روشنی کا برش ۔۔۔ ممتاز حسین
روشنی کا برش
ممتازحسین
حقیقت میں بلیک اینڈ وائٹ میں سب رنگ پنہاں ہیں۔ رنگوں کی دریافت میں جتنا کردار کیمرے نے ادا کیا ہے شاید ہی کسی اور آلہ نے کیا ہو۔ رنگوں کا شدید اختلاف جتنا بلیک اینڈ وائٹ میں ملتا ہے کہیں اور نہیں ملے گا۔ رنگوں کی جان کاری جتنی اندھیرے میں حاصل ہوتی ہے اتنی رنگوں میں دکھائی نہیں دیتی۔ ایک پراسراریت ہے جو رنگوں کو دیکھنے کی قابلیت فنکار کی آنکھ کے عدسہ میں پوشیدہ ہے۔ اس کی دسترس میں مخفی رازوں کو اجاگر کرنے کی قوت کسی اور چیز میں نہیں ملے گی۔ یہ ایک بہت ہی مہذب فریب ہے جو کیمرے کے پیچھے بغیر جھپکتی آنکھ کے چھپے ہوئے رازوں کی تہوں کو الٹ پلٹ کر دیکھتی ہے۔ اگر کسی رنگین تصویر کا تجزیہ کیا جائے تو تین بنیادی رنگوں کے ملاپ سے ہی ہزاروں رنگ جنم لیتے ہیں۔ اس لیے رنگوں کا خالص ہونا اس کی شدت کو محسوس کرنا اپنے تصور کے اظہار کی رازدارانہ منظوری ہی ایک خاص انسان کے جذبات پر مقصد بن کر چھا جاتا ہے۔ گرمی ہو یا آگ کی شدت ہو، ٹھنڈک ہو محبت ہو یا جنسی شہورت۔ سب کا اظہار رنگوں میں چھپی ہوئی وہ طاقت ہے جو انسان کے اعصاب پر شدت کے اثرات چھوڑ دیتا ہے۔ خواہ جو جنت کا سکون ہو یا جہنم کی آگ کی طبش ہو۔ لہلاتے کھیتوں کا چین ہو یا آتش فشاں کا خوف ہو۔ روحانی قدروں کا اظہار ہو یا شیطان کی نفرت ہو۔ بھوک کی شدت ہو اس کی تشفی ہو، خوشی یا غمی کا اظہار ہو، پیدائش کے شادیانے بجنے ہوں یا موت کی سوگواری۔ کسی بھی مظہر کا واقع ہونا ہو یا غیر متوقع حادثہ ہو۔ ذاتی اغراض کا برآنا ہو یا تکمیل کے مراحل طے کرنا ہو۔ سب جزیات کا بصری مظاہرہ سب رنگوں کا جادو ہے جو سر چڑھ کے بولتا ہے۔ زندگی رنگوں میں رونما ہونے کا ایک حادثہ ہے جو آنکھ کی پگڈنڈی پے ٹہلتا ہوا دل و دماغ کے کوہ قاف میں دیو کی قید میں ایک شہزادی بھی ہے اور وہ دیو بھی ہے جو آدم بو آدم بو کی رٹ لگاتا ہے
فلم ایک بصری ذریعہ ہے جو بغیر کسی بنیادی اصولوں کے اختلاف کے آرٹ کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اپنی رائے کا اظہار آزادانہ طریقے سے کرتا ہے۔ ہمیشہ کامیاب فلم تاریخ کے دھاروں پر کامیاب اترتی ہے۔ ٹوٹے ہوئے کھنڈروں کی چیخیں قبروں سے نکلے ہوئے وحشی لاشوں کے دلخراش قہقہے، پھولوں کی کم سن مسکراہٹ، افق کے دوسری طرف خون میں دوبے سورج کی کراہ، چاند کے ہونٹوں کو چھوتی ہوئی مخروطی انگلیاں فریم سے نکل کر سینے پہ چپکی جیب میں کچھ ٹٹولتی رہتی ہیں۔
