نظم ۔۔۔ عبیرہ احمد
نظم
عبیرہ احمد
بس دو اک رات اداسی کی
کچھ لمبے دن، بھاری شامیں
پھر سب کچھ پہلے جیسا ہی ہو جائے گا
چل جائے گی ٹی وی پہ کوئی دلچسپ خبر
سب ہنس دیں گے
پردیس سے ملنے آجائے گی بچپن کی بچھڑی ساتھی
ماتم کی کالی چادر پر یادوں کی دھنک پھیلا دے گی
اک اپنے کی پہلے جیسی پر لطف نظر بہلا دے گی
انعام لیے اک بچے کی
معصوم کلیلیں خالی کمرے بھر دیں گی
تم جلدی دیکھو گی گھر کی بدلی صورت
ان مانے جی سے دیکھو گی
دیواریں در ہوجائیں گی
خوشیوں کو راہگزر دیں گی
دفتر کے کسی ساتھی کی خوشی اس غم سےآٹکرائے گی
تم دیکھو گی رفتہ رفتہ
اشکوں میں کمی آجائے گی
لے آئیں گے دنیا کی طرف میلے پردے، جوٹھے برتن
آواز لگائے گا اک دن سونا آنگن
تم پانی دینا بھول گئیں
کیاری میں پھر بھی جی اٹھے گا پھول کوئی
مسکا کر ہاتھ ہلائے گا
چپ رہتے رہتے بول اٹھے گی گنگ زباں
تھوڑا کم ہوجائے گا یہ احساس زیاں
کٹتے کٹتے دل شیشے کے گلدان میں ڈھل جائے گا سکھی
جیون، دل کا موسم ہی تو ہے
دیکھو گی، بدل جائے گا سکھی
عبیرہ