چھینک کا معمہ ۔۔۔ وجیہ وارثی
چھینک کا معمہ
وجیہہ وارثی
بڑے بڑے سائنسدان، ڈاکٹرز حیران و پریشان تھے ، ان کے سامنے ایک ایسا معمہ تھا جو تاریخ کے کسی پنے پر درج نہیں تھا۔ دنیا بھر کی کسی زبان میں اس کا کوئی حوالہ بھی نہیں تھا۔ نہ کبھی کسی نے ایسی انہونی کہانی سنی تھی۔ نہ کبھی کسی نے ایسا عجوبہ کردار دیکھا تھا۔
قدرت اللہ شادابی نے ایک سو نو یں سالگرہ مناتے ہوئے کیک کاٹا ، ایک عورت کے ساتھ رقص کرتے ہوئے اسے چومنے کی کوشش میں، عورت کی خوشبو ان کے نتھنوں سے ٹکڑائی اور انہیں چھینک آئی۔ یہ چھینک آخری چھینک نہیں تھی یہ ہماری کہانی کی شروعات تھی۔انہیں زندگی میں کبھی چھینک نہیں آئی تھی۔ کبھی بخار نہیں ہوا تھا۔ بلکہ کوئی بیماری ان کو چھو کر بھی کبھی نہیں گزری تھی طویل عمری کی ایک وجہ تو یہ بھی تھی۔ خاندانی ڈاکٹر جو ان کا نواسہ تھا اس نے نانا کا چیک اپ کیا اور تمام باڈی پارٹس صحت مند اور سلامت پائے۔ وہ عورت جو قدرت اللہ شادابی کے ساتھ رقص کر رہی تھی ۔ نواسے کی ساس تھی۔
ان کے تمام ٹیسٹ کی رپورٹز بھی صاف شفا ف تھیں۔ دور دور تک ان کے ڈی این اے میں کوئی شکست و ریخت نہیں تھی۔ کمال بات یہ تھی کہ قدرت اللہ شادابی کی گاڑی ریورس گیئر میں چل رہی تھی۔ دانت دو دفعہ گر کر تیسری بار نکل رہے تھے۔ نکلنے کی رفتار بھی کافی تیز تھی۔ دو ہفتوں میں ان کی پوری بتیسی مکمل ہوگئی تھی ان کے منہ میں دانت انار کے دانوں کی طرح چمک رہے تھے۔ انہیں یاد تھا کہ دودھ کے دانت گرنے کے بعد جب پکے دانت نکلنا شروع ہوئے تو عقل داڑھ تک پورے چالیس برس لگے تھے۔ قدرت اللہ شادابی سو برس کےہوئے تو پوپلے تھے ان کے مسوڑھوں میں پہلے سوجن ہوا پھر خارش شروع ہوئی اور درد کی کیفیت ناقابل برداشت تھی وہ کوئی سخت چیز جیسے گنا، بکرے کی نلی والی ہڈی چبا چپا کر مسوڑھوں کو لہولہان کر لیتے تھے، منہ بھر کر خون کی الٹی کرتے تھے۔پھر ان کے دانت نکل آئے یہ کوئی بیماری نہیں تھی دانت نکلنے کا رد عمل تھا۔ بات صرف دانت تک رہتی تو بھی قابل قبول تھی۔ سر پر بال، بغل میں بال، سینے پر بال، زیر ناف بال جو پہلے جھڑ چکے تھے دوبارہ سے اگنےلگے۔ ان کی بیوی جو درجن بھر بچے تحفے میں دے کر نصف صدی پہلے داغ مفارقت دے چکی تھی۔ بیوی کی طلب بڑھ گئی، قدرت اللہ شادابی دوسری شادی کے لیے عورتوں کو نظر میں رکھنے لگے۔سر فہرست نواسےکی ساس تھی۔ دل جان سے عزیز، انہیں اس عورت سے عشق ہو گیا تھا۔ وہ بھی قدرت اللہ شادابی کی عاشق تھی۔مگر بیٹی اور داماد کی وجہ سے اپنے جذبات چھپاتی پھرتی تھی۔ قدرت اللہ شادابی عجیب نادیدے سے ہو گئے تھے۔ ہر عورت کو بری نظر سے دیکھنے لگے تھے۔ پوتے پوتیاں ،نواسے نواسیاں، پر پوتے پر پوتیاں، پر نواسے پر نواسیاں ان کے لیے مناسب عورت تلاش کرنے لگی تھیں ۔ یہ معمہ تو پھر بھی حل طلب تھا۔ مگر قدرت اللہ شادابی کو چھینکیں آنا ایک معمہ ضرور تھا۔
