پوسٹ ماڈرن آدمی ۔۔۔ فارحہ ارشد
پوسٹ ماڈرن آدمی
فارحہ ارشد
کسی پینٹنگ کے جیسی ، کھڑکی سے باہر جھانکتی لڑکی پلٹی ۔ صوفے کی پشت پر سر ٹکائے لڑکے کو چند ثانیے گہری نگاہوں سے جانچتی رہی۔ دھیرے دھیرے قدم اٹھائی صوفے کی پشت کو تھاما اور قدرے آگے کو جھکتے ہوئے اجنبی سی نگاہوں سے اسے تکتے ہوئے بولی:
” تم ۔۔ ہلمند مراد تم ۔۔ دوغلے ہو ۔ دوہری زندگی گزارتے ہو ۔ ایک وہ جو سامنے ہے اور ۔ ۔ ۔ اور ایک وہ جوسب دیکھ نہیں پاتے In fact, you are behaving like photon in a double slit ۔”
وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
“ہاہاہا—Photon in a double slit” ‘ہلمند نے ایک زوردار قہقہ لگاتے ہوئے دوہرایا۔
۔ “فزکس کی طالبہ رہی ہو ۔ ۔ معلوم ہے مجھے. حمنہ اسفند یار” سامنے میز پر رکھے گلاس میں پہلے سے موجود دو پیگ وہسکی میں اس نے چمٹے سے آئس بکٹ سے برف کی دو چوکور ٹکیاں ڈالیں، ایک چھوٹا سا سپ لیا اور گلاس ہوا میں لہراتے ہوئے صوفہ چھوڑ کر اس کی طرف بڑھا۔ وہ دوبارہ اس کی طرف پشت کر کے کھڑکی کے سامنے جا کھڑی ہوئی ۔ ” ایسا تم کیوں سمجھتی ہو میں جانتا ہوں ۔ دراصل میں ہی تو تمہیں جانتا ہوں۔ ” ہلمند مراد نے اس کی طرف قدم بڑھائے ۔ وہ لا پر وا سی اپنی جگہ پر جمی گلاس ونڈو سے بدستور باہر دیکھنے ہوئے بولی ” جونہی تم سے نگاہ ہٹائی جائے تم اپنے سارے دروازے کھول کر آزاد ہو جاتے ہو۔ یعنی روشنی کی طرح اپنا بی ہیوئیر بدل لیتے ہو۔ نگاہ بٹتے ہی مختلف ہو جاتے ہو۔ میرا مطلب ہے ۔ تم وہ نہیں جو نظر آتے ہو۔”
” کیا ہم سب ایسے ہی نہیں؟”
“نہیں۔ لوگ وقتی طور پر تبدیل ہوتے ہوں گے پھر واپس وہیں لوٹ آتے ہیں مگرتم ایسے نہیں۔”
” تم۔ باقاعدہ ایک الگ زندگی بسر کرتے ہو تم۔ “
“لوگ واپس بھی نہیں آتے۔ ” نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے لہجے میں طنز تھا۔
شرمندگی کا ایک ہیولا سا اس کے چہرے پر آ کر گزر گیا، ” جانے والوں کو کسی جواز کی ضرورت نہیں ہوتی۔وہ تو بس چلے جاتے ہیں۔ ‘اس نے شکستگی سے کہا۔ وہ ابھی تک کھڑکی سے ناک چپکائے اندھیرے میں کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔
“تمہارے پاس میری کسی بات کا بھی جواب نہیں یا شاید تم سمجھ چکی ہو کہ اب ان باتوں کا کوئی جواز نہیں۔ ” حمنہ خاموش کھڑی رہی۔
وہ دو قدم آگے بڑھا ۔ Estee Lauder کی نرم خوشبو سے اس کا وجود مہک رہا تھا۔
” بائے دا وے۔ ۔۔۔ اس بلند و بالا عمارت کی بایئسویں چھت کی کھڑکی سے نیچے دیکھنے کا بس ایک فائدہ ہی مجھے نظر آتا ہے کہ سب خود سے بونے دکھائی دیتے ہیں۔ “
” ویسے تمہارے کولہے خوبصورت ہیں۔” اس نے ایک اور گھونٹ لیتے ہوئے آخری جملہ ہنستے ہوئے کہا تاکہ ماحول میں تنا رچاو کسی طرح کم ہو۔
