پلائی کی دیوار ۔۔۔ سبین علی
پلائی کی دیوار
سبین علی
شارک نے تیز دانت پیٹھ میں گاڑے اور درد کی چیرتی لہر کے ساتھ میری بند آنکھیں پوری کی پوری کھل کر چھت پر جا لگیں ـ درد کی شدت حد سے گزرنے کے بعد معدوم ہونے لگی ـ چھت سے جڑی آنکھیں نیچے دیکھ رہی تھیں جہاں خاکی رنگ کا لفافہ نما بیگ پھول اور پچک رہا تھا ـ پھر میری نظریں سیلنگ کے اندر شیشے کے چوکھٹوں میں مقید دودھیا انرجی سیورز پر جم گئیں ـ ریلینگ پر لٹکے سرخ پردے تھے یا التباس نظر میں نے ننھی مچھلی کی مانند اس ایکویریم نما کمرے یا کمرے نما ایکویریم کا جائزہ لیاـ ہر طرف آنکھوں کو چندھیا دینے والی روشنیاں تھیں ـ سبز رنگوں میں ملبوس چند سائے بھی حرکت کرتے نظر آئے ـ میں سانس روکے دم بخود روشنیوں کا پیچھا کر ہی تھی ـ
بریتھ …..
بریتھ………
جسٹ بریتھ کی آوازیں ابھریں ـ اسی دوران پیچھا کرتی شارک نے پھر سے تیز دانت پیٹھ میں گاڑ دیے ـ کبوتر کی مانند آنکھیں میچنے کی کوشش ناکام ہو چکی تھی ـ درد سے بے نیاز ہوتی آنکھیں چھت کے ساتھ ساتھ پھسلتی آگے ہی آگے سفر کرنے لگیں ـ
ہولڈ آن …. ہولڈ آن
بریتھ … جسٹ بریتھ کی آوازیں مدھم پڑتی گئیں اور گہرے انتظار میں ڈوبی پکار حواس سے ٹکرائی
عادل …. عادل ….. میری جان
ٹیپو …. ٹیپو …..
وہاں میری آنکھوں کے علاوہ دو اور آنکھیں بھی چھت کے ساتھ ساتھ پھسلتی اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھیں ـ اُس عورت کے پیچھے بھی کوئی سمندری عفریت پڑا ہوا تھاـ میں پوچھنے ہی والی تھی کہ وہ کون ہے اور یہاں کیسے پہنچی مگر اسی دوران شارک نے پھر سے بدن میں دانت گاڑے اس بار گرم گرم لہو بھی ماس کے ساتھ پھسلتے بہنے لگا ـ درد اور نادیدہ دباؤ جسم کو چیرتا چلا جا رہا تھا ـ
بڑے دنوں سے اِس پل کا خوف رات کی گہری تاریکیوں میں چند لمحوں کے لیے ہراساں کرتا نیند اڑا دیتا تھا ـ اس نادیدہ خوف کو جھٹک کر میں آہستگی سے کروٹ بدلتی اور سوچوں کا دھارا دوسری جانب موڑ لیتی ـ اُن دنوں میں گویا پوری کائنات کو اپنے اندر سمیٹے رَگ رَگ میں زندگی اور روئیدگی کے بھید چھپائے ہوئے تھی ـ شب و روز بیتاتے سرمستی حیات کا وہ عالم تھا جہاں تکمیل کا احساس مشاط جاں کو معطر کیے ہوئے تھا ـ چہرے سے لیکر پاؤں تک کی جلد یوں کِھل اٹھی تھی جیسے ماس کے نیچے ستاروں کے جھرمٹ ضو بکھیر رہے ہوں ـ گھٹنوں تک آتے گھنے بالوں میں دھیرے دھیرے برش پھیرتی تو ایک بھی بال ٹوٹا ہوا نہ ملتا ـ بالوں سیاہی میں بھی چمک گھل گئی تھی ـ آنکھوں کی سفیدی سفید تر اور سیاہ پیتلیاں منور ہونے لگی تھیں ـ لیکن اس سرخوشی کے احساس تلے کسی نہ کسی پل وسوسے چیونٹیوں کی مانند رینگتے لگتے ـ کچھ بہہ جانے کچھ پھسل جانے کا اندیشہ سرسراتا، دل تیز تیز دھڑکنے لگتا، مگر اجلے بے داغ لباس کی مہک ان سب وسوسوں کو جھاڑ کے فرش پر پھینک دیتی ـ
اور تب میں پچھلے تین دن سے گہرے نیلے پانیوں میں شارک سے آنکھ مچولی کھیل رہی تھی کبھی میں اسے جُل دے کر نکل جاتی اور کبھی وہ چھوٹی سی شارک ہلکی سی ضرب سے گھائل کر جاتی ـ شروع میں تو اس ننھی شارک کی کاٹ مجھے کسی شیریں احساس کی مانند لگی ـ مگر ہر گزرتے پل کے ساتھ اسکے کے دانتوں کا کاٹ دار درد اور دباؤ کی شدت بڑھنے لگی ـ پھر تیسرے دن شارک نے اتنی تیزی سے اپنا حجم بڑھایا تھا کہ اس کے سامنے میں اُس کے ایک لقمے کے برابر ننھی مچھلی دکھائی دینے لگی ـ
اور بڑے حجم کی شارک جب جب پیٹھ میں اپنے نوکیلے دانت گاڑتی تو باوجود ضبط کے منہ سے ہلکی سی کراہ نکل جاتی ـ اسی آنکھ مچولی کے دوران ضبط کا دامن ہاتھ سے پھسلا ، مٹھیاں ڈھیلی ہوئیں اور میری آنکھیں چہرے سے اُڑ کر ہوا میں معلق ہو گئیں اور بڑی حیرانی سے نیچے موجود اشیاء کا جائزہ لینے لگیں ـ درد کا احساس شدت درد سے گزر کر مٹنے لگا ـ فقط ایک کاٹ رہ گئی تھی ـ کہ اچانک شارک نے آدھا دھڑ چبا لیا ـ
اوں …اوں آؤں ……..
بیڈ کے پاس سٹیل کی ٹرے میں کلیجی رنگ کا چھوٹا سا کمبل لپیٹا پڑا تھا ـ
ہوا میں معلق نظریں نیچے دیکھتے دیکھتے واپس چھت پر پلٹیں اور آگے ہی آگے پھسلنے لگیں
عادل….. عادل…. وہ بدستور کسی کو تلاش کر رہی تھی
آپ یہاں کیسے آئیں؟
عادل کون ہے… اور وہ کہاں ہے ؟ ہش ….. انتظار کر رہی ہوں…. جواب ملا ـ
اوں…. اوں…. آؤں…
وہ پورا گلا پھاڑ کر رو رہا تھا ـ اُس کے رونے کی آواز سن کر میری معلق آنکھیں ہوا سے اتر کر چہرے پر واپس آ گئیں دودھیا روشنیاں، انرجی سیور کے چوکھٹے اور سفید چھت دور ہوتی چلی گئی ـ
میں نے آواز کی سمت سر گھمایاـ چندھیا دینے والی روشنی کی جگہ جھلمل کرتے تاروں کی چمک آنکھوں میں اتری ـ میں نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھا ـ نرس سبز رنگ کے کپڑے میں گلابی رنگت اور سنہری لوئیں والا بچہ لیے کھڑی تھی ـ بچے کی آنکھوں میں تھوڑی سی ناراضی اور ماتھے پر خفگی تھی ـ سارے درد ایک دم سے مٹ گئے ـ
نظریں اب بلائیں لے رہی تھیں. میں واری جاؤں
