چھانگا مانگا ۔۔۔ مریم عرفان
چھانگا مانگا
(ڈاکٹر مریم عرفان )
کراچی پھاٹک سے ذرا آگے انڈیا پھاٹک پارکرتے ہی لیکو روڈ کے بائیں جانب پھیلی آبادی ابھی تک شہرسے کٹی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ پٹری سے گزرتی ریل گاڑیوں کی دن رات چھکاچھک فضا کا سکوت توڑتی رہتی۔ پٹری کے دائیں طرف جھاڑیاں یوں اگی تھیں جیسے سرکنڈوں کے جھنڈ ہوں۔ بائیں جانب چھوٹا چھپڑ تھا جس میں مکھیوں مچھروں اور بھینسوں کے علاوہ لوگ بھی آباد تھے۔ پکے گھروں میں رہنے والوں نے اب تک بھینسیں پال رکھی تھیں، جو دن بھرپٹری کے دائیں بائیں چرتی رہتیں۔ جن کے گوبرکے اپلے کرتی مائی فقیراں چلچلاتی دھوپ اور دھندمیں لپٹی صبحوں میں بھی کام میں جتی رہتی۔ پٹری کے اطراف میں کچی پگڈنڈی سیاہ ریت سے اٹی ہوئی تھی۔ جس پر چلنے والوں کے پاؤں مٹی کے ذروں تلے ایسے چرچراتے جیسے چمڑے کا نیا جوتا پاؤں کو تھوڑی دیر کاٹ کرپسینے سے آواز دینے لگتا ہے۔ اسی جانب علاقے کے ٹیوب ویل کی سیڑھیاں تھیں جہاں لڑکے بیٹھ کرتاش کھیلتے تھے۔
بس اسی آبادی کے وسط میں پٹری کے بغل میں لگی ریلنگ کے کنارے چھانگے مانگے کاگھرتھا۔ ماں باپ نے اس کا نام عنایت مسیح رکھا تھا، جو بگڑ کر پہلے چھانگا پڑا اور پھر مانگا۔ تارکول جیسے رنگ کا مالک، سرو قد چھانگا مانگا اگر مونچھیں نہ رکھتا تو شاید اس کے ڈیل ڈول کی وحشت کچھ کم ہو جاتی۔ اس کے سر پر نکلی سیدھی مانگ، سردی گرمی پسینے سے بھرے جسم سے اٹھتی کھٹی بدبو اور کسرتی وجود ایسے تھاجیسے بانس پرلٹکا گٹا، جس پرمکھیاں بھنبھنا رہی ہوں اور شیِرے کی رالیں بانس سے ٹپکتی ہوں۔ چھانگا مانگا کبھی ایل ڈی اے میں ملازم تھا۔ پھر ایک دن کچی آبادی کا گٹر نکالتے ہوئے زہریلی گیس خارج ہوئی۔ ساتھیوں نے گٹر سے بیہوش چھانگا مانگا گارے کی طرح نکال کرگرم سڑک پر پھینک دیا۔ بس اس دن کے بعد اس نے نوکری چھوڑ دی۔ اب وہ پٹری والی سڑک پر پھل کی ریڑھی لگانے لگا تھا۔ گھر میں بوڑھی ماں تھی اور اپاہج بہن، جس کا سارا دن سلائی کڑھائی میں گزرتا۔ دو کمروں کی کوٹھری ان تین مکینوں کی کل کائنات تھی۔ ماں کا بڑا خواب تھاکہ چھانگا مانگا سہرا پہنے سنہری گھوڑی پر چڑھے۔ مگر برادری میں اسے کون اپنی لڑکی دیتا۔ وہ شہزادہ گلفام تو کیا ایک عام انسان بھی نہیں لگتا تھا۔ منہ پر تو سب ہی کہتے کہ چھانگا مانگا کسی سے کم ہے کیالیکن یہ تو اسی کادل جانتا تھاکہ وہ کتنا بھرا ہوا ہے اور کتنا خالی۔ شب و روز یونہی خاموشی سے گزر رہے تھے۔ وہ صبح سے شام ریڑھی لگائے رکھتا پھر رات کو نہا دھو کر کرتا دھوتی پہنے باہرنکل جاتا۔ سڑک کے دائیں جانب پیر بابا سرکار کے دربارکی سیڑھیاں اس کی منتظر ہوتیں۔ جن کے عقب کو جاتا راستہ طفیلے کی بیٹھک میں بند ہوتا تھاجہاں رات بھر جوا چلتا۔ کبھی اس کی جیب میں سو دو سو روپے آجاتے اورکبھی چلے بھی جاتے۔
زندگی کی پٹری پراس کی گاڑی مختلف پلیٹ فارم چھوڑتی گزر رہی تھی کہ اچانک کوثر آندھی میں اڑنے والے غبارکی طرح اس کے آنگن میں آگری۔ وہ اسے ملی تو ریلوے سٹیشن کی سیڑھیوں پر تھی۔ جہاں وہ اپنے دوست کو ٹرین پر چڑھانے آیا اور واپسی میں کوثرکی گٹھری بغل میں اڑسے گھرلوٹا۔ ماں کے ماتھے کی تیوریاں بتاتی تھیں کہ اسے چھانگا مانگا کی پشت سے چمٹی گوری چٹی کوثر لمحے بھر کو ناگوار گزری ہے لیکن چھانگا مانگا بھلا ماں کی نصیحت کیسے سن سکتا تھا اس کے کانوں کی لوَیں تو اس کی پشت سے لگی کوثرکی گرم سانسوں سے لرز رہی تھیں۔ اس نے کوثرکو صحن میں رکھی پیڑھی پربیٹھنے کا اشارہ کیا اور ماں کو کھینچ کر کمرے میں لے گیا۔ اپاہج بہن دوسرے کمرے کے دروازے سے باہر کھڑی کوثر کو دیکھتی رہ گئی۔ تب سے کوثر اس دو کمرے کے کوارٹر نما گھرکا چوتھا فرد تھی۔ وہ روز تڑکے اٹھ کرگھرکی صفائی کرتی پھر چولھا پھونکنے بیٹھ جاتی۔ اس دوران ماں کی خاموش نفرت انگیز آنکھیں مسلسل اس کے تعاقب میں رہتیں۔ اپاہج بہن ادھڑے ہوئے فرش پر بچھی چٹائی کے کونے ٹھیک کرنے کے بہانے گھسٹتی ہوئی کمرے میں ادھرسے ادھر چکر لگاتی رہتی۔ شاید اس کی آنکھیں بھی گھر کے اس نئے فرد کا جائزہ لینے کی عادی ہو چکی تھیں۔ بس ایک چھانگا مانگا ہی تھا جسے کوثرسے بات کرنے کا چسکا ستائے رکھتا۔ جب سے وہ گھر آئی تھی چھانگا مانگا ڈھنگ سے ریڑھی نہیں لگا پایا تھا۔ شاید دل میں خوف تھا کہ کہیں ماں اس کی غیر موجودگی میں کوثر کو نکال باہر نہ کرے۔ کبھی موسم اورکبھی طبیعت کی خرابی کا جواز گھڑ لیتا۔ ماں کے ہونٹوں کے کنارے اسے گالیاں دیتے دیتے پان کی پیک سے چھلکنے لگتے۔ کوثر کو سب سنائی دیتاتھا اس سے پہلے کہ وہ اس گھرسے بھی بھاگ جاتی، چھانگا مانگا کچھ اورہی سوچ بیٹھا تھا۔ سوچ کیا تھی ایک طوفان تھا جس نے ماں کو ہلا کے رکھ دیا۔ چھانگے کے سفید دانت لاٹیں مار رہے تھے اور ماں اس روشنی میں جلتی بجھتی ٹکر ٹکر اسے دیکھ رہی تھی۔
