خاتمہ بالخیر۔۔۔ ابصار فاطمہ

خاتمہ بالخیر

ابصار فاطمہ

“پچیس سال بھی کوئی عمر ہوتی ہے موت کی؟ مگر زندگی کا کیا بھروسا۔ بچارے جبار بھائی اس بڑھاپے میں بے سہارا رہ گئے۔”

 کہنے والے نے بظاہر آواز دبانے کی کوشش کی تھی مگر پوری بات بخوبی عبدالجبار کے کانوں تک پہنچی تھی۔

 عبدالجبار بیٹے کی میت پہ نظریں جمائے بے حس انداز میں بیٹھا تھا۔ جاننے والے نجانے کتنی دیر سے اسے رلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہر کسی کو اندازہ تھا جوان لڑکا یوں روڈ کے حادثے میں مارا جائے تو حواس کھو جانا بعید نہیں۔ مگر عبدالجبار کو اندازہ تھا کہ کیا ہوا ہے۔ مرتد ناخلف اولاد راہ راست پہ آنے سے پہلے ہی دنیا سے جاچکی تھی۔ حادثہ بہت شدید ہوا تھا۔ کئی دن زاہد کومہ میں رہا اور عبدالجبار اس کی زندگی کی دعائیں کرتا رہا۔ بیٹے کی زندگی تو پیاری تھی مگر مرتد بیٹے کے لیے بس ذرا سی گنجائش چاہیے تھی کہ اگر اس کا وقت آ بھی گیا ہے تو دوبارہ کلمہ پڑھوا سکے۔

زاہد نے کبھی برملا کچھ نہیں کہا تھا مگر کئی دفعہ جب عبداالجبار اور زاہد کے درمیان بحث چھڑتی تو زاہد کے دلائل کچھ یوں شروع ہوتے۔

“پاپا، آپ کا خدا عادل ہوتا تو دنیا میں بھوک نہ ہوتی۔

پاپا کیا عورت اور ہیجڑے آپ کے خدا کی مخلوق نہیں۔

 پاپا آپ کا خدا، آپ کا خدا۔۔۔۔۔۔۔۔”

عبدالجبار اس لفظ کے بعد کی کوئی دلیل کبھی سن ہی نہیں سکا۔ اس کا دماغ “آپ کا خدا” پہ ہی اٹک جاتا تھا۔ پھر موضوع اور اس سے متعلق دلائل تو کہیں رہ ہی جاتے تھے۔ سارا جھگڑا اس نکتے پہ ہوتا کہ زاہد مذہب سے دور ہورہا ہے کافرانہ کلمات کہنے لگا ہے۔ اور جھگڑا بھی کہاں ہوتا تھا، اس کے بعد زاہد تو چپ چاپ باپ کے طعنے سنتا رہتا تھا جیسے بھس میں چنگاری ڈال کے تماشا دیکھ رہا ہو۔ عبدالجبار اُس کے اِس ردعمل پہ مزید چراغ پا ہو جاتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ زاہد مزید بولے، کوئی احمقانہ مرتدانہ دلیل دے تاکہ اسے درست مدلل نکتہ دے کے سمجھایا جاسکے۔ جب وہ اکیلا بول بول کے تھک جاتا تو اٹھ کے کمرے سے نکل جاتا اور پھر سارا دن پچھتاتا کہ پہلے ہی جملے میں فلاں دلیل دینی تھی اور فلاں حوالہ دینا تھا۔ مگر وہ اپنے غصے کا کیا کرتا۔ جو غصہ بھی نہیں تھا بلکہ خوف تھا۔ اس بات کا خوف کہ بیٹے کی آخرت خراب ہورہی ہے۔ اور بیٹے کے ساتھ ساتھ اس کی آخرت بھی خراب ہورہی ہے کہ وہ صحیح تربیت نہیں کرپایا۔ اولاد فرماں بردار اور صالح ہو تو براہ راست جنت کا پروانہ ہوتی ہے۔ اور یہ پروانہ اسے اپنے ہاتھ سے پھسلتا محسوس ہوتا تھا۔

اور آج تو لگتا تھا کہ یہ پروانہ مکمل طور پہ ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ وہ غیر یقینی بلکہ کسی قدر سہمی ہوئی سی کیفیت میں ہر کسی کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا۔ جب کسی کو پڑھنے کے لیے سپارہ یا یٰسین شریف دی جاتی اور عبدالجبار کو لگتا کہ ابھی کوئی کہہ دے گا کہ ہم کسی مرتد کے ایصال ثواب کے لیے قرآن نہیں پڑھیں گے۔ مولوی صاحب گھر کے دروازے سے داخل ہوئے تو اسے لگا ان کے چہرے پہ برہمی ہے۔ شاید وہ جنازہ پڑھانے سے انکار کرنے آئے تھے۔ ہر چیز کی رفتار بہت سست سی ہوگئی تھی اسے یوں لگا مولوی صاحب نے دروازے سے اس تک آنے کا چند قدم کا فاصلہ صدیوں میں طے کیا۔ مولوی صاحب بہت آہستگی اور خاموشی سے عبدالجبار کے برابر بیٹھ گئے۔

