غزل ۔۔۔ ثروت زہرا

غزل

ثروت زہرا

تمہاری منتظر یوں تو ہزاروں گھر بناتی ہوں

وہ رستہ بنتے جاتے ہیں کچھ اتنے در بناتی ہوں

جو سارا دن مرے خوابوں کو ریزہ ریزہ کرتے ہیں

میں ان لمحوں کو سی کر رات کا بستر بناتی ہوں

ہمارے دور میں رقاصہ کے پاؤں نہیں ہوتے

ادھورے جسم لکھتی ہوں خمیدہ سر بناتی ہوں

سمندر اور ساحل پیاس کی زندہ علامت ہیں

انہیں میں تشنگی کی حد کو بھی چھو کر بناتی ہوں

میں جذبوں سے تخیل کو نرالی وسعتیں دے کر

کبھی دھرتی بچھاتی ہوں کبھی امبر بناتی ہوں

مرے جذبوں کو یہ لفظوں کی بندش مار دیتی ہے

کسی سے کیا کہوں کیا ذات کے اندر بناتی ہوں

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930