” جانتی ہو؟ وہ تمہیں نیلے پیلے، کاسنی ، سرخ حتی کہ سیاہ سپنے دکھاتا رہے گا اور تم سجی سجائی گڑیا جیسی کمرے کے کونے میں پڑی پڑی بوسیدہ ہو جاو گی اور وہ کسی دوسری گڑیا کی موم کی ناک لمبی کر رہا ہوگا۔ “
” ہا ہا ہا۔ ۔۔۔” اس نے اپنی بات کا لطف لیتے ہوئے اس کے ناراضی بھرے چہرے پر اک گہری نگاہ ڈالی جو آتی جاتی گاڑیوں کی ننھی منی مرکری روشنیوں میں جانے کیا تلاش کر رہی تھی۔
“تم نے کبھی سوچا ہے کہ کسی ہرجائی آدمی کی محبوبہ کا کردار کتنا گمبھیر ہوتا ہے ؟ ” اس کی ہنسی کھوکھلی تھی۔
وہ پوری ڈھٹائی یا شاید اعتماد سے گردن اٹھائے اسے دیکھنے لگی۔کئی خاموش لمحے گزر گئے۔
ہوا مدھم انداز میں سرسراتی رہی ۔ سمے اپنی چال میں گم ان کے گرد دائرے بناتا رہا۔ “کاش ایسا ہو کہ یہ زمیں چھوٹا موٹا جہنم ہی اگل دے۔ بلکہ مجھے اپنا جملہ درست کرنا چاہیے کہ چھوٹے موٹے جہنم تو تم اپنے ساتھ لیے پھرتی ہو دوسروں کو اس میں بھسم کرنے کے لیے۔”
“ویسے تم آگ سے محتاط ہی رہنا، یہ کسی کوبھی جلا سکتی ہے۔ اس کی کون سا آنکھیں ہوتی ہیں ؟ کب کسی کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔” اس کے لہجے میں طنز تھا یا افسوس وہ نہیں جان پائی۔
“یا پھر تم یوں کرنا ساگوان کی بنی بگھی آگ میں اتارنا اور اپنے رومیو کا استقبال کرنا۔۔۔ پہلے ساگوان جلے گا یا تم ؟ یہ اس کی قسمت ۔ دیکھنے والی بات تو یہ ہوگی کہ وہ تم دونوں میں سے کسے بچا کر ساتھ لے جائے گا ۔تمہیں یاسا گو ان کی راکھ کو ۔”
اس نے ایک اور تلخ گھونٹ حلق سے اتارا اور گلاس میز پر رکھ دیا۔
اس کی بات سن کر وہ پلٹی۔ سینے پر ہاتھ باندھے کچھ دیر اسے تکتی رہی اور پھر درشت آواز میں بولی۔ “تم بے فکر رہو ۔ وہ جتنی چاہے زیادتی کرے۔ اس جیسی محبت کوئی نہیں کر سکتا۔ ؟”
“ہمم”
“پولیا نا سینڈروم ۔۔” وہ ہنسا۔
“جو مرضی نام دو “۔اس نے لا پرواہی سے شانے اچکائے۔
وہ برا سٹریپ کی طرح الفاظ جوڑتی تھی، ایک دوسرے میں پیوست ایک نقطہ درمیان سے الگ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ وہ اس کے اس ہنر سے واقف تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ اپنی ذات کا ہر اس شے سے رابطہ منقطع کر چکی تھی جو بہزاد علوی سے اس کو الگ کرے حتی کہ اس سےبھی ۔
“توتم فیصلہ نہیں بدلوگی ۔”وہ ہربار کی طرح پوچھنے لگا جبکہ اسے یقین تھا کہ اس کا جواب بھی نہیں بدلے گا۔ مگر اچانک اس کا جی چاہا، وہ فیصلہ بدل دے۔ گھسی پٹی چنگھاڑتی دھن میں کہیں اچانک موزارٹ کے لٹل نائٹ میوزک کی ہلکی سی آمیزش ابھر آئے ۔ شکستگی اور بے وفائی کا دکھ۔ ہلمند مراد کے چہرے پر پھیل گیا مگر لبوں پر مسکراہٹ رہی۔
