بوڑھا اور لڑکا ۔۔۔ فہمیدہ ریاض
بوڑھا اور لڑکا
فہمیدہ ریاض
وہ دن رات بوڑھے کے ساتھ رہتا۔ بوڑھے کا سارا کرب اسے بھی سہنا پڑتا۔ جب بوڑھا کر اہتا تو لڑکا ایک بے نام کیفیت سے دو چار ہو جاتا۔ اسے دکھ نہیں کہہ سکتے۔ وہ تو کچھ ایسا عالم ہوتا جیسے لڑکے کی ٹھوڑی سے نیچے کوئی رگ اچانک پھڑ کنے لگے ، رک جائے ، اور پھر پھڑک اٹھے۔ اس کا حلق بار بار سوکھ جاتا اور وہ دن رات چپ چاپ بوڑھے کو دیکھتا رہتا۔ بوڑھا پچانوے یا چھیانوے سال کا ہو چکا تھا۔ اس کی حسیات دھیرے دھیرے مردہ ہو چکی تھیں۔ اب وہ جس جاگتی ہوئی دنیا میں رہتا تھا وہاں نہ کوئی رنگ تھا نہ خوشبو ۔ اب نہ کوئی دن تھا نہ رات تھی۔ وقت رہٹ کی آواز کی طرح مسلسل اور خواب آلود سا تھا۔
بوڑھا کسی سے کچھ نہیں کہتا تھا۔ کھانے کے وقت لڑکا اسے کھانا کھلا دیتا۔ کوئی ہاتھ پکڑ کر اس کے لرزتے ہوئے ڈھانچے کو ادھر سے ادھر لے جاتا۔ اس کے ٹھنڈے استخوانی ہاتھ زور زور سے ہلتے رہتے ۔ اس کے بیٹے ہاتھ تھام کر اسے دھوپ میں بید کی کرسی پر کشن لگا کر بٹھا دیتے ۔ نرم کنکنی دھوپ اس کی کھال کو ہولے ہوئے سہلاتی ۔ بوڑھے کا گنجا سر جھکتے جھکتے سینے پر جانکتا۔ ستھرے مومی پیروں پر خوشگوار گرمی رینگنے لگتی۔ پھر وہ چونک پڑتا اور اس کے ہاتھ کا پینے لگتے۔
وہ سرگوشی میں لڑکے کو آواز دیتا۔ لڑ کے مجھے اندر لے چلو۔“
لڑکا اس کا نیلی رگوں والا صاف ہاتھ پکڑ کر بستر کی طرف لے جاتا۔ خبروں کے وقت لڑکا ریڈیو لگا دیتا اور کانپتا ہوا سفید بوڑھا، بستر میں لیٹے ہوئے ، پہلے اردو اور پھر انگریزی میں خبریں سنتا۔ وہ پابندی سے صبح ، دو پہر اور شام کی خبریں سنتا اور ہر دفعہ ریڈیو کے بتائے ہوئے وقت کو اپنی گھڑی میں دیکھتا کہ وہ ٹھیک چل رہی ہے یا نہیں۔
ایک شیریں غنودگی اس پر طاری ہو جاتی تھی۔ دھیرے دھیرے، آہستہ آہستہ، نیند ا سے ہلکورے دیتی۔ لیکن اب وہ عمر کے اس مقام پر آگیا تھا جہاں اس کے بے پلکوں والے پوٹے گہری نیند میں بند نہیں ہو سکتے تھے۔ اس کی سانسوں سے لوگ سمجھتے تھے کہ وہ سو گیا ہے، لیکن دراصل وہ سارا وقت جاگتا رہتا تھا، بلکہ آنکھیں بند کر کے اسے بہتر نظر آتا تھا۔ لڑکے کا بستر اس کے پاس بچھا تھا لیکن آنکھیں موند لو تو وہاں نہ وہ کمرہ ہوتا تھا نہ لڑکے کا بستر ، نہ دوا کی شیشیوں سے بھی ہوئی چھوٹی سی تپائی۔ کبھی ہر طرف ہلکی دھوپ پھیل جاتی کبھی اندھیرا سا چھانے لگتا ۔ پھر دھوپ موہوم رنگ بدلتی ۔ گلابی ، کاسنی، دھانی روشنیاں دور تک پھیل جاتیں۔ رنگوں کی جھلمل میں زمین جھولتی ہوئی محسوس ہوتی ۔
لڑکا بت بنا بستر پر بیٹھا رہتا۔ وہ سانس روک کر گھر گھر کی آواز میں سنتا اور جھک کر دیکھتا۔ دن بھر خاموش رہنے والا بوڑھا نیند میں ہنستا۔ بیٹھی ہوئی آواز میں وہ بچوں کی طرح کلکاری مار کر ہنس پڑتا۔ اس کا پو پلا منھ کھلتا تو نچلا باریک ہونٹ منھ کے اندر چلا جاتا۔ بوڑھے کے سامنے پھیلی ہوئی روشنیاں اور سہلاتی ہوئی گدگداتی ہوئی رنگین دھوپ پھیکی پڑنے لگتی۔ دن نکل آتا۔ شاید دفتر سے بعد کا وقت ہوتا ۔ بوڑھے کو کوئی ضروری کام یاد آ جاتا اور وہ اٹھ کر جوتے پہنتا اور چل دیتا۔ ایک دفعہ لڑکا جوانی کی گہری گاڑھی نیند سوتا رہ گیا تھا تو بوڑھا دروازے کی چوکھٹ سے ٹکرا گیا تھا اور یوں تیورا کر گرا تھا کہ سارا گھر دھما کے سے جاگ اٹھا تھا۔
