روح منڈی ۔۔۔ ممتاز حسین
روح منڈی
ممتاز حسین
دنیا بدل رہی ہے۔ آنسو بہانے والے گانے کی آواز ٹوٹے ہوئے سینما گھر کے سامنے پان سگریٹ کے کھوکھے میں بجتے ہوئے ریڈیو سے آرہی تھی ۔پہلے یہی گانے اسی سینما گھر کے سامنے لمبی قطار میں بٹھکو ں سے طبلے کی تھاپ پر اور ہارمونیم سے نکلے ساز پر ناچنے والی لڑکیوں کے گلے سے نکلتے تھے۔۔جِن کے ساتھ پاؤں میںبندھےگھنگرو ایکسٹرا جھنکار کا کام دےرہے ہوتے۔ دنیا واقعی بدل رہی تھی۔ان بٹھکو ں کے سامنے بڑی بڑی دیگوں میں چو بیس گھنٹوں سے زیادہ پکنے والے پکوان اب وہاں موجود نہیں ۔
پکوانوں کے مالکان سٹّے اور جوئے میں کاروبار سے ہاتھ دھوبیٹھےتھے۔ کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے وہ اٹھ کر کہیں اور چلے گئے تھے۔ ناچنے والیوں نے بھی اپنے کوٹھے کو بیچ کر بحریہ ٹاؤن ،اورڈیفنس کے مہنگے اور محفوظعلاقےجہاْں چھوٹے تماش بینوں اور چھوٹےچھوٹے درجے کے پولیس کے عہدے داروں کی پہنچ سے دوْرکے علا قوںمیں کوٹھیاں خریدلی تھی اور ناچ گانے کا کاروبار کسی اور انداز سے شروع کر لیا تھا۔ٹخنوں کے اوپر بندھے ہوئے گھنگرو ں کے بجائے گیپ اور لیوائز کی ٹخنوں سے اوپر تنگ پتلونوں اور ہونٹوں سے فلمی گانوں کےبجائےانگریزی کے الفاظ ریپ ڈانس کرتے فرش پر الٹ پلٹ ،لوٹ پوٹ ہو رہے ہوتے۔یہاں اب لکڑی کی ڈنڈی پر لٹکے ہوئے موتیے کے ہار سجاےْکوئی نظر نہ آتااور ڈنڈی کی لمبائی کم ہوکر قلفی کے بجاے ہاگنڈیز آئس کریم نےلے لی تھی ۔لیکن اب بھی صبح کاذب کے وقت تالی کی گوُنچدار تھاپ پر حلوایٔ پوریوں کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر زور سے پٹخلتا ،
لیکن اب بھی صبح کاذب کے وقت تالی کی گوُنچدار تھاپ پر حلوا یٔپوریوں کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر زور سے پٹختا ،قوالی کرتا ،گاہک کوپکار رہا ہوتا۔”آجاوے تینوں اکھیاں اڈیکدیاں“ قلعے کے سامنے سارےفٹ پاتھ پر بڑی بڑی چھتریوں کے نیچے دھری میزوں سے بھنےْ ہوئے جانوروں،پرندوں سے اٹھتا ہوا دھواں ،منہ میں پانی بھر دیتا۔ہرمیز کرسیوں والی چھتریوں کے سامنے وہ ریسٹورنٹس ہوتے جہاںاب نرم گرم نان تندور میں سنک رہے ہوتے۔وہاںپہلے ناچنے والیاں اپنے چاہنے والوں کے خون کو سنکا کرتیںتھیں۔ ابوہاں اب نئی طرز و تعمیر کے ریسٹورنٹ کھل گئے تھےاور کوٹھے فلیٹوں میں تبدیل ہو گئے تھے۔
ہر ایک بٹھک اتنی قیمتی تھی کہ ناچنے والیاں بڑے آرام سے کوئ اچھانیا گھر نئی آبادیوں میں خرید سکتی تھیں۔بٹھکو ں میں ناچنے والیاں صرف تفریح ہی نہیں مہیا کرتی تھیں،بلکہ کئی گاہکوں کے نفسانی ،جذباتی مسائل بھی حل کر دیتی تھیں۔
گاہکوں کو ہر قسم کا سکون ملتا ۔وہ ریسٹورنٹ کئی منزلوں پر مشتمل تھے۔ گرمیوں میں گاہک چھتریوں کے نیچے بیٹھنا پسند کرتے۔اگر گاہک کو تنہائی میں وقت گزارنا ہو تا تو وہ ریسٹورنٹ کے اندربیٹھ جاتا۔تاریخی مقام کے بالکل سامنے بھڑکتے رنگوں سے رنگین دیواریں یورپ کا ماحول مہیا کر رہی تھیں ،
انہی نئی طرز کے فلیٹوں میں سے ایک فلیٹ میں دو جڑواں بہنیں رہتی تھیں۔ ان کے کام کا طریقہ بھی وہی تھا گاہکوں کو سکون مہیا کرنالیکن ان کا طریقہ ِکار ذرامختلف تھا وہ انہونی مافوق الفطرت طاقت رکھتی تھیں۔
دونو ں بہنوں میں سے ایک بہن دوسری بہن کے جسم میں کسی بھی مرَے ہوْئے شخص کی روح کو بلا لینے کی مہارت رکھتی تھی۔ لوگ اپنےچاہنے والوں کی روحوں سے گھنٹوں باتیں کیا کرتے، ان سے سوالات پوچھتے ،اور اپنے بچھڑے دوست ،محبوب ،ماں ،باپ کچھ لمحوں کے لیے مل جاتے۔ دونوں بہنیں اس کام سے اچھے خاصے پیسے کمالیتیں۔ چھوٹی بہن کا نام حسینہ تھا ،جس کےجسممیں کسی اور کی روح پناہ لےلییک۔وہ اپنے نام کی طرح ،خاصی حسین و جمیل تھی۔ دوسری بہن بڑی تھی ،بڑی بھی کیا بس دہ گھنٹے کا فر ق تھاجو روح کوبلاتی تھی۔ اْس کا نام شبینہ تھا۔ وہ شکل ، عادات،چال ڈھال نام کی طرح میل کھاتی تھیں،
ان بہنوں کا یہ فلیٹ تین کمروں پر مشتمل تھا۔پہلے ایک بڑا کمرہ جس کا برہنہ فرش ہاتھ سے بنےسلک کے غالیچےاوڑھے،آنے والوں کی بے شرم نگاہوں سےچھپا ہوُا تھا۔ غالیچوں کے اوپر چمڑے کے دوصوفے تھے۔ ایک صوفہ تین نشستوں کا اور دوسرا دوہری نشست کا تھا۔دوہری نشست والے صوفے پر ایک چھوٹا سا چینی ریشم کا ہاتھ سے گھانٹا سفید اورکریمی جباری طرز کا ایرانی غالیچہ طے کیے ہوئے سلیقے سےدھرارہتا ۔جس پر ان کی پیاری بلی، مانواپنی ہتھیلی اور زبان سے اپنا بناؤ سنگھار گرد ونواح کی نمود و نمایش میں برابر کی شریک ہونے میں کوئی کمی نہ چھوڑتی ۔اس کا سیاہ چمکیلا رنگ عام بلیوں جیسانہ تھا،بلکہ پہاڑی کوّے جیسا ،جو سورج کی روشنی میں ایسا چمکتا، جیسے پروں کو چاندی کی تاروں سے بُن دیا گیاہو،کالی چمکیلی کھالپر دو فلوری سبز آنکھیں ،عمودی بیضوی کالی دھار کی پتلیاں ، اندھیرے میں ایسے جگمگانے لگتیں کہاگر کوئی آنکھ میں آنکھ ڈالتا تو وہ شخض مسمریزم کے عمل میں جکڑا بت بنا دیکھتا ،سکتے میں رہ جاتا۔اور وہاں سے ہِل نہ پاتا جبتک بلی کو کھڑکی میں بیٹھی چہکتی چڑیااپنی طرف متوجہ نہ کر لیتی۔
