غزل ۔۔۔ غلام حسین ساجد
غزل
غلام حسین ساجد
مٹی سے دھول اور نمی جل سے آئی ہے
لیکن یہ دھوپ سی کسی بادل سے آئی ہے
رخصت ہوئی ہے باب دعا سے ادائے صبر
اک عمر کی کمی ہے جو اک پل سے آئی ہے
گم ہو رہی ہے خواب کی دنیا میں میری نیند
ڈوبہ ہوئی صدا کہیں دلدل سے آئی ہے
اک گل بدن کے وصل سے صیقل ہوا ہے دل
مٹی میں یہ کھنک اسی مقتل سے آئی ہے
کیسے میں پاوں توڑ کے گھر پر پڑا رہوں
آواز دوست پھر کسی جنگل سے آئی ہے
شاید کسی کے قرب فراواں سے دور ہو
یہ بے دلی جو کار مسلسل سے آئی ہے
ساجد بدل رہا ہے مرے شہر کا مزاج
ہر شے میں اک عجیب کشش کل سے آئی ہے۔
Facebook Comments Box