لیکن اب لڑکے نے ہلکی نیند کی عادت ڈال لی تھی اور کمرے میں ذراسی آہٹ پر بھی وہ جاگ جاتا اور بوڑھے کے شانے تھام کر دھیرے سے پلنگ پر لٹا دیتا۔
یا کبھی بوڑھا اپنے وطن علی گڑھ کے اسٹیشن پر ہوتا کہ اس کا پیر پھسل جاتا اور دھڑ دھڑاتی ہوئی ریل گاڑی اس کے اوپر سے گزرنے لگتی اور وہ زور سے چیتا با با… بابا
لڑکا اس کا ہاتھ تھام لیتا۔ پہیوں کا گھماؤ کم ہوتے ہوتے ساکت ہو جاتا۔ اس کا بدن لرزنے لگتا اور وہ پھنسی ہوئی آواز میں کہتا ” کیا ہے؟“
دن میں اس کے بیٹے بیٹیاں اور بہوئیں داماد اکثر اس کو دیکھنے آتے اور گھنٹے دو گھنٹے بیٹھ کر چلے جاتے ۔ زیادہ تر وقت لڑکا ہی اس کے پاس رہتا جسے اتوار کو بھی چھٹی نہ ملتی ۔ سترہ اٹھارہ سال کا کھلنڈرا جوان کبھی تو اکتا بھی جاتا ۔ اس کی واحد تفریح پہ رہ گئی تھی کہ ریڈیو پر دھیمی آواز سے فلمی گانے لگا دیتا اور ہر اسٹیشن پر
گانوں کے پروگرام سنتا۔ ویسے اسے اس نوکری میں بہت آرام تھا۔ کام بھی زیادہ نہ تھا۔ بوڑھا کوئی خاص پریشان بھی نہ کرتا تھا اور نہ ہی بار بار کی فرمائش سے اسے تنگ کرتا تھا۔ اب تو اتنے دنوں کی رفاقت کے باعث لڑکے کو بھی اس سے کچھ انس سا ہو گیا تھا۔
پھر جب بوڑھے کی ناک کا آپریشن ہوا تو اسے اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ لڑکا بھی اس کے ساتھ اسپیشل وارڈ میں رہا۔ اس سے پہلے بھی بوڑھا کئی بار اسپتال میں رہ چکا تھا۔ اس کے بیٹے اور بیٹیاں دن میں کئی بار اس کی عیادت کو آتے ۔ وہ پھنسی پھنسی آواز میں سب کو بتاتا ” میری ناک میں بہت تکلیف ہے۔“
وہ سب اسے بہت تسلیاں دیتے، ” فکر مت کیجئے با با جان۔ آپ بہت جلد اچھے ہو جائں گے۔ “
لیکن دراصل سب کے دل کو دھڑکا لگا تھا۔
اسپتال میں بوڑہا بے چین رہا۔ وہ بار بار لڑکے سے پوچھتا، ” میری عینک کہاں ہے ؟ “
لڑکے نے کئی بار عینک کا کیس اس کے ہاتھ میں دیا۔ وہ ٹٹول کر رکھ دیتا۔
پھر ایک دن بوڑھے نے کہا، ریڈیو کے پاس جو میرا پلنگ بچھا ہے اس پر سے میرا بستر اٹھا لاو۔
لڑکا کان لگا کر اس کی دھیمی آواز سنتا رہا اور پھر کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ کہاں بابا جان؟ آپ کا پلنگ کہاں ہے۔
بوڑھا حیرت سے اسے دیکھتا رہا۔ پریشان سا ہو کر چپ ہو گیا۔ لڑکا بھی ادھر ادھر پھرنے لگا۔ ذرا دیر بعد لڑکے نے دیکھا کہ بوڑھے کا لمبا ہڈی جیسا ہاتھ احتیاط سے ہوا میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔
کیا چاہیے بابا ؟ لڑکے نے پاس آکر پوچھا۔
میری عینک دے دو۔“
یہ رہی آپ کی عینک ۔“ اس نے عینک پھر بوڑھے کے ہاتھ میں تھمادی۔ اس کی رعشہ دار انگلیوں نے عینک چھوٹی اور سرھانے رکھ دی۔
آپ کو لگا دوں عینک؟‘ لڑکے نے بوڑھے کو تسلی دینے کے لیے پوچھا۔
نہیں نہیں ! اس نے ہاتھ سے نفی کا اشارہ کیا، پھر کچھ سوچ کر بولا ”سنو لڑ کے دروازے کے باہر ایک آدمی بیٹھا ہے۔ اسے اندر نہ آنے دینا۔ پتا نہیں کون ہے۔“
لڑکا مسکرایا، اور اس نے بوڑھے کا رخ ہاتھ تھام کر کہا: اچھا بابا جان نہیں آنے دوں گا ۔“
ہاں بوڑھے کے چہرے پر اطمینان چھا گیا ۔ ” اس طرح گھر میں کسی کو نہیں گھنے دیتے۔”
لڑکے نے غور سے سرگوشی کو سمجھا اور چپکے سے بنتے ہوئے اس نے تکیے اونچے کر کے بوڑھے کو کمبل اڑھا دیا۔
لڑکے کے مضبوط ہاتھ کی حرارت بوڑھے کے مساموں میں داخل ہونے لگی اور وہ دھیرے دھیرے غنودگی کے نیلے سمندر میں ڈوبنے لگا۔