بنت ِ کرب ۔۔۔ ناجیہ احمد
بنت کرب
ناجیہ احمد
مجھے دعوت ملی تھی
د کھوں کے خدا نے مجھے بلایا تھا
معراج عطا کی تھی
میں دکھوں کی معراج حاصل کر نے
سفر پر نکلی تھی
آلام کے فرشتے میرے ہمراہ تھے
میں نے کرب کی نماز پڑھی،
اور دکھوں کے خدا کا شکر ادا کیا
میں نے آنسو وں کو پانی پر ترجیع دی
اس سفر میں میں نے بہت کچھ دیکھا
میں نے بہت سےہنستے چہرے
اور روتی روحیں دیکھیں
میں نے بہت سے نوحے اورگریہ و زاری سنی
سسکیوں نےہر جگہ میرا سواگت کیا
میں نے شہرغم اور اس کے باسی دیکھے
حزن و ملال میں ڈوبے لوگوں نے میری پذیرائ کی
میں نے۔۔۔
دنیا کو حوادث کے سراب میں بھٹکتا دیکھا
میں نے دکھوں کو عروج پر دیکھا
دکھوں کے خدا نے میری پزیرائ کی
میری پرستش کو قابلِ اعتناء سمجھا
مجھے خلوت میں بلایا
مجھے تشنہ لبی عطا ہوئ
لوگوں کےدکھوں کو سمجھنے کاہنر دیا گیا
مجھے پانچ وقت
رنج،غم،دکھ،حزن اور ملال کی نمازیں پڑھنے کا حکم ملا
مجھے فگار روحوں کو برتنا سکھایا گیا
زخموں کو مندمل کرنا بتایا گیا
آزردگی میرےسپرد کی گئ
اند وہ میرے حوالے کیے گۓ
لوگوں کے دکھ اپنانے کا حکم ملا
تحفہ معراج عطا ہوا
ہاں۔۔۔۔ ۔میں سرخرو ہوئ
دکھ اب لہو میں سرایت کر چکے ہیں
میری دہلیز پر رنج ایستادہ ہیں
اور ملال سجدہ ریز ہیں
غم میرا ہم رکاب ہے
تشنہ لبی میرا سایہ بنی ہوئ ہے
میں نے دکھوں کی معراج پالی ہے
میں زمین پر
دکھوں کے خدا کی نمائندہ ہوں
میں بنت کرب ہوں