گوشہ ء رفعت ناہید

ادھورے کاموں والی مکمل عورت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح تین بجے آنکھ کھل گی مگر عجیب اتفاق ہے سامنے فون پڑا تھا مگر اسے اٹھانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا ورنہ تو صبح اٹھ کر جو پہلا کام کرتا ہوں یہی کے فون اٹھاتا ہوں واٹس اپ ۔ فیس بک پہ ایک نظر ڈالتا ہوں پھر چائے بناتا ہوں۔ مگر آج چاہنے کے باوجود فون اٹھانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا ۔ چائے بنا کر لایا مگر ہھر بھی فون نا اٹھاایا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ دیکھا تو انجلا ہمیش تھیں ۔ دل ڈر سا گیا پچھلے دنوں ان کی والدہ صاحبہ کی طبعیت ناساز تھی ۔

“مسعود صاحب رفعت”

“کیا ہوا انہیں انجلا جی ؟”

” مسعود صاحب رفعت ناہید ہمیں چھوڑ کر چلی گیں “

یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ ابھی کل ہی تو میری ان سے بات ہوئی انہوں نے تو کہیں جانے کا ذکر نہیں کیا تھا ۔ پرسوں تو انہوں نے اپنی تازہ نظم مجھے سنائی اور سینڈ کی اور کہا ” آپ اس نظم کو کوئی نام دیں” اور ہم نے نظم پہ لمبی گفتگو کرکے اس نظم کو

” مزدوری پہ لگی آنکھیں ” کا نام دیا۔

“مزدوری پہ لگی آنکھیں “

“تم اپنی سرمئی آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہو

میں دیر تک نہر کے پانی میں پاؤں ڈال کر بیٹھی رہ جاتی ہوں

پس منظر میں نظر آنے والے

ریسٹ ہاؤس کےباغ کے پتے

نہر کے پانی میں بلکورے کھاتے ہیں

تمہاری سرمئی آنکھوں میں کتنا سارا پانی پھیل جاتا ہے

وہ سارا پانی میں آنکھوں میں بھرتی ہوں


میں دیر تک نہر کے پانی میں پاؤں ڈال کر بیٹھی رہ جاتی ہوں

پس منظر میں نظر آنے والے

ریسٹ ہاؤس کےباغ کے پتے

نہر کے پانی میں بلکورے کھاتے ہیں

تمہاری سرمئی آنکھوں میں کتنا سارا پانی پھیل جاتا ہ

اور رات گئے تک

اپنے تکیے پر بہاتی ہوں

تب کھلے برآمدے سے چاند

دبے پاؤں در آتا ہے

ایک روپہلی بادل بن کر کمرے میں بھر جاتا ہے

اور تمہاری آنکھوں کو ایک اور طرح کے عجیب بہاری رنگ میں رنگ دیتا ہے

وہ رنگ جو پانی میں میرے پاؤں ڈالنے سے

اور ریسٹ ہاؤس کے پتوں کے ہلکوروں سے مل کر بنتا ہے

تم کو اس رنگ کا نام پتہ ہے ؟

رفعت ناہید

آج اگر کوئی غزل کو غزل کے طور پہ لکھتا ہے تو وہ رفعت ناہید جی تھیں ۔ جتنی پیاری وہ غزل نظم لکھتی تھیں اتنے ہی پیارے لہجے میں پڑتی تھیں ۔ چراغ ہمیش میں بعض دفعہ تو صرف ان سے سننے کے لیے ہم شعری نشست رکھ لیتے۔

اپنے بچوں سعد، بیٹی پنکی ، ہنی سے وہ جتنا پیار کرتیں میں بتا نہیں سکتا ۔ اپنے بھائی نوید کو یاد کرتے کرتے رو پڑتیں ۔ اپنا دوسرا شعری مجموعہ وہ ترتیب دینے میں مصروف تھیں۔ میں دوسرے تیسرے دن پوچھتا کہ کتنی غزلیں ترتیب دے لیں تو ٹال جاتیں کہ ڈائری نہیں مل رہیں ۔