ایک چھوٹی قدوقامت کا ریفریجریٹر باورچی خانے کے بجائے ڈرائنگ روم میں دِکھلاوے کے لیےرکھا رہتا۔پانی والے حصّے میں خربوزے کا رنگ پکڑنے کے لیے ایک خربوزہ رکھا رہتا ، لیکن پانی کی بوتلیں رنگ تو نہ پکڑتیں لیکن خربوزے کی خوشبوسے مہکتی رہتیں۔
دیواریں ،جِن پر پانی اثر انداز نہ ہو،بہترین مہنگے رنگوں کی کئی کئی تہوں کے باوجودسِیلنکی وجہ سے پھول کرسفید رنگ کے پھولوں سے ابھی کوئی روح نکل کر باہر نہ آئی تھی۔
سامنے والی دیوار پر بارہ مہینوں کا انگریزی کیلنڈر ٹنگا تھا۔ ہر مہینے کا مستطیل صفحہ ،جو ایک سپرنگ میں پرویا ہوْ اتھا۔ ہر صفحہ پر ایک نیم برہنہ، مغربی عورت کی تصویرتھی۔ہر موسم کے اعتبار سے اس حسینہ کا جسم کپڑوں سے مناسبت دکھاتا ۔گرمیوں میں کم سےکم کپڑے اور سردیوں میں زیادہ۔ہَو اکے تیزجھونکے سے مہینوں والے صفحوں کے بدلنے کے ساتھ ساتھ، یہ حسینہ کبھی کپڑوں سے باہراور اندر ہوتی رہتی۔
سامنے دیوارکی کھڑکی پرسوات کی کالی لکڑی کا فریم،جس میں سنہرےنقش و نگار سے تراشے ہوئے تھے۔ کھڑکی کھولو ،تو ڈزنی کے جیتے جاگتےچلتے پھرتےمصّوری کےمتحِرک شاہکارکھڑکی کے پردہ سکرین پر دکھائی دیتے۔ کھڑکی کے پٹ بھی فریم سے مشابہت رکھتے۔ اسی ڈیزائین سے میل کھاتے تھے۔
لیکن اتنی خوبصورت کھڑکی میں ایک دقیانوسی کنْڈا لگا تھا جو اٹک تو جاتا تھا مگر تیز ہْوا کے جھونکے سے ہر دفعہ بڑی آسانی سے کھل جاتا تھا۔ کھڑکی کے اوپر دیوار پر دو لکڑی کی ٹانگوں پر ایک لکڑی کا مونڈھا ڈنڈا رکھا رہتا ۔ اس میں کمخواب کا پردہ سلوٹوں کے ساتھ یوں لپٹا رہتا، جیسے شلوار کا کھلا گھیرا ،کھڑکی کھلی ہو یا بند،یہ پردہ ویسا ڈنڈے پر لپٹا رہتا۔ ڈرائنگ روم کے وسط میں ایک گول میز پر اجلی، سفید چادر بچھی رہتی ،درمیان میں ایک خوبصورت شمع دان میں، موٹی ایک بڑی سائز کی موم بتی حسبِ ضرورت جلا لی جاتی ۔ تین نشستوں والے صوفے کے برابر ایک آرام دہ کرسی تھی۔اس پر بیٹھنے کے بجائی لیٹا جا سکتا تھا۔مسّدس زاویے والے ڈیزائن کی ،بہت مہارت سے بنی ہوئی بید کی جالی،جو جسم کو ہوا مہیا کرنے میں خاصی کارآمد رہتی۔ یہ آرام دِہ کرسی بھی حسب ضرورتمیز کے قریب لانے کے لیےصوفے کے برابر کھینچ لی جاتی۔ دو اور بیٹھنے والی کرسیاں اگر میز کے قریب کرلی جاتیں ،تو میز پر دھری چائے کی پیالی بار بار
ہونٹوں سے لگانے میں آسانی ہوتی۔ صوفوں کے برابر دو چھوٹی میزوں پر موٹےکاغذ کے کٹے عید کارڈ کھڑے تھے۔انہیں کھولتے ہی ایک پھولوں کا گلدستہ باہر نکل آتا ، عید مبارک کے الفاظ قرینے سے کاغذ کےنکلتے ہاتھ ،گلے مِلنے کے لیے آگے بڑھ آتے، ڈرائنگ روم سے جڑْا سونے کا ایک کمرہ تھا،جس میں اس فلیٹ کا اکلوتا غسل خانہ تھا۔اگر کسی مہمان کو حاجت کے لیےغسل خانہ استمعال کرناہوتا ،تو خواب گاہ میں سےگزر کر جانا پڑتا۔ اسی لیے دونوں بہنیں وہ خواب گاہ صاف رکھتیں۔خواب گاہ سے نکل کر ڈرائنگ روم سے ایک دروازہ تھاجو چھوٹی سی راہداری باورچی خانے تک لے جاتا۔خواب گاہ میں ایک بڑا بستر تھا۔ جس پر دونوں بہنیں سو جاتیں۔ دونوں بہنیں ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتیں۔
ان پر ان کے والدین کا سایہ بچپن ہی سےاٹھ گیا تھا۔باپ کا تو پتا نہ تھا لیکن والدہ بتاتی تھیں کہ وہ ایک بڑے نواب کی نوکری میں تھں ،اس کی دی ہوئی دولت سے ہی سے تم دونوں کو انگریزی سکول میں پڑھا سکی ہوں۔ والدہ دونوں بہنوں کو اپنے کاروبار سے دْور رکھنا چاہتی تھیں۔جڑواں لڑکیاں پیدا ہونے پر باقی رشتے داروں نے تو جشن منایا لیکن والدہ نے ہرگز حصّہ نہیں لیا۔ کیونکہ والدہ قطعی یہ نہیں چاہتی تھیں ،کہ دونوں بیٹیاں دھندھے پر بیٹھیں ۔ان کا گھر بند گلی میںچوتھی منزل پر تھا۔بند گلی بند ہونے سے پہلے ، ایک نوکدارمحراب نما بڑا دروازہ ایک امام بارگاہ میں کھلتا تھا،لیکن وہاں کسی قبضہ گروپ نے قبضہ کر کے نئی طرز کا ایک ہوٹل بنا ڈالا تھاجو اس علاقے میں سب سے پہلےفلش سسٹم اورہَوا دار کمروں کے لیے مشہور تھا۔پہلے اس ہوٹل میں زندہ نرم گرم چمڑے کے سوداگر آکر رہتے تھے لیکن اب چمڑوں سے بنے جوتوں کے سوداگر آکر قیام کرتےہیں۔
ان دو بہنوں کے علاوہ ایک اور کردار یہاں ہر روز آیا کرتا تھا۔ اس کا نام جیدا جمشید تھا۔ لیکن سب اس کو جے جے شیو شنکر کہہ کر پکارتے تھے۔لیکن گلی کا پٹھان چوکیدار اپنے پٹھانی لہجے میں اسے مسڑ کانٹا لوگے یا کونکر کہہ کر بلاتا تھا، اوہ پہلے تو دسکوٹھے والیوں
