غزل ۔۔۔ صابر ظفر

غزل

صابر ظفر

اب تک مزاحمت کی روایت رہی ہے کیا
تم کو ابھی خبر ہی نہیں سر کشی ہے کیا

بڑھتے رہے ہیں ایک کے بعد ایک سر فروش
تحریک زندگی کی کبھی دب سکی ہے کیا

آئی نہیں بہار مگر پھول کھل اٹھے
دیکھو شہادتوں کی یہاں فصل اگی ہے کیا

اب چاہیئے ترانہ کوئی اور ہی مجھے
شامل نہیں میں جس میں، وہ نغمہ گری ہے کیا

کب آئے گا وہ لمحہ کہ پوچھیں گے جب سبھی
پرچم کشائی عشق کی ہونے لگی ہے کیا ؟

تم بھی تو آنکھیں رکھتے ہو ، تم بھی تو کچھ کہو
یہ لاش آسماں سے گرائی گئی ہے کیا ؟

رہنا اسی وطن میں ہے صابر ظفر مجھے
جینے کی لیکن اس میں ضمانت رہی ہے کیا ؟

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930