ان کی شخصیت اور ان کی شاعری میں زیادہ فرق نہیں تھا ۔ ۔ان کی زندگی اب صرف ان کے بچے تھے ۔ فون پہ گفتگو کرتے کرتے اچانک کہتیں ” ابھی میرے بہت سے کام ادھورے ہیں “

اور فون بند کر دیتیں ۔

میں نے اپنی کتاب ” آئینے میں جنم لیتا آدمی” میں دو نظمیں ان کے لیے لکھیں

“ادھورے کاموں والی مکمل عورت”

اور

” ایک گیت اداس کتاب کے لیے”

انجلا اب کس سے کہیں گی آپ ۔ رفعت جی اپ اج کی نشست کی صدارت کریں تاکہ بعد میں اپ سے اپ کی بہت سی غزلیں نظمیں سنیں ۔ چراغ ہمیش کی جو آخری نشست ہوئی جس میں ہم نے ناجیہ احمد جی سے ان کی نظمیں سنیں اس نشست کی صدارت رفعت ناہید جی ہی نے کی تھیں اور ہم نے ان سے فرمائش کر تے رہے اور رفعت صاحبہ سناتی رہیں ۔ خاص طور پہ وہ غزل

ڈوب جاتا تو کسی اور طرف سے آتا

جگمگاتا ، تو کسی اور طرف سے آتا

چاند کا آنا ضروری تھا مرے ملنے کو

ابر چھاتا تو کسی اور طرف سے آتا

وہ ستارہ سا دبے پاوں چلا آیا ہے

جھلملاتا تو کسی اور طرف سے آتا

خیر گذری کہ اسے روک لیا تھا میں نے

لوٹ جاتا تو کسی اور طرف سے آتا

طے ہوا یہ تھا کہ میں پچھلی گلی سے آتی

وہ جو آتا تو کسی اور طرف سے آتا

ہاں یہی راہ تھی آسان اسے آنے میں

ہچکچاتا تو کسی اور طرف سے آتا

یاد تھے اس کو سبھی موڑ مرے رستے کے

بھول جاتا تو کسی اور طرف سے آتا

انجلا جی اب اپ کس سے کہیں گی رفعت جی ہمیں وہ والی غزل سنائیں

رفعت ناہید صاحبہ اپنے سارے کام ادھورے چھوڑ کر حتاکہ اپنا ترتیب دیتا شعری مجموعہ بھی ادھورا چھوڑ کر چلی گئیں

مسعود قمر

———————-

الوداع رفعت ناہید

انجلاء ہمیش

موت تو در پہ کھڑی ہوتی ہے

معمولی سی بات پہ لے جاتی ہے

بھرپائ کا وقت نہیں دیتی

مجھے کوئ بلارہا تھا

آئیے انجلاء

قدرت نے میری سماعت اس قدر محدود رکھی

میں سن نہ سکی

جانے والے کی مکمل بات

آئیے انجلاء ورنہ میں چلی جاؤں گی

اور واپس نہ آؤں گی

میرے باطن کو میری تھکن نے لپیٹ لیا

میں نے تمہیں محسوس نہ کیا

میری دوست ، میری معذرت قبول کرو اور میری منزل آسان کردو


‎مسعود قمر

‎آج کے دور میں   بہت ہی کم غزلیہ شاعری کی جا رہی ہے  اور  جو کی جا  رہی   وہ اس  صنف کو  دفن کرنے میں مدد کر رہی ہے۔ ۔ یہ دور غزل کے چل چلاو کا دور ہے ۔ مگر کمال  دیکھیں رفعت ناہید جی  اس   صنف میں  ایک  سے  ایک  نئے مضمون کو شعر کر رہی ہہں  نا صرف شعر  کر  رہی  ہیں  اس کی اس طرح بنت کاری  کرتی ہیں ، ایسے الفاظ کا چناو کرتی  ،  ایسی تراکیب  بناتی ہیں لگتا ہے  شاعری  پازیب پہنے جھیل میں   تیر رہی ہے

‎پھر  ان کی پڑھت  ایسی  ہوتی ہے  لگتا ہے  کوئی شہزادی  جھیل  کنارے   بیٹھی  ایک  ایک  پھول ندی   میں  ڈالتی جاتی ہے  اور پھول  تیرتا جاتا ہے ۔

