ٹرانسفارمر ۔۔۔ صفیہ حیات
رانسفارمر
صفیہ حیات
ٹرانسفارمر میں شاید کوئی خرابی ہے
اس تک کوئی اطلاع نہیں جاتی
طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک
افق تا بہ افق سے آنے والے آپریٹر
اسے کچھ نہیں بتاتے
وہ مطمئن رہتا ہے۔
گول سیارے کی مخلوق
سیاہی و سفیدی میں ڈوبی خوش ہے
۔
اسے کیا پتہ
وہاں سازشیں ہو رہی ہیں۔
پانی اپنے دائرے میں جمع کرنے کی
کمزور کو محکوم کرنے کی
وہ تو یہ بھی نہیں جانتا
انتڑیوں کے ساتھ لگے تھیلے میں
گندمی بھوسہ
پھول کر اشتہا بڑھا دیتا ہے۔
وہ نہیں جانتا
کرتے کی گتھلی میں چھید ہو
تو
معالج بیمار کو نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا
اپنے عشق میں مصروف رہتا ہے
غلط وقت پہ
غلط انجکشن لگا کر
ہینڈ فری میں گھسی محبوبہ کے
حساس بدنی نقطوں پہ انگلیوں سے
تھکن نچوڑتا ہے۔
لڑکی ہنستی ہے
” تم تو قسم سے میرے خدا ہو
پل میں بدنی خزاں کو رخصت کر دیتے ہو”
فٹ پاتھ پہ پڑا بھوکا لاغر بوڑھا
کمر سے لگے پیٹ پہ ہاتھ رکھتے کراہا
خدا۔۔۔۔؟
واقعی کوئی ہے۔؟