“تم تھوڑے تھوڑے ہر جگہ ہو بلکہ وہاں بھی جہاں نظر نہیں آتے ۔ اتنے ذہین کہ تقسیم کئےجا چکے ہو۔ فوٹون ان ڈبل سلٹ ۔۔” اس کی مسکراہٹ نے حمنہ ذوالفقار کو زچ کیا تو وہ تیز تیز کہتی چلی گئی۔
” یہ کمپلیمنٹ قدرے زیادہ بار نہیں ہو گیا؟ ۔۔۔ میرا خیال ہے تم اس تھیوری کا استعمال درست نہیں کر رہیں۔۔۔ ایک مرکز جہاں سے روشنی پھوٹتی ہے اس کو نہیں سمجھ پائیں گویا مجھے سمجھنے میں ناکام ہو چکی ہو۔ “
“ٹھیک ہے۔ اچھا ہے۔۔۔” اُس نے گلاس اٹھایا اور ایک ہی سانس میں خالی کردیا۔
آخر کتنی دیر وہ اسے زبر دستی ادھر اُدھر کی باتوں میں لگائے روک سکتا تھا۔ دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈالے خاموشی سے اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ وہ کچھ دیر اجنبیت بھری نظروں سے اسے دیکھتی رہی اور پھر صوفوں کے عین درمیان رکھے میز پرسے پرس ، چابیاں اور موبائل اٹھایا اور ہمیشہ کی طرح الوداعی کلمات کہے بنا با ہر نکل گئی۔ وہ اسے آخری بار اپنے کمرے کی چوکھٹ پار کرتے دیکھتا رہا۔
مدھم روشنی میں ، اونچے ہیلز کی سینڈلز کی ٹھک ٹھک۔ ارد گرد ٹوٹی بکھرتی آوازوں کے شور سے کمرہ بھر گیا۔ وہ صوفے پر گر گیا۔ ایک بار پھر بند دروازے کی سمت دیکھا اور صوفے کی پشت پر سرٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ ان کی ملاقات کو لگ بھگ دو سال ہو چکے تھے اور الگ ہوئے چھ ماہ۔ وہ کائنات سے متعلق ہر پہلو کے تجسس میں مبتلا انسان تھا جو کا سموس اور کو انٹم فزکس پر پہروں بول سکتا تھا جب کہ حمنہ اس کے بر عکس محض فرد سے فرد تک۔ ۔۔۔۔ کسی ان دیکھے دائرے میں قید لڑکی تھی۔
خود سے خود تک کی دنیا کے علاوہ اس کے لیے سب بے معنی تھا؟ “می ٹائم ” سے باہر اس کے لیے کوئی زندگی نہ تھی۔ توجہ کا مرکز رہنا اسے پسند تھا۔ اسے سامئے والے کی پسند اور ناپسند سے کچھ شغف نہ تھا۔ جب کہ ہلمند مراد موسیقی اور مصوری کے موضوعات پر بھی دسترس رکھتا تھا۔ عالمی ادب تھیٹر اور فلم پر بات کرتا تو محسوس ہوتا سننے والے نے آج تک ان موضوعات کو ایسے فلسفیانہ طریقے سے کبھی سوچا تک نہیں۔ وہ جب دوستوں سے ملتا ان کے مابین ریڈیو کنٹرولر کے ماڈلز سے لے کر مذہب، پیرا سائیکالوجی سے طبیعیات کے موضوعات پر طویل بحثیں ہوا کرتیں۔ ان میں سے ایک موضوع جس پر وہ خوب بحثیں کیا کرتے وہ کائنات کا نکتہ آغاز تھا اور یہ کہ آیا اس کو پیدا ہونے کیلئے اور جاری و ساری رہنے کے لئے ایک خدا کی ضرورت تھی یا نہیں۔ اسے کائنات کو جاننے کا جنون تھا۔ وہ جانے کس تلاش میں گہرائیوں میں اترتا چلا جارہا تھا۔ یہ جاننا مشکل ہو جاتا کہ دراصل اس کی اپنی ذات کہاں ہے۔ اس کے اپنے
