میں وہ “بوٹا” نہیں۔۔۔محمد بوٹا انجم

میں وہ”بُوٹا” نہیں

محمد بُوٹا انجم

(ملایشیا)

پنجاب کے دیہات کا یہ کلچر رہا ہے کہ گاؤں کےقریباً ہر شخص کا اصل نام مُختصر کرنے کے چکر میں بِگاڑ دیا جاتا ہے۔مثلاً نام محمد رفیق ہے تو فیقا،عبدالرشید ہے تو شیدا،سردار علی ہے تو دارا،شمیم اختر ہے تو شِیمو اور رضیہ ہے تو رجّو وغیرہ وغیرہ۔

میرے بچپن کا واقعہ ہے کہ ہمارے گاؤں میں جان بی بی نام کی ایک مدّبر سی خاتون تھی جو جانو کے مُختصر نام سے جانی اور پُکاری جاتی تھی۔اُنہی دنوں لاہور کے ایک فلمساز کو نہ جانے کیا سُوجھی کہ ایک لڑاکا طبع اور پھڈّے باز قِسم کی خاتون کے مرکزی کردار پر مبنی ایک پنجابی فلم بنا ڈالی،اور نام اُس کا رکھ دیا “جانو کپتّی” یعنی ہر گھڑی فساد برپا کرنے پر تیار پھڈّے باز عورت۔

ٹی وی کی نشریات تب تک پاکستان میں شروع نہیں ہوئی تھیں اور مُلکی سطح پرفِلم کی مشہوری یعنی ایڈورٹائزنگ کا واحد ذریعہ ریڈیو پاکستان ہوا کرتا تھا۔چنانچہ مذکورہ فلم کے ریڈیو اشتہار پر مبنی صداکاری جِس فقرے پر ختم ہوتی،وہ تھا”اج ای ویکھو محفل سینما وِچ جانو کپتّی”۔(آج ہی دیکھیں محفل سینما میں جانو کپتّی)اور یہ ایڈ(.Ad) دِن کی نشریات کے دوران درجنوں بار دُہرائی جاتی۔اِس سے بچوں کے ہاتھ ایک شرارت لگ گئی۔اُن میں سے کوئی ایک جان بی بی کے گھر کے سامنے جا کر گلا پھاڑ کر آواز لگاتا” اج ای ویکھو محفل سینما وِچ جانو کپتّی”۔اور جان بی بی برہم ہو کر اندر سے اُسے گالیاں دیتی ہوئی جب تک باہر آتی تب تک بچہ بھاگ گیا ہوتا۔پھر یوں ہوا کہ جان بی بی اکثر ڈنڈا ہاتھ میں تھام کر دروازے کے پاس چھُپ کر کھڑی رہتی اور جیسے ہی کوئی بچہ واردات کے لیے پہنچتا وہ ڈنڈے سے اُسے مارنے کے لیے دوڑتی مگر بچے پکڑائی کہاں دیتے تھے۔بات اِتنی بڑھی کہ اُس نے گھر میں پتھر جمع کر لیے اور وارداتی بچوں کو اُن سے نشانہ بنانے لگ گئی۔خطرہ پیدا ہو  گیا کہ اگر یہ سلسلہ مزید کُچھ دِن جاری رہا تو وہ پاگل ہو جائے گی یا کوئی بچہ اُس کے ہاتھوں زخمی ہو جائے گا۔چنانچہ گاؤں کے نمبردار نے اِس واقعہ کا سوؤ موٹو نوٹس لیتے ہوئے تین چار وارداتی بچوں کی سرِ عام چھترول کی(میں اُن میں شامل نہیں تھا)۔اور یوں اُس عجیب طرح کی شرارت کا خاتمہ بالخیر ہو گیا۔

قارئین کرام! نصف صدی پہلے کا یہ قصہء پارینہ بطورِتمہید مجھے یوں یاد آیا کہ کُچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر پنجابی زبان کا یہ فقرہ وائرل ہو گیا یعنی خاصا چل نکلا کہ”فیر کہندے آ  بُوٹا گالاں کڈ دا ”۔(پھر کہتے ہیں کہ بُوٹا گالیاں دیتا ہے)۔جو نہیں جانتے وہ جان لیں کہ میرا نام محمد بُوٹا ہے اور انجُم کا دُم چھلّا میں نے تخّلص کے طور پر ساتھ لگا رکھا ہے۔ریسرچ کرنے پر پتا چلاہے کہ یہ فقرہ ایک پنجابی فلم کا ڈائیلاگ ہے۔کوئی مانے نہ مانے مگر مجھے یقین ہے کہ یہ  “ جانو کپتّی “قِسم کی واردات ہے۔آخر گالیاں دینے کے حوالے سے اِس فقرے کے خالق کو میرا نام ہی کیوں سُوجھا۔وہ بُوٹا کی جگہ بشیرا،شیدا،شکورا یا فیقا بھی تو لِکھ سکتا تھا۔مجھےلگتا ہے کہ میرے کسی ہم نام نے اُس فلم کے کہانی نویس کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہو گی جو اُس نے بوٹے کی چھیڑ کے طور پر انتقاماً یہ فقرہ  زباں زدِ خاص و عام کر دیا ہے۔

شُکر ہے کہ میں کوالا لمپور کے ایک تیس منزلہ رہائشی پلازے کے پندرھویں فلور پر قیام پذیر ہوں جہاں میرے اِرد  گِرد پاکستانی فیملیز نہیں ہیں ورنہ اُن کے بچے بھی میرے دروازے کے سامنے یہ ڈائیلاگ با آواز بلند بولنے آ جاتے کہ”فیر کہندے آ بُوٹا گالاں کڈ دا “ اور مجھے اپنے گاؤں کی جان بی بی کی طرح ڈنڈے اور پتھروں کا استعمال کرنا پڑتا۔تاہم جانو کپتّی جیسے واقعے کا ہلکا پھُلکا ٹریلر یہاں یوں چلنا شروع ہو گیا ہے کہ رہائشی ایریا یا کاروباری مرکز میں جب بھی کوئی فری فرینک قِسم  کا دوست مِلتا ہے وہ دُعا سلام کے ساتھ ہی ہنستے ہوئے کہتا ہے”جناب ! ایہہ دسو کہ بُوٹا گالاں کیوں کڈ دا اے؟”(جناب یہ بتائیں کہ بوٹا گالیاں کیوں دیتا ہے)اور جواباً میں صرف ہنس دیتا ہوں کیونکہ اگر میں اُس کی بات کو مائنڈ کروں گا تو بات بڑھے گی اور میرا حال بھی جان بی بی جیسا ہو سکتا ہے۔بہرحال آپ سب کی اِطلاع کے لیے عرض ہے کہ بحیثیّت سینئر سٹیزن میں ایک بزُرگ آدمی ہوں اور یہ عُمر میرے اللہ توبہ کرنے کی ہے ،کِسی کو گالیاں دینے کی نہیں۔چُنانچہ وضاحت کے طور پر گُزارش ہے کہ میرا کوئی اور ہم نام ہو تو ہو لیکن میں وہ بُوٹا نہیں ہوں جو “ گالاں کڈ دا اے” اِس لیے یہ فقرہ پڑھ یا سُن کر کِسی  کا دھیان میری جانب بالکُل نہیں جانا چاہیے ۔آپ کی بڑی مہربانی۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930