” عبدالجبار بھائی، اللہ سبحان وتعالیٰ کی مصلحت وہی جانتا ہے صبر کیجیے۔ جمعے کا مبارک دن ہے جلد سے جلد غسل و کفن کا بندو بست کیجیے۔ تاکہ جمعے کے نماز کے ساتھ ہی نماز جنازہ بھی نمٹائی جاسکے۔ اللہ سبحان و تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے لیے ایسے مبارک دن چنتا ہے۔”

 عبدالجبار جو مولوی صاحب کے برابر بیٹھنے پہ سر جھکا کے اپنی گود میں رکھے ہاتھوں کو دیکھنے لگا تھا۔ اس نے سر اٹھا کے حیرت سے مولوی صاحب کے چہرے کو دیکھا۔ ایک دم ہی کئی جملے عبدالجبار کے دماغ میں گونجے۔

 ” عبدالجبار بھائی، زاہد اب مسجد نہیں آتا۔ نظر رکھیے۔ والدین سے بہت سخت پوچھ گچھ ہوگی”

” عبدالجبار بھائی، کل میں نے زاہد کو رنگین جھنڈے والوں کے ساتھ دیکھا، استغفرُللہ قوم لوط کا عذاب یاد رکھیے گا۔”

 “عبدالجبار بھائی، میں نے سنا ہے زاہد سرخوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگا ہے۔ یہ لوگ کچے ذہنوں کی تاک میں ہوتے ہیں، بیٹے کو روکیں۔”

 زاہد کی میت کو غسل دینے کی تیاریاں شروع ہوتی جارہی تھیں۔ اسے آہستہ آہستہ بے لباس کیا جانے لگا۔ نچلا دھڑ بے لباس ہوتے ہی عبدالجبار کو عجیب سے سکون نے گھیرا، کچھ بھی ہوا مگر زاہد اپنے مسلمان ہونے کی اس واضح دلیل سے کبھی چھٹکارا نہیں پاسکتا تھا۔ ابھی بھی وہ مسلمان ہی کہلائے گا۔

جیسے جیسے رسومات ادا ہوتی رہیں عبدالجبار کو یقین ہوتا چلا گیا کہ بیٹے کا خاتمہ باالخیر ہوگیا۔ پھر بھی لگتا تھا کہیں کوئی کسر رہ گئی ہے۔

گھر کے ہر کونے میں زاہد کی یادیں تھیں۔ اس کا پہلا قدم اٹھانا، اس کا نماز میں جبار کی کمر پہ چڑھنے کی کوشش کرنا، پھر ساتھ کھڑے ہوکر نماز پڑھنا سیکھنا، ہر ہر عبادت سیکھنا، زیادہ سے زیادہ جاننے کی جستجو میں رہنا۔

زاہد کی زندگی بار بار کسی مووی کی طرح جبار کے سامنے روز گزرتی تھی۔ اسے لگتا تھا کوئی نکتہ ہے جو اسے سمجھ نہیں آرہا۔ وہ اکثر زاہد کے خالی کمرے میں جاکر بیٹھ جاتا ہر ہر چیز کو دیکھ کر اس سامان کے ‘غیر مرتدانہ’ ہونے کا یقین کرنے کی کوشش کرتا کہ بیٹے کی آخرت محفوظ ہے۔

یونہی ایک دن اس کا بٹوا کھول کے دیکھا۔ ایک جانب شناختی کارڈ لگا ہوا تھا دوسری جانب مختصر سے رنگین کارڈ پہ باریک حروف میں آیت الکرسی  لکھی تھی۔ یہ کارڈ اسی نے زاہد کو دیا تھا جب وہ نویں کا پہلا پرچہ دینے جارہا تھا۔

اطمینان کی ایک لہر دل سے اٹھی اور دماغ کی اونچائیوں تک سفر کرتی چلی گئی۔ کچھ ہی لحظے لگے اسے دماغ میں مکمل احساسات کے ساتھ جاگزیں ہونے میں اور اسی کے ساتھ ایک اور لہر اٹھی۔ شکوے کی۔۔۔۔۔ بے اطمینانی کی۔۔۔۔۔ اس نے کوشش کی کہ وہ اپنے اطمینان کے احساس پہ مضبوطی سے جما رہے اسی لیے جلدی سے کمرے نکل آیا۔ مگر دن گزرتے گئے اور خدا سے شکوا بڑھنے لگا اس بڑھاپے میں جوان بیٹا چھین لینے کا شکوا، بیٹے سے متنفر رکھنے کا شکوا، ایسے لوگوں کو مذہب کا نمائندہ بنانے کا شکوا جنہوں نے اولاد سے دور کردیا، اتنا لمبا عرصہ بیٹے سے محبت جتانے کی جگہ ایک غیر مستند بات پہ جھگڑتے رہنے دینے کا شکوا۔ اس بات کی شکایت کہ زاہد نے کبھی اس کے حقوق اور تعظیم میں کمی نہیں کی اور وہ نہیں دیکھ پایا، خدا یہ سب اس کی زندگی میں بھی تو دکھا سکتا تھا۔ خدا زاہد کو بچا بھی تو سکتا تھا۔

 اس کے دماغ میں شک کا بیج جگہ بنا چکا تھا۔ اس میں سے کونپل بھی پھوٹ پڑی تھی۔ اور اس کو پانی دینے کے لیے زاہد کے کمرے میں بہت سا مواد بھی تھا۔ لیکن عبدالجبار کا باپ نہیں تھا جو اس کی آخرت کی پروا کرتا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930