’’بس ماں اب یہ یہیں رہے گی۔ آج سے تو اسے کچھ نئیں بولنا۔ برداری کون ہوتی ہے کچھ کہنے والی۔ نہ کسی کا دیا کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں۔ سوچ لیں گے اس کا کیا کرنا ہے۔‘‘
ماں کی تو اس دن کے بعد بولتی ہی بند ہوگئی تھی البتہ کوثرکے معمولات زندگی برقرار تھے۔ اب وہ چھانگے کی ریڑھی کے کریٹ صاف کرکے بڑے قرینے سے پھل سجاتی۔ اس کی تکڑی کے کانٹوں کی کھن کھن کوثرکی چوڑیوں جیسی تھی۔ جسے چھانگا مانگا شام تک جی ہی جی میں سنتا رہتا۔ چھانگے جیسے چمہار کی بھی زندگی بدل گئی تھی۔ ہر وقت بالوں میں لگے تیل کی جگہ اب جیل نے لے لی۔ کرتے اور دھوتی کی جگہ جینز کی پینٹ اور ٹی شرٹ آگئی۔ اب تو پیروں میں کینچی چپل بھی نہیں تھی ایک جوڑا بوٹ کا تھا اور دو سینڈل۔ لوگ آنکھیں رکھتے ہیں اورکان بھی تو پھر چھانگے کے گھر کے شہتیروں سے تانک جھانک کیسے نہ ہوتی۔ آنے والے پوچھتے کوثرکون ہے۔ ماں نے کہہ رکھا تھاکہ دورکے رشتے کی بھانجی ہے۔ ماں باپ چل بسے تو یہاں آگئی۔
چمہاروں کے گھر تو کیا کبھی محلے میں بھی چٹے رنگ کی چمڑی پیدانہیں ہوئی تھی کجا کوثرکی ایک چھب ہی سب پر بھاری تھی۔ اگر اصل بات باہر نکلتی تو شور مچ جاتا معاملہ کورٹ کچہری تک جاتا تو کوثرکے وارثوں کو بھی اطلاع ہو جاتی۔ اس سے آگے تو ماں کی سوچیں جواب دینے لگتی تھیں۔ مگر چھانگا مانگا تو سوچوں کے گرداب میں چوکڑی مارے بیٹھا میٹھے میٹھے ہلکورے لے رہا تھا۔ رات، بھوتوں کی طرح اس کے صحن کی دیوار پھلانگ کر چارپائی کی پائینتی پر بیٹھ جاتی اور چھانگا مانگا صحن میں پڑے گھڑے سے پیاس بجھاتا رہتا۔ وہ کبھی آنکھ بچا کر جو بغلی کمرے کی جانب دیکھتا تو سامنے چٹائی پر سیدھی لیٹی کوثراس کی آنکھوں میں سلائیوں کی طرح کھب جاتی۔ صحن میں لگے زیروکے بلب کی روشنی میں کمرے کا ملگجا اندھیرا کوثرکے وجودکے اجالے سے پُر تھا۔ اس نے اب تک کوثرسے اس کے گھرچھوڑنے کی وجہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی تھی، اورنہ ہی کوثربتانے کے تکلف میں پڑی تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے وہ ان اجنبیوں کے درمیان بڑی دھونس سے رہنے کی عادی ہوگئی تھی۔ تین ماہ ہوگئے تھے کوثرکو چھانگے کے گھرمیں رہتے ہوئے، ماں اس کی عادی ہونے لگی تھی۔ اس کے ہاتھ کی بنی روٹی بھی کھانے لگی تھی۔ اپاہج صغریٰ تو ایسے ہی چپ رہنے کی عادی تھی لیکن کوثرسے ہلکی پھلکی گپ شپ نے اسے بھی اس کے قریب کردیاتھا۔ اب اکثرچھانگا رات کا کھانا ٹین کی چھت والے کچن میں کوثرکے ساتھ کھاتا۔ پھرآہستہ آہستہ یقین کی بیل منڈھے چڑھی۔ کوثرگھرکی چاردیواری سے باہر نکلنے لگی۔ کبھی گھرکا سوداسلف لانے توکبھی چھانگے کودوپہرکا کھانا دینے۔ پہلے وہ گھڑی بھر کو باہر نکلتی تھی پھر یہ دورانیہ بڑھنے لگا۔
پٹری سے پار ریلوے افسروں کے فلیٹ تھے۔ کوثرکے بدن کی خوشبو وہاں تک پہنچی تو اسے فلیٹوں میں کام ملنے لگا۔ ماں کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا کہ مہینے کے آخرمیں کوثراس کے ہاتھ میں بھی ہزارکا نوٹ تھما دیتی تھی۔ مگر چھانگا مانگا تو اسے سب کی نظروں سے بچا کر گھرکی چاردیواری میں ہی رکھنا چاہتا تھا۔ اب کوثرکی نظریں اس کے لیے اجنبی نہیں تھیں۔ اس دن بھی جب ماں اپاہج صغریٰ کولے کرحکیم کی طرف گئی تو چھانگے نے فلیٹوں سے آتی کوثرکو گھر جاتے ہوئے دیکھا۔ جون کے مہینے کی تپش اس کے اندر اتر آئی تھی۔ گردن پر رکھے تولیے سے پسینہ پونچھتا چھانگا مانگا گھر کی پگڈنڈی کی طرف چل پڑا۔ کوثرنے دروازہ کھولا تو وہ سامنے دانت نکالے مسکرا رہا تھا۔
کوثرنے کچن کی پیڑھی گھسیٹتے ہوئے اسے بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا اور چنگیرمیں رکھی روٹی پرسالن ڈال کر اس کے آگے سرکا دی۔ دونوں خاموشی سے کھانا کھاتے رہے۔ چھانگا کھانا کھا کر اپنے کمرے کی چارپائی پرجاکر لیٹ گیا۔ لگتا تھا جیسے آج دل کی بات اگرمنہ سے نہ نکلی تو پھر شاید کبھی اسے بولنے کا موقع نہ ملے۔ وہ بات اس کے دل میں چھلتر کی طرح کسک بنتی جارہی تھی۔ لفظوں کی پن سے وہ اس چھلتر کو حلق سے نکالنے کے بارے میں سوچنے لگا کہ اتنے میں کوثر پرات میں رکھے آم لے آئی۔ چھانگا مانگا اٹھ کر بیٹھ گیا۔ آم کا رس اس کے گلے سے پار نہیں ہو رہا تھا بس اس کا مزہ زبان کے رستے حلق تک جاتا تو جیسے کوئی آگے پھندہ لگائے بیٹھا تھا۔ اس کی وہی حالت تھی جیسے الٹی آنے سے پہلے ہوتی ہے۔ نہ کچھ اندر جاسکتا ہے اور نہ ہی باہر نکلتا ہے۔ متلی کی یہ کیفیت شاید کچھ دیر اور رہتی اگر کوثر نہ پوچھتی:
’’کیا بات ہے کچھ کہناہے کیا؟‘‘
’’ہا۔۔ ہاں۔۔ ن۔۔ نئیں۔۔۔ ‘‘