چھینک ہر جاندار کے لیے بہت ضروری ہے۔ تحقیق کےمطابق جب چھینک آتی ہے تو ناک کے اندر موجود بیکٹیریا اور وائرس باہر نکل آتے ہیں۔ سائنسدان کہتےہیں چھینک روکنی نہیں چاہیے ۔ ناک کی ہڈی متاثر ہوتی ہے۔ اور کبھی کبھی کان کی ہڈی بھی ، انسان سماعت سے مرحوم بھی ہوسکتا ہے۔ مگر قدرت اللہ شادابی کی سماعت تو ایسی تھی کہ دوسرے کمرے میں ہونے والی سرگوشی بھی وہ سن لیتا تھا۔ نواسہ اور اس بیوی کے درمیان قدرت اللہ کو لے کر جو باتیں ہوئی تھیں وہ بیان کرنے کے قابل نہیں تھی۔
معمہ یہ تھا کہ قدرت اللہ شادابی کو چھینک آنے سے پہلے ان کی کیفیت بہت ہی عجیب و غریب ہو جاتی تھی۔ وہ درد زہ میں مبتلا عورت کی طرح تڑپنے لگتا تھا۔ کسی طور چین سکون نہیں تھا۔ عجیب بے اختیاری لگ جاتی تھی۔ بیٹھا بیٹھا اٹھ کر چلنے لگتا تھا۔ نیند رات رات بھر نہیں آتی تھی۔ ان کی کیفیت بن پانی کے مچھلی کی طرح ہوتی تھی۔ پھر اچانک انہیں اتنی زور کی چھینک آتی تھی جیسےکوئی تیز رفتار گاڑی اچانک بریک لگائے اور بلند ” چھیں” کی آواز جو آس پاس کے لوگوں کو دھلا دے۔ چھینک آتے ہی قدرت اللہ شادابی پرسکون ہو جاتاتھا۔ معمہ یہ بھی نہیں تھا۔
معمہ یہ تھا کہ چھینک کے ساتھ ان کی ناک یا دماغ سے کیڑا نکلتا تھا۔
کیڑا پہلے پہل ایک گوشت کا ننھا منا سا، مٹر جتنا ، تھرکتا ،پھڑکتا لوتھڑا جیسا ہوتا جیسے قربانی کے جانور کی بوٹیاں ٹھنڈی ہونے تک تھرکتی ہے۔ لوتھڑا بالکل کلیجی کی طرح سیاہی مائل سرخ ہوتا تھا۔ کیڑا لمحوں میں کئی مراحل طے کرتا۔ سیاہی مائل سرخ چند ساعت میں سرخ عنابی ہو جاتا، پھر ڈارک پنک ، ڈارک پنک ڈارک پرپل میں ڈھل جاتا تھا۔ لوتھڑا رنگ کے ساتھ ہیت بھی بدلتا تھا۔ مٹر پہلے مکئی کی شکل اختیار کرتا پھر مکئی سے چنے کے دانے میں تبدیل ہوتا اور پھر چنے کا دانہ گندم کے دانےمیں۔ گندم کے دانے پر ایک لکیر سی ابھری اور پھر سوئی کی نوک جتنے ننھے ننھے سیاہ نقطے ابھر آتے۔ لوتھڑ ا ایک لیڈی بگ میں بدل جاتا ۔ اس کے دو پنکھ نکلتے اور وہ مچھر، مکھی کی طرح اڑتا ہوا کہیں غائب ہو جاتا تھا۔
کیڑے کا غائب ہونا معمہ نہیں تھا۔ سائنسدان کیڑے مکوڑے کے معدوم ہونے کی تیز رفتاری سے کافی پریشان تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کیڑے مکوڑے ختم ہو گئے تو انسان اور نباتات بھی ختم ہو جائیں گے ، زمین پر کوئی جاندار نہیں بچے گا۔ یہاں تو سائنسدانوں کے سامنے ایک نیا کیڑا دریافت ہونے کا معمہ تھا۔ سائنسدانوں نے اس کیڑےکو ایک فرضی نام دیا۔ چھینکو مچھر۔ چھینکو مچھر انتہائی بے ضرر کیڑا تھا۔ کسی کو نقصان پہنچائے بغیر خاموشی سےاڑ جاتا تھا اور پھر نظر بھی نہیں آتا تھا۔ ایک انسان کی جسم سے نکلنے والا کیڑا ایک طرح سے مردم بے زار تھا۔ اسے انسان بالکل پسند نہیں تھے۔ وہ انسان کو درندا سمجھتا تھا اور ڈر جاتا تھا۔ چھینکو مچھر کبھی کبھی غصےمیں بھی آ جاتا تھا ۔ جب اس کے اڑنے میں رخنہ ڈالا جاتا یا اسے ہاتھ میں اٹھا کر معائنہ کیا جاتا اس وقت وہ کاٹ بھی لیتا تھا۔ اس کے کاٹنےکا کوئی خاص احساس نہیں ہوتا تھا بس ایک انسولین کی سوئی جتنی چبھن، جس جگہ چبھن کا احساس ہوتا وہاں تھوڑی سی خارش ہوتی اور ایک سرخ رنگ کی پت ابھرتی۔ پت میں ننھے ننھے کالے نقطے سے ابھرتے ، پہلے پہل معمولی سا بخار ہوتا اور دیکھتے دیکھتے بخار سر سامی کی کیفیت سے دو چار کر دیتا تھا۔
قدرت اللہ شادابی کے کئی پوتے کئی پر پوتوں کو یہ کیڑا کاٹ چکا تھا۔ یہ کیڑا جن کو کاٹتا تھا ان کی کیفیت بھی کسی معمہ سےکم نہیں ہوتی۔ کوئی خود کو فرشتہ سمجھنے لگتا، ہدایت نامہ سنانے لگتا، کوئی خود کو پرندہ سمجھ کر اڑنےکی کوشش کرتا اور ہڈی پسلی تڑوا لیتا ۔کوئی خود کو درندہ سمجھنے لگتا اور پالتو جانوروں کو چیر پھاڑ دیتا۔کوئی بھونکنےلگتا ، کوئی میائوں میائوں کرنے لگتا، ایک کی کیفیت اتنی بگڑی کہ اس نے خدائی کا دعویٰ کر دیا۔ قدرت اللہ شادابی کی الماری پر چڑھ کر بیٹھ گیا ، فرط جذبات میں الماری پر بیٹھ تو گیا مگر اسے اونچائی سے خوف آتا تھا ، فرش دیکھ کر زرد پڑ گیا اور بہت مشکل سے قدرت اللہ شادابی سے مخاطب ہوا۔۔ ” میں نے تمہیں پیدا کیا۔ میں نے کائنات بنائی ہے۔ میں نے سات آسمان بنائے۔ میں نے سمندر بنایا ۔ میں نے پہاڑ بنائے۔ میں نے صحرا بنایا ۔ میں بارش کرتا ہوں۔ میں نےجنت دوزخ بنایا۔اگر تم مجھے نیچے نہیں اتارو گے تو میں تمہیں دوزخ میں ڈال دوں گا۔ ” یہ جگنو تھا ۔ قدرت اللہ شادابی کے پر پوتے کا بڑا لڑکا تھا۔ اس کا تخیلی گھوڑا براق سے بھی زیادہ تیز رفتار تھا۔وہ اپنے تخیل میں کچھ بھی بن سکتا تھا، وہ پرندہ بنا اور ایک ایسے جزیرے پر اترا جس پر تیس تیس چالیس چالیس گز کی عورتیں تھیں۔ اتنی حسین و جمیل کے ان پر نگاہ نہیں ٹکتی تھی۔ جسم شیشےکی طرح صاف شفاف، آر پار دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ فحش حرکتیں کر رہی تھیں۔ حسین و جمیل عورتیں فحش حرکت کرتے ہوئے مزید حسین ہو جاتی ہیں۔ ان کی چھاتیاں، گویا آسمان پر دو دو چودھویں کا چاند، شہد ٹپکتے ہوئے ہونٹ، وہ ہنستی تو پھولوں کی بارش شروع ہوجاتی۔ پر پوتے کے بڑے لڑکا کی پرابلم یہ تھی کہ وہ ان کے گھٹنوں کے برابر تھا۔ وہ اوپر دیکھتا دیکھتا کیڑے کی طرح غائب ہوگیا۔
معمہ یہ ہے کہ قدرت اللہ شادابی کی ایک چھینک سے دوسرے چھینک تک ایسے ہی معمے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