‎پڑھنے والا  جتنا بھی  موتیوں کے لہجے  میں پڑھے  شعر  اگر بے جان ہے  تو اس کی پڑھت   شعر کو زندہ نہیں کر سکتی ۔ ناہید کی ہڑھت تو مزدور کا  وہ  بونس ہے جو اسے عید کے موقع پہ  ڈبل تنخواہ کی صورت میں  ملتا ہے ، ورنہ  ان کی  شاعری  تو کوئی تھتلا  کر بھی  پڑے  تو سننے  والا داد دئیے  بغیر  نا رہ  سکے ۔ ۔ملاحظہ کریں۔

‎خیر گزری کہ اسے روک دیا میں نے

‎لوٹ جاتا  تو کسی اور طرف سے آتا

‎۔۔۔۔۔

‎طے یہ ہوا تھا  کہ میں پچھلی گلی سےآتی

‎وہ جو آتا  تو کسی اور طرف سے آتا

‎۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔

‎شام ہوتے ہی پرستاں کی ہوا چلتی

‎ ہے

‎۔۔۔۔۔۔

‎مجھ کو چھوتا ہے پری زاد بنا دیتا ہے

‎۔۔۔۔۔۔۔

‎ایک دیوار اٹھاتا ہے مقابل میرے

‎ایک دیوار  مرے بعد اٹھا دیتا

‎۔۔۔۔۔۔

‎اب  مجھ  سے  شاعری سے  چاہے جنتے   بھی  بےزار ہوں  داد  دیئے بغیر نہیں رہ پائیں  گے ، آپ  تو  آپ یہاں تو مرزا نوشہ بھی  داد  دئیے  بغیر  نا  رہ   پائیں۔

‎کچھ   لوگ  غزل  اور نظم    دونوں اصناف میں  لکھتے  ہیں ۔ مگر اکثر  میں نے  دیکھا جو دونوں اصناف  میں لکھتے  ہیں  معتبر  وہ  کسی  ایک  صنف میں ہی مانے جاتے  ہیں ۔ بہت کم ہیں جو دونوں اصناف میں معتبر ہوں۔  رفعت  ناہید  جی ان میں سے  ایک  ہیں جو دونوں   اصناف میں لکھتی  ہیں  اور کمال کی معتبر شاعرہ  ہیں ۔  نظم جب پڑھتی ہیں تو لگتا ہے کسی نے نظم کو جھولے میں  بیٹھا  دیا  اور  نظم جھولے لے رہی ہے۔ نظم کے مضمون  کو  اس انداز میں  باندھنا  ہر شاعر  کے بس کی بات نہیں ۔ ان کی  نظم 

‎” ستمگرفلسفی شاعر  دوست”

‎یہ بلکل  انوکھا  اور  نئے  انداز کے ممضمون کی نظم ہے ۔ ( نظم پہ بات کرنے سے پہلے اپ کو اپنی ایک ذاتی بات بتائے چلتا ہوں ۔ میں  جب کسی  سے ملنے جاتا  تو راستے میں سوچھتا جاتا  میں  اسے یہ کہوں  گا  وہ یہ کہے گا ۔ اچھا  اگر اس نے  یہ کہہہ دیا  تو پھر میں یہ کہوں گا ۔  مگر وہاں جا کر پتا  چلتا وہ تو وہاں ہے ہی نہیں )  نظم کا کردار  محبت سے  خالی  کردار ہے  اس کے اندر  محبت کا  خلا ہے  محبت  کی  تنہائی ہے ۔ محبت کے خالی پن ۔ محبت کی تنہائی کو دور  کرنے  کے لیے  یہ کردار ایک  اور کردار  تخلیق کرتا ہے ۔ اور محبت کے خلا اور محبت کی  تنہائی  کو دور کرنے کے لیے  فرض کر لیتا  ہے کوئی  ایسا تھا  جو مجھ  سے ایسا  ایسا  کہتا تھا  اور میں  اس سے ایسے  ایسے  کہتی  تھی  کاش وہ  ویسا نا کہتا  ایسا کہتا 