چھانگا آم کے رس کے ساتھ تھوک بھی نگل گیا۔ اسے لگا جیسے اس کی ہتھیلی میں آم کی جگہ کوثر ہے جسے وہ پولا کرتے کرتے خود ہتھل ہونے لگاہو۔ رس کی لکیریں چھلک رہی ہوںلیکن وہ منہ بڑھا کر اس شیرے کو اپنے اندرانڈیل نہیں سکا۔ کوثرکے ہاتھ کی جنبش نے اس کے اندرآندھیاں چلادیں۔ جیسے تیز جھکڑ چلنے سے آدھا پیڑ اجڑ جاتا ہے ویسے ہی چھانگا مانگا ٹوٹے ہوئے پھل کی طرح زمین پر آگرا۔ پھرایک لمحے کی جھجک کو پیتے ہوئے اس نے کوثرکا رس میں لتھڑا ہاتھ تھام لیا۔
’’میرے ساتھ شادی کریگی۔ ‘‘
کوثرکے چہرے کی بدلیاں بارش میں راستہ ڈھونڈتی گاڑی کی لائٹوں کی طرح جلنے بجھنے لگیں۔ اس نے خاموشی سے پرات اٹھائی اورباہرنکل گئی۔ چھانگے کو خود سے آموں کے چھلکوں کی باس آنے لگی تولگاجیسے اس کادل پھرسے متلا رہا ہو۔ وہ خود کو گھسیٹتاہوا صحن تک لے آیا۔ کوثرکی چپ بتارہی تھی جیسے اسے چھانگے کی بات ناگوارگزری ہو۔ اس سے پہلے کے منہ میں کڑواہٹ کا زہر گھلتا چھانگا مانگا تیزی سے پردہ اٹھاتا گھرسے باہر نکل گیا۔
کوں۔۔ ں۔۔ ں۔۔ ں۔۔ چھکاچھک۔۔ چھکاچھک۔۔ چھکاچھک۔ ٹرین کی سیٹی کے ساتھ پہیوں کی گھن گھرج سے پوراعلاقہ گونج اٹھتاتھا۔ اس رات کے سناٹے میں یہ شورمزید گہرا ہوگیاجیسے ٹرین پٹری کی بجائے چھانگے کے دل کے ٹریک پر بڑھتی جارہی ہو۔ اس دن کے بعدسے کوثر نے ایک اورفلیٹ پر نوکری ڈھونڈھ لی اب وہ شام کے بعدگھرآنے لگی تھی۔ چھ ماہ کیسے گزرے پتہ ہی نہیں چلا۔ اجنبیت کی دیوارمیں اس کی خاموشی نے دڑاریں ڈال دی تھیں۔ چھانگا کن انکھیوں سے اس دوپہرکی بات دھراتا لیکن کوثرنے آنکھیں میچ لی تھیں۔ پھرجاڑوں کی راتیں شروع ہوگئیں۔ ایسے ہی ایک جاڑے کی رات، چھانگے کی آنکھ صحن میں کھٹ پٹ کی آواز سے کھل گئی۔
’’کون ہے؟‘‘چھانگا اندھیرے میں ہاتھ مارتا اٹھ کھڑا ہوا۔ دروازے تک آیاہی تھاکہ نرم ونازک یخ ٹھنڈے ہاتھ اس کے لبوں پر ٹھہرگئے۔
’’ش۔ ش۔ ش۔ ش۔۔۔ میں ہوں کوثر۔ ‘‘
’’خیریت تھی نہ، طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری۔ ‘‘چھانگا دم سادھے صحن کی دہلیز پر کھڑا تھا۔
’’ہاں خیریت ہی ہے۔ پانی پینے اٹھی تھی تم سوجاؤ۔ ‘‘اس موسم میں پیاس کہاں سے آگئی۔ چھانگا یہ کہنا چاہتاتھا مگرکہہ نہ سکا۔
کوثرمڑنے لگی تو چھانگے کولگا جیسے ا س نے بغل میں کچھ دبا رکھاہے۔ مگراس کے کمرے میں جاتے ہی وہ جیسے مطمئن ہوگیا۔ پھرتو اسے ہر رات لگتاجیسے صحن تک آنیوالے کسی کے قدم اچانک واپس مڑجاتے ہیں۔ یہ آنکھ مچولی تقریباً ہفتہ بھرجاری رہی۔ پھرجیسے ساری پہیلی سلجھ گئی۔ اگلی صبح ماں نے اسے جھنجھوڑ کر اٹھایا: ’’چھانگیا۔۔ اٹھ کوثرپتہ نئیں کدھرگئی۔۔ ‘‘