کانوں میں آواز پڑی
اٹس آ بوائے …
یہ لڑکا ہے
بیٹا ہوا ہے
مبارک ہو
مسکراتے ہوئے میں نے پھر آنکھیں موند لیں ـ اس بار آنکھیں بند کرنے پر تیز روشنیوں کی بجائے اندھیرا پھیلنے لگا تھا ـ
کچھ دیر بعد اسٹریچر لیبر روم سے دور پرائیویٹ وارڈ کے کمرے میں منتقل کر دیا گیا ـ ایک وقفے سے آنکھیں کھولیں تو نرس نے ڈرپ سے گرتے قطروں کی رفتار کم کرتے ہوئے مجھے سونے کا کہا ـ
گہرے پانیوں اور تاریکی میں ڈوبی عمیق گہرائیوں میں اترتے سر یوں ڈول رہا تھا جیسے طویل بحری سفر سے لوٹ آنے والا مسافر بھی کئی راتوں تک وہی ہچکولے اور جھلملاتی لہروں کی حرکت میں خود کو مرتعش محسوس کرتا ہے ـ
بند آنکھوں کے پیچھے مجھے وہ دکھائی نہیں دے رہی تھی مگر اس کی آواز بدستور کانوں کے پردوں پر کسی نادیدہ ساز کی مانند ارتعاش پیدا کرتی رہی ـ
عادل ….عادل ….. ٹیپو
یک لخت ان آوازوں میں شدت پیدا ہو گئی ـ
اتار دو یہ تاریں …. اتارو ساری سوئیاں. مت اذیت دو مجھے ….. مت مارو…..
بھاگ دوڑ کی آوازیں سسٹر … ڈاکٹر … پلیز انہیں بچا لیں … ایک نازک سی آواز فریاد کناں تھی ـ
کتی…. کمینی… دفع ہو جا یہاں سے …
کیوں لگوا رہی ہے مجھے اتنی سوئیاں
مجھے چین نہ لینے دینا …
عادل میرا عادل …..
ٹیپو … ٹیپو
رات کے تیسرے پہر آنتوں میں گڑگڑاہٹ کے ساتھ شدید بھوک بیدار ہوئی ـ بھوک کی حس جاگتے ہی آنکھیں نیم وا ہوئیں ـ میں نے ہلنے کی کوشش کی مگر پورا وجود سن ہو رہا تھا ـ کچھ حواس بحال ہوئے تو اپنے نیچے گرم سیال کی موجودگی نے ساری حسیات بیدار کر دیں ـ پورا بستر لہو سے بھرا ہوا تھا ـ نرس نے اپنی جانب متوجہ پا کر پاس آکر دیکھا اور نائیٹ شفٹ پر موجود ڈاکٹر کو بلانے چلی گئی ـ
سسٹر ابھی فوراً ان کے کنسلٹںٹ کو ایمرجنسی کال کرو ـ post partum hemorrhage کا ایشو ہے ـ
مام رات کے چار بجے ہیں کیا سر اس وقت آ جائیں گے؟
معلوم نہیں لیکن انہیں پیشینٹ کی ساری کنڈیشن بتاؤ یا تو ٹریٹمنٹ سجسٹ کریں گے یا آ جائیں گے ـ
کچھ ہی دیر بعد برف جیسے سفید بالوں والا ڈاکٹر پاس کھڑا لیڈی ڈاکٹر سے تفصیل سن رہا تھا ـ انجکشن دیے گئے پھر ڈرپ بھی بدل دی گئی ـ
ساتھ والے کمرے کو پلائی کی باریک دیوار الگ کر رہی تھی ـ میرے کان ادھر سے دھیمی دھیمی آوازیں بدستور سن رہے تھے ـ
بوڑھے پروفیسر نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا!
کوئی کمپلیکیشن نہیں ہے ـ
ہمت پکڑو بیٹا پیدا کیا ہے تم نے…..
