انسومنیا ۔۔۔ سمیرا حمید
“انسومنیا”
سمیرا حمید
یہ بدنصیبی ہے یا….
بے چین روحوں کی نااہلی
کہ ہمیں خواب تک میسر نہیں…
گھڑی کی لَے پہ جھپکتی پلکیں
کسی فروزاں تخیل کا پیچھا کرتے کرتے
آنکھوں میں سرخ لہریں چھوڑ جاتی ہیں
کھڑکی سے اندر جھانکتی رات
رقیبِ معاند…
ایک ایک کرکے سب ستارے
گُل کرتی جاتی ہے…
کسی کہکشاں کا کوئی نام
باقی نہیں رہتا…
فضاِ ء دروں اذیت پسندی میں
اپنا گلا گھونٹنے لگتی ہے…
اور یہ موت دھواں سا بن کے پھیل جاتی ہے
گھڑی اور دل کے بیچ
مقابلہ شروع ہو جاتا ہے.
کسی کونے میں رینگتا ہوا
منحنا سا حشر بھی
بدن پہ چھپکلی سا سرسراتا ہے…
بند دروازے کے پیچھے
طوفان کھڑا کرنے کا دل چاہتا ہے..
کسی خواب کو سوچنے کے لیے
آنکھوں کی بِنتی کرنی پڑتی ہے
مگر اِذن نہی ملتا.
القصہ…
اس معرکہ شب و نوم میں
شب جیت جاتی ہے.
اور آنکھیں نیند کا تاوان دے کر
دن کے اجالوں میں..
پھر سے روپوش ہو جاتی ہیں.