Vector engraving of woman with three heads

نروان ۔۔۔ مصباح نوید

نروان

مصباح نوید

جیسے چٹیا میں گندھے بال بل در بل اک دوجے سے لپٹے ہوتے ہیں،ریشم اور ریشماں کی تندیں بھی آپس میں ایسے ہی گندھی تھیں۔

سروقد ،بولڈ ،سٹریٹ فارورڈ ، دلکش، سنہری ریشم۔

سہمی ،بولائی ،بوکھلائی،کم گو ، ادھورے کام،ادھ وچولے مرے موئے تعلق نبھاتی ریشماں۔ کالج واپسی پہ گنجے کے سر جیسی سپاٹ چمکتی سڑک پر چلتے ہوئے ریشماں بار بار ٹہوکے دے رہی تھی:” تمہارے ناک پہ کچھ لگا ہے۔”

ریشم نے ہاتھ بڑھا کر انگلی کی پور سے ناک کھجلایا۔ریشماں نے نفی میں سر ہلایا: “اونہوں”۔ ریشم نے ہتھیلی کو ریگ مال ہی بنا لیا، رگڑتی چلی گئ۔ساتھ چلتے ہوئے کالج فیلو نے چڑ کے کہا :” آپ کی ناک کے ساتھ کیا پرابلم ہے ،رگڑ رگڑ کر کلاؤن کی ناک جیسی لال کر لی ہے۔”

ریشم نے جھینپ کے اپنا ہاتھ مٹھی کر لیا۔ اسقدر سختی سے بھینچا کہ ناخن ہتھیلی زخمی کرنے لگے۔

چنچل ،شوخ،حاضر جواب ریشم سب کو بھاتی تھی۔ چٹاخ پٹاخ بولتی ،کھکھلا کے ہنستی۔ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ،انکا کھلونا بھی، ساتھی بھی، کھلاڑی بھی۔کریز سے باہر جاتے کرکٹ کے بال پیچھے سرپٹ بھاگتی ،ہمسائیوں کے صحن میں گری ہوئی شٹل کاک اٹھاتی ،پتنگ کی ڈور کا گولا سنبھالتی۔

تین چار سال کی عمر ہی کیا ہے!۔ ماں نے چاؤ سے بھائیوں کے ساتھ سکول بھیجنا شروع کر دیا۔ ذرا وقفے سے آئی اولاد تو ایسے بھی چہیتی ہوتی ہے،بڑے بہن بھائی آپوں آپ ماں باپ کا کردار بھی ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ماں کو ریشم کی رکھ رکھیل واسطے کبھی تردد نہیں کرنا پڑا۔ریشم کو تو بونس میں چار مائیں مل گئیں۔گود سے اتر کر ریشم نے بھائیوں کا ہاتھ تھام کر قدم قدم چلنا شروع کیا۔باپ تو دانہ دنکا چگتے پردیس گیا ،ایسا گیا کہ واپسی کا راستہ ہی بھول گیا۔اب وہ محض اے ٹی ایم کارڈ تھا۔خیر ریشم کو تو ابھی اے ٹی ایم کارڈ کی ویلیو کا اندازہ ہی نہیں تھا۔

بھائی سینئر کلاسوں میں تھے سویرے سکول جاتے سمے اپنی تیاریوں کے ساتھ ساتھ ریشم کو بھی بھاگم دوڑ تیار کرتے۔کوئی بیگ سیٹ کررہا ،کوئی منہ دھلوا رہا،اور کوئی منہ میں نوالے بنا کر ڈال رہا۔ماں بیک گرائونڈ میوزک کی طرح اپنی موجودگی کے بھرپور احساس کے ساتھ بھی نمایاں نہیں ہوتی تھی۔اسی سج دھج میں ریشم سکول پہنچ جاتی۔

شام بھائیوں کو ٹیوٹر، پڑھانے آتا تھا۔ماں نے ریشم کو بھی ساتھ پڑھنے بٹھا دیا۔

ادھیڑ عمر ریٹائرڈ ماسٹر صاحب اسے ہمیشہ پیار سے اپنی گود میں بٹھاتے ۔ریشم کے لیے کیا یہ تو کسی کے لیے بھی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ریشم کو تو لاڈ سمیٹنے کی عادت تھی۔