چھانگامانگاہڑبڑا کر اٹھا۔ آنکھیں ملتے ملتے اسے اپنے کانوں پر شک گزراجیسے وہ کہیں دورسے ماں کی آوازسن رہا ہو۔ چھانگے کو لگا جیسے وہ اندر سے تڑخ گیا ہو۔ اسے اپنی ریڑھی کے پاس کھڑا وہ بچہ یاد آگیا جس نے جوس پیتے ہی ڈبہ سڑک پر پھینک کر اس زور سے اس پر پاؤں مارا تھا کہ ڈبے کی لمبی سی چیخ نکل کر رہ گئی تھی۔ کوثرنے بھی اس کا پٹاخہ بجا ڈالا تھا۔ ماں نے ایک دو دن تو کوثر کی غیرحاضری کو محسوس کیا۔ پھر خود کو سمجھا لیا کہ اسے جانا ہی تھا سو وہ چلی گئی لیکن چھانگا تو جیسے اندر سے ٹوٹ گیا تھا۔ کوثر کہاں سے آئی تھی اور کہاں چلی گئی چھانگے کے لیے یہ سوال نہیں بلکہ الجھن تھی۔ اس کے سنگی ساتھی جنہیں کوثرکے بارے میں علم تھا اب اسے چھیڑنے لگے تھے۔ ’’ہور سنا چھانگیا۔۔۔ کتھے آ تیری کبوتری۔ ‘‘
چھانگا اس سوال پر بغلیں جھانکنے لگتاکیونکہ کبوتری تو اس کے چوبارے سے اڑگئی تھی۔ چھانگے کی یہ چپ اس دن ٹوٹی جب اس نے کوثر کو فلیٹوں کی بیرونی سیڑھیوں پر جھاڑو پھیرتے دیکھا۔ سڑک کے پارریلوے افسروں کے فلیٹ اب سے پہلے چھانگے کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے تھے۔ تین منزلہ فلیٹوں میں کچھ تو چھڑے چھانٹ افسررہتے تھے اور باقی بال بچے دار۔ کوثرکی ایک جھلک نے چھانگے کی وہ حالت کردی جیسے اس کے منہ پر کسی نے تیزاب پھینک دیاہو۔ جلن اور گھٹن کے باعث اس کی آنکھیں دھواں دھواں تھیں۔ کوثرتو جھاڑودے کرآناً فاناً اندرچلی گئی لیکن وہ سڑک پارکرکے اس کے تعاقب میں فلیٹوں کی جانب چلاگیا۔ دوپہرسے شام اورشام سے رات ہوگئی لیکن اسے کوثرکی دوسری جھلک نظر نہیں آئی۔ پہلے تو اسے لگا شاید وہ اس کا وہم تھی لیکن پھراسے اپنے پڑوسی روبن سے پتہ چلا کہ اس کی بیوی جس فلیٹ میں کام کرتی ہے اس کے ساتھ کے فلیٹ میں تابی نام کی نئی کام والی آئی ہے۔ چھانگا مانگا وسوسوں کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ کبھی تو اسے لگتاجیسے دماغ میں پھوڑا نکل آیا ہو جس کا نام کوثر تھا اور وہ اس پھوڑے کے بارے میں سوچ سوچ کر اسے پھوڑ دینا چاہتا تھا۔
