ڈرنا منع ہے ۔۔۔ انجیل صحیفہ
ڈرنا منع ہے
انجیل صحیفہ
چاک دہلیز پر آنسو ٹپکاو کہ اس دریدہ زمین کو
نئے خواب چننے کی ہمت ملے
اس خرابے میں بھیجے ہوئے ہم جو بیگار مزدور ہیں
ہر گھڑی آہ و زاری و گریہ پہ مامور ہیں
ہم یہ کس سے کہیں
ایک تتلی یہاں سے وہاں خوف میں مبتلا
اپنی چادر پہ بکھرے ہوئے خوش نما سات رنگوں کی رکھشا کرے
یا تلاشے چمن میں جلائے ہوئے سرخ پھولوں میں ساتھی کوئی گم شدہ
گھر کے آنگن میں سوئے ہوئے بوڑھے برگد کو کیسے بتایئں
کہ اس کی جڑون کو جواں خون سے سینچنے کا سماں آ گیا ہے
کون پوروں سے اتری ہوئی شام مہندی سے کہہ دے
کہ اب اس کے بستر پہ بیوہ اکیلی گھنی رات ہو گی کسی کی جگہ
ہم کسی ننھے جگنو سے کیسے کہیں
کالی پٹی سے باندھی ہوئی آنکھ کے ہاتھ میں جو ترازو ہے
اس میں کئی چھید ہیں
ہم وہ بد رنگ چہرے نحوست میں لتھڑی ہوئی انگلیاں ہیں
جنہیں یہ پتہ ہے
کہ جلتے سیاہ منظروں میں پڑی زندہ آنکھیں
کہاں کس کی جھولی میں ڈالیں
ابھی سونگھ کر یہ بتا دیں گے
یہ عضو کس لاش کا ہے کہاں بھیجنا ہے
زمیں پر اتاری گئی ساعت اولیں کی سیاہی
ہماری بری صورتوں پر ابد تک ملی جا چکی ہے
ہمیں اپنے ہونے نہ ہونے کی بد بختیوں پر یقیں آ گیا ہے
خدا عز و جل !
وحشتوں سے بھرے یہ اذیت کے پل
تو نہیں دیکھ سکتا کہیں اور چل !