اور پھر بھی یوں ڈھیر ہو گئی ہو ـ ارے بیٹوں کی مائیں تو خوشی سے ہی ہر تکلیف بھول جاتی ہیں.. اور ہاں اب کچھ کھاؤ پیو… واش روم بھی خود جاؤ .. کل جب راؤنڈ پر آؤں تو بالکل تگڑی نظر آنا ـ
ہمت کرو ماؤں والی ـ
چند گھنٹوں بعد میں نے اٹھنے کی کوشش کی چند گھونٹ چائے کے حلق سے اتارے اور پھر لیٹ گئی ـ میرا سارا دھیان ان دو آنکھوں کی طرف تھا جو مجھے لیبر روم کی چھت پر آدھا وجود ساتھ لیے چھت کے ساتھ معلق دکھائی دی تھیں ـ مجھے لگ رہا تھا کہ پلائی کی دیوار سے پرے ساتھ والے کمرے میں وہی خاتون ہیں ـ اور دن کے وقت یہ گمان یقین میں بدل گیا ـ کانوں میں پھر وہی بےتاب آواز گونجی…
تم دفع ہو جاؤ یہاں سے کیوں ستا رہی ہو مجھے ـ
عادل ٹیپو عادل ٹیپو …..
کہاں ہو تم
ہوں…. یہ وہی خاتون ہیں ـ میں نے خود کلامی کی
دن کی سبھی ساعتیں نقاہت اور نیم غنودگی کے عالم میں گزر گئیں ـ شام کا وقت ہوا عیادت کو ملاقاتی آنے لگے ـ مبارک سلامت کی آوازیں گونجیں اور ساتھ والے کمرے سے دبی دبی سوگوشیاں تاسف تسلیاں اور دعائیں ـ
پھر فون پر کسی عورت کے بات کرنے کی آواز آئی! سات بجے تک ملاقات کا وقت ہےـ تم لوگ جلدی آ جاؤ…
بعد میں آنے کا کیا فائدہ …
بس سمجھو آخری وقت آن پہنچا …
ہاں کینسر ہے نا .. مثانے کا ..
آخری اسٹیج پر پتا چلا
بس جی اللہ معافی
بُری حالت ہے ـ
میں دیوار پر ایستادہ گھڑی پر نظریں جمائے دائرے میں گھومتی چھوٹی بڑی سوئیوں کی گردش دیکھنے لگی ـ
سسٹر نے پاس آ کر پوچھا اب کیسی طبیعت ہے ـ
میں نے مسکرا کر جواب دیا اب بالکل ٹھیک ہوں کیا نرسری سے میرا بیٹا لائیں گی؟ میں نے کل رات اسے ڈھنگ سے دیکھا بھی نہیں تھا ـ میرا دل اپنے بچے کو دیکھنے کے لیے بری طرح مچل رہا تھا
ہاں لاتی ہوں ـ آپ کی کنڈیشن کی وجہ سے آپ کا بے بی آپ کے پاس نہیں لایا گیا ـ ویسے پہلے دن سب بچے نرسری میں ہی رکھے جاتے ہیں ـ
اچھا میں واش روم سے فریش ہو کر آتی ہوں آپ کچھ دیر بعد بے بی کو لے آنا ـ میں نے جواب دیاـ
ـ
واش بیسن کے سامنے آویزاں آئینے میں اپنی شکل دیکھی گلابی رنگت پیلاہٹ کا شکار ہو رہی تھی آنکھوں کے نیچے سوجن اور ہونٹوں پر پپڑیاں جمی تھیں ـ جیسے کسی طویل مسافت سے واپسی ہوئی ہو ـ