کی دلّالی کرتا تھا۔ پھر کام کم ہونے کی وجہ سے اس نے حسینہ اور شبینہ کے ہاں نوکری کرلی تھی۔ کام تو یہاں بھی گاہکوں کو پھنسانا تھا، لیکن کچھ مختلف نوعیت کا تھا۔وہ لوگوں کو اپنی چرب زبانی سے روحوں کے قصّے سنْاتا پھر حسینہ اور شبینہ کے فلیٹ میں روحوں سے ملاقات کےلیے لے آتا ۔اسے روحوں کی دلالی میں اتنا مزہ نہ آتا تھا، جو اسے عورت کی جسم فروشی کا فن ورثے میں ملا تھا، جسےوہ بڑےشوق سے کرتا تھا، اسی لیے وہ ہمیشہ دونوں بہنوں کو یہ قائل کرانے کی کوشش کرتا۔چھوڑو اس روحوں کے کاروبار کو ،جنہیں نہ تم چھو سکو نہ چوم سکو۔تم دونوں خوبصورت ہو میں کسی ایسےامیر زادے کے ساتھ تمہارا ٹانکا فٹ کروا دیتا ہوں،جس کا نیا نیا باپ مرا ہو۔لیکن دونوں بہنیں یہ کہہ کر ٹال دیتیں ،جس دن ہم نے کسی مرد کو برہنہ دیکھ لیا تو روحیں جو ہمارے عمل میں آتیں ہیں وہ سب ناراضہو کر کبھی نہیں آئیں گی۔ہم خوش ہیں کہ ہمیں کسی مرد کی ضرورت نہیں ۔ ہم روز نِت نئے قصّے روحوں کی زبانی ان کے دکھ، درد ،خوشی، غمی یہ باور کرواتے ہیں۔انسان مر کر بھی چین نہ پاۓ تو کدھر جاے،روحیں بھی غمی اور خوشی سے چھٹکارا نہیں پاسکتیں اسی لیے وہ ہمارے پاس گھڑی دو گھڑی آکر دل کا بار ہلکا کر لیتی ہیں۔اور اپنے کوئیکہے کئی رازوں کا سینہ ہماری سامنے چاک کرتی ہیں اور شبینہ سینے پہ ہاتھ مار کر کہتی ہے،دیکھ لینا ایک نہ ایک دن ہماری روحوں پرمشتمل کوئی سیریل، نیٹ فلیکس، ایمازان اورسینما گھروں میں فلم بن کرچل رہا ہوگا۔
اپنے بال پوانٹ پین کےبٹن کو بار بار اوپر نیچے دباتے ہْوۓ’’ مجھے لکھنےکا فن سیکھنا ہے۔اگر کسی طرح حزیں قادری صاحب کی روح کو بلالاؤ،تو میں ان سے ہر روز فلموں کی کہانیاں لکھنے کی باقاعدہ کلاس لیا کروں گی‘‘۔
شبینہ کے چہرے پر خوشی کی کرن چمکی۔ ’’کسی دن حسینہ کے جسم میں حزین قادری صاحب کی روح کو بلا کر۔۔۔ لیکن سوال ،جواب کرنے والا تو کوئی ہو ،ہم سبق کیسے لے سکیں گے‘‘۔ جے جے شیو شنکر نے منہ بناتے ہوئےجھڑک کے کہا’’چھوڑو ان روحوں کو ۔ کیا ان کا مدرسہ کھولو گی؟،سیدھے ،سادے دھندھے کی بات کرو ،اچھا ! پہلے دودھ ،پتی شیشے والے گلاس میں پلادو ،پھر میں گھیرکر لاتاہوںکسی بدروح کی ماں کو ،اور ہاں ایسا کرو کہ پچاس روپےبھی دے دو۔میراجسم ٹوٹ رہا ہے۔ مجھے مالش کروانی ہے ،دماغ کھْلے گا تو اچھے آئیڈیے بیلوں کی طرح نچھاور ہوں گے،تم دیکھنا تو سہی گاہکوں کی قطاریں لگ جائیں گی‘‘۔
وہ گھر سے باہر نکلا ،تو اس کی نظریں اس ہاتھ کو ڈھونڈھ رہی تھی ،جس نے تاروں سے چوکور ٹوکری میں رکھی رنگ برنگی تیلوں سے بھری چار شیشیاں اٹھا رکھیّہوں۔ وہ کھلی سڑک پر آکر، زیر تعمیر پلازا کی سمنٹ کی سیڑھیوں پر جا کربیٹھ گیا۔ وہاں اونچی سیڑھیوں پر مالشیا بیٹھتا تھااور نچلی سیڑھی پر بیٹھے آدمی کے لیے چکراتے ہوْئے سر اور ڈوبتے ہوئے دل کے لیے وہ بہت ہی موزوں جگہ تھی۔
جے جے شیو شنکر کی نظریں وہاں سے گزرتے لوگوں میں مالشیے کو ڈھونڈھ رہی تھیں۔ وہ بْڑبْڑیا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہاں چلنے پھرنےوالے لوگ بھی بدل گئے ،پہلےسفید پائِجامے اور چکن کے کڑھے کرْتے میں لوگ چلتے پھرتے نظرآتے تھے ،اب ٹخنوں سے اوپر اور کولہوں کے نیچے بندھی تنگ پتلونیں نظر آتی ہیں۔ہیرا منڈی کی اپنی ایک شان تھی ۔اس کا اپنا ایک دستور تھا ۔اپنا ایک سلیقہ تھا۔ بھئی، اس شہر میں اپنی طرز کا ایک چھوٹا سا لکھنو تھا ادب و آداب شعر و ادب کا گہوارہ ، صرف نواب لوگ آتےکسی ٹٹ پونجیے کو تو اندر گھسنے کی اجازت نہ تھی۔ لو دیکھ لو، ابطبلے سارنگیوں کی زندہ آوازیں کےٹیکنو اور ریپ میوزک کھانے والے ڈھابوں پان سگریٹ کے کھوکھوں سےآرہی ہوتی ہیں۔ اس علاقے کا پرانا فصیح عکس ایک عجیب و غریب چوں چوں کا مرْبّہ بن گیا ہے۔
پرانے طرزِ تعمیر کا کوٹھوں سے زندہ ہارمونیم کی جگہ کمپیوٹر سے ترتیب دی ہْوئموسیقی میل کھانےکےبجائے ایک دوسرے پر جگت بازی کرتی ہے‘‘۔ اتنے میں اسے برابر سے طبلے کی زندہ آواز نے حیران کر دیا ۔طبلے، ہارمونیم اور گھنگروں والی دوکانیں تو لوگ کب کی بڑھا چکے تھے۔اس کے کانوں اور نظروں نےطبلے کی آواز کا پیچھا کیا تو ایک مالشیا گنےے سر پر تیل کی مالش ،طبلے کے انترے سے جو تھاپ سے میل کھاکر دھپ کی آواز پررکتا تھا۔اور پھر شروع ہو جاتا تھا۔بیک وقت دو آوازیں مالشیے کے لیے اٹھیں ”اوے جانی واکر،جھالر والےطبلے کے بعد میری باری ہے“۔ وہ آوازین مالشیے کے قریب پہنچیں جو جے جے شیو شنکر دوسری شخص کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھیں۔ تو جوان شخص بڑے سلیقے کے کپڑوں میں ملبوس ،مہنگی گھڑی کلائی پر بندھی، مہنگے جوتے پاؤں میں غیر ملکی جل سے
،چمکتے بال سر پر،پتلون سے ملتی رنگت کی جرابیں، پیروں میں لیے نوجوان نے پہل کرتے ہوےکہا ”جے جے چچا پہلے آپ ،مجھے کچھ جلد ی نہیں ہے۔ جے جے کے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ ’’آپ کہیں آپا لکھّی کے بیٹے تو نہیں؟“ ’’جی میں وہی ہوں‘‘۔ دونوں مالشیےکو چھوڑ کر باتیں کرتے آگے بڑھ گئے۔جے جے شیو شنکر نے کہا۔ ”تم تو ابھی پیدا نہیں ہوئے تھےجبمیں آپ کی والدہ کا کوٹھا کرتا تھا۔وہ بھی کیا دن تھے ! پوری منڈی میں لکھّی بائی کا ڈنکا بجتا تھا ۔ دروغہ اٹھ کرسلام کرتا تھا۔ لکھّی بائی توبس، کیا بتاؤں۔۔۔
ہیروں کی منڈی پر تو اب‘‘سیاہ رنگ کے گنجے کی مالش کروانے والے کو دیکھتے ہوئے۔۔۔۔۔’’کوئلے کے دّلالوں نے قبضہ جما لیاہے۔ لیکن بیٹے تم بتاؤ کیا کرتے ہو‘‘لکّھی بائی کے نام سے کچھ آنکھیں چْراتے ہوْےْ۔’’ جے جے چچا، خدا کا بڑا کرم ہے‘‘۔ہاتھ سے دائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے’’ اس بازار میں میرا سونےکے طِلہ دار جوتوں کاکاروبار ہے‘‘۔بےاختیاری میں، جوتوں کے کاروبار کا لفظ، اس کے منہ سے اونچی آواز میں نکلا۔یہ سنتے ہی جے جے کے دماغ میں بغیر مالش کراےْ اسےپھنسانے کی چال آنا شروع ہوگی۔
