے ایندھن میں سلگ سلگ کر معدوم ہوچکے۔ لاج کا کچھ نہیں بگڑا۔ اس بدمعاش فیوڈل لاج کا تو بس ایک علاج ہے: فیوڈلزم کو اس کے بے حرمت ویلیو سسٹم کے ساتھ اوندھا کردین
(ڈاکٹر شاہ محمد مری کی اجازت سے )