اس کی زندگی میں کہاں ہیں۔ وہ تضاد کی حد تک ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ یہ بھی کچھ عجیب نہ تھا کہ مختلف مزاج کے لوگ پہلی بار ملے ہوں۔ اس کے جانے کے بعد ہلمند نے سوچا تھا کیا وہ واقعی ایسا ہے جیسا حمنہ اسے سمجھ کر آگے بڑھ چکی تھی۔ اور جس کا جواب اسے سوچنا ہی مضحکہ خیز لگا تھا۔ جب کوئی اپنی جگہ اپنی مرضی سے تبدیل کرلے تو جواز کیوں ڈھونڈے جائیں۔ کھڑکی سے باہر آسمان کی وسعتوں پر دور تک لگاہ جمائے ، اس نے سوچا۔
پہلے پہل حمنہ سے ملنا اور اسے جاننا ‘ گوڈیل کے ادھورے پن کے تھیورم کے جانے جیسا اسے دلچسپ اور حیران کر دینے والا لگا تھا۔ اور جب اس نے سفید میکسی میں مکمل ڈھکی اس لڑکی کا ہاتھ تھاما تووہ نیم برہنگی کے احساس میں ڈھلتی چلی گئی۔الوژنز۔۔۔ہاہ۔
کچھ وا ہمے اور کچھ تصورات کتنے دلچسپ ہوتے ہیں۔ کتنی دیر وہ اپنے اس خیال پر زیر لب مسکراتا رہا تھا۔ اسے فریدہ کاہلو کی پیٹنگ The Two Faridas یادآ گئی۔ مقناطیسی لہروں نے اپنا اثر دکھایا اور وہ پہلی ہی ملاقات میں ایک دوسرے کے وجود پر رقص کرنے لگے۔
وہ خو بصورت لمحہ کئی ماہ ان کے درمیان ٹھہرارہامگر یہ پڑاؤ اپنی کمزور پڑتی لہروں کے ساتھ جانے کب دونوں کی توجہ کے محور کو تبدیل کرنے لگا۔ وہ اپنی ازلی تشنگی کی طرف کھنچتا چلا گیا۔
حمنہ کو لگنے لگا کہ وہ اس سارے بکھیڑے میں کہیں نہیں ہے۔ اسے اپنا آپ گم ہوتا محسوس ہونے لگا۔ وہ دن اسی حساسیت کے تھے جب بہزاد علوی ان کی زندگیوں سے آن ٹکرایا۔ وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رومی ، خیام اور خسرو سنا تا رہا اور کسی کو خبر بھی نہ ہوئی کہ کب وہ خسرو کا کلام اوڑھے بہزاد علوی کی طرف جانے والے رستوں پر چل پڑی ہے۔
ہلمند نے جب حمنہ کی آنکھوں میں اپنے لیے اجنبیت بھری بے وفائی کی جھری دیکھی توایک ٹیڑھی سی اینٹھن اس کی ریڑھ کی ہڈی میں پھیل گئی۔ ایک لمحے کے لیے محسوس ہوا جیسے وہ ڈگمگاتے جہاز کے ڈیک پر بیٹھا ہو مگر پھر وہ سنبھل گیا کہ اسے خود کو سنبھالنا ہی تھا۔
اس روز ایک دوست کے ہاں وہ سب اکٹھے ہوئے تھے۔
” بہزاد نے مجھے عورت کی طاقت سکھائی ، میں نے اس کی وجہ سے ہمیشہ محسوس کیا۔ اس کاغیر متزلزل احساس رکھنا اور غیر معمولی طور پر مہتوا کا نکشی ہونا۔ “۔ حمنہ کہہ رہی تھی۔
ہلمند نے مسکراتے ہوئے سنا اور صرف اس نے ہی نہیں اس میز پر بیٹھے ان دونوں کے تین دوستوں نے بھی سنا جو حمنہ کے اس جملے کے بعد ہلمند کے چہرے پر کچھ ڈھونڈ رہے تھے۔ کوئی افسوس کی لکیر، ناکامی کا عکس یا دکھ کا تاریک سایہ ۔ افسوس کہ انہیں ایک گہری مسکراہٹ کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔
تابوت کے ڈھکن پر چوب تراشی کے ذریعے ابھرے ہوئے پھول اور پتے ہیں یا ہلمند کا چہرہ ۔ یہ سوچنے والا ان دونوں کا ہمراز تھا غالب۔ اور پھر حمنہ کو اس نے دیکھا گھنگھریالے کھلے لمبے بالوں والی لڑکی ۔ اسے یونانی اساطیر کی سخمت دیوی یاد آ گئی جس کا سر شیرنی کا تھا اور جو طاقت اور فساد کی مظہر سمجھی جاتی تھی۔