اسے کس طرح فلیٹ پر لےجاؤں۔ نوجوان بڑے رازدارانہ طریقے سے قریب آیا،خود بخود ہی جال کے پلوّ کو اْٹھا کراِدھراُدھردیکھ کرسرگوشی سے،’’ مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔ لیکن یہاں نہیں جہاں بھیڑ کم ہو‘‘۔چچا خوش ہْوا کہ اسے جال پھلاانا نہیں پڑاِ ۔یہ تو خود ہی جال کے لحاف میں گھس آیا ہے،دونوں چہل قدمی کرتے ہوئے سبزی منڈی کی جانب چل دیے،نوجواں نے کہا’’ ہم فارمرز مارکیٹ چلتے ہیں ‘‘چچا سوچتے ہوے،غالبا ًسبزی منڈی کا نام تبدیل ہوگیا ہے جیسے کوٹھے کو اب فلیٹ کہتے ہیں۔ راستے میں سنسان جگہ دیکھتے ہوئے نوجوان نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔ ’’ آپ تو میرے خاندان کو اچھی طرح جانتے ہو‘‘۔جے جے نے کچھ ایسے انداز سے
سر ہلایا جیسے ہاںکرنا ،بھی اندازہ لگا نا ہو۔نوجوان نےدونوں جانب سر گھما کر یقین کر لیا کہ کوئی پہچان والا تو قریب نہیں۔
جے جے نے پوری توجہ سے کہا ”کْل کر بات کرو۔ میرا سینہ رازو ں کی منڈی ہے جس میں ہیروں سے بھی مہنگے رازدفن ہیں ۔ اس تہہ خانے کی چابی صرف اور صرف آپ کے پاس ہوگی۔ جوکوئی بھی نہیں کھوْل سکے گا ،میں بھی نہیں، جب تک آپ خود نہیں کْھولیں گے‘‘۔ ’’جے جے چچا۔ میں نےپتا لگانا————-میں بہت پریشان ہوں ،چچا کچھ پتہ ہےمم مم۔۔۔۔میرا۔۔۔میرا باپ کون تھا۔ آپ کو پتا ہے اس منڈی سےنہ ڈولی اٹھتی ہے اور نہ ہی بارات جاتی ہے۔شادیانے بھی لڑکیوں کےپیدا ہونے پر بجتے ہیں۔لڑکوں کو بنِا تعلیم وتربیت کے چھوڑ دیا جاتا ہے، آدھے تودلّال بن جاتے ہیں۔ باقی کے سفید بورڈ سونگھ کر ان نالیوں میں پڑے مر جاتے ہیں ،کوئی ان کو پوچھتا ہی نہیں۔لیکن میںہّمت کر کے اس ماحول سے نکل گیااور کاروبار میں گھس گیا۔اب میری چار دوکانیں اس منڈی میں دو لبرٹی مارکیٹ میں ہیں‘‘۔
جے جے نے مناسب موقعِ کا فائدہ اٹھاتےہوئے کہا”بیٹے فکر کیوں کرتے ہو اس کا حل میرے پاس ہے۔ فوڈ سٹریٹ کے فلیٹ میں دو بہنوں کو میں جانتاہوں۔ ان کے پاس روحوں کو طلب کرنے کا علم ہے۔ تم بھی اپنی والدہ لکھّی بائی کی روح کو بلوا لینا۔ اس دنیا میں صرف اور صرف عورت ہی جانتی ہے کہ اس جسم کے باغیچے میں کس کےبیج سے گلاب کا پھول نےسر نکالا تھا۔لیکن یہ عمل کچھ مہنگاہے۔سوچو ،تم اپنی والدہ کی روح سے باتیں کرلو گے۔باتیں آدھی ملاقات ہوتی ہیں ،تم ، اپنی ماں کی آواز سن لو گے‘‘،نوجوان جوش میںبے قابو ہو گیا۔”پیسے کی تم فکر نہ کرو ،تم مجھے ابھی لے چلو‘‘۔
دونوں شبینہ اور حسینہ کے فلیٹ میں پہنچے۔جے جے شیو شنکر نے سیڑھیوں میں لگی گھنٹی کو یکے بعد دیگرے تین مرتبہ بجایا۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ جے جے اکیلا نہیں کسی گاہک کے ساتھ ہے تاکہ حسینہ اور شبینہ جلدی سے تیار ہو کر کمرے کی چیزیں قرینہ سے رکھ لیں۔
جے جے اور نوجوان اندر داخل ہوئے۔ میز پر سفیدمیز پوش اور اس پر سفید موم بتی جل رہی تھی۔ کھڑ کی کا دروازہ بند تھا۔ تینوں کرسیاں میز کےتینوں اطراف میں رکھ دی گئی تھیں۔ قدموں کے آہٹ سے ریشین غالیچے پر بیٹھی بّیم نےاپنا سر اٹھاکر کچھ پہچاننے کی کوشش کرنے لگی۔ آج کس کی روح آئے گی، اور بے اعتنائی سے سرکو اپنے بازؤں میں چْھپایا ،ایسے لگا جیسے کہہ رہی ہو کیسے کیسے لوگ میرے دل کو جلانے آ جاتے ہیں۔جے جے نے نوجوان کو صوفے پر بٹھایا اور خود یہ کہہ کر چلا گیا۔’’ میں ذراجانی واکر سے سر کو چکرانے کا علاج کروا لوں۔اور ہاں ، مجھے ملےِ بغیر گھر نہ جانا‘‘۔ جوتے دیکھتے ہوئے وہ زور سے بولا ‘‘جیسے اپنے آپ سے نہیں، نوجوان کوسنا رہا ہو،’’سالے یہ بھی پھٹ گئے ہی۔ اور موچی بھی مجھے دیکھ کر منہ پھیر لیتا ہے۔میں نیچےسڑک پر تمہارا انتظار کروں گا‘‘۔
شبینہ نے نوجوان سے کچھ سوال پوچھے،اپنی نوٹ بک میں نوٹ کر تےہوے۔ ’’ مرد ہے یا عورت ‘‘نوجوان حیران ہوا –’’جی کون ‘‘شبینہ نےنوٹ بک سے سر اٹھاتے ہوئے ”روح“ نوجوان نے کہا”عورت،اور نام لّکھی بائی ہے‘‘۔نوجوان نے اپنی ماں کا نام بتاتے ہوئے کہا ،تاکہ وہ ایک اورسوال سے بچ سکے۔ شبینہ نے نوٹ بک میں نوٹ کرتے ہوئے۔”باپ“ نوجوان خاموش رہا۔ شبینہ نوجوان کو دیکھتے ہوئے’’ با پ نامعلوم ‘‘اور ولدیت کے خانے میں نامعلوم لکھ دیا۔ نوجوان نے نے آہ بھر کر کہ،’’ انہی کا تو مجھےمعلوم کرنا ہے‘‘۔’’ آپ فکرنہ کریں ،سب معلوم ہو جائے گا۔ لیکن یہ خاصا مشکل عمل ہے۔ سامنے والی کرسی پر تمہاری والدہ کی روح کو بلواؤں گی۔ اور تم سب سوال پوچھ لینا۔ تم وہاں سامنے والی کرسی پر بیٹھو ۔ اور خود درمیان والی کرسی پر بیٹھتے ہوْےْ کہا، یہ خاصا مشکلعمل ہے اس میں میری بہن کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ تم ایسے سوال مت کرنا جس سے روح ناراض ہو جائے۔ پچاس ہزار روپے آپ پہلے ایڈوانس دے دیں‘‘۔ نوجوان نے پیسے بٹوئے سےنکالتے ہوئے پوچھا’’اگر روح نہ آئی ،تو اسصورت میں‘‘، شبینہ نے کہا اس صورت میں آپ کے پیسے لوٹا دیے جائیں گے۔ نوجوان نے پیسےشبینہ کو تھماتے ہوئے پوچھا۔
