بندھے ہوئے لوگ ۔۔۔ ناجیہ احمد
بندھے ہوۓ لوگ
ناجیہ احمد
انہوں نے آرزو کی تھی
کہ اپنی ذات کو بیچ کر بھی
اپنے لیے ایمان خریدیں گے
عقائد کی بلند وبالا چوٹی پر
جب انہوں نے اپنے گھروں کی بنیاد ڈالی تھی
تو انھیں خبر نہیں تھی
کہ اس کی بنیادوں میں
توہمات کی مٹی شامل ہے
انصاف کی تلاش میں جب انہوں نے
منصف کے دروازے کھٹکھٹاۓ
تو قاتل نے ان کی پذیرائ کی
جب ان مقروض لوگوں نے
آگہی کے بدلے میں
دین خریدا
تو جواباً انہیں
انا کے بت اور زنگ آلود مذہب دیا گیا
انہیں ایمان کی سولی پر مصلوب کر کے
ان سے سوچنے سمجھنے کا حق چھین لیا گیا
اوراب
ان کا مذہب زنگ آلود ہو چکا ہے
ان کے عقیدوں کو دیمک چاٹ گئ ہے
ان کا خدا محض جاء نماز تک محدود ہے
اور ویسے بھی
خدا کو کون ڈھونڈتا ہے
کہ منبر، منارے اور گنبد تو
نفرت اورانا کے بلند بتوں کے نیچے دب گئے ہیں
انھوں نے صرف وہی سنا
جو ان کے مفلوج مفکروں نے بتایا
وہی کیا
جو مذہب کے مصاحبوں نے سمجھایا
ان کو خبر نہیں
کہ اگر زہر کو تریاق سمجھا جاۓ
اور دشمن کو احباب
تو ایسی قوم میں
محض بندھے ہوۓ لوگ جنم لیتے ہیں
میری قوم نے
دوسروں کے مذہب پر سوال اٹھا کر
اپنے لئیے جنت میں گھر بناۓ ہیں
مگر قوم کو نہیں پتا
ان کو ناموس کا خطبہ دینے والے
خود اپنے حصے میں
محض لعنت لکھوا کر آۓ ہیں