اس وحشت بھرے خیال سے ہی اس کے بدن میں خون سرسرانے لگا ۔ حمنہ – سخمت دیوی۔
غالب نے خود کو کھینچ کر اس تصور سے باہر دھکیلا۔ مگروہ ان آوازوں سے خود کو نہ بچا سکا جہاں دور کسی مقدس جھیل کے کنارے بہت سارے گیدڑ چیخ رہے تھے۔
آہ۔۔ محبت کی مقدس جھیل کے کنارے یہ کس کی آہیں تھیں؟
اس نے ہلمند پر دکھ بھری نظر ڈالی ۔ وہاں اب بھی تار یکی نہیں تھی مگرمسکراہٹ بھی نہ تھی۔ حمنہ اٹھ کر جا چکی تھی مگر درد کا آروما ان چاروں کے گرد چھوڑ گئی تھی۔ “تم نے اسے جانے دیا۔” غالب دکھی تھا۔
“وہ گہرا دیکھنا نہیں جانتی۔ اور جہاں گئی ہے وہاں وہ گہرا دیکھ نہ پائے کیوں کہ وہ نہیں جانتی رائیگانی کا دکھ کیا ہوتا ہے۔” اس کی آواز میں رنج تھا، تاسف تھا۔ غالب کولگا ہلمند نے ہارا کیری کے ذریعے اپنی انتڑیاں نکال کر ہاتھ میں پکڑ رکھی ہوں۔
“مگر یار محبت میں ایسا کب ہوتا ہے؟” غالب کو بات ہضم نہیں ہو رہی تھی۔
“محبت۔۔۔؟ “اُسے میں پسند تھا، محبت نہیں تھی۔ یوں بھی محبت کسی کو ملکیت بنا لینے کا نام نہیں۔”
غالب کو وہ بیگانگی کی ساتویں سیڑھی پر کھڑا نظر آیا۔
کچھ روز بعد اس شام رنگ و بو سے سجی محفل میں ہلمند مراد اور غالب پھر ایک ساتھ تھے۔ یہ ان کے مشترکہ دوست کی شادی کے بعد کی گئی دعوت تھی ۔ غالب کے بولتے رہنے کی عادت آج اس کے کام آرہی تھی اور وہ اطراف میں دیکھتے ہوئے ہوں، ہاں کر رہا تھا۔
“یہ ہیں وہ اہم باتیں جنہیں تم نظر انداز کر کے پیچھے رہ جاتے ہو۔”
ہاں ۔ ۔ اس نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ وہ اہم باتیں اس کے سنے بغیر ختم ہو چکی تھیں تبھی حمنہ ، بہزاد کا بازو تھامے داخلی دروازے سے اندر آتی نظر آئی۔ بلاشبہ وہ کافی دلکش لگ رہی تھی۔ ہلمند کے دل کی ایک دھڑکن ذرا دیر کو تھمی۔
حیرت میں لپٹی سرگوشیاں تو ہونی ہی تھیں کہ بہت سے ان دونوں کے جانے والے وہاں موجود تھے۔ کسی نے ناگواری سے اسے دیکھا تو کوئی ششدر تھا۔ کئی گرد نیں ہلمند کی طرف مڑی تھیں تو کئی نگاہوں نے حمنہ کے چہرے کو ٹٹولا تھا۔غالب بھی انہیں دیکھ چکا تھا۔
۔” اوہ ۔۔مضحکہ خیز صورت حال ہے۔” غالب صدمے سے بس اتنا ہی کہہ کر اٹھ کر
جانے لگا۔
” بیٹھو۔ “
“تم کیسے پتھر دل ہو۔”
” یقیننا۔”وہ مسکرایا
“نارسسٹ ہے یہ بہزاد ۔ لڑکیاں اُس کی باتوں میں آجاتی ہیں۔ وہ باتوں کا دھنی
ہے۔ مگر حمنہ۔۔ وہ ایسی تو نہ تھی۔ اور ۔۔ اور سنو! یہ تمہارے دل میں کسی کچھوے کا دل ہے کیا ؟ وہ غرایا
“ہا ہا ہا۔ کچھوے کا دل۔۔؟” ہلمند نے زور دار قہقہہ لگایا۔ حمنہ اور بہزاد نے بیک وقت مڑ کر دیکھا مگر اس کی نظریں غالب پر تھیں۔
“ظالم ہو تم !”