’’کیا آپ میرے اور آپ کی بہن کی نفسیاتی تربیت کو یکجا کر کے میرے دماغ کے سوئے ہوْئے حصّے سے جواب تو نہیں نکلوا رہی ہیں ‘‘۔ شبینہ نےناگواری سے جواب دیتے ہوےْ کہا۔ ’’یہ کوئی ماہر ِنفسیات کی مریض کے ساتھ نشست نہیں ۔باقاعدہ روح آپ کی اور اپنی نشانیاں بتائے گی۔ روح توبس ایک دھوئیں کی مانند ہوتی ہے‘‘۔ نوجوانے جھٹ سےاپنےسا ئیسض شعور سے متاثر کرنے کی کوشش کی اوراپنے مؤقف کا رخ موڑتے ہوے۔’’ روح تو میتھائل گیس سے بنتی ہے جو بےر نگ بی بو بے ذائقہ ہے‘‘۔شبینہ نے تنگ آکر جواب دیا‘‘،اب آپ یہ بھی کہیں گے،’’ جِنات آگ سے بنتے ہیں اور انکو قابو میں لاکر توانائی پیدا کی جاسکتی ہےجناب !یہ سوشل میڈیا کے چٹکْلے ہیں ۔میں تمام ریسیرچ پڑھ چکی ہوں میں آئن سٹائین صاحب کی سنجیدہ شاگرد ہوں۔ اور ان کی کتابوںکا مطالعہ میرے لیےروز کا معمول ہے۔ سب سا ئنسی کلیے خدا اور اس کی مخلوق کو نہ ماننےکے ڈحکوسلے ہیں۔ آپ کو اگریقین نہںو،تو آپ اپنے پیسے واپس لے لیں‘‘۔ شبینہ نے روپوں کی گڈی کو اپنی نوٹ بک سے دھکیلتے ہوئے کہا۔’’ اس عمل میں اعتماد اور اعتبار بہت ضرور ی ہیں ۔ اس صورت میں عمل اثر انداز نہ ہوگا‘‘۔ نوجوان نے معافی مانگتے ہوئے التجا کی’’ میں تو بس یوں ہی ایک اناڑی گاہک کی طرح سودا
خرید نے سے پہلے الٹے ،سیدھے ،سوال پوچھ رہا ہوں، مجھے آپ پرمکمل یقین ہے ،آپ عمل شروع کریں‘‘۔ حسینہ نے آرام سے آرام کرسی کھینچی اور اس پر بیٹھ گئی۔ شبینہ نے نوجوان کو سمجھاتے ہوئے ’’چاہے جو کچھ ہوجائے آپ نے اپنی کرسی سے بالکل نہیں ہلنِا۔ اور متواتر موم بتی کے شعلے کو دیکھتے رہنا ہے ‘‘شبینہ نے پڑھائی کا عمل شروع کیا ۔وہ کسی عجیب و غریب زبان کے الفاظ میں اپنے آپ سے باتیں کرنے لگی۔ سامنی بیٹھی حسینہ پر ایک وجد میں آنے لگی۔ اس کی آنکھیں سرخ ہونا شروع ہوگئیں ۔ وہ کرسی پر اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ کر ٹانگیں لمبی کرکے، پیچھے کی طرف لیٹ گئی ۔اس کا سر کرسی کی پشت سے اوپر کی طرف پیچھے ڈھلک گیا۔ اچانک ہوْا کے زور دار جھونکے کمرے میں آنے لگے۔ دیوار پر لگے کیلنڈر کے پنّے پھڑ پھڑانے لگے۔ ہوا کے متواتر جھونکےکھڑکی کھولنے کی کوشش کررہے تھے۔ جیسے کوئی کھڑکی کو باہر سے دھکّے مار رہا ہو۔ ٹوٹی ہوئی کنْڈی دھکوں کو برداشت نہ کر سکی۔ اور کھڑکی کھل گئی۔ ہْو اکا ایک تیز جھونکا کمرے میں داخل ہوا۔ میز پر رکھی موم بتی بجھ گئی۔ صوفے پر سوئی ہوئی بلی اٹھ بیٹھی اور کھڑی ہو کر اس نے اپنا کُبْ اوپر کی طرف نکال لیا۔ جیسےوہ کسی سے لڑنے کے لےم اسے ڈرارہی ہو۔ اس کےجسم کے بال کھڑے ہو گئے۔ پونچھ کو اس کے کھڑے بالوں نے مزید موٹا کر دیا۔ اس نےعجیب سی آواز گلے سے نکالی ،جیسے بچّہ رو رہا ہو،اور وہاں سے بھاگ گئی۔
حسینہ کے جسم کو ایک جھٹکا لگا اور اس نےلکھّی بائئ کی آواز میں شبینہ سےپوچھا ۔’’ مجھے یہاں کیوں بلایا گیاہے؟‘‘۔ شبینہ نے مودبانہ الفاظ میں کہا ’’آپ کو تکلیف دینے کی معافی چاہتی ہوں۔آپ کابیٹا آپ سے کچھ پوچھنا چاہتاہے‘‘۔ نوجوان بالکل سکتہ میں آچکا تھا ۔اس نے اپنی ماں کی آواز پہچان لی تھی۔ جذبات سے بے قابو ماں کا لفظ موٹر سائیکل کے سائلنسر سے نکلتے پٹاخوں کی طرح ماں ماں ماں کہہ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد جب جوان سنبھلا تو اس نے ماں سے سوال کیا۔ ایک راز جو آپ کے سینے میں دفن ہے ،میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ آپنے اپنی زندگی میں وہ راز کبھی اِفشانہیں کیا۔ حسینہ کے جسم نےپھر جنبش لی اور لکھّی بائی کی آواز میں حسینہ بولی ”ہم کوٹھوں پہ رہنے والیوں کے کچھ اصول ہوتے ہیں ۔لکھّی بائی کے سینے میں بڑی بڑی مہان ہستیوں کے راز ایسے دفن ہیں جیسے پیسہ اخبار کی دفتر میں چھپے قاتل نے پناہ لے لی ہو۔ اورپیسہ اخبار میں اس کی کبھی خبر تک نہ چھپے۔ نوجوان کی آواز بھی فرطِ جذبات سے مغلوب بالکل بدل گئی۔ اْس نے لرزتے ہونٹوں سے پوچھا، ماں میرا اصل باپ کون تھا؟ کیوں کہ سیپ کی کوکھ میں موتی بارش کے کس قطرے سے بنتاہے،وہ تو سیپ ہی بتا سکتی ہے۔لکھّی بائی نےگلہ صاف کیاجیسے کوئی باتاگلنے کے لےن سینے سے کچھ کھینچنا پڑ رہا ہو”ہم اس کھیت کےجانور ہیں،جہاں مائیں بغیر باپکے بچّے جنتی ہیں۔ کچھتاخیر کے بعد،’’ میں نے اس شخص سے وعدہ کیا تھ،بیٹی ہوئی تو وہ لے جائے گا۔بیٹا ہْوا تو تم رکھ لینا۔ بیٹی اس معاشرے کی ناک ہے، اگر بیٹی کوٹھے پر پہنچ گئی تو بڑوں بڑوں کی ناک کٹ جاتی ہے۔