‎مگر شاعر  کا کمال دیکھیں   اس نے  پہلی لائین  میں ماضی کا صیغہ استعمال نہیں کیا   جبکہ  ساری  نظم  ماضی سے  بھری  پڑی ہے  اور  اسی  ترکیب نے نظم کو ایک بڑی نظم بنایا ہے   ۔ باقی ہو سگتا   میری بات  سے اختلاف  کیا جائے  مگر یہی کہوں  گا  نظم  کا کردار  محبت  سے خالی  ہے اور  اپنے اس خالی  پن کو دور کرنے کے لیے  اس نے  ایک کردار  تخلیق  کیا   اور اس محبت کی ناکامی کی  وجوہات  گنوائی ہیں  جو  تھی  ہی نہیں ۔ ایسا  کرنا  کوئی  آسان  کام نہیں

‎رفعت جی   جتنی  خوبصورت شاعرہ ہیں اتنی ہی  خوبصورت انسان  ہیں  اور  ایک   خوبصورت آواز بھی  رکھتی ہیں  ۔ہم شاعری کے غریب لوگ  ہیں  اور  معاشی  طور پہ بھی  غریب ہیں  امید ہے رفعت ناہید جی  جیسا خوبصورت لکھتی  ہیں  ہمیں  اسی خوبصورتی سے سناتی  بھی  رہیں  رہیں اور  ہمیں اس مزدور  کی طرح بونس  ملتا   رہے گا

‎۔۔۔۔۔۔  ۔۔

‎مسعود قمر

: * ستمگر فلسفی، شاعر ، مصور *

وہ کہتا ہے

  ” یہ سب ایسے نہ ہوتا

اگر میں اور تم ایسے نہ ہوتے

تو کچھ بھی اور ہوتا

مگر ویسا نہ ہوتا

  اگر ویسا ہی ہونا تھا

 تو پھر ایسا نہ ہوتا “

میں چہرے کو ہتھیلی پر رکھے

حیرت سے اس کی بات سنتی ہوں

    وہ گر ایسا نہ ہوتا

تو میں ایسی نہ ہوتی

جو اب ہے وہ کبھی ایسے نہ ہوتا

اگر ایسا ہی ہونا تھا ویسا نہ ہوتا

   یا پھر ویسے ہی ہو جاتا

مگر کیسے یہ ہوتا

  میں اک دوجے کے پیچھے دوڑتے لفظوں میں اڑ کر گر گئی ہوں

مرے پاؤں تلے کچھ لفظ آ کر مر گئے ہیں

  میں باقی لفظ بیٹھی چن رہی ہوں

تو کوئی اجنبی سا نام بنتا ہے

  کوئی اختر ، تصدق

یا کوئی عمران، زاہد

 ( یا کوئی بھی

بہت ہی اجنبی سا نام )

میں پھر سے جوڑتی ہوں

مگر وہ نام مجھ سے پھر نہیں بنتا

یہاں تک کہ

یہ میرے ہاتھ ، چہرہ اور آنکھیں

بکھر کر گر گئے ہیں

میں اس سے کہہ رہی ہوں

  ” سمیٹو اور سنبھالو

مجھے پھر سے بناو

مجھے تم نام اپنا پھر بتاو

 مگر وہ سن نہیں سکتا

کہ اس نے کان اپنے بیگ میں رکھے ہوئے ہیں

میں اس کو پھر محبت سے بلاتی ہوں

” ادھر آو

       ستم گر اور شاعر –!

اور پیارے فلسفی ، میرے مصور ! “

  مگر وہ دور بیٹھا ہنس رہا ہے

   اور اس کے بازوؤں سے

بہت سے لفظ پھر سے اگ رہے ہیں

 سنہری،  لال ، نارنجی ، بنفشی

وہ مجھ کو ڈھیر سارے لفظ دے گا

  مجھے بانہوں میں لے گا

  میں پھر ہجوں کو جوڑوں گی


ناجیہ احمد

رفعت ناہید کے لیے

موت ظالم ہے

لے جاتی ہے

ان لوگوں کو

جو ہماری زندگی ہوتے ہیں

موت ظالم ہے

چھوڑ جاتی ہے

ہم لوگوں کو

ہر لمحہ مرنے کے لیے

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

March 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
25262728293031