اچھی طرح ہاتھ منہ دھو کر انگلیوں سے بال سنوارے، چہرے پر حتی الامکان بشاشت پیدا کرنے کی کوشش کی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی کمرے کی طرف واپس پلٹی ـ یہ ہسپتال کا ایک بڑا کمرا تھا جسے درمیاں میں پلائی کی دیوار سے الگ کر کے دو چھوٹے کمروں میں منقسم کیا گیا تھاـ دونوں کمروں کے ساتھ ایک ہی مشترکہ واش روم تھا ـ اپنے کمرے کی جانب جانے کی بجائے میں ساتھ والی مریضہ کی جانب بڑھی دروازے پر پڑا پردہ سرکایا ـ ملاقاتیوں کا وقت ختم ہو چکا تھا ـ سامنے بیڈ پر ایک پچاس پچپن سال کی خاتون لیٹی ہوئی تھیں ساتھ ہی ایک اٹھارہ انیس سال کی لڑکی بھی اپنی ماں کے ساتھ ہی بیڈ پر نیم دراز تھی ـ وہ لڑکی بہت خوش شکل تھی مگر اس کے چہرے پر تھکن اور پریشانی کے آثار بہت واضح تھے ـ غالباً اسی تھکن سے چور وہ ہسپتال کے بستر پر ہی اپنی بیمار ماں سے جڑ کر لیٹ گئی تھی ــ مجھے دیکھ کر وہ اٹھنے لگی ـ میں نے کہا آپ لیٹی رہیں ساری رات کی جاگی ہیں ـ میں آنٹی کی طبیعت کا پوچھنے آئی ہوں ساتھ والے روم سےـ
اچھا …
تم نے اپنی امی کا بہت دھیان رکھا حالانکہ ابھی بہت ینگ ہو تم ـ
جی تھرڈ ائیر میں ہوں
اور بھائی کہاں ہیں تمہارے، کب فلائیٹ ہے انکی؟ عادل اور ٹیپو؟
عادل بھائی اور ٹیپو بھائی دونوں آسٹریلیا میں ہوتے ہیں ـ امی بہت اداس ہو گئی ہیں ان سے وہ امی کی بیماری کا سن کر واپس آ رہے ہیں ـ ٹرانزٹ فلائیٹ ہے نا ابھی میسیج آیا ہے بینکاک پہنچ گئے ہیں ـ اس عورت کی آنکھیں بدستور چھت کو گھور رہی تھیں
میں نے ان کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
بنکاک پہنچ گئے تو سجھو تھوڑی ہی دیر میں لاہور بھی پہنچ جائیں گے ـ ابھی آئے کھڑے ـ
اس مریضہ نے آنکھیں کھولیں میری طرف مسکرا کر دیکھا ـ ان آنکھوں میں گہری شناسائی تھی پھر کہنے لگیں!
تم وہی ہو نا جس کے رات بیٹا ہوا ہے؟
جی آنٹی ـ
بہت بہت مبارک ہو ـ بہت خوشی ہوئی تمہارے بیٹا ہوا ہے ـ
آنٹی آپ کے بیٹے بس پہنچ ہی رہے ہیں ـ اب انہیں واپس مت جانے دیجیے گا، ان کی شادیاں کروا دیں اس بار ـ
وہ مسکرائیں ……
مجھے لگا ان کی آنکھیں بھی چھت سے نیچے چہرے پر پلٹ آئی ہیں ـ میں واپس اپنے کمرے میں آ کر اپنے جگر کے ٹکڑے کا انتظار کرتے ہوئے سوچنے لگی ـ کتنی اچھی بیٹی ہے انکی ـ کتنی کم سن ہے سارا وقت تڑپتی ہوئی ماں کی جھڑکیاں سنتی اکیلی جان انہیں سنبھال رہی ہے ـ لوگ کہتے ہیں بیٹیاں نازک ہوتی ہیں ، بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں ـ پھر بیٹے کیوں اتنی دور جا بستے ہیں ـ ماؤں کو بیٹے ہی اتنے پیارے کیوں ہوتے ہیں ؟ کچھ دیر بعد اسٹاف نرس نیلے کمبل میں لپیٹا گلابی گل گوتھنا سا بچہ میری گود میں ڈال رہی تھی میں نے ایک نظر پلائی کی دیوار کی طرف دیکھا پھر اپنے بیٹے کی طرف اور پھر اُس کے ماتھے پر پہلا بوسا ثبت کرتے ہوئے بے اختیار رو دی ـ