فلم تعلیمی رومانی، جزیاتی، اخلاقی اور غیر اخلاقی تحریکوں کو اپنا موضوع بناتی ہے۔ جغرافیائی یا دستاویزی مضمونوں کو اپنے بصری اور سیمائی خزانے میں پھولتے ہوئے بینک بیلنس کی طرح اعداد و شمار میں اضا فے کرتی رہتی ہے۔ فلم ہمیشہ فریم سے فریم اور پھر بالخصوص چلتی پھرتی ایک مکمل فلم۔ ایک فلم نگار کی کاوش بن کے ابھرتی ہے جو اندھی آرزو کے پیراہن بن کے ننگے جسم کو ڈھانپ لیتی ہے۔ خواہش کے سورج کی کرنیں سمندر کے سینے پر چیخنے لگتی ہیں۔ پھر شام کی کالی اداس بھاپ بن کر آنکھ مٹکاتی اڑ جاتی ہے اور اونچی اونچی عمارتوں سے گر کر خودکشی کر لیتی ہے۔
ماڈرن آرٹ کے محاذ پر فلم اگلی صفوں میں کھڑے اس سپاہی کی طرح ہے جس کے راستے کبھی کھوج میں گم نہیں ہوتے۔ خون میں لتھڑے لب ہمیشہ ہنس رہے ہوتے ہیں اور سرخ رنگ کی چادر تن جاتی ہے اور پربتوں کی چوٹیوں سے ریشمی خوشبو کی کرنیں پھوٹتی رہتی ہیں۔ زمین کا سورج کبھی دھوپ کے جنگل میں ڈوبتا نہیں۔ چوکس سپاہی اندھی تقلیدکی بجائے منطق کے بارود کو اکٹھا کرکے لڑتا ہے۔ حرکات یا تحریک کی منصوبہ بندی کی دھن پر ایک ٹھمری دادرا خیال کی لے پر سنائی دینے کے علاوہ دکھائی بھی دیتی ہے۔ چہرے کے انداز اور اظہار کی چھاپ بالکل مختلف ہوتی ہے۔ روشنی کے مختلف زاویے ایک عام چیز کو ایک خاص وقت اور فضا میں نارنگیوں کے پیڑوں کے نیچےنرم بھینی گھاس پر شبنم کے قطرے چمکتے رنگوں کو منعکس کرتے ہیں جو سورج کی خودکشی سے پہلے آسماں سے پوچھتے ہیں۔ آپ مجھے برہنہ دیکھنے سے پہلے اپنی آغوش میں چھپا لو۔ پھر میں ایسے حسن کی مثال بن کے چھا جاؤں گا جو قابلِ قدر قابلِ ستائش ہوگی۔
حرکت یا موومنٹ کو توڑ کے پیش کرنے کو فلم کی روایت یا اصطلاح میں تعمیر نو کہتے ہیں۔ آرٹ میں بالکل کیوبسٹ آرٹ کو چاک کرنا اور پھر اسے دوبارہ سے تعمیر کرنا ہی کیوب ازم ہے۔ فطری مناظر کو ہم غیر فطری چیزوں سے روشنی کی مدد سے کیمرے کی آنکھ سے مصنف کی کہانی کو بصری بیانیہ میں پیش کرتے ہیں۔ خواہ لال پیلی بتیوں کے عکس کی ٹوٹی ہوئی قوس قزح ہو یا خالی گلاسوں میں پگھلتی جا رہی ہو۔ یا ایش ٹرے کے چہرے پہ بجھتی ہوئی سگریٹ کے جلتے زخم سے خون رس رہا ہو اور گھومتے پنکھے کے نیچے میز پر پڑا اخبار تھر تھر کانپ رہا ہو۔ چاہے دھول اڑاتی موٹروں کے بوجھ سے کچلی ہوئی سڑکیں اور ان کی سسکتی آہیں ہوں۔ اور بادلوں سے چھنتی ہوئی روشنی وہ شاعرانہ ڈرامہ پیش کرتی ہیں۔ جو دراصل میں تعمیراتی میٹریل سے تعمیر کی ہوئی چیزیں ہوتی ہیں۔ طلسماتی اور جادوئی صلاحیتوں کو خوابوں میں حقیقت کا سماں پیش کر دیتے ہیں۔ روایتی کہانی کو مکمل آزادی کے ساتھ واقعات کی تاریخ وار ترتیب میں پیش کر دیتی ہے۔ اس کو ڈاڈازم یا سوریل ازم کا نام دے دیا گیا ہے۔ جس میں روایتی چیزوں کو ایک نئے مضمون کے سیاق و سباق میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ جیسے کسی بوڑھے قبرستان کی ٹوٹی ہوئی قبروں سے باہر جھانکتی ایک شکستہ کھوپڑی جو ہڈیوں کے ایک بے ہنگم ڈھانچے پر تھوپ دی جاتی ہے۔ آگ کی ندی میں راستہ بناتی لرزتی انگلیاں اور انگلیوں کے درمیان گہوں کے دانے کو رکھ کر آکاش کے چہرے پہ تھوک دیتی ہو اور پھر ایک دوسرا خیال بن کر ابھرتا ہے یعنی متبادل اشکال کا استعمال ایک نئی ہی چیز بنا کر پیش کر دیتا ہے۔ جو اس کی ظاہری شکل کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔ لیکن گہری سوچ اس کا مطلب نئی سماجی، معاشی فطرت میں بالکل مختلف دے رہی ہوتی ہے۔ انگلینڈ، فرانس، ڈنمارک، ہالینڈ، بلجیم میں تجرباتی فلموں کا گروپ جو ذاتی طور پر پینٹر آرٹسٹ ہیں۔ ابتدائی بیسیویں صدی میں انہوں نے خاصا استفادہحاصل کیا۔ اس وقت کے ایونٹ گارڈ موومنٹ سے انہوں نے ہمیشہ صرف اور صرف حقیقت پسندانہ روایت کی تقلید کی ہے اور ان کی فنکارانہ دیانت داری روایت کی پیروی کرتی رہی ہے۔ جس میں تھوڑی سی وقتی اور طوفانی تبدیلی وہ واقعات تھے جو نوجوان نسل کی وجہ سے یورپ اور دنیا کے کئی حصوں میں رونما ہوئے۔ بظاہر شاید یہ تبدیلی آئندہ کبھی بھی رونما نہ ہو لیکن اس کے پھلنے پھولنے یا چھوٹی بڑی تحریک بن کر دوبارہ سے ابھرنے کے امکانات میں فنکارانہ اور جدیدیت کے عناصر ضرور شامل کریں گے۔ تاریخ ہمیشہ اس حقیقت کی گواہ رہے گی۔
ایک ڈائریکٹر کی فنکارانہ سوچ یا تخیل جو فلم کے مرکزی خیال سے لے کر بصری اشاروں سے فلم بین کو باور کروا دیتی ہے کہ اس کا فلم کا ڈائریکٹر الفریڈ ہچکاک ہے۔ اسی کی وہ خاص اشاروں والا تسلسل ہی اس کی پہچان بن جاتا ہے۔ فلم کاری میں فنکارانہ گمان یا تصور ہی اس کی پہچان ہے۔ یہی فرانس کی فلم کی تحریک میں ایک لہر بن کر اُبھری۔ وہ کوئی نیا آئیڈیا لے کر نہیں آئے بلکہ فلم کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو صحیح معنی دے دیئے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ فلم کو حقیقی نظروں سے دیکھا جائے۔ اٹلی کے نیوریلزم کو ہی فلم کا سنہرا باب کہا جاتا ہے جو قوم پرستی کی ایک جدوجہد تھی جو وہاں کے کام کرنے والے لوئر مڈل کلاس کی محرومیوں اور ان کی جدوجہد پر منحصر ہوتی تھیں۔ وہاں کے اصل مقامات اور واقعات کو جوں کے توں کی حقیقت ہوں۔ اصل کی قریب لگیں اس حقیقی منظرنامے کو ایک آرٹ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں تربیت یافتہ اداکاروں کی بجائے عام لوگ وہ کردار ادا کر کے موضوع میں حقیقت کا رنگ بھر دیتے۔ کچھ فلموں کے نام لیے بغیر میں اپنے نقطہئ نظر کو صحیح طور پر واضح نہیں کر سکوں گا۔ مثال کے طور پر ویتریو دی سکہ اطالوی فلم ڈائریکٹر کی فلم ساہکل چور۔ ستیاجیت رے کی بنگالی فلم پتھر پنجولی۔ پاکستانی فلم ڈائریکٹر اے جے کاردار کی فلم جاگو ہوا سویرا جس کو فیض احمد فیض صاحب نے لکھا۔