“ظلم ، رحم، بے رحمی۔۔ سب اضافی چیزیں ہیں۔ موضوعی رد عمل ہیں۔ معروضی طور پریکسر بے حقیقت۔” ہلمند نے غالب کے اداس چہرے پر سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے کہا:
“یہ اپنا فلسفہ حیات مجھے مت سناؤ یار۔ “
“بائے رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف ” وہ مسکرایا اور اٹھ کر باہر کی سمت چلا گیا۔
دوسرا مصرعہ مت کہنا۔ میرا درد سوا ہو جائے گا۔ تم تو مہا بدھ ہو۔ “غالب بھی اس کے
پیچھے لپکا۔
وہ دونوں باہر ویران سڑک پر نکل آئے تھے جہاں چاند کی چاندنی، دریچوں کی مدھم روشنی تھی۔ خاموشی تھی۔
” مجھے نہیں معلوم کہ مجھے اس سے کبھی محبت تھی یا نہیں ۔ شاید ہاں یا شاید کبھی نہیں۔ ہاں جب وہ میری زندگی میں آئی میری ویسی ہی کیفیت تھی جو مہدی حسن کی گائی غزل یا رفیع کے بھجن سن کر ہو جاتی ہے۔ کومل سی شانتی ۔ میں واقعات کی درست ترتیب کا سکھ لیتا ہوں اور جو ہوا تر تیب وار درست ہے۔ درست اس لیے کہ میں نے اسے ہونے دیا رو کا نہیں۔میرے دل پر بوجھ نہیں۔ “
غالب نے سگریٹ سلگاتے ہوئے اسے سنا۔ وہ پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے اس
سے تھوڑے فاصلے پر رک گیا تھا۔
“ہاں جب اس نے مجھ سے الگ ہونے کا فیصلہ سنایا تھا تو مجھے اپنا آپ اس
بونے جیسا لگا جس کے سرکس والوں نے خیمے اکھاڑ کر کہیں اور جا بسیرا کیا اور اسے بھول گئے۔ غیر اہم اور بیگانگی کی اذیت سہتا تنہا بونا۔جسے تماشا کرنے والا کردار ملا۔ مگر جو تماشےمیں کبھی اہم کردار نہ بن سکا کہ جس کے بغیر تماشا مکمل نہ ہو۔ ایک غیر اہم اور بھلا دیے جانے والا بونا۔۔بولو غالب۔ ؟”
“کمزور لمحے آپ کو یہ سوچنے کی طاقت بھی دیتے ہیں اور بصیرت بھی کہ آپ اپنا احتساب کر سکیں کہ آپ غلط وقت میں کسی غلط انسان کے ساتھ تھے یا کہاں غلط کو درست سمت دینی ہے۔ جب میں سکول میں تھا ایک مکمل طور پر غیر مبدل اور ہمیشہ قائم رہنے والی کائنات زیادہ قدرتی معلوم ہوتی تھی لیکن پی ایچ ڈی کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ میں غلط تھا۔ اس لیے کہ میں نے سمجھا اور پھر جانا کہ جو تصور ہمیں بہت مکمل اور درست معلوم ہورہا ہو تا ہے وہ ویسا نہیں تھا جیسا ہم نے سوچا تھا۔”
” محبت کا تعلق بھی کچھ ایسے ہی کبھی کسی غلط تصور میں پھنسا دیتا ہے مگر پھر سمجھ میں آ جاتا ہے کہ اس غلط کا جانتا بہت ضروری تھا۔ اسے ہی میں درست ترتیب کا نام دیتا ہوں۔ اگر یہ ان دیکھی کر کے چلتے جائیں توبہت برے وقت میں یہ سامنے آتی ہے جب ہمارے پاس ترتیب کی درستی کا وقت ہوتا ہے نہ واپسی کا رستہ۔ “غالب دم بخود سا اسے سنے جارہا تھا۔