بیٹاہْو اتو تمہارے بڑھاپے کا سہارا چھوڑدوں گا۔ جبکہ کوٹو ں کی راجدھانی میں بیٹے کے سر پر تاج نہیں رکھا جاتا‘‘۔ نوجوان سے ضبط نہیں ہوا۔ ’’واہ ! ماں کی ممتا بھی سٹےّ اور جوئے کے کاروبارمیں بیٹے کو ہارنا گھاٹے کا سودا نہیں سمجھتی۔ اور ہیروں کی اس منڈی میں بیٹی کے سر پر دھرے تاج کے ہیرے ،مرنے تک اس جْوئے کی سرمایہ کاری سے آتے ہوئے منافع کا سود بھی نہیں چھوڑتی‘‘۔ حسینہ کا ڈھلکا ہوا سر اوپر اٹھا، لکھّی بائی نے اونچی آواز میں کہا”مجھے تمہارے بھاشن نہیں سننے۔ مجھے بے آرام مت کرو ،مجھے یہاںتو سُکھ سے رہنے دو مجھے واپس جانا ہے‘‘۔ نوجوان نے پھر اپنا سوال دہرایا ’’میرا باپ کون تھا؟۔ نہ بتانےکا وعدہ تو آپ نے اپنی زندگی میں کیاہوگا۔اب تو آپ بتا سکتی ہیں‘‘۔ حسینہ کا چہرہ اس کی اآنکھوں کی طرح سرخ ہوگیا۔’’انسان کو جانشین اپنے ہی خون سےبننا ہوتا ہے ، خواہ وہ رشتہ حلال ہو یا حرام ہو، تمہارا باپ وہی ہے جس نے تمہیں اتنےبڑےکاروبار کا مالک بنایا ہے‘‘۔’’سیٹھ کھّسے والا میرا باپ ہے فاروق گھْسّہ؟‘‘۔نوجوان نےحیران ہو کرپوچھا۔نوجوان نے اپنے پاؤں میں پڑے چمکیلے سونے کی تاروں والے کھسے کو پاؤں سے اتار کر چوما’’پاپا !۔میں تیرے قدموں کی خاک ہوں‘‘۔ کھْسّے کو اپنے سر پر رکھ لیا ایک زوردار جھونکے کے ساتھ کڑاکی کے پٹ بند ہوئےاورپھر کھْلے حسینہ کا جسم پسینے سے شرابور ،چہرہ بالکل پان کے بڑے پتے ّپر چمکتے اوس کے قطروں سے بھرا تھا۔
لکھّی بائی کی روح حسینہ کے جسم سے رخصت ہوچکی تھی۔ حسینہ کے جسم میں اس کی اپنی روح واپس آگئی۔ وہ اْٹھ کر بیٹھ گئی اس نے شبینہ سے پانی مانگا۔شبینہ نے نوجوان کو رخصت کرنے کے لئے دروازہ کھولا اور خود باورچی خانے سے حسینہ کے لئے پانی لینے چلی گئی۔ وہ پانی پی کر جب واپس آرہی تھی،توراہداری میں لٹکے ہوئے گیلے کپڑوں کے ساتھ شلوار کا آزار بند اس کے ماتھے سے ٹکرایا۔ اس نے آزار بند کو تار سے کھینچا اور حسینہ کو پانی دینے کے بعد، کھْلی کھڑکی کے کواڑوں کو بندکر کے ،ٹوٹے ہوئے کنڈے میں آزار بند گزار کر ڈھیلی گرہ سے باندھ کر بند کردیے۔ وہ واپس آکر تین نشستوں والے صوفے پر بیٹھی ہی تھی ،کہ کالی مانو بلیّاْچھل کر اس کی گود میں بیٹھ گئی۔ شبینہ بند آنکھوں سے مانو کی ملائم کھال پر ہاتھ پھیرتی رہی اور نوجوان اور اس کی باپ کے بارے میں سوچنے لگی،باپ کا بیٹے سے تعلق اور اس کی ماں کےباپ سے خفْیہ جِنسی تعلق نے اْس کی انگلیوں میں ہلکا سا برقی جھٹکا دیا ۔اْس کا اپنا جسم کاغذ کا صفحہ محسوس ہونے لگا۔ اْس کی انگلیاں کاغذ کے مختلف کونوں پر رینگیں لگیں۔کیا عمدہ کہانی بن سکتی ہے، اگر مجھے لکھنا آجائے ،تو کیا بات ہے۔ کہانی کے لفظوں سےکھْسّے کے سنہری تاروں کو بْن کر ،بلّی کے ملائم بالوں سے ایک ایک لفظ ،اس کی انگلیوں کو لکھنے کی ہوس پورے جسم میں مَستی بَھرنے لگی۔کیا لکھنا بھی جنسی خواہش کی تسکین ہے؟۔
اچانک گھنٹی کی آواز نے اس کےبرہنہ خیالات کےڈھیلے آزار بند کو کسدیا۔ اس نے دروازےپرایک خوبصورت دوشیزہ کو کھڑاپایا۔’’کیا روحوں کی سراےْیہی ہے۔جہاں وہ نغمہ سارنگ کے دلکش تار آزادی سے چھیڑسکتی ہیں؟‘‘،جی ہاں !یہ وہی جگہ ہے جہاں روحیں جھوٹ کے لباس سے بے نیاز ہو کر اپنے سچ کا افسانہ سناتی ہیں‘‘۔ شبینہ کی نظر یں خوبصورت سترہ برس کی دوشیزہ کےجسم کے نشیب و فراز کا جائزہ لیتی دائیں گال پر موٹے تِل پر بے اختیارجم کر رہ گئیں، جیسے کوئی افسانہ چھپا ہو۔
اس کی انگلیاں اس تِل کو چھونا چاہتی تھی،جیسے اسے لکھنے کیلذّت اسےچھوْنے کی چاہت میں مل رہی ہو۔ شبینہ نے ہاتھ آگےبڑھایا ۔ وہ خوبصورت مخروطی انگلیوں کی ملائمیت محسوس کرنا چاہتی تھی،لیکن نرم انگلیوں نےفون کی سکرین پر گوگل میپ کو دکھاتے ہوئے ہاتھ ملانے سے اجتناب کیا۔ ’’میرانام سکینہ ہے ‘‘شبینہ نےشرمندگی سے بچتے ہوئے صوفے کی جانب ہاتھ کی سمت تبدیل کرلی۔ سکینہ اپنے قدم نہیں اٹھا رہی تھی۔ وہ جیسے آبی فرش کی سطح پر تیرتی کشتی میں کھڑی صوفے کی جانب بڑھ رہی تھی۔مانو بّلی نے اپنے نتھوں پر زور دے کر کچھ سونگھنے کی کوشش کی اور ناکام ہو کر وہاں سے بھاگ گئی۔ شبینہ نے سکینہ کے ترچھی نقوش پر اپنی آنکھیں گاڑتے ہْوئے پوچھا۔ ’’کس روح کی چاہت نے آپ کو بے تاب کر رکھا ہے‘‘۔ سکینہ کا چہرہ سورج مکھی کے پھول کی مانندکھل اٹھا۔اس کے لب گلاب کی پتیوں نما شبینہ کے سوال سے تھر تھراےْ،’’ سعادت حسن منٹو‘‘۔
شبینہ کی آنکھیں جو جمالیاتی اعتبار سے جارحانہ انداز میں سکینہ کےجسم کو پرکھ رہی تھیں اور پھیل گئیں، شبینہ کے لب تھتھراےْ ،’’مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو‘‘،اب سکینہ نے جار حانہ انداز میں جواب دیا ’’جی ہاں ،سعادت حسن منٹو‘‘۔ شبینہ کے گال ٹمٹمانے لگے۔’’ فنِ افسانہ نگاری میں حتی الامکان ان کی گفتگو میرے لیے تاسیس افسانہ نگاری ہو گی ،لیکن آپ کا ان سے کیا رشتہ ہے؟‘‘۔ سکینہ نے لمبی سانس کھینچ کر روک لی۔’’ یہی تو معلوم کرنا چاہتی ہوں‘‘۔ اس نےسانس چھوڑتے ہوئے جواب دیا۔ اپنے کندھے پر لٹکے پرس کے منہ میں پیوستہ دانتوں کی ز پ کوکھوْلتے ہوئے۔’’ روحوں کی مشکلات سے بھرے سفر کا کرایہ کتنا ہے؟‘‘۔ سکینہ نے کچھ تاخیر سے جواب دیتے ہوئےکہا۔ ’’ہم خاکی جسامت والوں سے کاروبار کرتے ہیں، نوری، ناری سے پیسوں کے لین دین کیاجازت ہمارےمذہب میں نہیں ہے‘‘سکینہ نے کہڑا کر کہا ’’پھر جلدہی کریں، مجھے تاخیر سے الجھن ہو رہی ہے‘‘۔ شبینہ نے اس کی ناشکر گزاری کو نظر انداز کرتے ہوْئے حسینہ کو بلایا۔’’ عمل کی تیاری شروع کردیں!‘‘۔