خاموش فلموں سے لے کر اب تک ایک سفر ہے جو نہایت دلچسپی سے وقت کے ساتھ ساتھ اپنیمنزلیں طے کرتا جا رہا ہے۔ ضروری نہیں اس سفر کے مسافر صرف فلموں کے خالق ہی ہوں بلکہ فلم بین بھی ہیں جو بچوں سے لے کر بزرگوں تک اس عمل کا حصہ ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا ہمارے بچپن میں کبھی بزرگ یا جوان اپنی کمر پے، ایک سبز رنگ کا مستطیل صندوق جس میں تین دائرہ دار سوراخوں میں موٹا عدسہ نصب ہوتا تھا جب ہم اپنی آنکھوں کو عدسہ سے لگا کر اپنے دونوں ہاتھوں سے دائرہ کو مکمل طور پر ڈھانپ لیتے تاکہ روشنی اندر داخل نہ ہو سکے۔ مختلف مناظر صندوق کے نیچے لگی ہوئی چابی سے بدلنے شروع ہو جاتے۔ تصویر کے بدلنے کے ساتھ اس منظر کا آنکھوں دیکھا حال تماشہ دکھانے والا بتاتا جاتا۔ ”اے جل مچھلی وی ویکھو“۔ پھر وہ جل مچھلی کی پوری داستان منہ سے صوتی اثرات کے ساتھ بیان کرتا۔”اے بارہ من دی دھوبن وی ویکھو۔“ سکرین کے اوپر ایک فربہ عورت بیٹھی ہوتی، دھوبن کی داستان بھی اسی طرح بیان کرتا۔ پری گھوڑا۔ بس ایک عالم ہوتا تھا جیسے جلتی بجھتی قندیل جو ہمیں خوابوں کی دنیا میں لے جاتی۔ دریا میں ہمیں لگتا مچلتی اچھلتی ایک جل مچھلی جو خوشیوں کو ہمارے ساتھ برابر کی تقسیم کرتی جاتی۔ہمیں قہقہے بانٹی جیسے ہم بھی اس دریا میں جل مچھلی کے ساتھ تیر رہے ہیں، ڈوب رہے ہیں، پھر ایک منظر سے دوسرے منظر میں داخل ہو جاتے، ہواؤں میں اڑتا پری گھوڑا جس کے پاؤں میں پڑی زنجیر آسمان کے پاتال میں اسے دور نہ جانے دیتا۔ جیسے خوابوں کی بیڑیاں ہماری آنکھوں میں جھنجھنا رہی ہوں اور ہمارے اس منظر میں پری گھوڑے کے ساتھ قید ہو گئے ہوں۔ ایک خاموشی سی ہمارے اندر چھا جاتی، روح کے سائے میں جلتی دھوپ راج کر رہی ہوتی۔ ایک ویرانی سی جس میں ہم سب سما گئے ہوں۔ ہم سب معدوم ہو گئے ہوں۔ ہمارے اندر کا ہنگامہ اندھیرے کے بانہوں میں شور کی لاش اٹھائے ہوئے ہو۔ اس تاریکی میں صرف اور صرف ہم اور سبز صندوق والے کے چنگل میں ہم سب ناچ رہے ہوں۔ جب تک پیسے ختم نہ ہوتے ہمارے دماغ کی سکرین پر منظر گھومتے رہتے۔ پھر اچانک آواز آتی، تماشہ ختم ہوا۔ وہاں کوئی بھی نہ ہوتا، کچھ بھی نہ ہوتا۔ سب کچھ جیسے ختم ہو جاتا، نہ زمین نہ آسمان، نہ وقت ہوتا نہ ہی لوگ ہوتے۔ بس سبز رنگ والے صندوق کا مالک کمرپے صندوق لادے آوازلگاتاجا رہا ہوتا ”بارہ من دی دھوبن ویکھو“۔ ”پری گھوڑا ویکھو، جل مچھلی ویکھو۔“ ہمیں لگتا کہ وہ ہمارے گھر کی ساری پونجی چھین کر سبز صندوق میں مقفل کر کے لے گیا۔ ہم افسردہ ہوے ہم نے کونسا جرم کیا تھا جس کا ہم نے یہ خراج دے دیا۔ اسی طرح خوشی اور غمی کا فلمی سفر آگے بڑھتا چلا گیا۔ خاموش فلموں نے پھر بولنا شروع کر دیا۔ سیاہ و سفید سلولائیڈ سکرینوں پر روشنی سے منعکس ہوتے رنگ آنے شروع ہو گئے اور ہم سبز رنگ کے چھوٹے سے صندوق کی بجائے بڑے بڑے کمرے، پھر ہال اور ہال سے پھر تھیٹر میں اپنے خیالوں خوابوں کے پیراشوٹ سے اترتے ہوئے کبھی چھت کے بنا ویرانوں میں کھلی فضاؤں میں ڈرائیو کرتے ڈرائیو اِن میں پہنچ جاتے اورکبھی بند کمروں میں اندھیرے میں مکمل خاموشی میں صرف ہم اور ہمارا رابطہ ان کرداروں سے شروع ہو جاتا جو اپنے غم، خوشی دکھ سیاست یاں پال ساتر کے پریشان فلسفے، مارکس اور اینگل کی پشیمان تحریکیں جیسے کسی نے اندھیرے میں روشنی اتار دی ہو۔ لیکن واحد یہ وہ ذریعہ ہے جس میں انسان اپنے ہوش و حواس کو ایک مستقل فریم پر مرکوز کر دیتا ہے اور ہم کبھی پانچ منٹ اور کبھی چار گھنٹوں کے دورانیے میں اس مستطیل فریم کا حصہ بن جاتے۔ کبھی بِن حُر کی رتھ کے پاش پاش ٹکڑے ہمارے جسم میں چھید کرتے محسوس ہوتے۔صدا اور موسیقی ہمیں ا س طرح مشغول اور مائل کر دیتی جیسے ہمارے معلومات کی کند دھاریں پتھر سے رگڑ کھا کے چنگاریاں نکالنے لگتی۔ جذبات کی بھٹی میں پڑے انگاروں پر تیل کی دھار بن کے لہکتے ہوئے شعلے کی طرح بھڑکا دیتی۔ ہماری توجہ کو سکرین پر مرکوز کرنے پر مجبور کر دیتی۔ ہمارے موڈ یا مزاج کے بدلنے کا تڑکا ہمارے دل و دماغ میں پکتے ہوئے خیا ل میں ہیجان برپا کر دیتی۔ صوتی اثرات اور خوبصورت زبان کا استعمال اور موسیقی کا سحر ہوا کے بدن میں لہو کو گرما دیتا ہے۔ بہتے ہوئے سمندر جیسے تھم جاتے ہوں۔ فضاؤں میں جلتا سورج پگھلنے لگتا ہو۔
کبھی کبھی خاموشی بھی منظر کو ڈرامائی طور پر مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ جیسے خون کی قوس و قزاح بدن پرکھچ جائے۔ دودھ کی بوند بادلوں کی چھاتی سے گرنے لگے۔ لہو سرخ گلابوں میں قید ہو جائیں اور موسیقی جیسے نظر بچا کے ہماری آنکھوں میں تیرتے ہوئے خواہش کے کالے بادل دیکھ لے۔
تجرباتی فلم ڈائکو منٹری یا ڈائیکومنٹری سٹائل میں بنی فلموں کو اب عام فلم بین جنہیں فلم کی زبان میں جنرل آئیڈنس کہتے ہیں۔ انہوں نے دلچسپی لینی شروع کر دی ہے۔ جتنا وہ قبول کرے گی اتنا ہی وہ سکرین سٹامل بن کر ا بھرے گا۔ جو ابھی تک تھیٹریکل سٹائل دیکھنے کے عادی ہیں۔ جنرل آئیڈنس جب یہ بڑی تبدیلی قبول کر لے گی تو تفریحی فلمیں بھی سکرین سٹائل کو قبول کر لے گاپھر تفریح کا مطلب حقیقت پر مبنی وہ سکرین سٹائل کہلانے کا مستحق ہوگا۔ جس سے جنرل آئیڈینس اپنا تعلق ڈھونڈنے لگے گی جسے آسکروائیلڈ نے کچھ ایسے کہا ہے ”جو اصل میں تم ہو تم وہی رہو۔ باقی سب کچھ تو استعمال ہو چکا ہے“۔ ہماری فلمیں ابھی تک تھیٹر سے جدا نہیں ہوئیں جس دن سکرین سٹائل کی قبولیت ہوگی وہ سینما کا سنہری باب ہوگا۔ جس کا مقصد ہمیشہ آرٹ فلم میں تفریح کا عنصر اجاگر کرے گا اور وہ پرانے دوہراے ہوے موضوع فلم بینوں کی تفریح کا حصہ نہیں بنیں گے۔ میں اپنا روشنی کا برش آسکر وائیلڈ کے اس اقتباس کے ساتھ نیچے رکھتا ہوں۔
خوش کن انجام پرمسرت ہوتا ہے اور برا اختتام رنجیدہ کر دیتا ہے۔