روز فلیٹوں کی جانب چکرلگانا اب چھانگے کا معمول تھا۔ پھرایک دن وہ اسے نظرآہی گئی۔ فلیٹ کی دوسری منزل پرکھڑی ہوئی کوثربالکل پہچانی نہیں جاتی تھی۔ دوپٹے سے آزاد اور پسینے میں تربتر کوثرکے بال کلپ میں قید تھے۔ اس کے جسم کا ابھار پہاڑجیسی اٹھان لیے ہوئے تھا۔ کہنی کے نیچے ننگی کلائیاں چوڑیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ بالکونی کی تار پر کسی افسر کی بنیانیں اور جھانگیے ڈالتے ہوئے اس کی نظر فلیٹوں سے نیچے گئی تو جیسے اس کے ہاتھ ہوا میں ہی رک گئے۔ وہ بازو پونچھتے ہوئے بالٹی لیکر اندرغائب ہوگئی۔ چھانگے کو اب مزید کچھ جاننے کی ضرورت نہیں تھی کہ کوثران فلیٹوں میں کیاکررہی ہے۔ وہ تو بس اسے دیکھنا چاہتا تھا کوثر کا یہ نیا روپ ترسادینے والاتھا۔ چھانگا اس کی تاک میں ایسے ہی تھا جیسے کوئی بلی چوہے کے پیچھے ہوتی ہے۔ وہ کبھی ایڑھیاں اٹھا اٹھا کر کھڑکیوں سے جھانکنے کی کوشش کرتا تو کبھی فلیٹوں کے مین گیٹ کے باہرپہرہ دینے لگتا۔ پھر ایک دن کوثراسے سڑک پر مل ہی گئی۔ سبزی کی ٹوکری اٹھائے وہ فلیٹوں کی عقبی گلی میں تیز تیز قدم اٹھاتی چلی آرہی تھی۔ چھانگے کی نظرجیسے ہی اس پر پڑی تووہ اس کی طرف پکا۔
’’کوثر۔۔ سنو تو سہی۔ ‘‘چھانگے نے تیز تیز چلتی کوثرکا بازو پکڑ لیا۔
’’چھوڑ۔۔۔ چھوڑ مجھے۔ میں تابی ہوں کوثر نئیں۔ اور۔۔۔ ‘‘
چھانگا اس کے سامنے آکھڑا ہواتو کوثرکے منہ سے نکلنے والے لفظ جیسے اس کے حلق میں پھنس گئے۔ ’’کتے، کنجر، شکل دیکھی ہے اپنی شیشے میں۔ خبردارجو دوبارہ میرا راہ ڈکیا۔ باؤ فیصل کو پتہ لگ گیا نا تو تیری بوٹیاں کرکے چیل کوؤں کو ڈال دیگا۔ وڈا افسر ہے یہاں کا۔ ‘‘
کوثرکے دل کا زہر اس کی زبان سے پھسل گیا۔ باؤ فیصل کا نام لیتے ہوئے اس کے گالوں کی سرخی مزید گہری ہوگئی اور وہ اپنا بازو چھڑا کر نکل گئی لیکن چھانگا تو جیسے سڑک پر گڑے کھمبے کی طرح کتنی ہی دیر وہاں جما رہا۔ لفظ کیا تھے بارود کا وہ مواد تھا جس نے اس کے دماغ میں زہر بھر دیا۔ کوثرکی باتوں کے زہرکا ذائقہ اس کی زبان میں گھلا تو اس نے سڑک کی جانب دوڑ لگادی۔ وہ پگڈنڈی پر بھاگتا جا رہا تھا۔ کالی سیاہ ریت کے ذرے اس کے پاؤں میں چونٹیوں کی طرح رینگ رہے تھے۔ دائیں جانب گھاٹی سے اترکروہ چھپڑکے کنارے بیٹھ گیا۔ ذراجھانک کر دیکھا تو سیاہی میں اپنے سائے کے سوا اسے کچھ نظرنہیں آیا۔ چھانگے کو لگا جیسے چھپڑمیں تیرتی مکھیوں کی بھنبھاہٹ اور دماغ میں چڑھتی بدبو اس کے جسم کی بو کے آگے کچھ نہیں۔ اسے خودسے مرے ہوئے کتے کی سرانڈ آنے لگی۔ کلیجہ منہ کو آیا تو جیسے پیٹ کی گڑبڑ حلق تک پہنچ گئی اور چھانگا مانگا چھپڑ میں منہ دئیے ابکائیاں کرنے لگا۔