سامنے کرسیوں پر بھائی کاپیوں پہ سر جھکائے لکھتے رہتے۔ ماسٹر صاحب کے ہاتھ ریشم کے گالوں سے ہوتے ہوئے ٹانگوں،رانوں اور پھر اس کی چڈی کھسکا کر زرا نیچے کرلیتے۔۔ہاتھ گردش میں رہتے،اس دوران بآواز بلند “اے فار ایپل بی فار۔۔۔”کا ورد جاری رہتا۔

خالہ چھٹیوں میں چند دن ساتھ گزارنے آئیں تو ساتھ ریشم کی ہمجولی ان کی بیٹی نائلہ بھی تھی۔شام خالہ نے نائلہ کو بھی ٹیوٹر کے پاس پڑھنے بھیج دیا۔ماسٹر صاحب نے حسب معمول ریشم کو تو اپنی گود میں بٹھا لیا،نائلہ کو پاس کھڑا کر کے ہاتھ اسکی پشت پہ رکھتے ہوئے اے فار ایپل داغا کہ نائلہ بدک کردور جا کھڑی ہوئی۔ماسٹر صاحب کو غصے میں لال پیلی ہو کے گھورنے لگی۔ ریشم حیران نظروں سے نائلہ کو دیکھتی رہ گئی۔

اُسی دن اسی ساعت ریشماں کا جنم ہوا۔

ریشماں ریشم کو کچوکے دیتی :” نائلہ اچھا بچہ ہے۔” ریشم کی شرمساری پہ خوف کا کوڑا بھی شڑاپ سے لگاتی :اگر اماں کو پتا چل گیا۔۔۔۔۔”

ریشم نے ماسٹر صاحب کے پاس پڑھنے سے انکار کردیا۔ ماسٹر صاحب روز ماں کو سمجھاتے:” بچی کو پڑھنے بھیج دیا کریں۔ اس کی بنیاد کمزور رہ جائے گی۔”

ماں بے بسی سے کہتی :”کیا کروں! بہت سمجھاتی ہوں،سنتی ہی نہیں۔”

ماسٹر جی کی دھمکاتی آنکھوں سے سہم کر ریشم اپنا آپ ماں کے آنچل میں چھپا لیتی۔ریشم کی ایک تَند کہیں سے ٹوٹ گئی تھی۔ وہ اکھڑ ،غصہ ور ہوتی چلی گئی۔

سکول میں الگ تھلگ بنچ پہ بیٹھتی۔ بریک میں سب سہلیاں ایک دوسرے کے سنگ کھیل کھلواڑ میں دوڑتی بھاگتیں۔جس کو چھو لو برف بن کر ساکت ہوجاتی، دوبارہ چھونے پہ پانی بن کر بھاگنے لگتی۔ریشم دوبارہ پانی نہ بن پاتی۔ ریشماں کو اپنے ساتھ لپٹائے باغیچے کے کسی کونے میں سر جھکائے ساکت کھڑی رہتی۔

کلاس میں ٹیچر کوئی سوال پوچھ لیتی تو جواب کے بجائے اندر سے پسینہ پھوٹ باہر نکلتا ،چہرہ زرد پڑ جاتا۔

کئی دن کمرے میں گھپ اندھیرا کیے، شکم میں رکھے نامولود کی مانند گھٹنے جوڑے ،نیم دائرے کی صورت پلنگ پہ ریشماں آدھی سوئی آدھی جاگتی رہتی۔ایک تکیہ تلے اپنا منہ سر چھپائے،دوسرا تکیہ بازؤں میں بھینچ کر سینے سے لگائے ہوئے۔ سِنک پہ گھنٹوں کھڑی ہاتھ صابن سے مل مل کر دھوتی رہتی۔پنچ ،شش،ہفت نمازوں کی طومار،طویل سجدے،وظیفوں کی بھرمار۔

ریشم ریشماں کے بیچ لک چھپ کا کھیل ایسے ہی جاری رہا کہ یونیورسٹی نے نئے جہاں کے در وا کیے۔ گلینڈز کا مدو جزر اور پہلا پیار۔

“اوہ یار! آئے ہیٹ دس شٹ لو۔۔” ریشم جھنجھلا کر بولی۔کوئی پیار شیار نہیں سب سیکس کی ہڑک ہے۔”