کائنات ترتیب میں بہت خوبصورت ہے۔ طبیعیات اور فلکیات یہ سمجھاتے ہیں کہ ہم جان سکیں کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور اس زمین پر کیوں آئے ہیں۔ میں کائنات میں پنہاں رازوں کا ادراک چاہتا تھا۔ میں محبت کا ادراک چاہتا تھا اور تب مجھ پر کھلا کہ آپ خود ہی محبت ہیں اور کائنات کا مرکز بھی۔ “
“تمہیں نہیں لگتا کہ تم دو بالکل مختلف صورتوں کو خلط ملط کر رہے ہو ۔” غالب نےپوچھا۔
“ہائے ظالم تو نے پی ہی نہیں ۔۔۔“
محبت ان دونوں کے درمیان مشترک چیز ہے۔ دونوں میں اسرار ، بھید، حسن کا رعب ، گہرائی ، اور جاننے کے لامتناہی سلسلے ہیں؛ ہر پرت خوبصورت ، مزید جاننے کا جذبہ، اُداسی دکھ اور سکھ ۔۔۔ مجھے کسی انسان سے محبت اور کائنات سے محبت میں کچھ خاص فرق محسوس نہیں ہوتا۔ نیلگوں اسرار لیے فسوں خیز ۔ کبھی تمہیں کسی ستارے سے یا کسی پہاڑ پر کوئی تمہارا نام پکارتا سنائی دیا ؟” ۔غالب حیرت سے اسے گھورتا رہا۔
“دیکھو یار۔۔۔ کارل ساگان نے کہا تھا ،”اس چھوٹے سے سیارہ زمین کے علاوہ پوری کائنات میں کہیں بھی انسان نہیں ملیں گے ۔ ہم ایک نایاب اور خطرے سے دوچار ہونے والی کائنات ہیں، کائناتی اعتبار سے ہم میں سے ہر کوئی بیش قیمت ہے۔ اگر آپ کسی سے اختلاف رکھتے ہیں تو اسے کم ازکم زندہ رہنے کاحق ضرور دیں کیوں کہ اربوں کھربوں کہکشاوں میں بھی آپ کو اس جیسا کوئی دوسرا نہیں ملے گا “۔ غالب کو محسوس ہوا جیسے وہ اسے نہیں خود کو سمجھا رہا تھا۔
“مگر یار من !۔ ز ندگی ریاضی کے کسی فارمولہ کے تحت نہیں گذاری جاسکتی۔ انسان سے محبت میں احساس ملکیت کا اپنا حسن ہے” ۔ غالب بڑبڑایا۔
“مجھے ملکیت کا احساس جبری قبضے جیسا لگتا ہے۔”
“زندگی کسی ایسے جبر کے تحت نہیں گذاری جاسکتی۔ انسان کے جذبات پر مائیکرو
چپ نہیں لگائی جاسکتی کہ محبت تلاش کر کے اپنے تابع کر سکیں اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے اس میں اپنی محبت کا پروگرام نیورل مشین ٹیکنالوجیز سے اس کے دل میں داخل کر سکیں۔انسان اس کائنات کی طرح بہت خوبصورت ہے۔ آزاد ہے۔ “
“مگر یار وہ محض تمہاری محبوبہ نہیں تھی۔ بیوی تھی !” غالب جھنجھلایا ہوا تھا۔
وہ سنی ان سنی کیے کندھے جھکائے ،سر نیہوڑائے چھوٹے چھوٹے قدم بھرتا رات
کے اندھیرے میں گم ہونے لگا کہ جس کے لیے کنکریٹ اور تارکول کے جنگل سے آگے بہت وسیع کائنات تھی۔ وہ جدید خیالات سے معمور آدمی غالب کو ایک دم کسی علاقائی کہانی کا ‘ہونا ‘ لگا جو دور دراز کے پہاڑی علاقے میں بنے ڈاکخانے کی پرانی عمارت کی ویران سڑک پر اچانک کہیں سے آ نکلا ہو۔
” مختلف۔ غیر اہم اور تنہا۔ “