حسب ِمعمول موم بتی جلائی۔ نوٹ بک ہاتھ میں تھامی، اور تاکید کرتے ہوئے کہا ’’حسینہ کے جسم میں روح پناہ لے گی۔ آپ کا کوئی جذباتی رّدِعمل حسینہ کو جسمانی نقصان پہنچا سکتاہے‘‘۔ سکینہ نےتسلی دیتے ہوئے کہا۔ ’’میری طرف سے آپ کو کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ لیکن منٹو صاحب کے عمل و فعل کے بارے میں کوئی ضمانت نہیں دے سکتی ‘‘آرام دہ کرسی پر لیٹی ہوئی حسینہ اٹھ بیٹھی۔’’ منٹو صاحب کا ہر ردعمل ہمارے سر آنکھوں پر۔ ہم توانکے قلم کا خراج اپنی زندگی کے بدلے سے بھی نہیں چکا سکتے ۔ منٹونے ہماری تکلیفوں سے بھرا انجکشن معاشرے کے سینے میں اتارا ہے۔ ان کے قلم میں بھری ویکسین نے معاشرے میں پھیلےدماغی پھوڑے کا علاج کیا ہے ‘‘۔ سکینہ نے احتجاجاً کہا”شروع کریں“ شبینہ نے عمل شروع کیا۔ ہوَا کی سرسراہٹ اورزوردار جھونکے سے حسینہ کے جسم میں پھڑپھڑاہٹ شروع ہوئی۔ اْس نے مردانہ آواز میں کہا۔ ” میری جّنت سے با اختیار عہدہ داران اتنے خائف ہیں؟، انہوں نے اس گندے گڑھے کے باہر اتنی موٹی بادشاہی قلعے کی دیوار کھڑی کر دی ہے، کیا دیوار کی دوسری جانب بادشاہوں کی مسجد میں مذہب غیرمحفوظ ہے؟، یہاں آنے سے پہلے کیا جبرائیل کوبھی اپنے پرَ سٹیٹ بینک کے لاکرز میں جمع کروا نےپڑیں گے؟، کہ کہیں جل نہ جائیں !، ننھےفرشتے جو ان نالیوں میں بہہ جاتے ہیں ، اگران کے پر اگ آئیں ، تو بااختیار حضرات کی پگڑیاں کہیں بسنتی رنگ کی پتنگوں میں نہ اڑ جائیں ‘‘۔
سکینہ نے سوال کیا، ’’مجھے پہچانا ؟ ‘‘،حسینہ کے گلے سے منٹو کا ایک زوردار قہقہ نکلا، ’’میں کیسے بھْول سکتا ہوں، تم تومیری بہشت کی حوا ہو ‘‘ ، مٹو نے حسینہ کی قمیض اْٹھاتے ہوْےْپسلی سے اْدھڑے زخموں سے خون رستا ہو ا دکھایا۔’’دیکھو ،میری ایک پسلی غائب ہےاسی پسلی سےمیں نے تمہیں وجود دیا ہے، میرےالہام بالخصوص جو میرے باغ عدن میں مجھ پر نازل ہوتے ہیں، اور ہر الہام پرمجھے اپنی ہی پسلی سے کبھی حّوا کو ،کبھی سکینہ کے روپ میں کبھی ٹھنڈے گوشت کی بو سے، معطّرٹانگوں پر کالی شلوار چڑھا دیتا ہوں۔اسے چاہے کوئی اپنی ہتک ہی کیوں نہ سمجھے، میں لفظوں کے بھاری پن کو تولتا ہوں۔ انہیں گنتا نہیں ،میرا الہام ہی میرے افسانے کی کتابتِ افلاک سے مجھ پرنازل ہوتا ہے۔میری تحقیق میری عمر کی لمبائی سے زیادہ گہری ہے۔تم میرے قلم کی تخلیق ہو۔ سکینہٹانگ پر ٹانگ دھرے بیٹھی تھی۔ اس نے پلکوں کو کھولتے ہوئے، دماغ میں کھَولتے ہوئے، سوالوں نے اس کی کمر کو آگے کی طرف دھکیل دیا۔’’ کیا تم سمجھتے ہو میری زندگی کاغذ کی صفحات پر فٹْے سے کھینچی ہوئی سیدھی لکیروں پر بکھرے ہوئے وہ الفاظ ہیں جو تمہاری خود لذّتی کا نتیجہ ہیں؟۔تمہارے دماغ کی دہلیز پر رکھی میری شلوار کاآزار بند کیا تمہارے دماغ کی انگلیوں نے نہیں ڈھیلا کیا۔ تمہارا لطف، تمہارے قلم سے نکلا ہوا وہ ماّدہ ہے، جس میں تیَرتےہوےنطفے میں ایک پونچھ والے کئی جراثیم ہیں۔ جو شلوار کی اندر ایک پھلتے ہوےوجود کو جنم دیتا ہے۔ اس وجود کے دھڑپر بندھاآزار بند ہے۔ جس کو تم نے اپنی انگلیوں کی جنبش سے کئی بار ۔۔۔۔۔تم بتاؤ کتنی بار۔۔۔۔۔اس وقت تک کھلتا رہا جب تک میرا جسم بالکل نم نہیں ہوگیا۔ میں بے حِس ہوگئی۔ اس کے بعد پھر مجھے کچھ خبر نہیں میں کون تھی؟ وہ کون تھے ؟اور یا وہ تم تھے؟‘‘۔حسینہ کے چہرے پر تکلیف دہ مسکراہٹ پھیلی، جو منٹو کے درد سےپاک ،سْکڑے ہوئے ہونٹوں سے چھلک رہی تھی۔’’ تم کیا سمجھتی ہو ،میں اس دماغی تکلیف سے نہیں گزرتا جس سے میرا قلم نیلی سیاہی کی جگہ خون کی قے کر رہا ہوتا ہے!۔ جب میرا اپنا کردار ہی مجھے نہیں سمجھ پایا ،تو میں ان عدالتوں کے تنخوادار قاضواںاور اْن کی لگائی ہوئی دفعات جواس انصاف کے ترازو میں تولی جاتی ہیں جن کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی ہے۔ وہ انسان نہیں ،کوئی درندہ ہی ہو گا ، جو میرے کرداروں کی تکلیف سے جِنسی لطف ڈھونڈ رہا ہو گا۔ چلومان لیا جو، لوگ کہتے ہیں، تو ٹھیک کہتے ہوں گے۔ آْو میںَتمہیں حقیقت دِکھاتا ہوں۔کیاتم اس بازار کی عورتوں سے ِملی ہو۔ تمہاری ساتھ تو ایک مرتبہ۔۔۔۔اور سکینہ خیالات کی دنیا میں کھو گئی،
ا س کے دماغ سے کھڑاک کھڑاک کی آوازیں آنے لگیں گویا کہ وہ ہیرا منڈی کےکسی کوٹھے یا فلیٹ جس میں وہ بیٹھی ہو، وہ ریل گاڑی کا ڈبّہ تھی جس میں سے درخت بھاگتے نظر آرہے تھے ۔وقفہوقفہ کےساتھ روشنی ڈبّے میں آتی اور پھرغائب ہو جاتی۔ڈبّہ میں بیٹھا سکینہ کا باپسکینہ کو ڈھونڈھ رہا تھا۔ منٹو بولا”تمہارے ساتھ دوران جنگ ساآآنلیس کے غدر میں ایک دفعہ ہوا ،ان عورتوں کے ساتھ ساتی لیسکاغدرہر روز نہ جانے کتنی بار ہوتا ہے ۔ تمہارا باپ تو پاگل ہو گیا تھا ،تمہارے لیے، لیکن ان کی مائیں اور باپ خوش ہوتے ہیں۔ آج میری بیٹی نے اتنے مرد بٹھائے ہیں ،کیا دنیاکی گنس بک میں ان عورتوں کے آزار بند کھلنے کا ریکارڈ ہے۔ ان عورتوں کی تکلیف کا جشن منایا جاتا ہے۔ کیاتم نے کبھی ان کی آنکھوں سے خون نکلتے دیکھاہے۔ ہاں میں نے دیکھا ہے، یہ حقیقت کی سسکیاں ہیں ،خدا اور زمین کی حّوا ایک تمثیل ہے۔ اس بے زاری کا نظریہ ہی تاریخِ انسان ہے۔ اس تمثیل کے کئی افسانے ہیں جو حقیقت کا روپ ڈھال کر اپنی ضرورتوں کے پتّھروں میں دبی ان کی سسکیاں اور سانسیں تب تک نکلتی رہتی ہیں جب تک وہ اپنی ٹانگیں نہ پھیلا دیں۔ ہرروز یہی سب کچھ ان کوٹھوں پر ہوتاہے ‘‘شبینہ پاس بیٹھی نوٹ بک میں پوائنٹس لکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں نم ہویئں اور نوٹ بک پر ایک خون کے قطرے کی موٹی آوز دھپ سے آئی۔ جسےک شبینہ کی آنکھ خون کے آنسو رونے لگی ہو۔ منٹو کی آواز حسینہ کے حسین اور شفاّف گلے سے ایسے نکلی گویا گلے کی رگوں سےسرخ خون صاف نظر آرہا ہو۔’’ انسان کی اصل حقیقت تو اس کی سوچ ہے ورنہ وہ ہڈیوں کا ایک گٹھّا ہے۔ موت کا ذایقہ تو ایک بار سب کو چکھناہے۔ لیکن تلخ زندگی کے کڑوے گھونٹ ہر لمحے نگلنا پڑتے ہیں۔ کتنا آسان تھا میرے لیے کہ میںَ جیب میں پتھر ڈال کر ساحل سمندر پر ورجیناؤولف کی طرح نکل پڑتا، بالجبر کی دل خراش چیخیں سننے کے لیے وین گاف کی طرح کا اپنا کان کاٹ لیتا۔ پاگل ہونا تو آسان ہوتا ہے۔میں نےبھی فرار حاصل کرنے کےلیے فاونٹن ہاوْس میں پناہ لی تھی، آسان تھا میرے لیےپستول کی گولی سے اپنی کھوپڑی ارنسٹ ہمینگ وے کی طرح اڑالیتا،میرتقی میر کی طرح دیوانگی کا شکار گھر پر ہی زنجیر سے بندھ جاتا۔ موت تو بہت آسان ہے۔ زند گی کی موت مرنےکے لیے ٹھرے اور کپی کی تلاش میں اپنے ہی گھر کی الماری سے بچوں کے کھانے کی پیسے چرانے پڑتے ہیں۔ میری روایت سے بغاوت ہے،بٹوارے کے خلاف بغاوت میرے جسم کی تقسیم تھی۔ بھڑکتے ہوئے شعلے ہی میرے افسانوں سے نکلتے ہیں جو آنکھ کے راستے جسم کو جھلسا دیتے ہیں۔ معاشرے کے جھلسے ہوْئے چہرے کا مرہم میری تحریروں کے ہاؤن دستے میں پستا ہے۔
حسینہ کے جسم سے منٹو اْٹھ کھڑا ہوا ،اْس کا ہاتھ اس کی پسلی پر تھا۔ اْس نے قمیض کا پلو اوپر اٹھا کر دیکار۔ اس کی پسلی سے خون رِس رہا تھا۔حسینہ نے ایک ہاتھ اپنی پسلی پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے سکینہ کو اٹھنے کا اشارہ کیا، اس کا ہاتھ پکڑا اور دونوں خواب گاہ میں چلے گئے۔ ہوَ ازور سے چل رہی تھی۔ ہوَا بڑے ہی زور سے چل رہی تھی ،ہو اکے زور دار جھٹکے کھڑکی کھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کھڑکی کے سنہرے پھولوں سے تراشے ہوئے فریم میں تصویرِکائنات میں کھڑا حسینہ کا وجود رنگ بھر رہاتھا۔ ہَوا کے جھونکوں نے اور زور پکڑ لیا۔ کڈہےمیں مزید مزاحمت کی ہمّت نہ رہی۔ کنڈے میں بندھا ہوا آزار بند کھل گیا۔ کھڑکی کے اوپر دیوار پر پتلی چھڑی میں پرویا ہوا پردہ ایسا گرا جیسے تصویر کائِنات برہنہ ہوگئی ہو ۔ ہوا کے جھونکوں سےزور پکڑنےکےبعد ،طوفان تھم گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد سکینہ اور حسینہ باہر ڈرائنگ روم میں واپس اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئیں۔ پھرایک تیز ہوَا کے جھونکے سے کھلی کھڑکی کے پٹ کھڑ کھڑاےْ۔منٹو کی روح کے پَر بھی پھڑپھڑاے اور وہ تصویر کائنات سے غایب ہوگی۔ حسینہ نے اپنی آرام دِہ کرسی سے کھڑے ہو کر اپنی قمیض کے پلو اٹھاکے دیکھا تو زخم غایب تھا۔ پسلیوں پر ہاتھ پھیرا تو زخم کا نشان تک نہ تھا، او ر درد بھی نہیں ہو رہا تھا۔ سکینہ کا چہرہ خوشی سے گَل داوْدی کی مانند کھل اٹھا تھا۔اس نے دیوانہ وار اِعلان کیا شاہد میں حاملہ ہوں۔ تخلیق کےعمل کا ایک خاص مو قعہ اور وقت ہوتا ہے، جو مجھے نصیب ہوا ہے۔ شبینہ نے آگے بڑھ کر سکینہ کو گلے لگا لیا۔ اس کا ماتھا چوما۔ اور اپنی نوٹ بک میں کچھ لکھنا شروع کرددیا۔ اور ایک اچھے میزبان کی طرح سواری تک خدا حافظ کہنے ساتھ گئی۔ ا ْسے دوبارہ آنے کوکہا۔ سکینہ نے جواب دیا ’’میں ضرور آؤں گی‘‘۔
ایک سال کے بعد فلیٹ کی گھنٹی بجی۔ شبینہ نے دروازہ کھولا تو سکینہ اپنی بیٹی کو گود میں اْٹھائے کھڑی تھی۔ حسینہ اور شبینہ نے بچی اور سکینہ کا منہ چوم لیا۔ساتھ پڑے فرج سے مٹھائی کا ڈبّہ نکال کر سب کا منہ میٹھا کروایا۔ شبینہ نے اپنے خواب گاہ کی الماری سےایک قیمتی دوپٹہ نکال کرسکینہ کے سر پر ڈال دیا۔
حسینہ کچھ پوچھے بغیر اپنی آرام دہ کرسی پر بیٹھ گئی۔ سفید موم بتی خود بخود جَل اْٹھی۔ کالی بلی اپنے تہ شدہ غالیچہ میں حسینہ اور شبینہ کو گردن ہلا کر باری باری دیکھنے لگی۔ حسینہ کی پسلی میں درد اٹھنے لگا۔ ہوَا کے تیز جھونکے سے کھڑکی کے پٹ لرزے۔ حسینہ کا چہرہ پسینے کی سفید موتیوں کی مانند جگمگانے لگا۔ حسینہ کے بدن میں جھر جھری آئی۔ سعادت حسن منٹو کی روح حسینہ کے بدن میں سما گئی تھی۔ حسینہ نے بڑھ کر بچّی کا منہ دیکھا اور منٹو کی آواز میں بولی۔ وہی ناک نقشہ جنہیں میرےقلم نے بنایا تھا۔ شبینہ نے درخواست کی کہ آپ تینوں تصویِر کائنات میں سامنے قطار میں کھڑےہو جائیں آپ کے وجود کے بنا رنگ نہیں نظر آرہے ، شبینہ کے لب ہلے۔ ’’مقدس روح، ماں اور بیٹی ہی تصویر کائنات کے رنگ ہیں‘‘۔ہاتھ میں قلم کے بجائے ایک کمریہ تھا۔حسینہ کی ایک پسلی غِایب ہوگئی تھی۔ اس نے تینوں کی تصویر اتاری۔ سکینہ نے مسکراکر حسینہ کی روپ میں منٹو سے پوچھا ،اس کی بیٹی کا نام کیا رکھوں۔ منٹو کے چہرے پر ایک کرب ناک مسکراہٹ تھی۔ اْس نے کیمرے کے لینز پر ڈھکے ہوئے ڈھکن کو دیکھااورتھرکتے لبوں سے کہا ۔
’’کھول دو‘‘