“سیکس کی ہڑک”. ریشماں بڑبڑائی۔

تن کے نقاضے اور تھے من کے تقاضے اور۔ دونوں ایک مقام پہ ٹھہرتے ہی نہیں تھے۔پریمی نے ریشم کی منتیں کیں۔” میں تمہارے بنا جی نہ سکوں گا۔”

“اچھا ؟”__ ریشم کی ہنسی بھی وقت کی طرح رک نہیں رہی تھی۔

پل گزرا کہ صدیاں بیت گئیں۔اس بار ریشم نے نہیں وقت نے قہقہہ لگایا۔ ریشم نے پلٹ کر دیکھا تو جو اس کے بنا جی نہیں سکتا تھا،اپنی دنیا بسا چکا ہے۔بھلا چنگا جی بھی رہا ہے۔ریشم بے معنی ہو چکی تھی۔

ریشم کو معنی دینے واسطے بازار سجایا گیا۔گھر گھر ہر کارے دوڑائے گئے۔نسل کشی واسطے نین نقش کا چوکھا،نسل کا کھرا بیل اپنے کھروں سے دھرتی ہلا رہا تھا۔

مہا اتم کاریگر کے کرگھے سے اترا ،بالوچر بوٹے دار ریشم کا پارچہ ؛ ڈسٹر کی طرح رف استعمال اسے لیرولیر کر گیا۔

جس واسطے دنیا نے وحشتوار ڈیولز ڈانس کا اودھم مچا رکھا ہے۔وہ تو چند لمحوں کا کھیل ہے ۔ پھر سانس ہموار ہو جاتے پارٹنر کروٹ بدل کر گہری نیند سو جاتا۔ریشم ساری رات کمرے کی چھت پہ ناموجود تارے گنتی رہتی۔

کوئی تو ایسا ہو جسے ریشم برتنے کا بھی سلیقہ ہو!!!!

کوئی ایسا پریتم جولاہا ، جو اُسے دوبارہ بن کر نیا نکور کر دے۔

ریشم نے اپنے جلتے خیالوں کے ماتھے پر آس کی خنک عرق گلاب کی پٹیاں لگائیں ،لیکن ان بے مہار حسرتوں کا بخار اترتا کب ہے!

ریشماں نے چٹکی کاٹی:” ارے یہ محبت شحبت سب دو کوڑی کا کھیل ہے، نادان نہ بن!”۔

ریشماں کا اپدیش سمجھوتے کی چادر پہ اک گرہ اور لگواتا جاتا۔ جب گرہ گانٹھنے کو بھی چادر نہ بچی تو ریشم مرے موئے تعلق کا لاشہ شمشان گھاٹ لے گئی۔اپنی ہڈیوں سے کلپتی آگ کو کھرچ نکالا۔ من کے ہوکوں سے خوب ہوا دی۔ جب شعلے آسمان کو چھونے لگے تو۔۔۔۔۔! تو؟

اب کہانی اس موڑ پہ ڈانواڈول ہو جاتی ہے کہ کس سمت کو جائے!

انہی شعلوں میں ریشم ستی ساوتری ہو جائے!

خزاں رسیدہ شجر تلے نروان کی چاہ میں بھونچکا ہوا گوتم شش ..شش شوکتے ناگ ہنکاتا رہے!

ریشم۔نے کہا :” اوہ بھائی کبیر ! اپنے بھاشن دھرو طاق پر، وہ ہنس ہی کیا جو سوکھے تالاب میں ڈڈو کی طرح کیچڑ میں پلیتھے کنکر پتھر چاٹتا رہے۔

ریشماں نے لاکھ بولنا چاہا لیکن ریشم کے جنون کے سامنے اس کی گھگھی بندھ گئی۔

ریشم نے سانپ کی کینچلی کی طرح ریشماں کو خود سے کھینچ اتارا۔

پنچھی نے آکاش کی وسعتوں میں پنکھ پھیلاتے ہوئے جلتے سائبریا سے ہجرت کی۔

سڑک پہ گرے زرد پتے ہوا کا ہاتھ تھامے من تو شدم تو من شدی کی تال پر رقص کر رہے تھے۔

تاحد نظر پھیلے درختوں کی ٹنڈ منڈ شاخوں سے سبز کونپلیں سر نکالے باہر جھانک رہی تھیں۔کچھ شبنمی سرگوشیاں ساون کی بدلی مانند برس کر انھیں ہرا کر گئیں۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930